مات ہونے تک — عمیرہ احمد

”میں گھر کے کسی کام کے لیے یہاں سے گزر رہا تھا، آپ دونوں کا خیال آیا تو پوچھنے چلا آیا۔” اس نے سلمیٰ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ اظفربھائی آپا کے تو سمسٹرز ہو رہے ہیں اور مجھے رات کے لیے کھانا پکانا تھا اس لیے میں نہیں آ سکی۔” سلمیٰ نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ وہ پھر زیادہ دیر وہاں ٹھہرا نہیں اور چلا گیا۔
”آپا، یہ اظفر بھائی کچھ عجیب سے نہیں ہو گئے، صرف ہمارے نہ آنے پر یہ پوچھنے آ گئے ہیں۔ حیرانی کی بات نہیں؟” سلمیٰ نے اندر جاتے ہوئے مجھ سے کہا۔ میں اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے کچھ فکر مند انداز میں اظفر کی اس حرکت کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔
تیسرے دن میری فکر میں اس وقت کچھ اور اضافہ ہو گیا، جب میں نے یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے بس اسٹاپ پر اسے اپنی گاڑی سمیت موجود پایا۔
”میں ادھر سے گزر رہا تھا، آپ کو دیکھا تو رک گیا۔” اس نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا تھا۔ اظفر خود کو جتنا بامروت اور بالحاظ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ اتنا بالحاظ اور بامروت نہیں تھا۔ آج تک اس سمیت اس کے گھر والوں نے کبھی ہمارے پورے خاندان پر لفٹ جیسی نوازش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب ایک دم ایسی کون سی بات ہو گئی تھی کہ وہ اتنا مہذب بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں اتنی بے وقوف اور کم عمر نہیں تھی کہ اس کی بات پر یقین کر لیتی اور واقعی یہ سمجھتی کہ وہ گزرتے گزرتے مجھے دیکھ کر رک گیا ہے۔ پہلی دفعہ میں نے یہ طے کیا کہ مجھے اس کے ساتھ اپنی گفتگو کا انداز بدلنا پڑے گا۔
میں بس اسٹاپ پر تماشا نہیں بننا چاہتی تھی اس لیے خاموشی کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی مگر اس وقت مجھے اس پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ میرا جی چاہا، میں اسے ایک جھانپڑ رسید کر کے اس کی طبیعت صاف کر دوں۔ وہ رستے میں مجھ سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا رہا اور میں اپنی ہوں ہاں کے ذریعے اس کی ان کوششوں پر پانی پھیرتی رہی۔
گھر پہنچنے پر میں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی کیونکہ اس طرح اس کا مجھے گھر کے باہر چھوڑ جانا کوئی مناسب بات نہیں تھی۔ وہ میری اس دعوت پر خاصا خوش نظر آیا تھا اسے اندر بلا کر میں اسے کمپنی دینے کے بجائے امی کے حوالے کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں اب واقعی اس پر یہ جتا دینا چاہتی تھی کہ مجھے اس کی حرکت بہت بری لگی ہے کیونکہ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ آئندہ بھی اس طرح یونیورسٹی پہنچ جائے۔
میرا یہ رویہ بارآور ثابت ہوا تھا اور اظفر کو دوبارہ یونیورسٹی آنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ میں اس کے ساتھ کوئی جھگڑا مول نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس طرح خواہ مخواہ خاندان میں فضول چہ میگوئیاں شروع ہو جاتیں اور یہ میرے لیے مناسب نہ ہوتا۔
اس واقعے کے بعد اظفر ہمارے گھر بھی نہیں آیا اور میرے لیے یہ بات بھی باعث اطمینان تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس کے دل یا دماغ میں اگر کوئی فضول بات تھی بھی تو بھی میرے رویے سے ختم ہو گئی ہوگی، یہی وجہ تھی کہ ڈیڑھ ماہ کے بعد جب میں نے اسے چھوٹے تایا کی بیٹی کی مہندی کی تقریب میں دیکھا تو میں نے خاصی خوش دلی کے ساتھ اس کا حال احوال پوچھا۔ ظاہر ہے، میری اور اس کی کوئی دشمنی تو نہیں تھی کہ میں اس سے بات بھی نہ کرتی، نہ ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا تھا جس پر اسے معاف نہ کیا جا سکتا۔ وہ ویسے بھی میرا کزن تھا۔
مگر میرا خیال ہے کہ یہ میری غلطی تھی۔ اب جب مجھے اس کا احساس ہوتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ میں لوگوں کو پرکھنے میں خاصی غیر محتاط تھی۔ بہرحال اسی تقریب میں میں اپنی کزنز کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی، جب اظفر میرے پاس آیا۔
”فاطمہ، مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے؟” اس نے بہت مہذب انداز میں کہا۔
”جی کیجئے۔” میں نے بھی اسی روانی سے جواب دیا، وہ کچھ ہچکچایا۔
”یہاں نہیں۔”
”کیا مطلب؟”





”مجھے علیحدگی میں آپ سے بات کرنی ہے۔” اس نے کہا۔ میں چند لمحے سوچتی رہی اور پھر کندھے اچکا کر اس کے ساتھ چل پڑی ٹینٹوں کے پیچھے ایک سنسان جگہ پر جا کر اس نے مجھ سے جو بات کہی تھی، اس نے میرے پیروں تلے سے زمین غائب کروا دی تھی۔ مجھے قطعاً توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرے گا اور پھر شادی کی آفر بھی کر دے گا۔
چند لمحے تو میں اس کی بات سمجھ ہی نہیں پائی اور جب سمجھ سکی تو مجھے جیسے آگ لگ گئی۔
”مجھے تمہاری محبت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، میں احتشام کی منگیتر ہوں اور چند ماہ بعد ہماری شادی ہو جائے گی، میرے لیے یہی کافی ہے۔” میں نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ وہ میری بات پر ایک دم غصے میں آ گیا۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا اور ہوگا تو میرے مرنے کے بعد ہی ہوگا۔” مجھے اس کی بات سن کر اور غصہ آیا۔
”ٹھیک ہے تو پھر مر جاؤ۔” میں نے خاصی بے رحمی سے کہا۔ میری بات نے اسے اور مشتعل کیا۔
”میں نے زندگی میں صرف ایک لڑکی سے محبت کی ہے اور وہ تم ہو اور تمہارا خیال ہے، میں تمھیں کسی اور سے منسوب ہونے دوں گا؟” مجھے اس کی ہٹ دھرمی پر غصہ آیا۔
”یہ بات میں اگر احتشام سے کہہ دوں تو وہ بھی تمھیں شوٹ کر دے گا۔”
”اس سے پہلے میں اسے شوٹ کر دوں گا۔ وہ کیا چیز ہے؟ آخر ہے ہی کیا اس میں؟” اس کی بکواس مسلسل جاری تھی۔
”وہ ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہے، تم تو اس کے پاؤں کے جوتے کے برابر بھی نہیں ہو۔” میں نے اپنی بات پر اس کی آنکھوں میں خون اترتے دیکھا مگر مجھے اس وقت اس سے کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے انگلی اٹھا کر اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تمہاری شادی اگر کسی سے ہوگی تو مجھ سے ہوگی فاطمہ۔ یہ بات لکھ لو، چاہے تمہاری خوشی سے ہو یا زبردستی۔”
”اس سے پہلے میں خودکشی کر لوں گی۔” اس کی باتیں اب میری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھیں۔ میںوہاں سے آنے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اور میں تمھیں مرنے کبھی نہیں دوں گا۔”
مجھے اس کی اس حرکت پر کرنٹ لگا تھا۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرے گا۔ اس وقت میرا دل چاہا، میرے پاس ایک پسٹل ہوتا اور میں اسے شوٹ کر دیتی۔ میں نے اس سے کہا۔
”میں تمھارے منہ پر تھپڑ مارنا نہیں چاہتی اس لیے میرا ہاتھ چھوڑ دو۔” مگر میری بات پر اس نے میرا ہاتھ چھوڑنے کے بجائے اسے اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔
”میں لڑکیوں سے تھپڑ کھانا پسند بھی نہیں کرتا۔” میں نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اپنا ہاتھ واپس کھینچا مگر اس کی گرفت بے حد مضبوط تھی۔ میں کھول کر رہ گئی اور پھر ایک دم میں نے اپنا ہاتھ چھڑانے کے لیے اس کے ہاتھ کی پشت پر پوری قوت سے دانت گاڑ دیے۔ اس وقت میں نے کسی لحاظ اور نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا، میں اسے زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانا چاہتی تھی۔ اس نے یک دم گھبرا کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”تم میری توقع سے کہیں زیادہ ذلیل ہو۔” میں اسے یہ کہہ کر وہاں سے چلی آئی۔
میرا خیال تھا، اس کے لیے اتنا ڈوز کافی ہوگا مگر وہ انتہائی ڈھیٹ ثابت ہوا۔ شادی کے باقی تمام فنکشنز میں وہ نہ صرف شامل ہوا بلکہ جہاں بھی اس کا مجھ سے سامنا ہوتا، وہ بڑی خوش دلی سے مسکراتا۔ میں نے اس واقعے کا گھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ میں خاندان میں کسی تفرقے کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میں اسے جی بھر کے صلواتیں سناؤں، شاید تب ہی اس کو تھوڑی شرم محسوس ہو۔
شادی کے چند دن بعد تک میں اس واقعے سے خاصی ڈسٹرب رہی مگر شاید یہ پریشانی کا آغاز تھا کیونکہ آگے چل کر میرے ساتھ جو کچھ ہونا تھا، وہ میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
میں نے زندگی میں بہت سے خود غرض اور گھٹیا لوگ دیکھے تھے مگر جس دن بڑے تایا اور تائی اظفر کا رشتہ میرے لیے لے کر آئے، اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ خود غرضی اور گھٹیا پن کی کوئی حد اور کوئی انتہا نہیں ہوتی، بس آدمی کا بے ضمیر ہونا شرط ہے۔ آپ خود سوچئے اگر آپ اپنے بیٹے کا رشتہ کسی ایسی لڑکی کے لیے لے کر جائیں جو پہلے ہی کسی سے منسوب ہو اور چند ماہ بعد اس کی شادی بھی ہونے والی ہو اور آپ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کریں صرف اپنے بیٹے کو خوش کرنے کے لیے تو وہ لڑکی آپ کے بارے میں کیا سوچ سکتی ہے۔
میں یہ سب کچھ جان کر جتنا شاکڈ ہوئی تھی، میرے ماں باپ اس سے زیادہ ہوئے تھے۔ چند لمحوں کے لیے میرے ابو تو تایا کی بات پر کچھ بول ہی نہیں سکے تھے، شاید انھیں یقین نہیں آیا ہوگا کہ جو کچھ وہ سن رہے تھے، وہ صحیح بھی تھا یا نہیں۔
”بھائی جان، میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔ آپ جانتے ہیں نا کہ فاطمہ کی منگنی احتشام سے ہو چکی ہے۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میرے ابو نے بڑے تایا سے پوچھا۔ میں کچن میں موجود تھی اور وہاں سے تمام آوازوں کو سن سکتی تھی۔
”میں جانتا ہوں لیکن مجبور ہوں، اظفر کی خواہش ہے کہ فاطمہ کی شادی اس سے ہو۔” تایا کا لہجہ کچھ دھیما تھا۔
”اگر اس کی ایسی کوئی خواہش تھی تو آپ لوگوں کو اس وقت بات کرنی چاہیے تھی، جب ہم لوگوں نے فاطمہ کا رشتہ ابھی کہیں طے نہیں کیا تھا۔ اس وقت تو بھابی جگہ جگہ فاطمہ کی برائیاں کیا کرتی تھیں۔ اب جب ہم اس کی شادی کرنے والے ہیں تو آپ لوگوں کو خیال آ گیا ہے کہ آپ کے بیٹے کو فاطمہ پسند ہے۔” میری امی نے غصے میں ان سے کہا تھا۔
”تمھیں میری جس بات سے بھی تکلیف پہنچی ہو، میں اس کے لیے تم سے معذرت کرتی ہوں مگر یقین کرو، اظفر نے پہلے کبھی فاطمہ کا ذکر نہیں کیا ورنہ میں بڑی خوشی سے فاطمہ کو اپنی بہو بناتی۔” میں نے پہلی بار تائی کے لہجے میں رعونت کے بجائے التجا دیکھی اور مجھے اس التجا سے بھی اتنی ہی گھن آئی جتنی ان کی رعونت سے آتی تھی۔
”جو بھی ہو، بہرحال فاطمہ احتشام سے منسوب ہے اور اس کی شادی وہیں ہوگی۔” میں نے ابو کو کہتے سنا۔
”نواز، میں تمہارا بڑا بھائی ہوں اور بڑا بھائی باپ کی جگہ ہوتا ہے میں تمھارے سامنے اپنی جھولی پھیلا رہا ہوں، تمھیں کچھ تو احساس ہونا چاہیے۔” میں نے تایا کو گڑگڑاتے سنا تھا۔
”بھائی جان، احساس صرف مجھے کیوں ہونا چاہیے کیا آپ کو احساس نہیں ہے کہ جو آپ چاہ رہے ہیں، وہ کتنی نامناسب بات ہے، احتشام بھی میرے بڑے بھائی کی اولاد ہے پھر میں اس کے ساتھ زیادتی کیسے کروں، آپ خود کو میری جگہ رکھ کر سوچیں۔” میں نے ابو کو پہلی بار بڑے تایا سے بلند آواز میں بات کرتے سنا۔
”میں سب کچھ سمجھتا ہوں نواز مگر میں مجبور ہوں۔ اظفر میرا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ اس رشتے پر بضد ہے۔ اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے اس کی بات نہ مانی تو وہ خودکشی کر لے گا۔ تم اس باپ کے جذبات سمجھ سکتے ہو جس کا ایک ہی بیٹا ہو۔”
”بھائی جان، میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں لیکن میں فاطمہ کی شادی اظفر سے نہیں کر سکتا۔ فاطمہ کے علاوہ اظفر میری جس بیٹی سے شادی کرنا چاہیے گا، میں بغیر کسی تامل کے اس کے ساتھ اس کی شادی کر دوں گا۔”
میں نے ابو کی بات پر تایا کو خاموش ہوتے دیکھا پھر اس کے بعد ان میں کیا باتیں ہوئیں، میں نہیں جانتی کیونکہ میں غصے کے عالم میں کچن سے نکل کر اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
تایا اور تائی بہت دیر تک ہمارے گھر بیٹھے رہے۔ جب وہ واپس گئے تو ہمارے گھر پر ایک عجیب سی اداسی طاری ہو گئی تھی۔ میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھ رہی تھی۔ امی مسلسل اظفر اور تائی تایا کے خلاف بلند آواز میں بول کر اپنا غصہ نکال رہی تھیں اور ابو الگ پریشانی کے عالم میں برآمدے کے چکر لگا رہے تھے۔ انھیں یقینا اپنے بڑے بھائی کو خالی ہاتھ بھیجنے کا افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی خود غرضی کا دکھ بھی ہوگا۔ میری بہنیں اور بھائی ایک عجیب سی خاموشی کے ساتھ اپنے سارے کام انجام دے رہے تھے اور میں اپنے دل میں اظفر کو ایک سے بڑھ کر ایک شان دار گالی سے نواز رہی تھی۔
مجھے امید تھی کہ اتنے واضح انکار کے بعد تایا اور تائی ہمارے گھر دوبارہ کبھی آئیں گے اور نہ ہی اظفر صاحب سے دوبارہ میرا سامنا ہوگا مگر یہ میری غلط فہمی تھی۔ اظفر کے بقول کچھ لوگ مستقل مزاج ہوتے ہیں، آپ مستقل مزاج کی جگہ ڈھیٹ کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ میں ان دونوں کے بجائے ایک اور ”موزوں” لفظ استعمال کرتی ہوں۔
مجھے یادہے، تایا اور تائی کے اس دن ہمارے گھر آنے کے بعد یہ چوتھا یا پانچواں دن تھا، جب اظفر میرے ڈیپارٹمنٹ آ دھمکا تھا۔ میں کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد باہر نکلی اور میں نے اسے کوریڈور میں پایا۔ چند لمحوں کے لیے تو مجھے یقین نہیں ہوا کہ وہ یہاں بھی پہنچ سکتا ہے۔ وہ مجھے ساکت دیکھ کر خود ہی میری طرف بڑھ آیا۔
اس وقت پہلی بار میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس شخص سے کیا کہوں آپ خود سوچئے میری جگہ آپ ہوں تو آپ کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ میں بھی غصے اور بے بسی کے عالم میں اسے اپنی طرف آتا دیکھتی رہی۔ میرے پاس آ کر اس نے کہا۔
”میں جانتا ہوں، مجھے یہاں دیکھ کر تمھیں بہت غصہ آ رہا ہوگا مگر مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے اسی لیے مجھے یہاں آنا پڑا۔” وہ میرے قریب آ کر اتنے مہذب انداز میں بات کر رہا تھا، جیسے میرے اور اس کے درمیان گہری دوستی ہو۔
”یہ وہی ضروری بات ہوگی جس کا جواب تمھارے ہاتھ پر ہے۔” میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ وہ یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
”کیا ہم ساری گفتگو یہیں کریں گے؟” اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں تم مر جاؤ، میں تمہاری قبر پر آؤں گی تو باقی باتیں وہاں کر لیں گے۔” میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ وہ اب بھی متاثر نہیں ہوا۔
”آج میں تم سے آخری بار چند باتیں کرنے آیا ہوں۔ اس کے بعد تم دوبارہ کبھی مجھے نہیں دیکھو گی، یہ میرا وعدہ ہے اس لیے میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم آخری بار میری چند باتیں ٹھنڈے دل و دماغ سے کسی غصے کے بغیر سن لو۔” اس نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
میں چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر میں نے کہا۔ ”ٹھیک ہے آؤ۔” وہ میرے ساتھ یونیورسٹی کے لان میں ایک ایسی جگہ آ گیا جہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ ”ہاں اب کہو۔” میں نے بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بھی بنچ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا۔
”دیکھو فاطمہ، میں نہیں جانتا، محبت کے بارے میں تمھارے کیا نظریات ہیں مگر میرے نزدیک محبت بہت بڑی حقیقت ہے اور…” میں نے بے زاری سے اس کی بات کاٹ دی۔
”اظفر صاحب، میں محبت کے بارے میں آپ سے کوئی لیکچر سننے نہیں آئی جس سے میرے علم میں اضافہ ہو، آپ مجھ سے ٹو دی پوائنٹ بات کریں۔” وہ چند لمحے خاموش رہا۔
”میں نے اپنے والدین کو تمھارے گھر بھیجا تھا، کیا یہ میری سچی محبت کا ثبوت نہیں ہے۔”
”نہیں، یہ آپ کی کمینگی اور گھٹیا پن کا ثبوت ہے۔” اس کا چہرہ دیکھ کر میں اندازہ لگا سکتی تھی کہ میرا جملہ اسے خاصا ناگوار گزرا ہے۔
”جو آدمی کسی لڑکی کو پسند کرنے کے بعد اس کے گھر اپنا رشتہ بھیجے تو کیا یہ اس کی شرافت کا ثبوت نہیں ہے؟”
”جو آدمی اپنے فرسٹ کزن کی منگیتر پر نظر رکھے اور اس پر ڈورے ڈالنے میں ناکام ہو کر اس کے گھر رشتہ بھیجے، وہ کم از کم میری ڈکشنری کے مطابق شریف نہیں کہلاتا۔” میں نے اسے دو بدو جواب دیتے ہوئے کہا۔
”میرا کوئی فرسٹ کزن ہے، نہ میں تمھیں کسی کی منگیتر سمجھتا ہوں۔”
”اگر میں احتشام کی منگیتر کے بجائے اس کی بیوی ہوتی اور تمھارے بقول تمھیں مجھ سے محبت ہو جاتی تو کیا پھر بھی تم مجھے اسی طرح شادی کا پروپوزل دے رہے ہوتے؟”
”ہاں اگر مجھے تم سے اتنی محبت ہو جاتی، جتنی اب ہے تو میں ایسا ہی کرتا۔”




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!