فیصلہ

(کے گل اے کاکا! اج کل تے بڑا دیوداس بنڑیا دا اے۱(”کیا بات ہے لڑکے، آج کل تو دیوداس بنے ہوئے ہو۱۱“
”ارے نہیں تو….“ عامر نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجانے کی کوشش کی ۔
”نہیں کے پتر ادھر آو۔“ ناصر اسے کھینچ کر اپنے ساتھ باہر لے گیا جہاں لان میں قریبا چھے فٹ چوڑا اور دس فٹ اونچا جھولا پنڈولم کی مانند ہل رہا تھا۔ وہ اسے لے جاکر وہاں پر بٹھاتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
”میں کافی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تیرے منہ کا فیوز اڑا ہوا ہے ۔ سیدھی طرح بتاتا ہے یا پھر لگاﺅں پھینٹی ۔ واقف تو ہے نا میرا؟“
”بولا ہے نا کچھ نہیں بس ذرا امتحانات سر پر ہیں اس لیے ان کا بوجھ ہونے کے باعث….“ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ناصر نے اس کی گردن پکڑ لی۔اس کی بدقسمتی کہ والدہ گھر نہیں تھی اس لیے اس کی آہ و فریاد سننے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ جہاں تک اس کا بس چلا اس نے برداشت کیا مگر پھر جب اسے لگا کہ اگر مزید مزاحمت کی تو یقینا کوئی ہڈی ٹوٹ جائے گی تو اس نے ہار مان لی ۔
”بول جلدی بول کیا بات ہے ورنہ میں تیرا خون پی جاﺅں گا۔“
”بتاتا ہوں…. چھوڑ تو سہی مجھے ۔“ وہ منمنایا ۔
”بالکل بھی نہیں جب تک بات پتا نہیں چلے گی کسی صورت گردن اس شکنجے سے نہیں چھوٹ سکتی اس لیے جلدی منہ کھولو ۔“
”مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے۔“ اس نے بہ مشکل تمام اتنا ہی کہا تھا کہ ناصر کو یوں لگا جیسے اسے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا ہو۔ اس کا دماغ پہلے تو بھک سے اڑ گیا، آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے عامر کی گردن چھوڑ دی تھی اور عامر وہاں سے بھاگ کر کمرے میں گھس گیا ۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا اور اچانک ہی اس نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور عامر کے پیچھے دوڑ لگا دی ۔
”میں تیری کلیجی کھا جاﺅں گا عامرے! اتنی بڑی بات تو نے مجھ سے چھپائی۔“ اس نے جاتے ہی عامر کو اٹھا کر گدے پر دے مارا۔ عامر شرمندہ شرمندہ سا نظر آرہا تھا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ اس کی گردن دوبارہ بازﺅوں کے شکنجے میں کستے ہوئے بولا۔
”ساری بات صاف صاف بتا ورنہ ابھی تیرا گلڑ بنا دینا ہے میں نے ۔ “
”ارے سانس تو لینے دو بھئی! بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں۔“ اس نے گردن چھوڑ دی تو عامر کھانسنے لگا۔ اگلے چند سیکنڈز تک وہ سانس بحال کرتا رہا اور ناصر اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتا رہا۔
”بھائی وہ نیلم ہے نا؟ “
”گی، پھر؟“
”وہ ناہید ماسی کی بیٹی جو گورے ماموں کے گھر کام کرنے آتی ہیں۔“
” اس ناہید کی بیٹی نیلم ۔ ہوں! اس پہ مر مٹے ہو؟“ وہ خاموش ہی رہا جس کا مطلب رضامندی ہی تھا۔
”جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے پھر بھی؟“
”بھائی اسی لیے تو پریشان ہوں نا ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس سے پہلے میں خالی سانس لیتا رہا ہوں، زندگی تو حقیقتاً اب شروع ہوئی ہے مگر ایسا بھی لگتا ہے کہ سانسیں بس اسی کو دیکھ کر چل رہی ہیں۔ وہ جدا ہوتی ہے تو سانس سینے میں اٹکنے لگتی ہے۔“ ناصر اسے غور سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرائے جارہا تھا۔
”ڈائیلاگز زبردست ہیں۔ خیر کیا نام بتایا تھا محترمہ کا…. ہاں نیلم، نام تو اچھا ہے۔ اب کتنا قیمتی پتھر ہے، یہ تو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ “
”ارے وہ تو نام ہے بھیا! ورنہ اس کے سامنے کیا زمرد، کیا ہیرا اور کیا جواہرات سب ہیچ ہیں۔“ عامر سنبھل چکا تھا ۔ اس لیے شوخ لہجے میں بولا مگر پھر اس پر اداسی کی چادر تن گئی۔
”بھیا کچھ کرو نا پلیز…….! ورنہ میں کچھ کر جاﺅں گا ہاں۔“
”کیا کرلے گا، بتا ذرا مجھے؟ بھگا کر لے آئے گا اسے یہاں یا اٹھا کر؟ ہمت ہے تجھ میں اتنی بزدل کہیں کے ۔ خیر کچھ سوچنا پڑے گا۔ تیرے پاس تو عقل نام کی چیز ہے نہیں وگرنہ خود ہی کچھ کرتا۔ مجھے ہی کچھ سوچنا پڑے گا۔“ وہ دونوں اس حوالے سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔ عامر نیلم کے عشق میں بری طرح مبتلا ہو چکا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے گھر والے ایسا بہ مشکل ہی مانیں اور دوسرا اس کی شادی کا بھی فی الحال پانچ سات سال تک کوئی ارادہ نہیں تھا جس کی وجہ سے فی الحال بھینس ابھی پانی میں ہی تھی۔ ناصر اس کے لیے کچھ کرنے کا سوچ رہا تھا۔ ابھی اس نے گھر والوں کے کانوں تک بات بھی نہ پہنچائی تھی کہ انہیں اطلاع ملی کہ نیلم کی منگنی ہونے والی ہے ۔ ان کا کزن عابد امیدواروں کی فہرست میں سب سے پھرتیلا نکلا تھا۔ اس نے وہ قلع فتح کرلیا تھا جس کے باعث عامر کی دنیا اندھیر ہو گئی تھی۔ ناصر الگ حیرت زدہ تھا کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا، مگر جو بھی تھا وہ بازی تقریبا ًہار چکا تھا۔ مگر اس نے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں تھا ۔ پھر وہ کیسے ہار مان لیتا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!