فیصلہ

نیلم، راج نگر کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ جب وہ یونیفارم میں ملبوس گاﺅں کے راستوں سے اسکول پہنچتی تھی تو راہ میں گزرنے والا ہر جوان اسے دیکھ کر سانس لینا بھول جاتا تھا۔ راجپوت گھرانے کی لڑکی ہوتی تو ہر کوئی دیکھ کر نظر جھکا لیتا، مگر اس کی بدقسمتی کہ وہ ایک غریب کسان غلامو کی بیٹی تھی جو راجہ اکرام کی زمینوں پر کام کرتا تھا۔ غلامو خود تو مریل سا کالی رنگت کا تھا، مگر اس کی بیٹی لاکھوں میں ایک تھی ۔ غریب کی بیٹی تھی اس لیے ہر کوئی دیدارِ عام کا حق رکھتا تھا۔ نیلم کی ماں نے جب ایسی صورتحال کے بارے میں محسوس کیا تو اپنی بیٹی کو گاون، میں اسکول بھیجنے لگی مگر لوگوں کی نظریں پھر بھی نہ رکیں۔ غلامو کو اپنی محنت مزدوری سے فرصت نہیں ملتی تھی گھر کا خیال خاک رکھتا۔ ہاں البتہ وہ اور اس کی بیوی، نیلم کے بچپن ہی سے اس کے جہیز کے لیے پائی پائی جمع کررہے تھے۔ نیلم کی میٹرک کے بعد اس کی شادی کا ارادہ تھا۔ ابھی نیلم نویں جماعت میں ہی تھی کہ گاﺅں کا بچہ بچہ اس کے خواب دیکھنے لگ گیا۔ ایک دو بار لڑکوں نے اس سے بات کرنی چاہی مگر اس نے کسی کو لفٹ نہ دی۔ گھر آکر اس نے ماں کو بتایا تو اس کی وساطت سے غلامو تک یہ خبر پہنچی۔ غریب آدمی تھا اس لیے عزت ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے مالک سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو راجہ اکرام نے اس کی بات سن کر اسے مشورہ دیا کہ جلد از جلد بیٹی کی شادی کردے ، مگر وہ جانتا تھا کہ فی الحال وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بیٹی کو عزت سے رخصت کرسکے۔ اس کے پاس جمع پونجی ابھی مطلوبہ ہدف سے بہت کم تھی۔ دوسرا وہ کم از کم دسویں کا امتحان پاس کروانے تک اپنی بیٹی کی شادی کا خواہش مند بھی نہیں تھا۔ اس نے راجہ صاحب کی بات سن کر سر جھکا لیا۔ گھر آکر اس نے بیوی سے مشورہ کیا اور اس بات پر دونوں راضی ہو گئے کہ اگر اچھا لڑکا مل گیا تو وہ لوگ شادی میں دیر نہیں لگائیں۔ فی الحال اللہ کے بھروسے وہ نیلم کو اسکول بھیجتے رہے۔ نیلم کے چاہنے والوں میں راجپوت خاندان کے بھی کئی لڑکے تھے مگر وہ لوگ برادری سے باہر رشتہ داری باعثِ ندامت سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر بہت سے لڑکے دل تھام کے رہ گئے مگر عابد اس کے تیرِ نگاہ کا ایسا شکار ہوا کہ اس نے سارے بندھن، ذات پات، برادری اور رسوم و رواج کے فلسفے کو پسِ پشت ڈال دیا۔
وہ راجہ اکرام کا بھتیجا تھا اور سوائے بدمعاشی کے اسے کچھ نہیں آتا تھا۔ تین بڑے بھائی تھے جو برسرِ روزگار تھے۔ اس لیے سوائے بدمعاشی اور آوارہ گردی کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔
اس نے کئی دنوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث آخر کار گھر والوں کو راضی کر لیا کہ اس کا رشتہ نیلم کے لیے مانگا جائے۔ یہ الگ بات تھی کہ مانگنے کا جھنجھٹ پالا گیا تھا ورنہ سب ہی اس بات سے آگاہ تھے کہ غلامو کی یہ مجال کیسے کہ وہ انکار کر دیتا، چنانچہ اس سے بات کی گئی اور اس نے بخوشی اس بات پر رضامندی ظاہر کردی۔ یوں ایک مشکل مرحلہ عابد کے لیے طے ہوا، مگر وہ حالات کا ایک رخ تھا دوسرے رخ سے اس پر کون سے طوفان نازل ہونے والے تھے وہ اس سے بے خبر تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!