مصطفیٰ — اُمِّ زینب

میں اس کے گھر پہنچی تو اس نے فوراً آمنہ سے کہا کہ تم میرے کمرے میں بیٹھو اور مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئی۔ ڈرائنگ روم میں ایک چھوٹا سا لیمپ آن تھا جس کی روشنی ناکافی تھی۔ انیتا نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ سائیڈ والے صوفے پر کوئی صاحب بیٹھے تھے جن کی طرف میں نے دیکھا بھی نہیں تھا، مگر مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ اکیلا ہی ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کسی نے باہر سے لاک کر دیا۔ میری نظروں نے فوراً انیتا کو تلاش کیا۔ وہ کمرے میں نہیں تھی، میں برُی طرح ڈر گئی… یہ کیا؟ انیتا تو میری بچپن کی دوست ہے۔ وہ میرے ساتھ کچھ بھی بُرا کیسے کر سکتی ہے۔ میں فوراً دروازے کی طرف لپکی تو اس شخص نے فوراً مجھے پیچھے سے میرے کاندھوں سے پکڑا۔
” انیتا… انیتا۔” میں نے اونچا اونچا چلانا شروع کر دیا۔
”پلیز آپ جو بھی ہو مجھے چھوڑ دو۔ میں صرف مصطفی کی ہوں اللہ کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو۔” میرے منہ سے یہ نکلا ہی تھا کہ اس کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔
”عازی۔” اس آواز میں پر میں نے مُڑ کر دیکھا۔
”مصطفی تم؟” مصطفی نے جب اپنے مخصوص انداز میں میرا نام لیا تو مجھے تو جیسے چکر سا آگیا۔ مصطفی نے مجھے سنبھالا اور صوفے پر بٹھایا۔
” مجھے ہاتھ مت لگائو تم اب کسی اور کے ہو۔ کیوں آئے ہو میرے پاس؟ یہ دیکھنے آئے ہو کہ میں مر تو نہیں گئی؟ تمہارے بغیر” مصطفی حسبِ معمول خاموشی سے میری بات سنتا رہا ساری بات سن کر بولا۔
”عائزہ میں آج بھی تمہارا ہی ہوں اور ہمیشہ تمہارا ہی رہوں گا۔”




”جس رات میری اور تمہاری آخری بار بات ہوئی تھی؟ میں اپنے فلیٹ میں گیا اور جا کر ملیحہ کو کال کی کہ میں عائزہ سے محبت کرتا ہوں اور میں آپ سے شادی نہیں کر سکتا۔ آپ اگر انسانی ہم دردی کے تحت میری مدد کر دیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا۔ ابھی میں بات کر رہی رہا تھا کہ میرے فلیٹ میں تین چار آدمی اچانک آگئے، ایک نے ہاتھ مار کے میرا موبائل دور پھینک دیا۔ انہوں نے مجھے بہت مارا پیٹا اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ تھانے لے گئے۔ میں نے وہاں کچھ دن کے بعد کسی کے موبائل سے تمہیں بار ہا کال کی، مگر ہر بار تمہارا نمبر بند تھا۔ میں تو پتا نہیں وہاں کتنا عرصہ اور سڑتا رہتا، مگر چند دن پہلے انصاری صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے میری ضمانت کروائی اور وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ ملیحہ میڈم اور انصاری صاحب نے مجھے تسلی دی وہ لوگ دبئی میں ایک اسٹور بنا رہے ہیں۔ وہاں ان لوگوں کو بھروسے کے لوگ چاہئیں، میں اور تم اب وہاں جاب کریں گے۔” اس کی وضاحت میرے اوسان خطا کئے جارہی تھی۔
”ملیحہ نے پھر تمہیں شادی کا تو نہیں کہا؟” اس کی ساری بات سُن کر میں نے بے یقینی سے پوچھا۔
”اس نے چند ماہ پہلے اپنے ایک کزن سے شادی کر لی ہے۔ عازی میں تمہیں چھوڑ کر شادی کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں وفاداری ہی کو محبت سمجھتا ہوں۔” مصطفی میرے اس سوال پر مُسکرانے لگا، پھر بولا۔ مصطفی نے اپنے دونوں ہاتھ میں میرے ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ وہ جوں جوں اپنی محبت اور وفاداری کا یقین دلا رہا تھا مجھے بہت ہی اچھا لگ رہا تھا اور یقینا یہ سب اللہ تعالیٰ سے اُن اچھے تعلقات کا نتیجہ تھا،جو میں نے سخت حالات کے باوجود اس سے بناکر رکھے تھے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

Read Next

جادوئی جنگل | سمیعہ علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!