مدیر سے پوچھیں | پرویز بلگرامی

بہت پسند ہے۔

 

٭ مقابلے کے باقی کے مدیروں میں کس کا کام آپ کو اچھا لگتا ہے؟

پرویز بلگرامی:مقابلے کے مدیران میں سے کسی ایک کا نام لینا زیادتی ہوگی، سب ہی اپنی جگہ بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر شکیل عادل زادہ کا کام پسند ہے۔

 

٭ آپ کو بہت سارے مسودے اور کہانیاں موصول ہوتی ہوں گی، ان میں کوئی ایسی کہانی جو آپ کو نہایت مضحکہ خیز لگی ہو؟

پرویز بلگرامی: ہر روز ہمارے ہاں پانچ کہانیاں’ کے تناسب سے کہانیاں موصول ہوتی ہیں۔ان میں زیادہ تر کہانیاں وقت کی بربادی کہی جائے گی۔کچھ کہانیاں تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھ کر سر پیٹ لینے کا دل کرتا ہے لیکن پڑھنی پڑتی ہے۔ایک کہانی میں اب تک نہیں بھولا۔کہانی کار نے لکھا کہ اس کے والد کا نام نوشیرہ تھا اور والدہ کا نام آمنہ ۔ایک دن والد کو غصہ آیا اس نے والدہ کو چھے گولیاں مار دی۔پھر وہ مجھے لے کر لاہور آ گئے ایک دن گھر میں ڈاکو آگئے اور ان کی گولی سے میرے والد مر گئے۔میں نے شادی کر لی ۔میرے دو بیٹے ہوئے تو میں ان کو اپنا گائوں دیکھانے لے گیا۔اماں ابا نے خوب خاطر کی وہیں میری ملاقات زرگل سے ہوئی ۔ابا نے اس کی شادی میرے بیٹے سے کرا دی۔یہ بات زر ولی کو پسند نہیں آئی اور اس نے عین شادی کے دن زر گل کو گولی مار دی۔وہ لوگ میرے بیٹے کو بھی گولی مار دیتے اس لیے میں واپس کراچی آ گیا جہاں زر گل کو دو بیٹے ہوئے۔اس پوری کہانی میں ایک منظر میں کردار مرتا دوسرے منظر میں وہ زندہ ہو جاتا۔فل اسکیپ کے ساٹھ صفحات پر وہ کہانی تھی۔

 

٭کوئی ایسی کہانی جس کو پڑھ کر آپ کو لگا ہو کہ کاش میں نے اس پر کام کروایا ہوتا؟

پرویز بلگرامی: ہر اچھے اڈیٹر کی نظر میں ہر کہانی کام کرنے کے بعد بھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ اور کام کرنا چاہیے تھا لیکن وقت کی کمی کے سبب اسے پرس بھیجنا ہی پڑتا ہے۔
٭کسی بھی کہانی میں وہ کون سی تین چیزیں ہیںجنہیں دیکھ کر آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؟
پرویز بلگرامی : الفاظ کا صحیح استعمال ہو جس کی وجہ سے جملے بہترین بن رہے ہوں تو وہ کہانی فورا متوجہ کر لیتی ہے۔ابتدا ایسے منظر سے ہو جو پرتجسس ہو،دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہو توخود بخودد آگے پڑھنا ضروری ہے۔ایک منظرسے دوسرا منظرمربوط ہو تو پڑھنے والا خود آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

 

٭ کسی بھی کہانی میں وہ کون سی تین چیزیں ہیں جن کی وجہ سے آپ کسی تحریرکو رد کردیتے ہیں؟

پرویز بلگرامی : تحریر میں ربط نہ ہو ۔منظر کشی میں الفاظ کا صحیح استعمال نہ کیا گیا ہو اور پلاٹ بہت زیادہ گھسا پٹا ہویا کہانی بیان کرنے کا انداز ناقص ہویاکہانی میں بہت زیادہ جھول ہو تو اسے مسترد کرنا ہی پڑتا ہے۔

 

٭ اس فیلڈ(ایڈیٹنگ فیلڈ) میں نئے آنے والوں کو آپ کوئی مشورہ دینا چاہیں گے؟

پرویز بلگرامی : ادارتی شعبہ میں آنے والے کو میرا مشورہ ہے کہ ہر آنے والی تحریر کو یکسوئی سے پڑھیں۔یہ نہ سوچیں کہ اس کہانی میں تو کوئی پلاٹ ہی نہیں ہے یا الفاظ اچھے نہیں ہیں۔بعض نئے لکھنے والے بھی ایسے منظر لکھ جاتے ہیں جو واقعی اچھے ہوتے ہیں۔کچھ نئے لکھنے والے پلاٹ بہت اچھا لکھ جاتے ہیں۔کسی کا اختتام زبردست ہوتا ہے۔اس لیے ہر کہانی کو پڑھنا چاہیے۔
٭ ہماری اس فیلڈ میں کہا جاتا ہے کہ لکھنے والے non professional ہوتے ہیں، اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے اور وقت پر چیزیں نہیں دیتے۔ کیا آ پ اس بات سے متفق ہیں؟

پرویز بلگرامی: ہر لکھاری ایسا نہیں ہوتا۔بعض تو اتنے پابند ہوتے ہیں کہ وقت سے بھی پہلے کہانیاں دے جاتے ہیں۔خاص کر پروفیشنل مصنفین۔ یوں بھی معاوضہ کی وصولی ہر ایک کو پسند ہے۔جب کہانی معاوضہ سے مشروط ہو تو کون وقت پر نہ دے گا؟

 

٭آپ کے پاس اگر کوئی تحریر آئے اور آپ کو لگے کہ اس کے اندر تبدیلیاں کروانی ہیں تو کیا آپ رائٹر سے اصرار کرتے ہیں؟

پرویز بلگرامی : جس کہانی میں کمی محسوس ہو اسے ہر حال میں میں دوبارہ لکھواتا ہوں اور اگر ہلکی پھلکی کمی ہو تو خود دور کر دیتا ہوں۔ جس کہانی میں کمی محسوس ہوتی ہے اسے کسی بھی حال میں شامل اشاعت نہیں کرتا۔

٭اگر رائٹر آپ کی بات سے متفق نہ ہو، تو کیا آپ اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے اس کی ادارت کرتے ہیں؟

پرویز بلگرامی: اگر رائٹر کہے کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور مجھے کمی نظر آرہی ہے تو اسے سامنے لاتا ہوں۔سمجھاتا ہوں۔کہانی ڈسکس کرنے سے بہتر ہی ہوتی ہے۔میں تو ہر حال میں ڈسکس کرتا ہوں اگر مصنف کانقطہ نظر درست لگتا ہے تو میں اس کی بات سے اتفاق بھی کر لیتا ہوں۔
٭Adaptations کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
پرویز بلگرامی : اخذکردہ کہانی لکھنا چاہیے کیونکہ ترجمہ سے وہ زیادہ بہتر بنتی ہے۔ پھر وہ اپنے ہاں کے ماحول میں بنتی ہے۔میں ماخو ذکہانی کو ترجمہ سے بہتر سمجھتا ہوں۔

 

٭لوگ کہتے ہیں کہ رائٹرز بہت اناپسند اور خود پسند ہوتے ہیں، آپ کی کیا رائے ہے اورکیا آپ کے نزدیک مشہور ہونے کے لیے خود پسندی ضروری ہوتی ہے؟

پرویز بلگرامی : یہ ضروری نہیں کہ ہر مصنف خود پسند ہو۔زیادہ تر لکھاری مرنجامرنج ہی ہوتے ہیں۔

 

٭ آپ اس فیلڈ میں بہت عرصے سے ہیں، سرگزشت ڈائجسٹ کو لوگوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ادبی حلقوں میں ڈائجسٹ کو ایک اچھوت چیز تصور کیا جاتا ہے اور ادیب ڈائجسٹ میں لکھنے والوں کو رائٹر تک نہیں مانتے ہیں؟
پرویز بلگرامی : یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگ ڈائجسٹ کو ادب سے خارج سمجھتے ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک مشہور’ زنانہ حلقے میں مقبول ‘ناول نگار سے جب 1988 میںکہا گیا کہ آپ پاکیزہ کے لیے کوئی ناول لکھ دیں تو انہوں نے انکار کیا کہ میں ڈائجسٹ کے لیے نہیں لکھتی لیکن وہی صاحبہ 1991 کے بعد توتر سے ڈائجسٹ کے لیے لکھنے لگیں۔ایسا صرف پاکستان میں ہے کہ ڈائجسٹ میں لکھنے والے ادب میں کوئی مقام نہیں رکھتے جب کے دیگر عالمی زبانوں میں ایسا کوئی قضیہ نہیں ہے۔مصنف مصنف ہوتا ہے۔ادب کو حصوں میں صرف اردو میں بانٹاجا رہا ہے۔در اصل اردو میں زمانہ قدیم سے گروہ بندی چلی آئی ہے۔ورنہ عصمت چغتائی ہوں یا رام لال یا کوئی اور ایسے بہت سے مصنف ہیں جو ڈائجسٹ کے لیے لکھتے رہے۔میں نے خود ایسے کئی مصنفین کی بھیجی ہوئی کہانیاں چھاپی ہیں۔کیا سب رنگ میں ادبی دنیا کے کئی بڑے مصنف توتر سے کہانیاں نہیں بھیجتے رہے ہیں؟کچھ لوگ زبردستی خود کو بلند کرنے کے لیے کہیں کہ پر تجسس کہانیاں ادب کا حصہ نہیں ہے یا مہماتی کہانی ادب کا حصہ نہیں ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔صرف رومان کو محور بنا لینا میرے خیال میں صحیح نہیں ہے۔یونان کی کہانیوں کو تو ادب کا حصہ کہا جائے لیکن اسی انداز میں اردو میں لکھی گئی کہانی کو ادب نہ مانا جائے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ڈائجسٹ پڑھنے والوں کا حلقہ یقینا جسے ادب کہا جا رہا ہے اس سے زیادہ ہے۔جو عوام میں مقبول ہو وہی ادب ہے۔غالب کی زندگی میں ان کی غزلوں کو عام فہم زبان میں
ہونے کی وجہ سے پزیرائی نہیں ملی لیکن آج؟ نظیر اکبرآبادی کو ان کی زندگی میں شاعر ہی نہیں مانا گیا لیکن آج؟یہ ایک لمبی بحث ہے۔خلاصہ یہ کہ اگر کوئی ڈائجسٹ میں چھپنے والی تحریر کو ادب نہ مانتا ہے تو کیا ہوا۔اسے پڑھا تو زیادہ جاتا ہے۔

٭ آج کل ایک چیز جو ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح پھیل رہی ہے، وہ Roman Urdu کا استعمال ہے، آپ کے نزدیک یہ ختم کس طرح ہوسکتی ہے؟
پرویز بلگرامی: اردو کا حسن رسم الخط میں ہے۔اردو کا رسم الخط اپنے آپ میں مکمل ہے اس لیے رومن میں اسے لکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔
٭ مغربی ممالک میں paperless culture عام ہوچکا ہے، آپ کے خیال میں اردو کی ترویج کے لیے کیا اب ہمیں بھی ورق سے آگے نکل کر سوچنا چاہیے؟
پرویز بلگرامی: ای بک کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ تختی کو پسند کرتے تھے۔پھر پینسل کا استعمال مقبول ہوا پھر قلم کا استعمال بڑھا پھر بال پین نے اس کی جگہ لے لی۔اسی طرح آنے والے وقت میں کاغذ کا استعمال بالکل ختم ہو جائے گا۔1992میں میری ایک کہانی نئے افق میں چھپی تھی ۔وہ کہانی 2100 کے ماحول میں لکھی گئی تھی۔اس کا ایک منظر تھا کہ ایک بچہ دوسرے بچے سے کہتا ہے کہ میرے گرینڈ پا کے گرینڈ پا ہزار ہزار پیج کی کہانیاں لکھتے تھے،وہ بھی اس طرح کے ان کے آگے ایک وائٹ شیٹ ہوتی تھی ۔وہ اس شیٹ پر ایک اسٹیک سے جس میں لیڈ ہوتی تھی اسے شیٹ پر ہلاتے جاتے تھے اور کہانی تیار ہو جاتی تھی۔دوسرا بچہ کہتا ہے کہ چل جھوٹے بغیر کی بورڈ کے کیسے کوئی لکھ سکتا ہے ،مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت تک میں نے بھی صرف کی بورڈ کے بارے میں پڑھا تھاآنے والے دور میںکاغذ کا استعمال ختم ہو جائے گا اس لیے ہمیں ابھی سے ای میگزین۔ای بکس کی تعداد بڑھانے پر غور کرنا چاہیے ورنہ وہی حال ہو گا کہ اگر کہیںکتابیں مل جائیں گی تو انہیں پڑھنے کے لیے ماہرین کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ہارڈ کاپی سے کئی گنا سستی ای کاپی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی جانب راغب ہوں گے۔

 

٭ آپ کی پسندیدہ کتاب اور فلم؟

پرویز بلگرامی : پسندیدہ کتابوں میں کسی ایک کا نام لینا تو بہت مشکل ہوگا لیکن مجھے قرة العین کی آگ کا دریا بہت پسند ہے ، اور پسندیدہ فلم مظفر علی کی ہدایت کردہ امرائو جان ادا۔

 

٭نئے لکھنے والوں کے لیے ایک پیغام؟

پرویز بلگرامی: ہر نئے لکھنے والے کو میں ایک ہی مشورہ دیتا ہوں کہ دس گھنٹا پڑھیں تب ایک گھنٹا لکھیں۔جتنا زیادہ پڑھیں گے قلم میں اتنی ہی روانی آئے گی۔

Loading

Read Previous

مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

Read Next

جنت سے ایک خط | شہید برہان وانی بنامِ پاکستان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!