راج نگر گاوؑں کی فضا سوگوار تھی ۔ اسکول بند تھے کیونکہ بچے گھروں سے نکلے ہی نہیں تھے ۔ لوگوں کا جمِ غفیر راجہ شہباز کے گھر جمع تھا کفن دفن کے انتظامات ہورہے تھے، ہر آنکھ اشک بار تھی ایسے میں صرف ایک گھر ایسا تھا جہاں سے کوئی نہیں آیا تھا۔ اس گھر کے اندر بھی ایک طوفان برپا تھا۔ عامر ڈر کے مارے بالکل ہی گم صم ہو گیا تھا جبکہ ناصر حیرت انگیز طور پر مطمئن تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ جرگہ میں چند لاکھ قصاص کی رقم لے کر معاملہ رفع دفع کردیا جائے گا ۔ اسے بظاہر کوئی ڈر خوف نہیں تھا۔ اس کی آواز میں اب بھی وہی گونج تھی ۔
’’ابو جی میں کہہ رہا ہوں نا کہ مجھے بھگتنے دیجیے سب کچھ، آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک کیا گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکوں گا۔‘‘ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا ۔
’’میں تمہارا باپ ہوں تم نہیں۔ بچپن سے لے کر آج تک ہر معاملے میں تمہاری ہر ضد پوری کرتا آیا ہوں۔ بے وقوفی پر بے وقوفی کرکے تم نے پہلے ہی کم نام روشن کروایا تھا جو اب اس کی کسر رہ گئی تھی ۔ خیر… اب اپنا بوتھاڑا بند کرکے رکھنا، کسی قسم کی کوئی بات کرنے سے پہلے اپنے ماموں سے مشورہ کرلینا اور خبردار کسی کے سامنے جرم قبول کرنے کی یا ایسی بات کرنے کی کوشش کی۔ تمہارے جیسی اولاد سے بہتر تھا اوترا ہی رہتا میں ۔ عزت، شہرت، دولت اور برادری سے تعلق سب خاک میں ملا دیا گندی اولاد نے ۔‘‘ راجہ دلاور نے پہلی بار اس پر ہاتھ اٹھایاتھا۔ وہ کالج کے پروفیسر تھے ہمیشہ اپنی اولاد سے پیار محبت سے پیش آتے تھے۔ زندگی میں پہلا موقع تھا جب انہوں نے اپنی اولاد پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ انتقام کی آگ میں جلتے عابد کے بھائی اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دیں اسی لیے انہوں نے سختی سے ناصر کو گھر سے باہر جانے سے منع کیا ہوا تھا ۔
’’پر ابو جی…‘‘ اس نے احتجاج کرنا چاہا، مگر راجہ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے منع کردیا۔
“میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا، اب میں خود جاوؑں گا جیل۔ قصور تو سارا میرا ہی ہے نہ ایسی گندی اولاد پیدا کرتا نہ ہی آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔‘‘ وہ ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر سے گیٹ کھٹکھٹایا گیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ پولیس ہے۔ انہیں امید تھی کہ جلد یا دیر سے یہ ہونا ہی تھا۔ وہ رات بھر اسی بات کی تیاری میں تھے کہ کیسے ہینڈل کیا جائے اس مسئلے کو۔ ناصر کے ماموں وکیل تھے ان سے مشورہ لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر صورت ناصر ہی کو گرفتاری دلائی جائے مگر اولاد کی محبت سے مجبور راجہ دلاور فی الحال نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر خود جرم قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ فیصلہ درست تھا یاغلط، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا ۔ فی الحال پولیس کا سامنا کرنا تھا۔ پولیس کا آنا اس علاقے میں نئی بات نہیں تھی اور پولیس کے لیے بھی یہ علاقہ جانا پہچانا تھا جہاں اکثر اُن کا آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے عام طور پر جو پولیس کے دم سے خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے وہ نہیں تھی۔
راجہ دلاور نے چپ چاپ گرفتاری دے دی۔ پولیس والے بضد تھے کہ ناصر کی گرفتاری کا بھی حکم ہے مگر اُسے وہاں سے رفوچکر کردیا گیا۔
یہ گواہی دینے کے لیے پولیس کی مٹھی گرم کی گئی تھی، مگر اگلے دن دوبارہ چھاپہ مار کر اسے گھر سے برآمد کرلیا گیا۔ دونوں باپ بیٹے جیل میں چلے گئے۔ ماں چند سال پہلے اگلے جہاں چلی گئی تھی۔ اس لیے گھر میں عامر اکیلا ہی ہوتا، مگر یہ پہلے طے کرلیا گیا تھا کہ ان کا ماموں ساتھ رہے گا۔ راجہ وقاص وکیل تھا۔ اس کیس کے لیے اس نے ہاتھ پاؤں مارنے تھے مگر پہلی ہی پیشی پر اس کے ہاتھ پاوؑں پھول چکے تھے کیونکہ جرگہ کے سامنے قتل ہوا تھا اور ناصر یا دلاور کسی ایک کے کھاتے میں قتل کرنا واضح تھا۔ بچت کی فقط ایک ہی صورت تھی کہ لواحقین معاف کردیتے مگر فی الحال ایسی کوشش کرنا مناسب نہیں تھا ۔ زخم ابھی تازہ تھا اور جذبات بھی۔ ایسے میں لواحقین کا بھڑک جانا اچنبھے کی بات نہ تھی لہٰذا وہ وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔
٭…٭…٭
’’پروفیسر صاحب! میری بات سمجھنے کی کوشش کریں یہ دہرا نقصان کریں گے آپ۔‘‘ جیل میں راجہ وقاص نے ملاقات کرنے پر دوبارہ بہنوئی کو سمجھایا۔ وہ اکثر انہیں بھائی یا پروفیسر صاحب کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔
’’میں فیصلہ کرچکا ہوں وقاص اور تم جانتے ہو کہ میرے فیصلے پتھر کی لکیر ہوا کرتے ہیں۔ میں اپنی بن ماں کی اولاد کو ایسے جیل میں سڑنے نہیں دوں گا۔ ‘‘
’’مگر بھائی جی اس سے نقصان زیادہ ہوگا۔ ہم سب کچھ کھو دیں گے ۔‘‘
’’مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور غلطی میری ہی ہے، میں نے ساری دنیا کی تربیت کا بیڑا اٹھایا تھا اور سب کی تربیت کرتا رہا، مگر اپنی اولاد پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ناصر بدمعاشی کرتا، بری صحبت میں بیٹھتا، لڑائی جھگڑے میں پیش پیش ہوتا اور ہر طرح کے الٹے سیدھے کام کرتا، مگر میں اسے ہمیشہ بچا لیتا۔ یہ میری ہی کوتاہی ہے جس کے سبب آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں۔ سب غلطی میری ہی ہے سب میرا قصور ہے۔ نہ میں بھاگوں والی کو بچا سکا اور نہ ہی ان بچوں کی تربیت کرسکا۔ ‘‘ وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولے۔
’’بھائی جان! ناصر کو کم عمری کے باعث رعایت ملنے کے چانسز بھی ہیں اور آپ… آپ کو سزا ہو گئی تو سب مٹی میں مل جائے گا۔‘‘ وقاص نے آخری کوشش کی مگر راجہ دلاور نے ماننی تھا نہ مانی۔ وہ کچھ اور قانونی داؤ پیچ سمجھا کر وہاں سے چلا آیا۔
گھر آکر اس نے اپنی سی کوشش کی ہر فرد سے بات کی مگر سب کا یہی جواب تھا کہ راجہ شہباز ہی آخری فیصلہ کریں گے کسی قسم کی صلح صفائی کے لیے حتمی فیصلہ وہی کرسکتے تھے جن کا عزیز قتل ہوا ہے۔ گاؤں کے کچھ بڑوں نے مل کر راجہ شہباز سے ملاقات کی مگر اس بار اس کے بیٹے بپھر گئے ۔ ان کا موقف تھا کہ دونوں باپ بیٹا ان کے حوالے کیے جائیں تاکہ وہ ان سے اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لے سکیں۔ عابد کے بھائیوں نے قسم کھائی کہ وہ راجہ دلاور کے سارے گھر کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ انہوں نے ہر قسم کی صلح کی دعوت کو رد کردیا۔ اب دونوں اطراف میں کیس لڑنے کے لیے کمر کس لی گئی تھی۔ لواحقین کا زور اس بات پر تھا کہ قتل ناصر نے کیا ہے جبکہ باپ بضد تھا کہ وہ اپنی جیب میں اسلحہ لے کر آیا تھا جب دونوں گتھم گتھا تھے تو اس نے ڈرانے کی غرض سے پستول نکالا جس پر عابد نے جھپٹا مارا اور گولی چل گئی ۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ دور تھے جب وہاں پہنچے تو عجیب و غریب حالات تھے ۔ پستول انہوں نے راجہ دلاور ہی کے ہاتھ میں دیکھا اس لیے کچھ بھی کہنے سے معذور تھے۔
٭…٭…٭
قتل کیس تھا اتنی جلد فیصلہ آنے کی توقع نہیں تھی ۔ گھر میں جمع پونجی ختم ہونے لگی۔ پرنسپل صاحب کی تنخواہ روک لی گئی تھی جس کے باعث آمدنی کا واحد ذریعہ بند ہوچکا تھا۔ قریبی رشتہ داروں نے بساط کے مطابق مدد کی مگر چند ماہ بعد ہی سب نے آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچ لیا۔ ماموں بدستور کیس لڑ رہے تھے اور ساتھ ہی بھانجوں کو سنبھالے ہوئے تھے ۔ ناصر جلد ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا جبکہ دلاور کو اقرارِ کے بعد ضمانت نہ مل سکی۔ کیس کی سماعت کے دوران کئی بار جذباتی موڑ بھی آئے مگر قانون جذبات کی قدر نہیں کرتا ۔ آخر کار کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ۔ راجہ دلاور کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔ گھر میں مایوسی کا سماں تھا۔ وقاص کو اسی بات کا ڈر تھا۔ راجہ دلاور کے اس فیصلے نے اپنا بیٹا تو بچا لیا مگر باقی سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔ اس کی نوکری، تنخواہ اور مراعات سب کچھ ختم ہو گیا ۔ لاکھوں میں پنشن تھی جو یکمشت ملنی تھی۔ ماہانہ الگ تھی جو کہ مرنے کے بعد بھی بچوں کے کام آتی مگر افسوس سب کچھ زیرو سے ضرب ہو کر زیرو ہو گیا نوکری ختم۔
قانون بڑی عجیب شے ہے وہ جذبات کے ساتھ اکثر کھلواڑ کردیتا ہے۔ قصور بیٹے کا تھا مگر باپ نے اسے بچا لیا اور اسے بچاتے بچاتے سب کچھ کھو دیا تھا۔ بچوں کے پاس ماں تھی نہ باپ ۔ وہ باپ کے ہوتے بھی یتیم کہلاتے تھے ۔ ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی جس کے باعث عیش و عشرت میں مبتلا تھے سب۔ دولت ہی کے دم سے سب کچھ تھا، مگر اب پرنسپل صاحب کے بچے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ ممکن ہے مستقبل میں ناصر دوبارہ غصے میں آکر کسی کو قتل کردے اور خود جیل پہنچ جائے ۔ خون کا بدلہ خون لینے والوں نے اپنی قسم سچ کردکھائی تھی راجہ دلاور کا گھرانہ کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا تھا ۔ عامر صدمے کی کیفیت میں تھا۔ نیلم کے بارے میں مشہور ہو چکا تھا کہ وہ منحوس ہے جس کے باعث دو خاندانوں میں صف ماتم بچھی۔ ممکن تھا کہ ناصر کو کم عمری کے باعث سزا کم ہوتی ۔ راجہ دلاور باہر رہ کر کیس مزید اچھے طریقے سے لڑ سکتا تھا ۔ کم از کم اس کی نوکری تو بحال رہتی مگر اس کے ایک فیصلے نے سب کچھ ختم کردیا۔وہ اولاد کا ڈسا ہوا تھا کس سے شکوہ کرتا کس سے فریاد کرتا۔
جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھا راجہ دلاور اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے ۔ اسے دکھ تھا تو صرف ایک بات کا کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت نہ کرسکا ۔ وہ ساری دنیا کو علم کی روشنی دینے والا چراغ تھا، مگر اس چراغ تلے اندھیرا تھا۔
٭…٭…٭