”کیا یہ کوئی Folk singerہیں؟”
سارہ نے جیمو ماموں کی تصویر دیکھ کر پوچھا۔ تصویر میں وہ بانسری بجاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
”نہیں ، یہ Folk singer تو نہیں ہیں مگر انہیں میوزک، اور میوزیکل انسٹرومنٹس میں کافی interest ہے۔ویسے تو رشتے میں یہ میرے چاچو لگتے ہیں مگر میں بھی سب لوگوں کی طرح انہیں جیمو ماموں ہی کہتی ہوں۔”
عشنا نے مسکرا کر کہا۔
”اور یہ کالے برقع میں میری پھپھو ہیں… روشنی پھپھو بے چاری نہ میک اپ کرتی ہیں نہ جیولری پہنتی ہیں۔ گھر سے باہر بھی کم کم ہی نکلتی ہیں۔ تمہارے سوٹ بھی انہوں نے ہی سیے ہیں۔”
عشنا نے اسے روشنی کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔
”She is a simple lady”
سارہ نے روشنی کی تصویر دیکھ کر کہا۔
”یہ میری کزن ہیں۔ رانیہ باجی ، جو زوار آفندی کی کولیگ بھی ہیں۔ اور تھیٹر آرٹسٹ بھی ہیں۔”
عشنا نے سارہ کو رانیہ کی تصویر دکھائی۔
”تمہاری کزن تو بہت خوبصورت ہے۔”
سارہ نے سراہتے ہوئے کہا۔
”ہاں… یہ میرے باقی کزنز ہیں۔ عنایا باجی، ثمن، ٹیپو، انیسہ پھپھو… اور یہ زوار آفندی۔”
وہ اسے تصویریں دکھا رہی تھی۔
”یہ پتنگ بازی کی تصویریں ہیں، یہ پکنک کی… یہ باربی کیو نائٹ کی، یہ دریا کی سیر کی… اور یہunique architecture والا جیمو ماموں کا گھر ہے… یہ تھیٹر کی تصویریں ہیں۔”
عشنا مسلسل بولتی جارہی تھی۔
”بہت اچھی تصویریں ہیں۔ کاش میں بھی پاکستان جاسکتی۔”
سارہ نے پھیکے سے انداز میں کہا۔
”تم وہاں ضرور جائوگی سارہ۔ ایک ایڈونچر کے unsuccessfulہونے سے کچھ نہیں ہوتا… ہم بہت جلد دوسرا ایڈونچر شروع کرلیں گے۔ تم ہمت نہ ہارو…”
اس نے سارہ کو تسلی دی۔
سارہ کچھ دیر کے لئے چپ ہوگئی۔
”عشنا! تم ان سے خود بات کرلیتی۔”
کچھ دیر بعد سارہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
عشنا نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”سارہ… میں نے خود بھی زوار آفندی سے بات کی تھی۔ اور کہا تھا کہ میں نے جاکر سارہ کو جواب دینا ہے۔”
عشنا نے پھیکے سے انداز میں کہا۔
”پھر کیا کہا انہوں نے ؟”
سارہ نے بے چینی سے پوچھا۔
”کہنے لگے کہ سارہ کو کوئی جواب نہ دینا۔”
اس نے نظریں جھکاتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ سارہ کچھ بول نہ سکی۔
”سارہ میں تمہیں hurt نہیںکرنا چاہتی تھی مگر جو ہوا وہ بتانا بھی ضروری ہے۔ میں تم سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتی ہوں۔ مگر تم فکر نہ کرو۔ ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔”
عشنا نے سارہ کے پھیکے پڑتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔ سارہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
عشنا نے نرمی تسلی دینے والے انداز میں اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
یہ دکھ صرف سارہ کا ہی نہیں بلکہ عشنا کا بھی تھا۔
٭…٭…٭
عقیل بھائی کے کینیڈا جانے کے بعد روشنی بہت اداس ہوگئی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے ساتھ یہاں کی ساری رونقیں بھی لے گئے ہیں۔
وہ سارا دن گھر میں رہتیں گھر کے کام کرتیں ان کے گھر کوئی نوکر بھی نہیں تھا۔
ان کے میاں صبح گئے رات کو گھر آتے۔ ان کی اپنی ہی سرگرمیاں تھیں۔
ساری سختیاں، پابندیاں صرف بیوی کے لئے ہی تھیں۔ خود تو وہ آزاد منش آدمی تھے۔
روشنی کے گھر نہ ٹی وی تھا۔ نہ ریڈیو، نہ کتابیں نہ رسالے اور نہ ہی ان کے پاس موبائل تھا۔ ان کے شوہر عجیب و غریب آدمی تھے۔ سمجھتے تھے کہ خود تو وہ گناہ گار ہو ہی چکے ہیں مگر بیوی کو پردہ کروا کر شاید ان کے گناہوں کا ازالہ ہوجائے۔
روشنی اس بارے میں ان سے بحث نہیں کرسکتی تھیں۔
اتنے سال انہوں نے اس چار دیواری میں خاموشی سے گزار دیئے تھے اور صبر کیا۔
مردوں کے اس معاشرے میں عورت کی خواہشات، اس کی رائے، اس کے نظریات اہم نہیں سمجھے جاتے۔ زندگی کا ساتھی خود کو شوہر کے بجائے حکمران سمجھتا ہے۔
وہ سارے کام ختم کرنے کے بعد کھڑکی کے پا س آکر بیٹھ گئیں۔ کبھی گلی میں چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھتیں، کبھی سامنے والی چھت پر دانہ چگتے کبوتروں پر نظر ڈالتیں۔
اس گھر میں تنہائی کا آسیب تھا جو انہیں خوفزدہ کئے رکھتا۔ پھر گھبرا کر انہوں نے برقع اوڑھا اور اگلی گلی کے کونے میں واقع رانیہ کے گھر چلی آئیں۔
رانیہ کی امی کچن میں کھانا بنارہی تھیں۔ ٹیپو اور ثمن سکول کالج سے نہیں لوٹے تھے۔ عنایا بھی گھر پر نہیں تھی اور رانیہ حسب معمول اپنے کمرے میں تھی۔
جیموماموں اپنے مخصوص تخت پر براجمان تھے اور بہت غور اور توجہ سے روشنی کی بات سن رہے تھے۔
”جس گھر میں فون نہ ہو، انٹرنیٹ نہ ہو، ٹی وی، رسالے کتابیں نہ ہوں، وہاں کوئی اپنا وقت کیسے گزارے!”
وہ اداس لہجے میں بولیں۔
”بہت ہی ظالم ہیں آپ کے میاں۔ خود کو تو وہ گناہ گار تسلیم کر ہی چکے ہیں۔ آپ کے معاملے میں اس حد تک تنگ نظر ثابت ہوئے۔ انہیں خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ کسی مذہب میں بھی دوسروں کی دل آزاری کی اجازت نہیںہے۔”
جیمو ماموں نے سنجیدگی سے کہا۔ انہیں تو ہمیشہ ہی روشنی کے شوہر پر غصہ آتا تھا۔
امی کی طرف یا یہاں آتی ہوں تو لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے۔ کیا کروں مجبوری ہے۔ خود کو کاموں میں مصروف رکھتی ہوں۔ ہانڈی، روٹی اور سلائی کڑھائی کے علاوہ گھر میں بھلا اور کیا کرسکتی ہوں۔”
وہ ملول سی آواز میں بولیں۔
”ہانڈی روٹی اور سلائی کڑھائی بھی بڑے کام ہیں۔ جو عورتیں آج کل یہ کام بھی کرلیں تو بڑی بات ہے۔”
وہ مسکرا کر بولے۔
”مگر قدر پھر بھی کوئی نہیں کرتا جیمو بھائی…”
وہ اداسی سے بولیں۔
جیمو ماموں نے انہیں تسلی دی۔
”آپ کی زندگی کے ساتھی تو موجود ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھیں جو جیون ساتھی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ تنہا ہی حالات کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ”
جیمو ماموں نے نرمی سے کہا۔
”کہیں آپ کا اشارہ اپنی طرف تو نہیں؟”
وہ مسکرائیں۔
”نہیں… میں نے تو ایک عام سی بات کی ہے۔ میں تو اپنی زندگی میں خوش ہوں۔ کیا میں آپ کو خوش نہیں لگتا؟”
وہ بھی مسکرائے۔
”جی… آپ خوشیاں بانٹنے والے انسان ہیں اس لئے خوش رہتے ہیں۔”
روشنی نے دھیرے سے کہا۔
”آپ بھی خوشیاں بانٹنے والی انسان بن جائیں۔”
وہ برجستہ بولے۔
”مجھے آپ کی طرح اپنے غم چھپانے نہیں آتے ہیں۔ آپ کی طرح باہمت نہیں ہوں۔”
انہوں نے بہت گہری بات کردی تھی۔
وہ لاجواب ہوگئے۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ میں اداسی کا رنگ نمایاں تھا۔
”خیر… اپنے میاں کی دوست کے بارے میں بتائیں۔ کیا وہ عورت ابھی بھی انہیں فون کرتی رہتی ہے؟”
انہوں نے بات بدل کر پوچھا۔
”جی ہاں… مگر اب میں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے۔ میں اس عورت کے بارے میں نہیں سوچتی۔ اور اب تو مجھے ان دونوں کے تعلق سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔”
روشنی نے سنجیدہ آواز میں کہا۔
جیمو ماموں اس کا یا پلٹ پر ٹھٹک گئے۔ کہاں وہ اس عورت کو کوسنے دیا کرتی تھیں، رویا کرتی تھیں۔ جیمو ماموں سے مشورے مانگا کرتی تھیں کہ کسی طرح وہ عورت ان کے شوہر کا پیچھا چھوڑ دے اور کہیں دفعان ہوجائے۔اور اب شاید روشنی نے بڑا خطرناک قسم کا سمجھوتہ کرلیا تھا۔
”یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ ان دونوں کے بارے میں نہیں سوچتیں مگر خطرناک پہلو یہ ہے کہ شاید اب آپ اپنے شوہر سے محبت بھی نہیں کرتیں۔”
جیمو ماموں نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ کسی دھیان سے چونکیں۔
”محبت؟”
وہ کہیں کھو گئیں۔ ماضی میں ،یادوں کے سفر پر نکل گئیں۔ جب انہوں نے دلہن بن کر ا س آنگن میں قدم رکھا تھا۔ نکاح نامے پر حق مہر لکھا گیا، جیب خرچ بھی لکھا گیا۔ مگر محبت کے بارے میں لکھنے کا کوئی خانہ ہی نہیں تھا۔ سسرال والوں نے مطالبے کرکرکے جہیز لیا، زبردستی تحفے تحائف لئے۔ مگر محبت کا ذکر گول کر گئے۔ شوہر بھی ہمیشہ محبت کے معاملے میں کیوں انجان بنے رہے گویا دنیا میں کبھی اس کا نام تک نہ سنا ہو۔ کام کاج ، ذمہ داریاں، فرائض، بس وہ اسی چکر میں الجھ کر رہ گئیں۔ محبت تو نہ انہیں یاد رہی نہ ہی کسی اور نے یاد دلائی۔
”کیا ہوا؟آپ کیا سوچنے لگ گئیں؟”
جیمو ماموں نے ان کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرا کر انہیں متوجہ کیا۔
وہ کسی دھیان سے چونکیں۔
”جی… بس محبت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ عجیب سا لفظ لگتا ہے یہ… دل کو اداس کردینے والا آنکھوں کو نم کردینے والا۔”
انہوں نے بہت سے آنسو دل میں ہی چھپالئے۔
”میں جانتا ہوں… خود غرض اور بے حس انسان سے محبت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔”
وہ مدھم آواز میں بولے۔
روشنی نہ تائید کرسکیں ، نہ تردید… وہ الجھ کر رہ گئی تھیں۔
دل میں جھانکا تو وہاں سناٹا تھا، ایک خالی پن سا تھا… محبت کہیں نہیں تھی۔ تنہائی کے آسیب نے شاید محبت کا احساس چھین لیا تھا۔
ماموں نے ان کے چہرے کی اداسی کو دیکھا پھر کونے میں پڑا اپنا ستار اٹھا لیا۔
”چلیں… آپ اداس نہ ہوں… میں آپ کو غزل سناتا ہوں… یہ غزل آپ کا دکھ کم کردے گی۔”
وہ بے ساختہ مسکرادیں۔
ماموں کسی ماہر گلوکار کی طرح دھیرے سے ستار بجاتے ہوئے غزل گانے لگے۔
دشتِ تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہے
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے ثمن اور گلاب
دشتِ تنہائی میں ……………
ماموں کی آواز میں بہت سُر تھا۔
وہ اپنی غزل میں گم تھے۔
روشنی کچھ دیر کے لئے اپنے دکھ اور غم بھول گئیں۔
٭…٭…٭
رانیہ بے حدا داس تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ فارس کو فون کرتی رہتی مگر وہ اس کا فون نہیں اٹھاتا تھا اور اب اس کے موبائل پر فارس کی بے شمار مسڈکالز آئیں مگر وہ نظر انداز کردیتی۔ فارس اُسے میسجز کرتا رہتا مگر وہ ڈیلیٹ کردیتی۔ وہ خود بھی دکھ اور کرب سے گزر رہی تھی۔ محبوب کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔
وہ اپنے کمرے میں تنہا اور اداس بیٹھی تھی۔ روشنی اس کے کمرے میں آئیں۔
”یہ کیا؟ تم اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتی؟ اٹھو، باہر آکر سب کے ساتھ بیٹھو، سب کے ساتھ باتیں کرو…”
وہ اس کے کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔
”میرا دل نہیں کرتا۔”
وہ اپنے پائوں سمیٹ کر بیٹھ گئی۔ بید کے کرائون سے ٹیک لگالی۔
”کیوں؟ تمہارے دل کو کیا ہوا ہے؟”
انہوں نے اس کی منگنی ٹوٹنے کا ذکر قصداً نہیں کیا وہ اس سے اس کی منگنی ٹوٹنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ نہ کسی دکھ کا اظہار، نہ کوئی افسوس، انہوں نے اس موضوع کو چھیڑا ہی نہیں۔
”اپنے گھر والوں کے لئے بڑی قربانی دی ہے میں نے…”
کچھ دیر بعد اس نے اداس آواز میں کہا۔ اس کے لہجے میں ویرانی اور آنکھوں میں خالی پن سا تھا۔
”گھر والوں کے لئے قربانیاں دینی ہی پڑتی ہے رانیہ۔ کوئی احسان نہیں ہوتا… یہ تو فرض ہوتا ہے۔”
وہ رانیہ کے چہرے کی اداسی دیکھتے ہوئے سنجیدہ آواز میں بولیں۔
رانیہ نے اپنی بوجھل پلکیں اٹھا کر روشنی کو دیکھا۔
”سارے فرائض صرف بیٹیوں کے لئے ہی کیوں ہوتے ہیں روشنی باجی؟”
اس نے عجب دکھ کے عالم میں ان سے سوال کیا۔ اس کی آہوں میں لپٹی آواز نے روشنی کو چونکایا تھا۔ وہ آج انہیں اتنی ٹوٹی ہوئی کیوں لگ رہی تھی۔ ایسا بھی کیا ہوگیا تھا بس منگنی ہی تو ختم ہوئی تھی۔ یہ تو انہیں معلوم تھا کہ وہ فارس سے محبت کرتی ہے مگر ان کے خیال میں وہ فارس کی اصلیت اور نیت اب جان چکی تھی۔ پھر اتنی اداسی کی کیا وجہ تھی!
روشنی اُلجھ گئیں۔