فیصلہ

”تمہیں کہا تھا نا. دنیا میں سب کچھ تمنا کرنے سے نہیں مل جاتا۔ کچھ چیزیں حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ محبت اچھی چیز ہے مگر حالات کے مطابق ہو تب۔ کچھ کاموں میں ہٹلرانہ رویہ ہی رکھنا پڑتا ہے۔“ وہ دونوں رات کے دس بجے اپنے اپنے بستر پر موجود، موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کررہے تھے ۔ عامر سر جھکائے اس کی ڈانٹ سن رہا تھا ۔ ناصر بولے جا رہا تھا۔
”اب بھی وقت ہے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ خیر جمع کا صیغہ استعمال کررہا ہوں حالانکہ تم سے کیا ہوگا سوائے چاپلوسی کے ۔ مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔“
”چھوڑو یار! جب قسمت ہی خراب ہے تو پھر کسی سے جھگڑا کرنے کا فائدہ؟“
”تیری سوچ کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں ۔ خیر جیسا منہ ویسی بات ۔ ایک سوال کا جواب دو۔ کیا نیلم کے بغیر رہ سکو گے، زندگی گزار سکو گے اس کے بنا؟ ادھر میری طرف دیکھ کر جواب دو۔“ ناصر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے نگاہیں جھکا لیں۔
”تمہاری مجرمانہ خاموشی کو میں اقرار سمجھ کر آج تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نیلم تیری ہوگی وگرنہ کسی کی نہیں۔“ عامر نے کچھ کہنے کے لیے لب ہلائے مگر پھر اپنی طبیعت کے باعث چپ سادھ لی۔ اس کی راتوں کی نیند پہلے ہی اڑی ہوئی تھی۔ اس کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی ۔ اگر کسی غیر سے جھگڑا ہوتا تو وہ کچھ کر بھی لیتا، مگر یہاں اپنی ہی برادری سامنے تھی۔ اسے ناصر کی حرکتوں کا پتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ ناصر آخری حد تک چلا جائے گا ۔ اسے یاد تھا کہ بچپن میں ایک بار اس کے کسی کزن نے عامر کو پتھر پھینک کر معمولی زخمی کیا تو ناصر نے اس کزن کو مار مار کر لہولہان کردیا تھا۔ بعد میں لڑائی جھگڑا بڑوں تک پہنچا تو عورتوں کی الگ تو تو میں میں اور تکرار ہوئی ۔ بات تھانے کچہری تک چلی گئی مگر جلد ہی خاندان کے بڑوں نے صلح صفائی کروا کر معاملہ ختم کروا دیا، بصورت دیگر چھوٹی سی بات کا اتنا بتنگڑ بنتا کہ سب سر پکڑ کر رہ جاتے۔ اس کے بعد بھی ایک دو واقعات ایسے ہوئے جن سے عامر کو محسوس ہوا کہ ناصر اس کے ساتھ کسی قسم کی بھی زیادتی برداشت نہیں کرتا ۔ گو کہ دوستی ان میں شروع دن سے تھی مگر اس کی شرافت کے سامنے ہمیشہ ناصر ڈھال بن کر کھڑا رہا تھا۔ اسے بخوبی اندازہ تھا کہ زندگی کے اس اہم موڑ پر اور اتنے اہم فیصلے میں اس کی ناکامی کسی صورت ناصر کو برداشت نہ ہوگی۔ وہ لڑائی جھگڑے سے ڈرتا تھا اور ایسے کاموں سے ہمیشہ اجتناب کرتا تھا اس لیے اب وہ خوفزدہ تھا کہ کہیں آنے والے دنوں میں کسی بڑی لڑائی کا موجب نہ بنے وہ ۔ یہ سب سوچتے سوچتے اس نے رات گزار دی جبکہ دوسری جانب عابد بھی جاگ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ناصر کی باغیانہ حرکتیں اور بدمزاج طبیعت کو دیکھتا اور اس کے بارے میں سنتا آیا تھا۔ عابد خود بھی ماردھاڑ اور بدمعاشی میں کسی سے کم نہ تھا ، مگر اس کے اندر خدائی فوجداری والی حس نہیں تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کے معاملات میں مداخلت کرنے والا اور ٹانگ اڑانے والا اپنی ٹانگیں تڑوا کر ہی جاتا تھا ۔ وہ رات کے پچھلے پہر اس بات پر تلملا رہا تھا کہ ناصر کا لہجہ اس کے لیے حاکمانہ تھا۔
”تم نے عابی کو بھی ڈرپوک سمجھا ہوا ہے پتر! پر شاید تیرا واسطہ ہی ڈرپوک اور بزدلوں سے پڑا ہوگا۔“ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔ اسے رہ رہ کر ناصر کا رویہ یاد آرہا تھا۔وہ اس بات پر بھی افسوس کررہا تھا کہ اس نے وہاں ناصر کے سامنے نرم لہجے میں بات شروع ہی کیوں کی اور بحث و تکرار تک نوبت ہی کیوں آنے دی۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ اسے ناصر کے ساتھ اسی کی زبان میں بات کرنی چاہیے تھی۔
”اب تیرے اندر ہمت ہوئی تو مجھ سے پنگا لینا تیری ساری بدمعاشی نہ نکال دی تو کہنا۔“ وہ مسکراتے ہوئے بڑبڑایا یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوگیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

Read Next

عیدی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!