مات ہونے تک — عمیرہ احمد

”بھئی، بہت ہی بے غیرت ہیں آپ… بلکہ جتنا میں سوچ رہی تھی، اس سے زیادہ بے غیرت ہیں۔” وہ بہت دیر تک سرخ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھتا رہا پھر اس نے انگلی اٹھا کر مجھ سے کہا۔
”میرے لیے یہ لفظ دوبارہ استعمال مت کرنا فاطمہ۔”
”ورنہ تم کیا کرو گے؟” میں اس کے لہجے سے خوف زدہ نہیں ہوئی۔
”میں جو کچھ کر رہا ہوں، مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے جس چیز سے محبت ہو، اسے آپ اپنے Possession (ملکیت) میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ برداشت نہیں کرتے کہ وہ چیز کسی دوسرے کے پاس چلی جائے۔”
”مگر میں کوئی چیز نہیں ہوں اور میں اس کے پاس جانا چاہتی ہوں جس سے مجھے محبت ہے۔”
”احتشام سے محبت ہے تمھیں؟ اس کے پاس جانا چاہتی ہو؟” اس کے لہجے میں آگ تھی اور اس وقت میں جان نہیں پائی تھی کہ اس آگ کی لپیٹیں کہاں کہاں پہنچ سکتی ہیں۔
”ہاں، اسی کے پاس جانا چاہتی ہوں اور ہاں، مجھے اس سے محبت ہے۔”
”دنیا کا کوئی شخص تمھیں مجھ سے زیادہ نہیں چاہ سکتا۔”
”پھر بھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔” میں جیسے ضد میں آ گئی تھی۔
”میں پوری دنیا تمھارے قدموں میں لا کر پھینک سکتا ہوں۔”
”میں ایسی ہر چیز کو ٹھوکر مار دوں گی۔”
”احتشام تمھیں کچھ نہیں دے سکتا۔”
”مجھے اس سے کچھ چاہیے بھی نہیں، میرے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ میرے ساتھ ہو۔”
”جو لوگ محبت کو ٹھکرا دیتے ہیں، وہ بہت پچھتاتے ہیں۔”
”ہاں اسی لیے میں احتشام کی محبت کو ٹھکرا نہیں رہی۔”
”احتشام تم سے میرے جیسی محبت نہیں کر سکتا۔”
”وہ جیسی بھی محبت کرتا ہے، مجھے کافی ہے۔”
”میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی چیز کو اتنا چاہا ہو اور پھر بھی نہ پایا ہو۔”
”آج کے بعد تم کبھی کسی سے یہ نہیں کہہ پاؤ گے۔” مجھے آج بھی اس کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کا ایک ایک لفظ یاد ہے۔ وہ یک دم خاموش ہو گیا تھا پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ آج کے بعد میں دوبارہ کبھی تمھارے راستے میں نہیں آؤں گا۔ تم اس سارے واقعے کو میری ایک حماقت سمجھ کر بھول جانا اور میرے لیے اپنا دل صاف کر لینا۔ تم اگر میرے لیے اپنے دل میں کوئی جگہ نہیں رکھتیں تو مجھے تم پر زبردستی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ تمھیں حق ہے، تم جس کو چاہو، اپنی زندگی کے ساتھی کے طور پر چنو۔ کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے میری طرف سے اپنا دل صاف کر لیا ہے؟” اس نے اتنی تیزی سے پینترا بدلا کہ میں ہکا بکا رہ گئی۔
”کیا چیز ہو تم اظفر، ابھی تم کیا کہہ رہے تھے؟ ابھی تم کیا کہہ رہے ہو؟” میں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔
”میں بکواس کر رہا تھا، تم بھی اسے بکواس سمجھ کر بھول جاؤ۔” اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔





”ٹھیک ہے۔” مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گئی ہوں۔ میں اٹھ کر کھڑی ہو گی۔
”میری طرف سے اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔” وہ بھی کھڑا ہو گیا پھر اس نے مجھے خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔
اس دن گھر واپسی پر میں بہت خوشگوار موڈ میں تھی۔ میرا خیال تھا، اب سارا مسئلہ حل ہو گیا ہے مگر یہ میری خوش فہمی تھی۔ بہرحال اس دن کم از کم مجھے یونہی لگا تھا۔ میں نے اپنی امی کو بھی اظفر سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا اور انھوں نے بھی سکون کا سانس لیا۔
رات کو تایا اور تائی ہمارے گھر آئے اور انھوں نے ابو اور امی سے اظفر اور اپنی طرف سے معذرت کی۔ میرے والدین نے بڑی خوش دلی سے انھیں معاف کر دیا۔ ہمارے گھر میں یک دم جیسے پہلے والا سکون لوٹ آیا تھا۔
اگلے چند ماہ زندگی خاصی مصروف رہی۔ اظفر والے معاملے سے نمٹنے کے بعد میں دوبارہ اپنی اسٹڈیز میں جت گئی۔ اب میں فائنل ائیر میں تھی اور مجھے بہت محنت کرنی تھی پریویس کی طرح فائنل میں بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے۔
انہی دنوں میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ احتشام کو اسکالر شپ ملا تھا، ایم فل کے لیے اور وہ شادی کر کے جانا چاہتا تھا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ وہ مجھ سے شادی کرنے کے بعد باہر چلا جائے گا اور پھر میں فائنل ایگزامز سے فارغ ہو کر اس کے پاس چلی جاؤں گی۔ بعض پلاننگز صرف پلاننگز ہی رہتی ہیں۔ اس وقت میں بھی یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ بھی ایسی ہی ایک پلاننگ ہے۔
شادی سے ایک ماہ پہلے تک میں یونیورسٹی جا رہی تھی کیونکہ میں بہت زیادہ چھٹیاں افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔
اس دن بھی معمول کے مطابق میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر پوائنٹ پر کھڑی تھی، جب ایک کار میرے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اس میں سے ایک لڑکے نے میرے قریب آ کر اپنی پشت پر چھپائی گئی ایک سیون ایم ایم نکالی اور بلند آواز میں اردگرد کے لوگوں کو وہاں سے بھاگ جانے کا کہہ کر ہوائی فائرنگ کی۔ چند سیکنڈز میں میرے اردگرد کوئی نہیں تھا۔ میں بالکل گنگ تھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا پھر اچانک میں نے اپنے ناک اور منہ کے سامنے ایک رومال آتے دیکھا تھا۔ کوئی میرے پیچھے سے آیا تھا۔ چند لمحے سانس روکے میں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد کیا ہوا، مجھے یاد نہیں۔
ہوش میں آنے پر میں نے خود کو ایک تاریک کمرے میں پایا۔ چند لمحوں تک مجھے یونہی لگا، جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ آفٹر آل میرے ساتھ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے ساتھ یہ سب ہونے کی تو کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ میرا ذہن اس صورت حال کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ بہت دیر تک میں ماؤف ذہن کے ساتھ سر پکڑے بیڈ پر بیٹھی رہی پھر آہستہ آہستہ میرے حواس بحال ہونے شروع ہو گئے۔
میں نے سب سے پہلے اٹھ کر کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر باہر جھنکا۔ باہر لان تھا اور اس کے گرد موجود چار دیواری نے مجھے یہ اندازہ لگانے نہیں دیا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے کمرے کے دروازے کو جا کر چیک کیا، وہ حسب توقع بند تھا۔ کمرے میں ایک دوسرا دروازہ باتھ روم کا تھا۔ میرے اعصاب آہستہ آہستہ شل ہو رہے تھے۔ گھڑی شام کے پانچ بجا رہی تھی اور میں جانتی تھی، اس وقت تک میری گمشدگی گھر والوں کے علم میں آ چکی ہوگی اور وہ لوگ مجھے تلاش کر رہے ہوں گے۔
رات کے آٹھ بجے کمرے کا دروازہ کھلا اور میں برق رفتاری سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ آنے والا وہی لڑکا تھا جس نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔ اس وقت اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جسے اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر لا کر رکھ دیا۔
”تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟” اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
”میں کون ہوں، یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ کیوں لایا ہوں، یہ بھی میں نہیں جانتا مگر یہاں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آپ یہاں بے فکر ہو کر رہ سکتی ہیں، بالکل اپنے گھر کی طرح۔ دو تین دن بعد میں آپ کو واپس چھوڑ آؤں گا۔” اس نے بے حد احترام سے کہا۔
”دو تین دن بعد؟ تم جانتے ہو، میرے خاندان پر کیا گزر رہی ہوگی؟” میں نے اس کے نرم لہجے سے شہ پا کر کہا۔
”میں اس معاملے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، آپ کو چند دن یہیں رہنا ہے۔” اس بار اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”لیکن آخر کیوں؟ میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ تم مجھے کس کے کہنے پر یہاں لائے ہو؟” میں نے اس بار قدرے تیز آواز میں اس سے پوچھا۔
وہ جواب دینے کے بجائے کمرے سے نکل گیا۔ مجھے بے اختیار رونا آیا مگر رونے سے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے آنسو مجھے وہاں سے نکال نہیں سکتے تھے۔ میں نے اپنے منتشر اوسان اور حواس پر ایک بار پھر سے قابو پانے کی کوشش شروع کر دی۔ میرے اس طرح غائب ہونے سے میرے گھر والوں پر جو کچھ گزر رہی ہوگی، میں اس کا اندازہ لگا سکتی تھی مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ نہ ہی میں اپنے اغوا جیسی حقیقت کو بدل سکتی تھی۔ واحد چیز جو میں کر سکتی تھی، وہ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو طے کرنا تھا اور وہ میں کر رہی تھی۔
اس رات بیٹھ کر میں صرف یہ جاننے کے لیے سرگرداں رہی کہ مجھے کس کے کہنے پر اغوا کیا گیا ہے اور اغوا کرنے والا کیا چاہتا ہوگا۔ میں نے ہر ممکنہ نام پر غور کیا تھا اور پھر میرا ذہن اظفر کے نام پر ٹھہر گیا تھا۔ حالیہ کچھ عرصے میں وہ واحد شخص تھا جس کے ساتھ میری تلخ کلامی ہوئی مگر یہ میرا ذہن یہ قبول نہیں کر پا رہا تھا کہ معذرت کرنے کے بعد اس نے ایسا قدم اٹھایا ہوگا مگر اس ایک نام کے سوا کوئی اور شخص نہیں تھا جو میرے ساتھ ایسا کرتا۔ میں دیکھنا چاہتی تھی، اب میرے ساتھ آگے کیا ہوتا ہے؟
رات گزر گئی۔ اگلے دن میں قدرے زیادہ پرُسکون تھی۔ وہی لڑکا صبح نو بجے کے قریب ایک بار پھر ناشتہ لے کر آیا۔
”مجھے صرف ایک بات بتا دو، تم مجھے کب چھوڑو گے؟” میں نے اس سے کہا۔
”کل۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”کل کس وقت؟”
”یہ میں نہیں جانتا۔”
”کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ مجھے کس نے اغوا کروایا ہے؟”
”نہیں۔”
”میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ مجھے کس نے اغوا کروایا ہے؟” اس بار وہ میری بات پر چونک اٹھا۔
”کس نے اغوا کروایا ہے؟” اس بار اس نے پوچھا۔ اب میں اپنے مہرے آگے بڑھانے کے لیے تیار ہو گئی۔ مجھے زندگی ایک چیس بورڈ پر ایسی جگہ لے آئی تھی جہاں نہ صرف مجھے ہر طرف سے ہونے والی مات سے بچنا تھا بلکہ اس بازی کو اپنے حریف پر الٹنا بھی تھا۔
”اس سے پہلے تم مجھے بتاؤ، کیا تم میرا نام جانتے ہو؟” میں نے اپنا پہلا مہرہ آگے بڑھایا۔ وہ کچھ ہچکچایا۔
”ہاں۔”
”کیا نام ہے میرا؟”
”فاطمہ نواز۔ اب تم بتاؤ، تمھیں کس نے اغوا کروایا ہے؟” اس نے بڑی بے تابی سے پوچھا۔
”میرے کزن نے۔” وہ چند لمحے کے لیے بالکل ساکت ہو گیا۔ میں اپنا دوسرا مہرہ آگے بڑھا چکی تھی۔
”کون سے کزن نے؟” اس نے بے حد اضطراب کے عالم میں پوچھا۔
”احتشام نے۔” میں اپنے مہرے کو بڑے آرام سے پیچھے لے آئی۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔
”تم جو چاہو سمجھ لو۔” وہ کمرے سے نکل گیا۔ میں جو جاننا چاہتی تھی، جان چکی تھی۔ یہ کام اظفر کا تھا، مجھے اب کوئی شبہ نہیں رہا تھا۔
اس رات میں نے کھانا بھی کھایا اور اگلے دن کے بارے میں اپنا پروگرام بھی طے کیا۔
آپ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ میں ایک ایسی لڑکی ہو کر جسے اغوا کر لیا گیا ہو، اس طرح غیر جذباتی ہو کر بات کیسے کر رہی ہے۔ آپ کی حیرانی بجا ہے میری جگہ کوئی کمزور اعصاب کی لڑکی ہوتی تو وہ یقینا اب تک رو رو کر ہلکان ہو چکی ہوتی۔ اپنے مستقبل کا سوچ سوچ کر وہ خوف سے کانپ رہی ہوتی ہے۔ اپنے گھر والوں کا تصور کر کے اس کا دماغ شل ہو گیا ہوتا مگر کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کر کے کیا حاصل ہوتا؟ جو کچھ ہو چکا تھا، میں اسے بدل نہیں سکتی تھی اور یہ سب میری کسی غلطی کی وجہ سے بھی نہیں ہوا تھا۔ آنسو کمزور آدمی بہاتا ہے یا وہ جسے پچھتاوا ہو۔ میرے ساتھ یہ دونوں ہی چیزیں نہیں تھیں۔ میں ایک ایسے مالک مکان کی طرح تھی جس کا مکان تباہ کر دیا گیا ہو مگر میں نے ملبے پر ماتم اور واویلا کرنے کے بجائے اس میں سے ان چیزوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا جو صحیح سلامت تھیں۔
اگلے دن وہ لڑکا ایک بار پھر صبح ناشتہ لے کر آیا۔
”مجھے آپ سے صرف ایک درخواست کرنی ہے کہ واپس چھوڑتے ہوئے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جائیں مگر مجھے بے ہوش نہ کریں۔” میں نے اس سے کہا تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
دوپہر کے وقت وہ دوبارہ آیا اور یہ دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ پٹی تھی۔ اس نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ اس کے بعد پہلے کی طرح مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔ بہت دیر گاڑی چلتی رہی پھر رک گئی۔ مجھے گاڑی سے اتار دیا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتار دی۔ میں ایک ویران سڑک کے کنارے کھڑی تھی اور وہی گاڑی دور جا رہی تھی۔ نمبر نوٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ ایسی وارداتوں میں زیادہ تر چوری کی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور ایسا نہ ہو تو بھی نمبر پلیٹ ضرور جعلی ہوتی ہے۔
بعض دفعہ آزادی پانے کے بعد آپ خود کو اور زیادہ قید میں محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت میں نے بھی یہی محسوس کیا تھا۔ دو دن تک گھر سے غائب رہنے کے بعد… میں نے اپنی آنکھوں کو گیلا محسوس کیا پھر میں نے اپنے دماغ سے ان سوچوں کو دوبارہ جھٹک دیا۔ میں جانتی تھی، اب مجھے آگے کیا کرنا تھا۔
کافی دور تک چلنے کے بعد مجھے ایک پی سی او نظر آیا۔ میرا بیگ میرے پاس ہی تھا اور اس میں کچھ روپے تھے مگر پی سی او میں جاتے جاتے میں ٹھٹک گئی۔ میرے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔ میں سڑک پر دوبارہ چلنے لگی۔ کافی دور جا کر مجھے ایک ٹیکسی ملی۔ میں نے ٹیکسی کو پولیس اسٹیشن چلنے کے لیے کہا۔
پولیس اسٹیشن پہنچ کر میں کسی نہ کسی طرح ڈی ایس پی کے آفس بھی پہنچ گئی۔ میں نے بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے ساتھ ہونے والا پورا واقعہ انھیں سنایا۔ اس کے بعد میں نے ان سے مدد کی درخواست کی۔ میں نے اپنے رویے سے شاید انھیں حیران کر دیا تھا اس لیے وہ فوراً میری مدد کو تیار ہو گئے۔ میں نے ان کے آفس سے اظفر کو فون کیا، فون ملازم نے اٹھایا۔ میں نے اسے اپنا اصل نام بتانے کے بجائے ایک فرضی نام بتایا اور اظفر سے بات کرانے کے لیے کہا۔ میں جانتی تھی، اظفر یقینا اس وقت گھر ہوگا تاکہ یہ جان سکے کہ کیا ان لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے یا نہیں۔ ان لوگوں نے مجھے چھوڑنے کے بعد اظفر کو اطلاع ضرور دی ہوگی۔
اظفر فون پر میری آواز سن کر شاکڈ رہ گیا۔
”فاطمہ، تم کہاں سے بات کر رہی ہو؟” اس نے مجھ سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!