فیصلہ

”پروفیسر صاحب! میری بات سمجھنے کی کوشش کریں یہ دہرا نقصان کریں گے آپ۔“ جیل میں راجہ وقاص نے ملاقات کرنے پر دوبارہ بہنوئی کو سمجھایا۔ وہ اکثر انہیں بھائی یا پروفیسر صاحب کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔
”میں فیصلہ کرچکا ہوں وقاص اور تم جانتے ہو کہ میرے فیصلے پتھر کی لکیر ہوا کرتے ہیں۔ میں اپنی بن ماں کی اولاد کو ایسے جیل میں سڑنے نہیں دوں گا۔ “
”مگر بھائی جی اس سے نقصان زیادہ ہوگا۔ ہم سب کچھ کھو دیں گے ۔“
”مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور غلطی میری ہی ہے، میں نے ساری دنیا کی تربیت کا بیڑا اٹھایا تھا اور سب کی تربیت کرتا رہا، مگر اپنی اولاد پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ناصر بدمعاشی کرتا، بری صحبت میں بیٹھتا، لڑائی جھگڑے میں پیش پیش ہوتا اور ہر طرح کے الٹے سیدھے کام کرتا، مگر میں اسے ہمیشہ بچا لیتا۔ یہ میری ہی کوتاہی ہے جس کے سبب آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں۔ سب غلطی میری ہی ہے سب میرا قصور ہے۔ نہ میں بھاگوں والی کو بچا سکا اور نہ ہی ان بچوں کی تربیت کرسکا۔ “ وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولے۔
”بھائی جان! ناصر کو کم عمری کے باعث رعایت ملنے کے چانسز بھی ہیں اور آپ…. آپ کو سزا ہو گئی تو سب مٹی میں مل جائے گا۔“ وقاص نے آخری کوشش کی مگر راجہ دلاور نے ماننی تھا نہ مانی۔ وہ کچھ اور قانونی داﺅ پیچ سمجھا کر وہاں سے چلا آیا۔
گھر آکر اس نے اپنی سی کوشش کی ہر فرد سے بات کی مگر سب کا یہی جواب تھا کہ راجہ شہباز ہی آخری فیصلہ کریں گے کسی قسم کی صلح صفائی کے لیے حتمی فیصلہ وہی کرسکتے تھے جن کا عزیز قتل ہوا ہے۔ گاﺅں کے کچھ بڑوں نے مل کر راجہ شہباز سے ملاقات کی مگر اس بار اس کے بیٹے بپھر گئے ۔ ان کا موقف تھا کہ دونوں باپ بیٹا ان کے حوالے کیے جائیں تاکہ وہ ان سے اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لے سکیں۔ عابد کے بھائیوں نے قسم کھائی کہ وہ راجہ دلاور کے سارے گھر کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ انہوں نے ہر قسم کی صلح کی دعوت کو رد کردیا۔ اب دونوں اطراف میں کیس لڑنے کے لیے کمر کس لی گئی تھی۔ لواحقین کا زور اس بات پر تھا کہ قتل ناصر نے کیا ہے جبکہ باپ بضد تھا کہ وہ اپنی جیب میں اسلحہ لے کر آیا تھا جب دونوں گتھم گتھا تھے تو اس نے ڈرانے کی غرض سے پستول نکالا جس پر عابد نے جھپٹا مارا اور گولی چل گئی ۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ دور تھے جب وہاں پہنچے تو عجیب و غریب حالات تھے ۔ پستول انہوں نے راجہ دلاور ہی کے ہاتھ میں دیکھا اس لیے کچھ بھی کہنے سے معذور تھے۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!