جنت سے ایک خط | شہید برہان وانی بنامِ پاکستان

جنت سے ایک خط
شہید برہان وانی بنامِ پاکستان
نفیسہ عبدالرزاق

میرے پاکستانی بھائیوں!
السلام علیکم!
آج میں آپ سے پہلی بار مخاطب ہوں۔ پاکستان کا نام ہم کشمیریوں کے لئے کوئی نیا نہیں ہے، ہم جہاں پیدا ہوتے ہی آزادی کے نعرے سنتے ہیں وہیں پاکستان کا نام بھی سنتے ہیں۔ میں آج آپ کو اپنی داستان سنانا چاہتا ہو تھوڑی بہت تو آپ جان ہی چکے ہوںگے میرے شہید ہونے کے بعد۔ میں پھر سے اسے دُہراتا ہوں جب پندرہ برس کی عمر میں اپنے بھائی کے ساتھ جاتے ہوئے قابض بھارتی فوج نے ہمیں بلاوجہ تذلیل کا نشانہ بنایا تب شاید پہلی بار غلامی کا مجھے بے پناہ احساس ہوا اس تذلیل نے ایک پل چین نہ لینے دیا اور میں برہان جو اپنی جماعت میں ہمیشہ اول رہتا تھا میرے آگے ایک روشن مستقبل تھا مگر مجھے غلامی سے نفرت ہے سو اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کے لئے میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ بہت سے مشکل پڑائو آئے میں رکا نہیں چلتا ہی گیا، بہت سے مقامی مجاہدین کی طرح میں نے بھی پاکستان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا، اپنے زور بازو اور اللہ کی مدد کے سہارے میں کم وقت میں کشمیر کے ہر گھر کا ہر دل عزیز بن گیا۔ دشمن کو ناکوں چنے چبوائے مگر آزادی کی روشن صبح ابھی دور تھی ۔ بائیس سال کی عمر میں شہادت کا پروانہ آپہنچا یہ وہ عمر ہوتی ہے، جس میں ہر نوجوان اپنا کیریئر پلان کرتا ہے مگر مجھے کوئی افسوس نہیں، میں نہیں تو کیا ہوا ہماری آنے والی نسلیں ضرور آزاد فضائوں میں سانس لیں گی ( اِن شاء اللہ)۔ خیر،میری آج خاص طور پر آپ سب سے مخاطب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرے جنازے کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹا گیا مجھے اس پرچم سے بے حد اُنسیت محسوس ہوئی مجھے لگا میرے بعد میرا کشمیر تنہا نہیں ہوگا پاکستانی ہر بار کی طرح آگے آئیںگے مگر یہ کیا میرے جانے کے بعد جنت نظیر وادی میں ہنگامے پھوٹ پڑے ”ہر گھر سے برہان نکلے گا”کے نعرے گونجے اور ساتھ میں وردی والے دہشت گرد بغیر کسی تخصیص کے گولیاں برسانے لگے اور ان چاردنوں میں بہت سے برہان سبز پرچم میں لپٹے مجھ سے آ ملے۔
میں اُن کی طرف آس و امید سے دیکھتا رہا کہ وہ مجھے بتائیں گے پاکستانیوں نے بھارتی ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی ہے ان کو منہ توڑ جواب دیا ہے کیوںکہ غلام تو ہم ہیں آپ تو آزاد قوم ہیں اور آزاد قومیں خود مختار ہوتی ہیں وہ مل کر جابر کو للکار سکتی ہیں مگر میرے یہ شہید بھائی تو کوئی اور داستان سُنا رہے تھے آپ لوگ تو بہت مصروف ہیں آپ کے پاس وقت نہیں کہ ہمارے بارے میں جانیں، آواز بلند کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جب آپ کی مصروفیات کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا عید کے دن ہیں اس لیے سینما میں بھارتی فلمیں لگی ہیں اور یہی آپ کی مصروفیات ہیں۔ یقین کیجیے یہ سُن کر دل لہو لہو ہوگیا۔ آپ کو ہمارا کتنا خیال ہے نا کہ سینما میں جا کر بھارت کو کروڑوں کا بزنس دیتے ہیں، جس سے وہ ہتھیار بنا کر ہمارے سینوں پر وار کر کے ہمیں شہید کرتے ہیں اور ہمیں ڈائریکٹ جنت کا ٹکٹ تھماتے ہیں۔
جنت تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے تو آپ کی بدولت ہمارے لیے جنت کا رستہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ صرف میڈیا نہیں آپ تو پور پوردشمنکے جال میں قید ہوتے جا رہے ہیں، جس کی قید سے ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ فلمیں اور ڈرامے آپ اُن کے دیکھتے ہیں سارا سارا دن گانے آپ ان کے سنتے ہیں پھر مارکیٹ جا کر ان ہی کی پراڈکٹس خریدتے ہیں پھر کہتے ہیں کیا کریں میڈیا یہی دکھاتا ہے آپ ایک بار بائیکاٹ کر کے تو دیکھیں پھر میڈیا وہی دیکھائے گا جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں اپ ان کی چیزیں چھوڑ کر ایک بار اپنی چیزیں طلب تو کریں پھر کیسے وہ زبردستی آپ کو دشمنوں کی چیزیں تھمادیں گے۔
ارے ہاں! یہاں پہنچ کر میری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی ہوئی میرے اور دوسرے آنے والے ساتھیوں کے ذریعے انہیں آپ کے حالات معلوم ہوئے بہت اُداس ہوئے کہنے لگے: ”میری قوم کو کیا ہوگیا؟ انہیں جس کی غلامی سے آزاد کروایا تھا آج ذہنی طور پر اسی کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔ کتنی قربانیاں! کتنی قربانیاں! آہ…کیوں بھول گئے کہ شہیدوں کے لہو سے سینچا تھا اس گلزار کو۔ اگر انہیں کے رسم و رواج پر چلنا تھا تو وہ سب لہو رائیگاں گیا نا برہان! پھر کیوں ان کشمیریوں کے لئے اپنی جوانی، اپنا مستقبل سب چھوڑ کر اس راہ کا انتخاب کرلیا یہ بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ نہیں رہتی میری قوم کو یاد قربانیاں۔”

Loading

Read Previous

مدیر سے پوچھیں | پرویز بلگرامی

Read Next

”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) | آغازِ سفر | باب ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!