لفاظی — نعمان اسحاق

”یہ گھاس تنکوں کے جھونپڑ سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔وہ اپنے پتھر کے پختہ گھر چاہتے ہیں اور اپنے مرتبان سونے کے سکوں سے بھرا۔” عبدل کے لہجے میں ناراضی تھی۔داروغہ لمحہ بھر اس جذباتی جوان کو دیکھے گیا۔بلاشبہ وہ درست کہہ رہا تھا۔ لوگوں کی تر جیحات بدل رہی تھیں۔ اوروں کی کیا بات کرنی، خود اس کا دل اب اس گھاس ، تنکوں اور گارے والے جھونپڑ کی جگہ پتھر کے کوٹھے کی خواہش کرتا۔ مگر وہ یہ سب عبدل سے نہیں کہہ سکتا تھا۔وہ عبدل کے لیے بزرگ تھا۔ اور بزرگوں کا کام جوانوں کو سمجھاناہوتا ہے۔
”زمانہ ہم سے ہے۔ ہم نہیں بدلیں گے تو زمانہ نہیںبدلے گا،اس لیے خود کو مت بدلو۔”داروغہ نے قائل کرنے کی کوشش کی۔
”ہونہہ! میری محبت لٹ گئی۔ میری زیبا کسی اور کی ہو جائے گی اور آپ مجھے زمانے کے بدلنے اور نہ بدلنے کی توجیحات پیش کر رہے ہیں۔” جوان کے لہجے میں آہ و بکا شامل ہو گئی اور کچھ دیر وہ واویلا کرتا رہا۔
” یہ تم بار بار اپنا پیٹ کیوں تھام رہے ہو؟”داروغہ نے محسوس کیا کہ جوان بار بار اپنے ہاتھ پیٹ پر لپیٹ رہا ہے۔
” کیونکہ…” کچھ کہنے سے پہلے عبدل نے توقف کیا۔
” کیونکہ میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ مجھے بھوک لگی ہے۔”
بے تر تیب مونچھوں کے نیچے داروغہ کے ہونٹ مسکر انے لگے۔ ابھی کچھ دیر پہلے جوان مینار ِ خاموشی میں لیٹا خود کو مردہ قرار دیتے ہوئے گدھوں کا رزق بننا چاہتا تھا اور اب اپنی بھوک کا تذکرہ کر رہا تھا۔یہ جوانی ہوتی دیوانی ہے اس کے سنہرے پن کے سامنے سب رنگ پھیکے ہیں۔
”تم بیٹھو! میں بندوبست کرتا ہوں۔” داروغہ جھونپڑ سے باہر آیا۔ پھونس اکھٹی کر کے چمقاق سے آگ جلائی اور چاول ابالنے کے لیے رکھ دیے۔ چاول ابل گئے تو وہ ابلے ہوئے چاول تھالیوں میں لیے چلا آیا۔ عبدل اور اس نے سیر ہو کر چاول کھائے۔اس وقت داروغہ عبدل کو جتنا سمجھا سکتا تھا، سمجھا تا رہا۔
”محبت نہیں ملتی تو گزارہ کر لے، انسان جینا سیکھ لیتا ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ محبت بھول جاتی ہے۔”
نام تو اس کا شانتل تھا مگر اب کون یہ نام جانتا تھا۔ وہ داروغہ تھا اور اب عام و خاص اسے داروغہ کہہ کر بلاتے۔
عبدل کے جانے کے بعد شام ڈھلے تک داروغہ عبدل اور اس کی باتوں کے الہڑ پن کو سوچے گیا۔ یہ سوچتے سوچتے اسے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے جب دن بھر اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ بساط کھیلنے کے علاوہ اسے کچھ اور نہ سوجھتا۔ ماں باپ کوئی ہنر سیکھنے کا کہہ کہہ کر تھک گئے مگر وہ کوئی ہنر نہ سیکھا۔ لڑکپن اور جوانی تو ایسے گھومتے گھامتے ، کبھی ادھر اور کبھی ادھر بیٹھتے ہوئے گزاری۔ ادھیڑ عمری آئی،بالوں میں سفید رنگ نمایاں ہواتو لوگ ان سفید بالوں کا خیال کرنے لگے۔ انہی دنوں موت کے اس مینار،مینارِ خاموشی کے سابقہ داروغہ کا انتقال ہو گیا۔مینار کے ساتھ ایک کچے جھونپڑ میں رہنا، مینار کی سیڑھیوں کی صفائی ستھرائی، مینار کے پیالے جہاں مردہ لا کر رکھے جاتے اس جگہ کی دیکھ بھال اور جب گدھ گوشت کھا لیںتو ہڈیوں اور استخوان کو درمیانی کنوئیں میں ڈالنا۔ کوئی بھی دوسرا جی دار یہ ذمہ داری سنبھالنے کے لیے آگے نہ بڑھااس لیے شانتل کی خواہش پر اسے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔خیر یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ بیس سال ہو چلے۔یوں بھی اب نئی نسل دبے لفظوں میں کہنے لگی تھی کہ انہیں مردے جلانے چاہیے یا پھر دفنانے چاہیے۔ خیر اگر انہوں نے مردے جلانے یا دفنانے شروع کیے تو یہ بہت بڑی معاشرتی اور اقدار کی تبدیلی ہو گی۔ بلاشبہ معاشرت اور اقدار اس قدر جلد تبدیل ہونے والے عناصر نہیں۔
یوں ہی لیٹے لیٹے وہ اکتاہٹ سے اٹھ بیٹھا ۔ اپنی اس اکتاہٹ سے بعض اوقات وہ خود تنگ آجاتا۔بھلا وہ کوئی عبدل جیسانوجوان ہے جو اکتاتا پھرے، اس کی طبیعت میں ٹھہرائو ہونا چاہیے۔
بظاہر تو ایک ٹھہرائو تھا مگر اندرونی طور پر بہت کچھ مختلف تھا۔ وہ بلا وجہ مسکرانے لگا۔اٹھ کر جھونپڑ کا دروازہ مقفل کیا اور ایک کونے میں رکھے صندوقچے کو کھولنے لگا۔ کپڑے کی تہوں کے نیچے مرتبان رکھا تھا۔ اس نے مرتبان اٹھا لیا۔ سکوں کی دل کی دھڑکن تیز کرنے والی چھنچھناہٹ اس کے رگ و پے میں دوڑتے خون کی رفتار تیز کر گئی۔
مرتبان سنہری سکوں سے بھرا تھا۔ان سکوں سے وہ جھونپڑ کی در و دیوار کو پختہ اور مضبوط کروائے گا۔روز ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ مچھلی کھایا کرے گا۔ یہ سکے خرچ ہو جائیں گے، ان کی جگہ نئے سکے لے لیں گے ۔ مرتبان کا ڈھکن کھول کر اس نے مٹھی بھر سکے نکالے ۔ انہیں دیکھتا رہا ، مسکراتا رہا۔
تبھی دروازہ زور زور سے بجایا جانے لگا۔
”یہ اس کے جھونپڑ میں کون آگیا۔ کیا کوئی مردہ لایا گیا ہے؟ مگر شہر میں تو کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔” کیا پتا وہ لا علم رہ گیا ہو۔مرتبان دوبارہ صندوقچے میں رکھتے ہوئے اس نے صندوقچہ مقفل کیا اور دروازہ کھولنے لگا۔
آنے والا عبدل تھا۔ مگر وہ اکیلا نہیں تھا ۔اس کا باپ شہر کے رکھوالے سپاہی اور کچھ معزز آدمی اس کے ساتھ تھے۔ ان کے چہرے تنے ہوئے تھے ۔وہ کچھ سمجھ نہ پایا۔
یہ عبدل ان کو کیوں لایا ہے؟ اسے غیر معمولی پن کا احسا س ہونے لگا ۔
”یہ داروغہ جسے آپ نے اتنا مقدس فریضہ سونپا کہ ہمارے مردوں کی حفاظت کرے ۔یہ انہیں بیچ کھاتا ہے ۔”عبدل چیخ چیخ کر کہنے لگا ۔
داروغہ کا دل اچھل کر حلق میں آٹکا۔
”کیا بکواس کرتے ہو؟ ”اس کا دل چاہا کہ عبدل پر جھپٹ پڑے اور اس کا منہ نوچ لے ۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں ۔میں بہانے سے اس کے پاس آیا ۔اسے اپنی محبت کی جھوٹی کہانی سنا کر رام کیا ۔اور جب یہ جھونپڑ سے باہر گیا تو میں نے یہ جگہ کرید کر دیکھی ۔یہاں ہڈیا ں دفن ہیں اور اس کے صندوقچے میں مرتبان سونے کے سکے سے بھرا ہوا ہے ۔داروغہ کے جھونپڑے میںہڈیوں کے مدفن ہونے کی اس کے سوا اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ہڈیوں کا کاروبا ر کرتا ہے ۔یہ جادوگروں اور سفلی عمل کرنے والوں کو کھوپڑیاں اور ہڈیاں بیچتا ہے ۔بچ جانے والی ہڈیاں یہیں دفنا دیتا ہے ۔آپ اپنی تسلی کے لیے یہاں کھود کر دیکھ لیں ۔”دوسپاہی آگے بڑھے اور زمین کریدنے لگے ۔داروغہ نے مزاحمت کی کوشش کی تو دو سپاہیوں نے اسے گرفت میں لے لیا ۔
تھوڑی سی کھدائی پر ہی ہڈیاں نکل آئیں اور صندوقچے سے سکوں بھرا مرتبان بھی۔
شہر کے معزز آدمی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے داروغہ کو لعن طعن کرنے لگے۔سزا کے تعین کی باتیں ہونے لگیں ۔قاضی کے دربا ر میں پیش کرنے کا کہا جانے لگا۔
”ابھی میں آپ لوگوں کو ان جادوگرو ں کے ٹھکانے بھی بتاؤں گا جو اپنے کالے عمل سے شہر کے لوگوں کو بھٹکاتے ہیں ۔”عبدل معززینِ شہر سے کہہ رہا تھااور پھر اپنے لکڑہارے باپ سے کہنے لگا :
”آپ یونہی مجھے قائل کرتے رہتے ہیں کہ کلہاڑا سنبھالو اور لکڑیاں کاٹو ۔آپ کا بیٹا پیدائشی جاسوس ہے۔میں کھوج لگاکر شہروالوں کی مدد کیا کروں گا ۔”عبدل فتح کی خوشی چہرے پر سجائے بولے جا رہا تھا اور داروغہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے ابھی تک حیران تھا کہ کس قدر آسانی سے وہ اس لڑکے سے بے وقوف بن گیا اور اس کی لفاظی میں آکر اپنے راز کی حفاظت نہ کر سکا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جنگی وردی کا قیدی — نجیب محفوظ — مترجم محمود رحیم

Read Next

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!