مات ہونے تک — عمیرہ احمد

”مجھے آپ کی محبت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں احتشام کی منگیتر ہوں اور چند ماہ تک ہماری شادی ہو جائے گی۔ میرے لیے بس یہی کافی ہے۔” اس نے انگلی اٹھاتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ میری بات ایک بار پھر کاٹتے ہوئے کہا۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا اور ہوگا تو میرے مرنے کے بعد ہی ہوگا۔” میں اس کی بات پر جذباتی ہو گیا۔
”تو پھر مر جاؤ۔” اس کے جواب نے مجھے مشتعل کر دیا تھا۔
”میں نے زندگی میں صرف ایک لڑکی سے محبت کی ہے اور وہ تم ہو اور تمہارا خیال ہے کہ میں تمھیں کسی اور سے منسوب ہونے دوں گا۔” میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”یہ بات اگر میں احتشام سے جا کر کہہ دوں تو وہ ابھی تمھیں شوٹ کر دے گا۔”
”اس سے پہلے میں اسے شوٹ کر دوں گا۔ وہ کیا چیز ہے، آخر، ہے ہی کیا اس میں۔”
”وہ ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہے۔ تم تو اس کے پاؤں کے جوتوں کے برابر بھی نہیں۔” میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کے منہ سے اپنے لیے اتنے انسلٹنگ ریمارکس سنے تھے اور وہ بھی اس سے جس سے مجھے سب سے زیادہ محبت تھی۔
”تمہاری شادی اگر کسی سے ہوگی تو مجھ سے ہوگی فاطمہ۔ یہ بات لکھ لو، چاہے تمہاری خوشی سے ہو یا زبردستی۔”
”اور اس سے پہلے میں خودکشی کر لوں گی۔” وہ غرائی تھی اور پھر تیزی سے وہاں سے جانے لگی تھی۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ ”اور میں تمھیں مرنے تو کبھی نہیں دوں گا۔” وہ جیسے میری حرکت پر شاکڈ ہو گئی تھی۔
”میں تمھارے منہ پر تھپڑ مارنا نہیں چاہتی اس لیے ہاتھ چھوڑ دو۔”
”میں لڑکیوں سے تھپڑ کھانا پسند نہیں کرتا۔” میں نے اس کے غصے سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی تھی مگر میں نے بڑی مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑے رکھا۔ میں توقع کر رہا تھا کہ شاید وہ مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کرے اور میں اس کو روکنے کے لیے بھی تیار تھا مگر اس نے جو حرکت کی، اس نے مجھے حواس باختہ کر دیا تھا۔ ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد اس نے چند لمحے میرے چہرے پر نظریں جمائے رکھی تھیں اور پھر بڑے اطمینان سے اپنا وہ ہاتھ منہ کے پاس لے گئی جو میں نے پکڑا ہوا تھا۔ اس نے میری ہتھیلی کی پشت میں اپنے دانت گاڑ دیے تھے اور دانت اس نے اس زور سے اور اتنے اچانک گاڑے تھے کہ میں نے یک دم اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”تم میری توقع سے زیادہ ذلیل ہو۔” وہ کہتے ہوئے تیزی سے اندر چلی گئی تھی۔





میں نے ہتھیلی کی پشت پر دیکھا، وہاں اس کے دانتوں کے نشانات پرخون کے ننھے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے۔ آپ کو حیرت ہو گی لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے اس کی اس حرکت پر غصہ نہیں آیا بلکہ شاک لگا تھا۔ کیا وہ واقعی مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہے کہ اس نے مجھے زخمی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس سوچ نے مجھے گم صم کر دیا تھا۔ میں اسی خاموشی کے عالم میں وہاں سے واپس اپنے گھر آ گیا تھا۔
اس شادی کے ہنگامے سے فرصت پانے کے بعد میرے گھر میں ایک ہنگامہ شروع ہو گیا۔ میں نے اپنی امی پر فاطمہ کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا تھا اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ میرا رشتہ لے کر اس کے گھر جائیں۔ میرے والدین کو اس بات پر شاک لگا تھا۔ امی ان دنوں میرے لیے لڑکی تلاش کر رہی تھیں اور یہ کام میں نے خود ان کے سپرد کیا تھا اور اب اچانک میں نے ان کے سامنے ایک ایسی لڑکی پیش کر دی تھی جسے نہ صرف وہ لوگ ناپسند کرتے تھے بلکہ وہ منگنی شدہ بھی تھی۔ ان دونوں نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر میری ضد ختم نہیں ہوئی تھی۔
”اگر مجھے شادی کرنی ہے تو صرف فاطمہ سے، اس کے سوا کسی اور سے نہیں اگر آپ لوگوں نے میری بات نہ مانی تو میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔” میں نے انھیں دوٹوک انداز میں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔
میری امی میری بات پر رونے لگی تھیں۔ ”تمھیں وہ پسند تھی تو پہلے بتاتے، میں احتشام سے اس کی منگنی ہونے سے پہلے تمہارا رشتہ لے کر جاتی مگر اب تو…”
”منگنی ہوئی ہے۔ شادی تو نہیں ہوئی اور منگنیاں ٹوٹتی رہتی ہیں۔ آپ ان سے کہئے گا کہ وہ اس رشتے کے لیے جو چاہیں مطالبہ کریں، میں پورا کروں گا۔” میں نے جیسے اعلان کیا تھا۔
”تمہارا بیٹا پاگل ہو گیا ہے۔ کیا میرا بھائی اپنی بیٹی بیچ دے گا اس طرح۔ رشتہ کسی سے طے کرے، شادی کسی اور سے کرے۔ میں کس طرح اپنے بھائی سے جا کر یہ بات کہوں۔” میرے ابو کو شاید زندگی میں پہلی بار غصہ آیا تھا۔
”اگر آپ میری بات نہیں مانیں گے تو میں احتشام کو گولی مار دوں گا مگر اس کی شادی فاطمہ سے نہیں ہونے دوں گا۔” میری بات سے زیادہ شاید میرے لہجے نے میرے والدین کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ میں کچھ اور کہے بغیر گھر سے نکل گیا۔
اگلے چند دن تک گھر میں کوئی کھچڑی پکتی رہی اور پھر ایک شام میرے والدین فاطمہ کے گھر چلے گئے۔ میں خود گھر پر ہی تھا۔ پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ بعض اوقات وقت بھی رک جاتا ہے جیسے اس شام رک گیا تھا۔ میں نے آج تک اتنی لمبی شام نہیں گزاری۔
وہ لوگ تقریباً چار گھنٹے کے بعد وہاں سے واپس آ گئے تھے اور ان کے چہرے دیکھتے ہی میں سب کچھ جان گیا تھا۔ مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔
”وہ لوگ کسی طرح بھی ہماری بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ چند ہفتوں تک ان دونوں کی شادی کی تاریخ طے کر رہے ہیں۔” امی نے پھر بھی جیسے مجھے سب کچھ بتانا ضروری سمجھا۔
میں مشتعل ہو کر ان پر چڑھ دوڑا۔ ”آپ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ میری شادی اس سے ہو اگر آپ لوگوں نے کوشش کی ہوتی تو وہ آپ کی بات کیوں نہ مانتے۔ آخر ابو بڑے بھائی ہیں۔ ہر کام تو وہ ان کے مشورے سے کرتے ہیں پھر اب انھوں نے کیوں انکار کر دیا ہے۔”
”ہاں بڑا بھائی ہوں، میں مگر آخر میں کس طرح اس بے ہودہ بات پر اصرار کرتا۔ جو کہہ سکتا تھا، وہ میں نے کہا۔ تمھارے چچا کہہ رہے ہیں، فاطمہ کے علاوہ جس بیٹی سے چاہو، وہ تمہاری شادی کر سکتے ہیں مگر ایک بار اس کی نسبت طے ہو جانے کے بعد وہ کچھ نہیں کر سکتے۔”
”مجھے کسی اور بیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے صرف فاطمہ سے ہی شادی کرنا ہے، صرف فاطمہ سے!” میں ان کی بات پر چلایا تھا۔
”یہ نہیں ہو سکتا۔ تمھیں بتایا ہے نا، چند ہفتوں تک وہ اس کی شادی کی تاریخ طے کر رہے ہیں۔”
”دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا، سب کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ نے میری مدد نہیں کی، ٹھیک ہے اب مجھے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔” مجھے واقعی اپنے والدین سے بہت مایوسی ہوئی تھی۔
امی اٹھ کر میرے پیچھے میرے کمرے میں آ گئی تھیں اور پتا نہیں کتنی دیر مجھے سمجھاتی رہی تھیں کہ میں کوئی الٹا سیدھا کام نہ کروں۔ دنیا میں فاطمہ سے زیادہ اچھی لڑکیاں ہیں اور وہ فاطمہ سے بھی بہتر لڑکی میرے لیے لائیں گی۔ میں ان کی ہر بات سنی اَن سنی کرتا رہا اور اپنے اعصاب پر قابو پاتا رہا۔ جب وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو کر چلی گئیں کہ شاید ان کی باتوں نے مجھ پر کوئی اثر کیا ہے تو میں سونے کے لیے لیٹ گیا۔
*****
میں فاطمہ سے آخری بار بات کرنے کے لیے چار پانچ دن کے بعد اس کے ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔ مجھے وہاں دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی اور پھر چند لمحوں کے اندر اندر اس کے چہرے کا رنگ بھی سرخ ہو گیا مگر مجھے اس کی حیرت کی پروا تھی نہ غصے کی۔ میں نے اس کے قریب جا کر بڑے پرُسکون انداز میں کہا۔
”میں جانتا ہوں، مجھے یہاں دیکھ کر تمھیں بہت غصہ آ رہا ہوگا مگر مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے اس لیے یہاں آنا پڑا۔” اس نے جواب میں کچھ تلملا کر کہا۔
”یہ وہی ضروری بات ہوگی جس کا جواب تمھارے ہاتھ پر ہے۔” مجھے اس کی بات پر بے اختیار ہنسی آئی۔ اس کا اشارہ دانتوں کے نشان کی طرف تھا۔ میری ہنسی نے اسے کچھ اور برہم کیا مگر شاید میرے انداز میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ اس دن ایک بار پھر میری بات سننے پر تیار ہو گئی۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اگر وہ مجھ سے اس طرح جان چھڑا سکتی ہے تو کیوں نہ چھڑوا لے اور واقعی میں اس دن کے بعد اس سے دوبارہ نہ ملنے کا طے کر کے گیا تھا۔
میرا خیال تھا کہ میرے اور اس کے درمیان ہونے والی وہ آخری گفتگو تھی مگر تقدیر ہمارے لیے کچھ اور طے کر کے بیٹھی تھی۔ خیرمیں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں اسے یونیورسٹی کے لان میں لے گیا اور وہاں میں نے ایک بار پھر اسے اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے لیے کیا کیا کر سکتا ہوں اور میں نے اسے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ احتشام کے ساتھ شادی اس کے لیے کتنی بیکار ہے۔ یقین جانیں، جتنی نرمی، محبت اور خلوص کے ساتھ میں اسے سمجھا سکتا تھا، میں نے اسے سمجھایا مگر پتا نہیں اس کے دل میں میرے لیے اتنی نفرت کیوں بھری ہوئی تھی کہ وہ میری کوئی بات ٹھیک سے سننے پر تیار تھی، نہ سمجھنے پر۔ اس کے دل و دماغ پر تو وہ خبیث اور ذلیل… احتشام… خیر چھوڑیں، اب اتنے عرصے کے بعد اسے گالیاں دینے کا کیا فائدہ مگر آپ تو جانتے ہی ہیں، رقیب سے نفرت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ بہرحال اس دن میری باتوں کے جواب میں اسنے میرے لیے کچھ ایسے لفظ استعمال کیے جنھوں نے نہ صرف میری ناراضگی اور برہمی میں اضافہ کیا بلکہ میرے ارادے کو کچھ اور پختہ کر دیا۔ ارادہ کیا تھا، وہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ جب مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ میری کوئی دلیل، کوئی بات اس پر اثر انداز نہیں ہو پائے گی تو پھر میں اس سے یہ کہہ کر چلا آیا کہ اب دوبارہ اسے مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی، نہ ہی ہم دوبارہ اس موضوع پر بات کریں گے۔
آپ یقینا میری اس بات پر حیران ہو رہے ہوں گے کہ کہاں تو اس کے پیچھے دیوانہ بنا ہوا تھا اور کہاں صرف بات کرنے کے بعد میں نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔ نہیں میں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا مگر اس سے یہ کہنا اس لیے ضروری تھا کہ وہ میری طرف سے بالکل مطمئن ہو جائے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بعد میں جو قدم اٹھانے والا تھا، اس کے بارے میں فوری طور پر سب کی توجہ مجھ پر مرکوز ہو جائے۔ اس لیے میں نے نہ صرف فاطمہ کو یہ یقین دلایا کہ اب میں نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا ہے بلکہ اپنی امی اور ابو کو فاطمہ کے گھر دوبارہ بھیجا تاکہ وہ معذرت کر کے فاطمہ کے گھر والوں پر یہ جتا دیں کہ وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہیں۔
سب کچھ میری حسب توقع ہی ہوا۔ فاطمہ کے گھر والے نہ صرف میرے والدین کی معذرت پر بے حد مطمئن ہو گئے بلکہ انھوں نے نہایت خوش دلی سے انھیں معاف بھی کر دیا۔ چچا نے یقینا یہ سوچا ہوگا کہ بڑے بھائی کے ساتھ ان کے تعلقات ختم ہونے سے بچ گئے ہیں اور جس خلش کا وہ شکار ہوئے ہوں گے، یقینا وہ خلش بھی دور ہو گئی تھی۔
میرے ماں باپ کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی کہ میں اتنا اعلیٰ ظرف کیسے ہو گیا کہ انھیں چچا اور چچی سے معذرت کے لیے کہہ رہا ہوں مگر پھر انھوں نے سوچا ہوگا کہ شاید ان کی کوئی نیکی ان کے کام آ رہی ہے اور میں اپنی ضد چھوڑ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، والدین ایسے معاملات میں ہمیشہ اسی طرح سوچتے ہیں مگر میں نے اپنی ضد چھوڑی تھی اور نہ ہی میں اتنا اعلیٰ ظرف ہو گیا تھا کہ اپنے ایک ایسے کام کے لیے معافیاں تلافیاں شروع کر دیتا جسے میں سرے سے غلط سمجھتا ہی نہیں تھا۔
زندگی میں بعض فیصلے ہم سوچ سمجھ کر کرتے ہیں، بعض بغیر سوچے سمجھے۔ جو فیصلے سوچ سمجھ کر کرتے ہیں، وہ دماغ سے کرتے ہیں، جو بغیر سوچے سمجھے کرتے ہیں، وہ دل سے کرتے ہیں اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ بعض دل سے کیے جانے والے فیصلے ہمیں اس قابل کر دیتے ہیں کہ ہم دوسروں کا دل اور دماغ دونوں جیت لیں تو کیا آپ میری اس بات پر یقین کریں گے۔ شاید نہیں، بہرحال اس رات میں نے بھی بغیر سوچے سمجھے صرف دل کے کہنے میں آ کر ایک فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے نے۔ خیر… بہتر ہے، میں آپ کو بتا دوں کہ میں نے فاطمہ کو اغواء کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
آپ میں سے جو میری طرح جذباتی ہوں گے، وہ اس وقت مجھے گالیاں دے رہے ہوں گے، خاص طور پر لڑکیاں مگر اتنے غصے اور جوش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ پہلے میرا نقطہ نظر تو سمجھنے کی کوشش کریں۔میں جانتا ہوں، اغوا کوئی اچھا قدم نہیں تھا، خاص طور پر کسی لڑکی کا اغوا اور وہ بھی اس صورت میں جب وہ لڑکی خاندان کی ہو تو یہ اور بھی معیوب بات ہے مگر اس وقت میں بس غصے میں تھا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے اتنی شدت سے کسی چیز کی خواہش کی تھی مگر وہ چیز مجھے ملنے کے بجائے کسی اور کا مقدر بن جانا چاہتی تھی اور یہ میری برداشت سے باہر تھا۔ اگر فاطمہ میری نہیں ہو سکتی تھی تو پھر اسے احتشام کا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر اسے احتشام کا مقدر بننا ہی تھا تو بھی میں چاہتا تھا کہ احتشام کو یہ احساس نہ ہو کہ اسے خاندان کی سب سے اچھی لڑکی کا ساتھ نصیب ہو رہا ہے۔ اس لڑکی کا جس نے اس کے لیے مجھے ٹھکرا دیا تھا۔ میں چاہتا تھا، فاطمہ سے شادی ہونے کی صورت میں بھی وہ کبھی کوئی فخر محسوس نہ کر سکے۔ جب کوئی میری طرح ٹھکرایا جاتا ہے تو پھر وہ اسی طرح کے حسد کا شکار ہوتا ہے، سو اس رات میں نے یہ طے کیا تھا کہ میں فاطمہ کو ایک آخری موقع دوں گا اس سے بات کروں گا اور اگر اب بھی اس نے میری آفر قبول نہ کی تو پھر میں فاطمہ کو اغوا کروا لوں گا۔ چند دن تک بحفاظت اسے کہیں رکھوں گا اور پھر رہا کر دوں گا اور یہ چند دن جو وہ باہر گزار کر آئے گی، یہ اس کے لیے خاندان میں اچھی خاصی رسوائی اور بدنامی کا باعث بنیں گے اور پھر احتشام اس سے شادی نہیں کرے گا۔ اگر مجبور ہو کر اس نے کر بھی لی تو یہ ایک مجبوری کا سودا ہی ہوگا اور پھر رسوائی صرف فاطمہ ہی کے لیے نہیں بلکہ احتشام کے لیے بھی ہو گی۔ آپ خود سوچیں ایک اغوا شدہ لڑکی سے شادی ہمارے معاشرے میں کسی بھی مرد کے لیے کتنی بڑی ذلت ہے اور میں اس ذلت سے احتشام کو دوچار کرنا چاہتا تھا۔
چند دن گزرنے کے بعد میں نے فاطمہ سے بات کی اور میں نے آپ کو بتایا نا کہ اس نے انتہائی غیر مہذب الفاظ میں میری آفر ٹھکرا دی۔ مجھے اس سے یہی امید تھی اس لیے میں بالکل مایوس نہیں ہوا۔ اس دن میں یونیورسٹی میں فاطمہ سے ملنے کے بعد واپس گھر آیا، نہ ہی فیکٹری گیا بلکہ اپنے کچھ ”دوستوں” کے پاس چلا گیا۔
میں ایک بہت سی سیدھی سادی زندگی گزارنے والا انسان تھا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کوئی کام کرنا یا کروانا پڑے گا مگر سوچنے سے کیا ہوتا ہے، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ بلنڈر بغیر سوچے سمجھے ہوتے ہیں۔
میرا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا، اس میں ہر کیٹگری کے لوگ تھے۔ بہت اچھے… برے اور بہت برے لیکن میرے لیے سب دوست تھے اور جب کوئی آپ کا دوست ہو تو ہم اس کی بہت سی خامیاں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بہت سے عیبوں سے نظر چراتے رہتے ہیں۔ میں بھی یہی کرتا تھا۔ دوست بناتے ہوئے میرے نزدیک واحد معیار یہ ہوتا تھا کہ وہ کتنا اثر و رسوخ اور دولت والا ہے۔ باقی چیزیں میرا مطلب ہے ،کردار وغیرہ میرے نزدیک بہت ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ میرے دوستوں میں کچھ لوگ جرائم پیشہ بھی تھے۔ نہیں… نہیں انھوں نے کوئی بہت بڑے بڑے جرم نہیں کیے تھے۔ بس شوقیہ چھوٹے موٹے جرائم کرتے رہتے تھے۔ مثلاً لڑکیوں سے پرس چھین لینا، کسی سے گاڑی چھین لینا یا پھر ڈیپارٹمنٹ اسٹورز سے مہنگی چیزیں پار کر لینا۔ میں ان سب کے کارناموں سے واقف تھا اور ہم اکثر ان حرکتوں کا ذکر کر کے ہنستے تھے۔ میں ان حرکتوں کو پسند نہیں کرتا تھا مگر میں نے کبھی اپنے دوستوں کو ان باتوں سے منع بھی نہیں کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ ان کا ذاتی فعل تھا اور مجھے مداخلت کا حق نہیں تھا۔
شجاع بھی میرے کچھ ایسے ہی دوستوں میں شامل تھا جو ایسی سرگرمیوں میں انوالو تھا۔ میری اس کے ساتھ بہت گہری اور بہت پرانی دوستی تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک جاگیردار کا بیٹا تھا مگر تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر بھیجے جانے کے بعد مستقل یہیں کا ہو گیا تھا۔ تعلیم تو اس نے خیر کیا حاصل کرنی تھی مگر ”علم” کافی حاصل کیا، بدلتی دنیا کے نئے طور طریقوں کا۔ تومیں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں نے شجاع کا ”ہنر اور علم” آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس کے پاس چلا گیا۔ اس نے میری بات بڑے تحمل اور سکون سے سنی۔
”تم اپنی کزن کو اغوا کروانا چاہتے ہو اور چاہتے ہو کہ دو تین دن کے بعد اسے بحفاظت واپس چھوڑ دیا جائے مگر اس سے تمھیں کیا ملے گا؟ کیا تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟” وہ میری بات سننے کے بعد کچھ الجھ گیا۔
”نہیں، میں اب اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔ بس تم مجھ سے زیادہ سوال جواب مت کرو۔ صرف یہ بتاؤ کہ تم میری مدد کر سکتے ہو یا نہیں؟”
”ایک لڑکی کا اغوا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگر اس کا کچھ فائدہ بھی تو ہو۔”
”فائدہ اور نقصان تمہارا نہیں، میرا مسئلہ ہے۔” میں کچھ چڑ گیا۔
”ٹھیک ہے یار، جو تم چاہو گے، وہی ہوگا، اب ناراض تو مت ہو۔” اس نے مجھے بہلانے کی کوشش کی۔
”اور شجاع، یہ بات یاد رکھنا کہ اسے کچھ ہونا نہیں چاہیے اگر اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی…” شجاع نے میری بات کاٹ دی۔
”تمھیں دوبارہ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تمھارے خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو ظاہر ہے، میرے لیے بھی قابل احترام ہے۔”
”میں اس کی بات پر مطمئن ہو گیا۔ آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ ایک طرف تو میں اس کے اغوا کا منصوبہ بنا رہا تھا اور دوسری طرف اس کی سلامتی کے لیے فکر مند تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں فاطمہ کے لیے اپنے دل میں بہت سی رنجشیں رکھتا تھا، یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں چاہتا تھا، وہ خاندان میں رسوا… اور بدنام ہو جائے مگر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرے خاندان کی کوئی لڑکی کسی اور طرح کی ذلت کا شکار ہو اور وہ بھی میرے ہی ایک دوست کے ہاتھوں… اور پھر… شاید میں یہ اس لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ لڑکی فاطمہ تھی جس سے میں نے محبت… خیر اس ذکر کو چھوڑیں۔




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!