لفاظی — نعمان اسحاق

کھٹکے کی آواز سے داروغہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کھٹکے کو اپنے وسوسے سے تعبیر کرتا، اپنی گھاس پھونس اور گارے کے لیپ سے تیار شدہ جھونپڑ کی کچی کھڑکی سے اس نے ایک ہیولے کو مینار کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔
مینارِ خاموشی… یہ کوئی عام مینار نہ تھا۔ آبادی کے لوگوں کی زندگی کا آخری پڑائو۔جب روح اور جسم کا تعلق منقطع ہو جاتا، روح پرواز کر جاتی اور فضا میں بے رنگ سی تحلیل ہوجاتی۔جسم کو آگ کے سپرد نہ کیا جاتا کہ آگ جسم کو راکھ کر دے گی اور یہ راکھ فضا کو آلو دہ کرے گی۔مٹی کے سپرد نہ کیا جاتاکہ مٹی کو بھی صاف رکھنا ہے۔پانی کے حوالے بھی نہ کیا جاتاکہ پانی زندگی ہے۔بے روح جسم کا پانی میں کیا کام۔
چنانچہ مردہ اجسام کو اس پیالہ نما کھوکھلی عمارت میں لایا جاتا۔سیڑھیا ں جو عمارت کی اور جاتیں۔ اور گول پیالہ جس میں نعشوں کو ترتیب سے رکھا جاتا۔ مردہ جسم پڑے ہوتے اور گدھوں کی چاندی ہو جاتی۔وہ سیر ہو کر کھاتے رہتے۔ اور جب گوشت نہ رہتا اور صرف استخوانی ڈھانچہ بچ جاتاتو اس ڈھانچے کو پیالے کے وسط میں موجود کنویں میں دھکیل دیا جاتا، کہ فانی انسان کا یہی انجام ہے۔
یوں تو مشہور تھا کہ مینار ِ خاموشی پر سفید روحوں کا قبضہ ہے۔ سفید جبہ پہنے روحیں رات کے پچھلے پہر اور کبھی کبھار خاموش دوپہروں کو مینار پر اترتی ہیںاور ان خاموش مردوں سے ہم کلام ہوتی ہیں۔ مگر داروغہ جانتا تھا کہ یہ سب بے پرکی ہے۔شہر والوں نے کہانیاں گھڑ لی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں۔ سفید روحوں کا وجود ہے اور نہ کبھی ان کی مینارِ خاموشی پر آمد ہوئی ہے۔
ہیولا سیڑھیاں چڑھتا مینار کی بلندی تک جا پہنچا۔صبح دم کسی ذی روح کا یوں مینار پر آنا چہ معنی ندارد۔
ہاتھ میں بانس سنبھالے وہ جھونپڑی سے باہر نکلا او رمینار کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
سیڑھیاں چڑھتا وہ مینار کے اند ر داخل ہوا۔اور وہ جو توقع کر رہا تھا کہ کوئی دیوانہ سفلی عمل کے لیے مینار میں آیا ہو گا، ایسا کچھ نہ تھا بلکہ ایک نو جوان ادھ کھائے مردہ اجسا م کے درمیان لیٹا تھا۔سانسوں کی زیروبم اس کے زندہ ہونے کی اطلاع دیتی۔
داروغہ ہڈیوں اور کھوپڑیوں کا خیال کرتا نوجوان کے پاس چلا آیا۔
نوجوان بانکا سجیلا تھا۔ اپنے شہر کا باسی تھا۔داروغہ کو نقوش جانے پہچانے لگے۔ مگر کس گھر کا چشم و چراغ تھا ، اسے یاد نہ آیا۔
”اے جوان! یہاں کیا کرتے ہو؟” داروغہ نے قدرے سخت لہجے میں پو چھا۔
نوجوان جو آنکھیں موندے لیٹا تھا ، نے دھیمے سے آنکھیں کھولیں۔داروغہ کو دیکھااور دیکھتا ہی رہا۔
”کیا تم سفید روح ہو؟ مردوں کی ہمراز سہیلی۔” نوجوان نے پوچھا۔
” نہیں پاگل لڑکے! میں مینار کا داروغہ ہوں اور تم یہاں کیا کرتے ہو؟” داروغہ کا لہجہ پہلے سے زیادہ کھردرا تھا۔
” داروغہ جائو ، آرام کرو۔ مردوں کے ساتھ باتیں نہیں کی جاتیں۔” لڑکے کی آواز بوجھل تھی۔ مگر وہ نشے کے زیرِ اثر نہ لگتا۔وہ اب دوبارہ سے آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ اور خود کو مردہ قرار دے رہا تھا۔
داروغہ بانس کی پچھلی نوک لڑکے کی ران میں چبھونے لگا۔
”دیوانے لڑکے اٹھو! مْردے خود سے نہیں آتے۔ کندھوں پر لاد کر لائے جاتے ہیں۔وہ بے بس ہوتے ہیں۔باتیں نہیں کرتے۔”
”شہر کے لوگ مجھے کندھے پر نہیں لادتے مگرمیں بے بس ہوں۔ میں زندہ نہیں مردوں میں سے ہوں ۔مجھے یہاں لیٹے رہنے دو۔بھور سمے گدھ آئیں گے ، میرا گوشت کھائیں گے اور اپنا پیٹ بھریں گے۔” لڑکے کی آوازمیں نمی گھلنے لگی۔ داروغہ کا دل نرم پڑنے لگا۔
” تمہیں کیا غم ہے کہ اس جوانی میں تم زندگی سے منہ موڑ کر موت کی باتیں کرتے ہو؟مرغ اور بٹیر بھون کر کھانے کی بجائے خود کو گدھوں کا شکم بھرنے کے لیے پیش کرتے ہو۔کیا غم ہے جوان؟”جوان چپ چاپ لیٹا رہا۔داروغہ کو اس کے چہرے پر پیلاہٹ بکھرتی محسوس ہوتی۔
” زندگی کا سب سے بڑا غم، محبت کا غم!”داروغہ نے لڑکے کو کہتے سنا۔
” مجھے اپنا غم بتائو۔ ہو سکتا ہے کہ میں تمہارے کام آئوں۔مگر یہاں نہیں ، میرے جھونپڑ میں آئو۔اس مینا ر میں ہر کسی نے آنا ہے مگر اپنے مقرر کردہ وقت پر۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا وقت دور ہے۔اُٹھو شاباش! میرے پیچھے پیچھے آئو۔”
”زیبا لڑکی نہیں حور ہے ۔میں اس سے محبت کرتا ہوں۔یہ محبت بھی کیا چیزہے ۔حاصل اور محصول کے کلیے کے بغیر محبت مکمل نہیں اور نا مکمل محبت زندگی سے اچاٹ کر دیتی ہے ۔”وہ لڑکا کہے جاتا۔
”پہلے اپنے بارے میں بتاؤ۔”داروغہ نے لڑکے کو ٹوکا۔
”میں عبدل ہوں ۔لکڑہارے کا بیٹا ۔”جوان نے اپنا تعارف کرایا ۔شہر بھر میں صرف تین تو لکڑہارے تھے۔لڑکے نے بتایا تو جھٹ سے داروغہ کے ذہن میں ایک لکڑ ہارے سے اس کی مشابہت آگئی ۔یقینا وہ اس ناٹے قد کے لکڑہارے کا بیٹا تھا جسے ایک روز ایک رحم دل پری سنہری کلہاڑا دے گئی تھی۔
”کیا تم نقرہ کے بیٹے ہو ؟وہ سنہری کلہاڑے والا لکڑہارا۔”داروغہ نے پوچھا ۔عبدل اثبات میںسرہلانے لگا۔
”ہاں! میں اسی دیانتدار لکڑہارے کا بیٹا ہوں جس کا کلہاڑا دریا میں گر گیا تھا اور ایک پری نے اسے سونے اور چاندی کے کلہاڑے دکھائے تھے مگر میرے ایماندار باپ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ اس کے نہیں ۔پری نے انعام میں وہ چاندی اور سونے کے کلہاڑے میرے باپ کو دیے اور میرا باپ ان کلہاڑوں کو آج بھی محض سجاوٹ کے لیے دیوار پر ٹانگے رکھتا ہے ۔اگر بازار میں اس کے دام لگواتا تو شاید ہمارے حالا ت اتنے برے نہ ہوتے ۔اور نہ زیبا کا باپ ہماری غربت کی وجہ سے مجھے اپنی بیٹی دینے سے انکار کرتا۔”
”کیا تمہیں دو وقت کا کھانا میسر نہیں ؟”داروغہ نے پوچھا ۔
”میسر ہے ۔”
”تو پھر اپنے حالات کو برا مت کہو جوان ۔قدرت کے خزانے میں سے اس مٹی کی مورت کا حصہ محض دو وقت کی روٹی ہے اور بالآخر اس مورت نے مینارِخاموشی کی اونچائیوں میں گدھ کی خوراک ہی بننا ہے۔”
”تو پھر آپ نے مجھے اس مینار میں کیوں نہیں لیٹے رہنے دیا ۔کیوں مجھے یہاں لائے ۔”عبدل کا لہجہ تیز ہونے لگا۔ قبل اس کے کہ داروغہ کوئی منطقی جواب دیتا، عبدل کہنے لگا ۔
”زمانہ بدل گیا ہے ۔لوگ اب محض دو وقت کی روٹی پر اکتفا نہیںکرتے ۔وہ سونا چاندی کی خواہش کرتے ہیں ۔یہ گھاس تنکوں کے جھونپڑ ۔”کہتے ہوئے عبدل پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کو رگیدنے لگا۔
”فرش مت اکھاڑو۔”داروغہ نے جلدی سے اسے ٹوکا۔


Loading

Read Previous

جنگی وردی کا قیدی — نجیب محفوظ — مترجم محمود رحیم

Read Next

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!