فیصلہ

قتل کیس تھا اتنی جلد فیصلہ آنے کی توقع نہیں تھی ۔ گھر میں جمع پونجی ختم ہونے لگی۔ پرنسپل صاحب کی تنخواہ روک لی گئی تھی جس کے باعث آمدنی کا واحد ذریعہ بند ہوچکا تھا۔ قریبی رشتہ داروں نے بساط کے مطابق مدد کی مگر چند ماہ بعد ہی سب نے آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچ لیا۔ ماموں بدستور کیس لڑ رہے تھے اور ساتھ ہی بھانجوں کو سنبھالے ہوئے تھے ۔ ناصر جلد ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا جبکہ دلاور کو اقرارِ کے بعد ضمانت نہ مل سکی۔ کیس کی سماعت کے دوران کئی بار جذباتی موڑ بھی آئے مگر قانون جذبات کی قدر نہیں کرتا ۔ آخر کار کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ۔ راجہ دلاور کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔ گھر میں مایوسی کا سماں تھا۔ وقاص کو اسی بات کا ڈر تھا۔ راجہ دلاور کے اس فیصلے نے اپنا بیٹا تو بچا لیا مگر باقی سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔ اس کی نوکری، تنخواہ اور مراعات سب کچھ ختم ہو گیا ۔ لاکھوں میں پنشن تھی جو یکمشت ملنی تھی۔ ماہانہ الگ تھی جو کہ مرنے کے بعد بھی بچوں کے کام آتی مگر افسوس سب کچھ زیرو سے ضرب ہو کر زیرو ہو گیا نوکری ختم۔
قانون بڑی عجیب شے ہے وہ جذبات کے ساتھ اکثر کھلواڑ کردیتا ہے۔ قصور بیٹے کا تھا مگر باپ نے اسے بچا لیا اور اسے بچاتے بچاتے سب کچھ کھو دیا تھا۔ بچوں کے پاس ماں تھی نہ باپ ۔ وہ باپ کے ہوتے بھی یتیم کہلاتے تھے ۔ ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی جس کے باعث عیش و عشرت میں مبتلا تھے سب۔ دولت ہی کے دم سے سب کچھ تھا، مگر اب پرنسپل صاحب کے بچے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ ممکن ہے مستقبل میں ناصر دوبارہ غصے میں آکر کسی کو قتل کردے اور خود جیل پہنچ جائے ۔ خون کا بدلہ خون لینے والوں نے اپنی قسم سچ کردکھائی تھی راجہ دلاور کا گھرانہ کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا تھا ۔ عامر صدمے کی کیفیت میں تھا۔ نیلم کے بارے میں مشہور ہو چکا تھا کہ وہ منحوس ہے جس کے باعث دو خاندانوں میں صف ماتم بچھی۔ ممکن تھا کہ ناصر کو کم عمری کے باعث سزا کم ہوتی ۔ راجہ دلاور باہر رہ کر کیس مزید اچھے طریقے سے لڑ سکتا تھا ۔ کم از کم اس کی نوکری تو بحال رہتی مگر اس کے ایک فیصلے نے سب کچھ ختم کردیا۔وہ اولاد کا ڈسا ہوا تھا کس سے شکوہ کرتا کس سے فریاد کرتا۔
جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھا راجہ دلاور اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے ۔ اسے دکھ تھا تو صرف ایک بات کا کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت نہ کرسکا ۔ وہ ساری دنیا کو علم کی روشنی دینے والا چراغ تھا، مگر اس چراغ تلے اندھیرا تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!