وہ اس کی بات پر ذرا چونکا۔
”میری وجہ سے آپ کی منگنی ختم نہیں ہوئی۔ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو آپ لوگوں کے اپنے فیملی ایشوز تھے۔”
اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
رانیہ کو اس کی بات پر جھٹکا لگا۔ تو وہ پوری طرح باخبر تھا۔ اس کے گھر والوں کی بری عادت تھی کہ وہ لوگ کوئی بھی بات راز میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ اسے اپنے گھر والوں پر بھی غصہ آیا جو اتنی سی بات چھپا نہیں سکے۔ بات تو سچ تھی کہ اس کی منگنی ختم ہونے میں زوار کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ خاموش ہوگئی۔
زوار اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پایا۔ چاند کی چاندنی میں اُس کا روپ دمک رہا تھا۔ اس کے چہرے کے نقو ش خوبصورت تھے۔ خفا اور ناراض انداز میں بیٹھی وہ اس کے دل میں اتر گئی۔
”میں وہ تاج آپ کو واپس کرنا چاہتی ہوں۔”
کچھ دیر بعد اُس نے اکھڑے ہوئے انداز میں کہا ۔
وہ چونکا۔
”وہ تاج ایک تحفہ ہے اور کسی کا تحفہ واپس نہیں کیا جاتا۔”
زوار نے رسانیت سے کہا۔
رانیہ کے انداز میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”مجھے غیر لوگوں سے قیمتی تحفے لینے کی عادت نہیں ہے۔”
وہ سرد آواز میں بولی۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”اگر میں غیر ہوتا تو اس وقت یہاں آپ کے گھر پر آپ کے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔”
زوار نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
وہ لاجواب ہوگئی۔
دیوار کے پار بیٹھا ہمسایہ یہ گفتگو سن کر ٹھٹک گیا۔ یہ کس قسم کی گفتگو تھی۔
ایک ناراض تھا دوسرا مشتاق تھا۔ بلکہ شاید ایک عاشق تھا… اور دوسرا محبوب تھا۔
وہ کچھ کچھ سمجھ گیا۔
”آپ میرے گھر والوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں، مجھے نہیں۔”
وہ ناراض آواز میں بولی۔
”میں آپ کو بے وقوف بنانا بھی نہیں چاہتا ہوں۔”
اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
رانیہ نے بے ساختہ لب بھینچ لئے۔ وہ زوار سے باتوں میں نہیں جیت سکتی تھی۔
وہ خاموش رہی۔ زوار ذرا سنجیدہ ہوا۔
”اگر آپ مجھ سے سارہ آفندی والے معاملے پر ناراض ہیں تو مجھے سوچنے کے لئے تھوڑا وقت دیں۔ تب تک وہ تاج آپ کے پاس امانت رہے گا۔”
زوار نے گہرا سانس لے کر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی ۔ پھر سوچا کہ کیا پتا اسی طرح سارہ کا بھلا ہوجائے۔
دیوار کے پاس بیٹھا ہمسایہ کچھ کچھ اس کہانی کو سمجھ گیا۔ یوں تو یہ غیر اخلاقی حرکت تھی مگر وہ چاہنے کے باوجود وہاں سے اٹھ کر اندر نہ جاسکا اور یہ گفتگو سنتا رہا۔ اسے یہ لو اسٹوری عجیب مگر دلچسپ لگی تھی۔ اس گفتگو میں کسی تاج کا ذکر تھا۔ کسی سارہ آفندی کی بات بھی ہورہی تھی اس لڑکی رانیہ کی منگنی ٹوٹنے کا ذکر بھی تھا۔ یہ کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ وہ اسے سننے اور اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔
کچن میں کاموں میں مصروف امی کو اس ہمسائے کا خیال آیا۔ انہوں نے سوچا گھر میں اتنا کھانا بنا ہے تو ہمسائے کو بھی بھیج دیا جائے، مگر ہر ایک نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی۔
”مت بھیجیں اسے کھانا… اپنے گھر میں خود ہی پکا لے گا۔”
عنایا نے نروٹھے پن سے کہا۔
”ایسا نہیں کہتے …ہمسایوں کے بڑے حقوق ہوتے ہیں۔”
امی نے سمجھایا۔
”فرائض بھی تو ہوتے ہیں ہمسایوں کے۔”
ثمن نے کھٹکا سے جواب دیا۔
”ایسا بھی کیا کردیا ہمسائے نے؟”
امی ان کی اس خفگی پر حیران تھیں۔
”وہ ایک بدمزاج، بداخلاق ہمسایہ ہے۔ اس نے ہمیشہ ہمارے ساتھ بدتمیزی کی اور آپ اُسے کھانے پکا پکا کر بھیج رہی ہیں۔”
عنایا نے منہ بناکر کہا۔
”تم لوگوں نے بھی کچھ کہا ہی ہوگا۔”
امی کا اطمینان قابل دید تھا۔ سب نے اس بات پر برا سا منہ بنایا۔
”آپ نے تو ہمیشہ غیروں کی ہی سائیڈ لی ہے۔ ہماری تو کبھی بات ہی نہیں سنی۔”
ثمن نے شکوہ کیا۔
”غیر ہی اچھے لگتے ہیں آپ کو۔”
عنایا نے گلہ کرتے ہوئے کہا۔
”انسان کو اتنا تنگ دل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو ایک وقت کا کھانا نہ بھجواسکے۔”
امی نے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”میں تو اس کے گھر کھانا دینے بالکل نہیں جائوں گا۔”
ٹیپو نے صاف انکار کردیا۔
”اچھا! میں خود ہی اُسے کھانا دے آتی ہوں۔”
امی نے ٹرے میں بریانی نکالتے ہوئے کہا اور دوسری پلیٹ میں ٹکے اور کباب رکھے۔
انہوں نے کسی کی بات نہیں سنی اور ہمسائے کو کھانا دینے چلی گئیں۔
وہ اپنے صحن میں دیوار کے پاس کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ اس نے دستک پر اٹھ کر دروازہ کھولا تو حیران رہ گیا۔
سامنے ایک بزرگ خاتون کھانے کی ٹرے تھامے کھڑی تھیں۔ کھانے کی خوشبو اشتہا انگیز تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ خاتون ضرور ساتھ والے گھر سے آئی ہیں۔ پھر اُسے یاد آیا کہ یہ وہی عقلمند خاتون ہیں جو اکثر اپنے بچوں کو اُن کی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر روکتی ٹوکتی رہتی ہیں۔
”السلام علیکم!”
اُس نے شائستگی سے انہیں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! میں ساتھ والے گھر سے آئی ہوں۔ پتا چلا تھا کہ اس گھر میں کوئی نئے لوگ آئے ہیں۔ مگر کچھ مصروفیات کی وجہ سے ملنے نہ آسکی۔ اصل میں بچوں نے مل کر باربی کیو کا اہتمام کیا ہے سو میں نے سوچا کہ ہمسایوں کو بھی اس دعوت میں شریک کیا جائے۔”
امی نے اُسے کھانے کی ٹرے تھماتے ہوئے متانت سے کہا۔
”بہت شکریہ آنٹی… آپ اندر آئیں نا۔”
وہ شائستگی سے بولا۔
وہ دو قدم اندر صحن میں آئیں پھر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے گھر میں پھیلی خاموشی پر ذرا چونکیں۔
”بیٹا! تمہارے گھر والے کہاں ہیں؟ کیا یہاں اکیلے رہتے ہو؟”
انہوں نے پوچھا۔
”جی میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ باقی بہن بھائی ملک سے باہر رہتے ہیں۔ والدین کے انتقال کے بعد سب نے مشاورت سے گھر بیچ دیا اور اپنے اپنے حصے لے لئے۔ اور میں نے اپنے حصے کی رقم سے یہ گھر خرید لیا۔”
اس نے نرمی سے جواب دیا۔
”یہ تو تم نے عقل مندی کا کام کیا بیٹا۔ پیسے جوڑ کر سب سے پہلے گھر ہی بنانا چاہیے۔ چھت اپنی ہو تو انسان بہت سی فکروں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ تم تو اکیلے رہتے ہو تو گھر کے کام کون کرتا ہے؟”
انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک عقلمند اور ذمہ دار لڑکا تھا۔ انہوں نے بے اختیار اُسے سراہا۔
وہ سفید بے داغ شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔
پیروں میں پشاوری چپل پہنی ہوئی تھی۔ غالباً وہ کچھ دیر پہلے ہی کہیں باہر سے گھر آیا تھا۔ کلائی میں سیاہ رنگ کی گھڑی تھی، بال سلیقے سے کنگھی کئے ہوئے تھے۔ وہا نہیں شائستہ مزاج اور بہت سلجھا ہوا خاندانی لڑکا لگا تھا۔
”ایک بندے کا کام ہی کتنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنے کام خود کرنے کی عادت ہے۔ زیادہ کسی پر ڈیپنڈ نہیں کرتا ہوں۔”
وہ شائستگی سے بولا۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے… نوکری بھی کرتے ہو؟” انہوں نے پوچھا۔
”جی بینک میں جاب کرتا ہوں۔”
اس نے مختصراً بتایا۔
”کام کرنے والے ذمہ دار بچے ہو۔ معقول روزگار تو زندگی کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ بیٹا گھر سے باہر بھی نکلا کرو۔ محلے والوں سے ہمسایوں سے ملا جلا کرو۔”
انہوں نے اُسے نصیحت کی۔ اس نے تائیدی انداز میں سرہلادیا۔
”بیٹا ! نام تو میں نے تمہارا پوچھا ہی نہیں۔”
وہ مسکرا کر بولیں۔
”جی میرا نام شیراز ہے۔”
اس نے مؤدب انداز میں بتایا۔
”اچھا بیٹا… میں چلتی ہوں۔ گھر میں مہمان بھی ہیں۔ یہ برتن صبح بھجوا دینا۔”
وہ صحن سے ہی پلٹ گئیں۔
وہ انہیں چھوڑنے بیرونی دروازے تک ساتھ آیا۔
وہ اس کی شائستگی سے بڑی متاثر ہوئی تھیں۔ انہیں حیرت ہوئی کہ ان کے گھر کے بچے تو اس بندے کو بدتمیز اور بداخلاق کہہ رہے تھے۔ ضرور انہیں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہوگی ورنہ اس جیسا شائستہ مزاج تو اس پورے محلے میں کوئی نہیں تھا۔
وہ گھر واپس آئیں تو انہوں نے عنایا، ثمن اور ٹیپو کی خوب خبر لی۔
”اتنا اچھا، سلجھا ہوا ، شائستہ مزاج لڑکا ہے۔ پتا نہیں تم لوگوں نے اس بے چارے سے کیوں دشمنی مول لے لی۔”
”توبہ پھپھو آپ بھی کس کی تعریفیں کررہی ہیں۔”
ثمن کو ہمسائے کی تعریف بہت بری لگی۔
”وہ بڑا فنکار قسم کا بندہ ہے۔ آپ اس کی اصلیت نہیں جانتیں… کھانے کی ٹرے دیکھ کر آپ کے سامنے اچھا بن گیا ہوگا۔ ہاں بھئی مفت کے کھانے تو سب کو ہی اچھے لگتے ہیں۔”
عنایا نے منہ بناکر کہا۔
”ارے رہنے دو تم لوگ… اب تم لوگ اس بے چارے کو تنگ نہ کرنا۔ پہلے ہی وہ دکھی لڑکا ہے۔”
امی نے ہمدردی سے کہا۔
”کیوں؟ اسے کیا دکھ ہے؟”
عنایا نے تنک کر پوچھا۔
”بے چارے کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں۔ بہن بھائیوں نے آبائی گھر بیچ کر اپنے اپنے حصے اٹھا لئے اور اس نے اپنے حصے کی رقم سے یہ گھر خرید لیا۔ چھوٹا سا گھر ہے۔ تین کمرے ہیں۔ ایک صحن ہے۔ اس کے لئے کافی ہے۔”
امی نے کہا۔
”تو آپ کو اس نے اپنے بارے میں اتنا کچھ بتادیا؟”
عنایا کو پھر بھی ہمسائے سے ہمدردی محسوس نہ ہوئی۔
”ہاں… ہمسایوں کی خبر گیری تو کرنی چاہیے نا! …اور ہمسایوںکو ستانا اور انہیں تنگ کرنا گناہ ہے۔ خبردار آئندہ تم لوگوں نے اسے تنگ کیا میں تم لوگوں کو اچھی طرح جانتی ہوں اور مجھے تم لوگوں کی کسی کہانی پر یقین نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ تم لوگوں کی طرح اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے والا اور لاابالی قسم کا لڑکا نہیں ہے۔ سنجیدہ مزاج ہے۔ اسی لئے تم لوگوں کو برا لگتا ہے۔ اس کی جگہ کوئی جو کر قسم کا ہمسایہ ہوتا تو تم لوگ اس کے گن گاتے پھرتے۔”
امی نے سخت لہجے میں کہا۔
ان کی اس بات کا سب نے ہی برا منایا۔ امی مسلسل اس بدتمیز ہمسائے کی طرف داری کررہی تھیں۔
”وہ بڑا چالاک آدمی ہے۔ دیکھ لیجیے گا کل ہمارے برتن بھی واپس نہیں کرے گا۔”
ٹیپو نے کہا۔
”میں مزید تم لوگوں کی بک بک نہیں سن سکتی ہوں۔ جائو جاکر مہمانوں کو دیکھو، انہوں نے ٹھیک سے کھانا ہے یا نہیں۔”
امی نے جھڑک کر کہا۔
وہ تینوں کچن سے منہ بناکر نکل گئے۔ امی سے تو کچھ کہنا سننا ہی بے کار تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو ہی برا بھلا کہا تھا۔
زوار اپنی گاڑی میں دست کاری کا سامان رکھ رہا تھا جب عشنا گیٹ پار کرکے اس کی گاڑی کے پاس آئی۔ اس نے سوچا کہ اسے ایک اور کوشش تو کرنی چاہیے۔ کیا پتا کہ یہ کوشش رنگ لے آئے۔
”بات سنیں… مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔”
اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”کہو عشنا!”
وہ مصروف سے انداز میں بولا۔
”میں آپ سے اپنی دوست سارہ آفندی کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ رانیہ باجی نے اس بارے میں آپ سے بات بھی کی تھی۔”
وہ مدھم آواز میں بولی۔ زوار کے چہرے کے تاثرات یکلخت بدل گئے۔ اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سامان رکھتے ہوئے چونک کر اُسے دیکھا۔
”میں نے رانیہ کو جواب دے دیا تھا۔”
اس کی آواز اور لہجہ سرد تھا۔ عشنا نے اس کی اس غیر معمولی سنجیدگی کو بری طرح محسوس کیا۔
”آپ اس بارے میں سوچیں تو سہی۔ سارہ میری دوست ہے اور…”
زوار نے سرد لہجے میں اُس کی بات کاٹ دی۔
”میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ہوں عشنا۔”
اس نے اجنبی سے انداز میں اُسے ٹوک دیا۔
ایک پل کے لئے عشنا بھی خاموش ہوگئی۔
”کیوں؟ آپ اس بارے میں کیوں بات نہیں کرنا چاہتے؟ مجھے سارہ کو جاکر جواب دینا ہے۔ وہ میرا انتظار کررہی ہے۔”
عشنا نے اصرار کیا۔
زوار کی آنکھوں میں گہری سوچ کا عکس اُترا۔ وہ خاموش سا ہوگیا۔
”اسے کوئی جواب نہ دینا۔”
چند لمحوں بعد اس نے سنجیدہ آواز میں کہا۔ عشنا کو یہ جواب سن کر مایوسی ہوئی۔ اُسے احساس ہوا کہ زوار سے بات کرنا واقعی اتنا آسان نہیں تھا۔ یہ رانیہ کی ہی ہمت تھی جس نے اُس سے بات بھی کر لی تھی اور لڑائی بھی کرلی تھی۔
وہ گاڑی میں سب چیزیں رکھ چکا تھا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور عشنا کی طرف مڑا۔
”آؤ اندر چلتے ہیں۔”
اب کی بار اُس نے نرمی سے کہا۔ عشنا خاموشی سے اندر چلی آئی۔
اُسے لگا جیسے مشن ایڈونچر بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
عقیل، عطیہ اور عشنا کینیڈا جارہے تھے۔ بنیادی تیاریاں ہوچکی تھیں۔ فردوسی خالہ اداس تھیں۔
”تم لوگ جارہے ہو۔ میں تو اداس ہوجائوں گی۔”
فردوسی خالہ نے اُداسی سے کہا۔
”اماں! ہم پاکستان آتے جاتے رہیں گے۔ عشنا کا یہاں دل لگ گیا ہے۔ ثمن کے ساتھ اُس کی خوب دوستی ہوگئی ہے۔ اب تو ہمارا آنا جانا لگا ہی رہے گا۔”
عقیل نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”عشنا کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ پڑھنے والی بچی ہے اور اس کی اُردو بھی بہت اچھی ہے۔”
فردوسی خالہ عشنا کی طرف سے مطمئن تھیں۔
”ہم گھر میں اردو ہی بولتے ہیں اماں۔ آج تک ہم نے گھر میں انگریزی نہیں بولی۔ کینیڈا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے گھر میں اپنی ہی زبان بولتے ہیں اور اپنے کلچر اور روایات کو وہاں بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔”
عقیل نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے کینیڈا نہیں بلایا تم لوگوں نے!”
فردوسی خالہ نے شکوہ کیا۔
عطیہ نے بے ساختہ عقیل کو دیکھا کہ اس عمر میں بھی اماں کے شوق جوان تھے۔
”ارے اماں! آپ بھلا کینیڈا آکر کیا کریں گی؟ وہاں آپ بس ایک ہفتہ بمشکل گزار سکتی ہیں، پھر آپ نے پاکستان واپس جانے کا شور مچا دینا ہے۔”
عقیل نے انہیں بہلاتے ہوئے کہا۔
وہ خفا ہوگئیں۔
”میں خوب سمجھتی ہوں تم لوگوں کے بہانے۔ ہر بار مجھے ٹال دیتے ہو۔”
وہ ناراض آواز میں بولیں۔
”اماں! آپ کا یہاں حلقہ ٔ احباب ہے۔ سارے رشتہ دار ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ مصروف زندگی گزار رہی ہیں۔ اب تو زوار آفندی بھی آپ کے سوشل ورک میں شامل ہوگیا ہے… آپ کو بھلا کس چیز کی فکر ہے!”
عطیہ نے کہا۔
”ہاں وہ تو بہت ہی نیک لڑکا ہے۔ بھلا مانس ہے۔ بہت سے لوگوں کا محسن ہے۔ آج کل ایسے بھلے لوگ کہاں ملتے ہیں۔”
فردوسی خالہ نے زوار کی تعریف کی۔
”آپ اس کے ساتھ نئے پراجیکٹس شروع کرسکتی ہیں۔ اپنے سوشل ورک کو بڑھا سکتی ہیں۔ ابھی تو بہت سارے اہم کام ہیں جو آپ نے کرنے ہیں۔”
عطیہ انہیں بہلانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
خالہ بھی سوچ میں پڑگئیں۔ واقعی بہت سارے کام تھے۔ جو وہ زوار کے ساتھ مل کر کر سکتی تھیں۔ وہ ذہن میں ان کاموں کی لسٹ بنانے لگیں۔
دوسرے کمرے میں روشنی سلائی مشین پر سوٹ سی رہی تھی۔ عشنا بھی پاس ہی بیٹھی تھی۔
”کتنی اچھی سلائی کرتی ہیں آپ۔”
عشنا نے اسے مہارت سے مشین چلاتے دیکھ کر کہا۔
”تم بھی سلائی سیکھنا چاہتی ہو؟”
روشنی نے مسکرا کر کہا۔
”میں اتنا مشکل کام نہیں سیکھ سکتی۔”
عشنا بے ساختہ بولی۔
روشنی بے ساختہ ہنس دی۔
”پتا نہیں تمہاری دوست کو یہ سوٹ پسند بھی آئے گا یا نہیں۔”
روشنی عشنا کی فرمائش پر سارہ کے لئے سوٹ سلائی کررہی تھی۔
”ہاں۔ اُسے پسند آئے گا۔ اسے مشرقی کپڑے اچھے لگتے ہیں۔ ویسے بھی وہ نخرے نہیں کرتی ہے۔ وہ اتنی زیادہ امیر نہیں ہے۔ اس لئے زیادہ شاپنگ بھی نہیں کرتی۔”
عشنا نے کہا۔ روشنی ذرا حیران ہوئی۔
”کیا کینیڈا میں غریب لوگ بھی رہتے ہیں؟”
روشنی نے بے ساختہ پوچھا۔
”ہاں… ہوتے ہیں کچھ غریب لوگ بھی۔ جو کپڑوں جوتوں پر زیادہ خرچ نہیں کرتے۔ انہوں نے گھر کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔ ٹیکس بھی دینا ہوتا ہے۔ گھر کے خرچے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ سب لوگوں کے پاس تو وہاں اچھی جاب نہیں ہوتی۔”
عشنا نے سنجیدگی سے کہا۔
”پھر تو میں تمہاری دوست کے لئے دو سوٹ سلائی کردیتی ہوں۔”
روشنی نے ہمدردی سے کہا۔
”ہاں سی دیں۔ میں اُس کے لئے تحفے لے کر جائوں گی تو وہ خوش ہوجائے گی۔”
عشنا مسکرا کر بولی۔
”کیا تمہاری دوست کے والدین اچھا نہیں کماتے؟”
روشنی نے پوچھا۔
”اس کے بابا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی ممی کی سیلری اتنی زیادہ نہیں ہے۔ مشکل سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔”
عشنا نے جواباً کہا۔ روشنی کو افسوس ہوا۔
”پھر تو تمہیں اس کی مدد کرنی چاہیے عشنا۔”
”اس کی مدد کرنے کی کوشش تو کرتی ہوں میں۔”
عشنا کی آواز دھیمی ہوگئی۔
اب وہ روشنی کو کیا بتاتی کہ سارہ کی مدد کرنے کے لئے اس نے کون کون سے ایڈونچر شروع کئے ہوئے تھے۔
”اچھی بات ہے۔ دوستوں کی مدد کرنی چاہیے مجھے وہاں سے فون کرکے بتا دینا۔ میں تم دونوں کے لئے یہاں سے اور کپڑے بھجوادوں گی۔”
روشنی نے ہمدردی سے کہا۔
”پھپھو! آپ بھی کینیڈا آیئے گا۔ میں پاپا سے کہہ دوں گی وہ آپ کو ٹکٹ بھجوادیں گے۔”
عشنا نے ایسی سادگی سے کہا۔ جیسے یہ تو بڑی ہی آسان بات ہو۔
روشنی اُداسی سے مسکرادیں۔
”مجھے تو دوسرے شہر جانے کی اجازت نہیں ہے اور تم کینیڈا آنے کی بات کرتی ہو؟”
انہوں نے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اداس آواز میں کہا۔
”پھپھا جان اتنےstrictکیوں ہیں؟ کاش آپ کی شادی ان سے نہ ہوئی ہوتی۔”
عشنا منہ بناکر بولی۔
”بس… نصیب کی بات ہے… بات ہی ساری نصیبوں کی ہوتی ہے۔ تم نہیں سمجھوگی۔”
انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے قمیض پر پھولوں اولی لیس لگاتے ہوئے کہا۔
”آپ ایسے آدمی کے ساتھ کیسے خوش رہ سکتی ہیں پھپھو؟”
یہ سوال نہیں تھا اک پتھر تھا جو ان کے دل سے ٹکرایا تھا۔ وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکیں۔
”پھپھو! آپ پھپھا جان کی باتیں نہ مانیں۔ بولتے رہنے دیں انہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرلیں گے آپ کو باتیں ہی سنائیں گے نا! پھر بول بول کر خود ہی تھک جائیں گے۔ آپ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزاریں۔ وہی کریں جو آپ کا دل چاہتا ہے۔”
عشنا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ بچی تھی ان رشتوں کی نزاکت کو نہیں سمجھتی تھی۔
”مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں اپنے گھر میں خوش ہوں۔”
انہوں نے بہت سے آنسو دل میں اتارتے ہوئے جھوٹ بول دیا۔ یہ جھوٹ تو وہ کئی سالوں سے بولتی آرہی تھیں۔ جیمو ماموں کی بات اور تھی۔ وہ لوگوں کے غم اور دکھ سنتے اور انہیں بہترین مشوروں سے نوازتے تھے۔
عشنا ان کی اداس آنکھوں کو دیکھنے لگی۔ وہ جانتی تھی پھپھو نے اس کے سامنے جھوٹ بول کر اپنا بھرم رکھا ہے۔ وہ چپ چاپ انہیں کام کرتے ہوئے دیکھتی رہی۔
”اگلی بار پاکستان کب آئوگی؟”
روشنی نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ بات بدل دی۔
”اب تو میں پاکستان آتی جاتی رہوں گی۔ مجھے یہاں پر بہت سارے کام کرنے ہیں۔”
اس کے منہ بے ساختہ نکلا۔ روشنی چونک گئیں۔
”کون سے کام؟”
انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہیں کچھ کام… پھر مجھے رانیہ باجی کی شادی پر بھی تو آنا ہے نا…”
اس نے مبہم سے انداز میں معنی خیزی سے کہا۔
”کیا رانیہ کی شادی ہورہی ہے؟”
انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔ انہیں تو اس کی منگنی ختم ہوجانے کے بارے میں پتا چلا تھا۔
عشنا ایک لمحہ کے لئے گڑبڑا گئی پھر اس نے لاپرواہی سے کہا۔
”ہو ہی جائے گی کچھ عرصے بعد۔”
روشنی نے یونہی سرہلا دیا اور سلائی میںمصروف ہوگئی۔ وہ عشنا کی معنی خیز مسکراہٹ کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ عشنا نے رانیہ کی شادی کروانے کے لئے ایک نئے ایڈونچر کا آغاز کیا ہوا ہے۔
٭…٭…٭
عشنا کینیڈا جاتے ساتھ ہی سارہ سے ملنے اُس کے گھر چلی آئی۔ وہ اس کے لئے بہت سارے گفٹس لے کر آئی تھی۔ سارہ بھی بے تابی سے اُس کی آمد کی منتظر تھی۔ عشنا نے اُس سے کہا تھا کہ وہ واپس آکر اُسے ہر بات تفصیل سے بتائے گی۔
وہ دونوں لائونج میں بیٹھی تھیں۔ سارہ کی ممی ابھی تک آفس سے نہیں آئی تھیں۔ سارہ پر پل رنگ کی لانگ اسکرٹ اور بلائوز میں ملبوس تھی۔ بالوں میں حسب عادت ربن لگا رکھا تھا۔ عشنا نے سبز رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، ساتھ سبز رنگ کا دوپٹہ تھا۔ یہ سوٹ روشنی نے اُس کے لئے خود سیا تھا۔
سارہ نے اس سے پہلا سوال ہی زوار کے بارے میں کیا۔ عشنا کو اسے سچ ہی بتانا تھا۔
”میں نے بہت کوشش کی سارہ مگر میں زوار آفندی کونہیں مناسکی۔ مجھے بہت امید تھی کہ میں یہ کام کر لوں گی مگر نہیں کرسکی۔I am sorry۔”
کہتے ہوئے اس کی آواز مدھم ہوگئی۔ عشنا کا قصور نہیں تھا مگر پھر بھی وہ شرمندہ تھی۔ اس کا ایڈونچر ناکام ہوگیا تھا۔ شرمندگی کے ساتھ دکھ اور افسوس کی بات بھی تھی۔ سارہ کو یہ سن کر مایوسی ہوئی۔
”کوئی بات نہیں عشنا، تم نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی۔”
سارہ نے بجھی ہوئی آواز میں کہا ۔ عشنا نے اس کے لئے کوشش کی یہی بہت تھا۔ اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ زوار کے دل برف پگھلانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
”تم یہ گفٹس تو دیکھو۔”
عشنا نے اس کے چہرے کی اداسی دیکھ کر اُسے بہلاتے ہوئے کہا پھر چیزیں کھول کر اسے دکھانے لگی۔
”ہاں… سارے گفٹس اچھے ہیں۔Thank you Ushna… تم میرے لئے اتنی ساری چیزیں لے کر آئی۔”
سارہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ عشنا اتنی دور سے اس کے لئے تحفے لے کر آئی تھی۔ اسے مسکرانا تو چاہیے تھا۔
”تم نے انہیں trace کیسے کیا؟”
سارہ نے نیلے رنگ کا سوٹ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”انہیںtraceکرنے کی ضرور ہی نہیں پڑی۔ وہ خود ہی ہمارے گھر آگئے تھے۔ اتفاق سے وہ میری کزن کے کولیگ نکل آئے۔ میری کزن ایک تھیٹر آرٹسٹ ہے ۔ زوار آفندی انہی کے تھیٹر ڈرامے کو اسپانسر کررہے تھے۔ اس لئے میری زوار آفندی سے ملاقات بڑی آسانی سے ہوگئی۔ میری کزن نے اُن سے تمہارے اور ناصرہ آنٹی کے حوالے سے بات کی تھی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ یوں تو وہ بہت اچھے ہیں، بہت اچھی طرح بات کرتے ہیں مگر معلوم نہیں اس معاملے میں وہ کیوں اتنےrigid ثابت ہوئے۔”
عشنا نے مدھم اور سنجیدہ آواز میں کہا۔ سارہ خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی۔ اس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
”اتنے سال گزر گئے مگر ان کا دل نہیں پگھلا۔”
وہ بجھی ہوئی آواز میں بولی۔ عشنا کو اس کے چہرے کی اداسی دیکھ کر افسوس ہوا۔ وہ یہاں سے کیا کیا وعدے کرکے گئی تھی مگر ایک بھی وعدہ پورا نہ کرسکی۔
”اچھا! میں تمہیں تصویریں دکھاتی ہوں۔”
عشنا موبائل میں تصویریں دکھانے لگی۔ عشنا سارہ کا دھیان بٹانا چاہتی تھی۔
تصویروں میں تو زوار ہنستا مسکراتا نظر آرہا تھا۔ عشنا اُسے تصویروں کی تفصیل بتاتی جارہی تھی۔
”یہ جو بانسری بجا رہے ہیں۔ یہ جیمو ماموں ہیں۔”