فیصلہ

کھیل کے میدان میں اکثر لڑکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مشغول تھے۔ میدان کافی وسیع تھا جس کے باعث اپنی اپنی عمر کے حساب سے کھیل اور جگہ منتخب کی گئی تھی۔ چھوٹے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے جبکہ نوجوانوں کی ٹولی میں سے کچھ تو الگ سے اپنی مخصوص پچ پر نیٹ لگا کر پریکٹس کررہے تھے جبکہ جوان سارے ان سے الگ تھلگ فٹ بال کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ کچھ منچلے لڑکے موٹر سائیکل سیکھ رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکے بھاگ دوڑ میں شامل تھے۔ یوں ہر ایک شام کے وقت اپنی اپنی تفریح میں لگا ہوا تھا۔ عابد الگ بیٹھا مطمئن و مسرور، نیلم کے خوابوں میں کھویا ہوا تھا کہ ناصر کی ملاقات اس سے ہوئی۔ ناصر اسی ٹوہ میں تھا کہ عابد الگ سے کہیں بیٹھے تو اسے پکڑا جائے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عابد کے پاس آیا تو عابد اسے دیکھ کر چونکا
”آﺅ ناصر کیسے ہو؟“
”بس ٹھیک ہوں تم سے ایک بات کرنی تھی۔“ وہ اکھڑے اکھڑے لہجے میں گویا ہوا۔
”حکم کرو۔“
”بھائی کوئی کام ہے کیا؟“
”ہاں کام ہی ہے ذرا الگ کسی جگہ پر آﺅ۔“
”وہ پیپل کے درخت تلے جا کر بیٹھتے ہیں چلو۔“ عابد نے ایک درخت کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے لہجے سے ٹھٹک گیا تھا کہ ضرور کوئی غیر معمولی بات ہے مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بات کس نوعیت کی ہوگی۔ وہاں پہنچ کر عابد نے اس کی جانب دیکھا تو ناصر گلا صاف کرتے ہوئے بولا :
”دیکھو عابد! تم دور پار کے ہی سہی ہمارے رشتہ دار ضرور ہو اور مجھے امید ہے کہ تم میری بات اچھے طریقے سے سمجھ جاﺅ گے۔ ہر کام کا ایک حل ہوتا ہے۔ اگر اچھے طریقے سے افہام و تفہیم سے وہ حل نکال لیا جائے تو سب کے لیے بہتر ہوتا ہے بصورت دیگر بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔ “
”میں بالکل بھی نہیں سمجھ سکا کہ تمہاری بات کا اصل مدعا کیا ہے؟ کھل کر بات کرو اور صاف صاف کہو جو کہنا یا پوچھنا ہے۔ “عابد بھی اسی گاﺅں اور خاندان سے تعلق رکھتا تھا اسی لیے بلا جھجھک اس نے اسی لہجے میں پوچھا تو ناصر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرے بھائی کو وہ لڑکی پسند آ گئی ہے کیا نام ہے اس کا تم جسے منگیتر بنانا چاہتے ہو؟ “عابد کا دماغ بھک سے اڑ گیا وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ سرد لہجے میں اس نے اتنا ہی کہا۔
”نیلم کی بات کر رہے ہو؟“
”ہاں وہی ۔ نیلم عامر کو پسند ہے اور وہ اس سے شادی کا خواہاں ہے اس لیے میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم دونوں کو مل کر….“
” واہ واہ کیا کہنے جناب کے۔“وہ قطع کلامی کرتے ہوئے بولا۔
”نیلم انسان نہ ہوئی کوئی گائے بھینس ہو گئی جو تمہارے بھائی کو بیچ دوں۔ اگر یہی بات کرنے کے لیے مجھے بلایا ہے تو میری بات کان کھول کر سن لو ۔ میں نے ڈنکے کی چوٹ پر نیلم کو اپنی زوجیت میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہیں اس سے میں ہی واقف ہوں۔ اگر آئندہ اس موضوع پر بات کرنی ہوئی تو براہِ مہربانی مجھ سے مت کرنا ۔ “
”سوچ لے عابدے! “ وہ سرد لہجے میں بولا ۔
”میں سوچتا کم ہوں عمل زیادہ کرتا ہوں اس لیے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے بھائی کے سر سے یہ بھوت اتار دو ۔ نیلم صرف میری ہے اور میری ہی رہے گی ۔ اس کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے والا میرا مجرم ہوگا ۔ “
”ایک بار پھر کہہ رہا ہوں سوچ لو! یہ نہ ہو یہ باتیں دور تک جائیں اور پھر واپسی کی راہ ہی نہ رہے۔“
”میرا دماغ مت خراب کرو ۔ میں کوئی تھرڈ کلاس فیملی کا فرد نہیں ہوں جو تمہاری دھونس دھمکیوں سے ڈر جاﺅں، جا جو کرنا ہے کرلو میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ “
ناصر پاﺅں پٹختے ہوئے غصے میں وہاں سے چلا گیا۔ عابد کچھ دیر وہیں بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور پھر وہاں سے اٹھ کر گھر کی جانب چلا گیا۔ راستے میں اس کے ذہن پر یہی دھن سوار تھی کہ ہر حال میں جلد از جلد نیلم کو حاصل کرلے گا تاکہ ناکامی کا ڈر ہی نہ رہے۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!