فیصلہ — محمد ظہیر شیخ

(کے گل اے کاکا! اج کل تے بڑا دیوداس بنڑیا دا اے۱(’’کیا بات ہے لڑکے، آج کل تو دیوداس بنے ہوئے ہو۱۱‘‘
’’ارے نہیں تو…‘‘ عامر نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجانے کی کوشش کی ۔
’’نہیں کے پتر ادھر آو۔‘‘ ناصر اسے کھینچ کر اپنے ساتھ باہر لے گیا جہاں لان میں قریبا چھے فٹ چوڑا اور دس فٹ اونچا جھولا پنڈولم کی مانند ہل رہا تھا۔ وہ اسے لے جاکر وہاں پر بٹھاتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
’’میں کافی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تیرے منہ کا فیوز اڑا ہوا ہے ۔ سیدھی طرح بتاتا ہے یا پھر لگاؤں پھینٹی ۔ واقف تو ہے نا میرا؟‘‘
’’بولا ہے نا کچھ نہیں بس ذرا امتحانات سر پر ہیں اس لیے ان کا بوجھ ہونے کے باعث…‘‘ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ناصر نے اس کی گردن پکڑ لی۔اس کی بدقسمتی کہ والدہ گھر نہیں تھی اس لیے اس کی آہ و فریاد سننے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ جہاں تک اس کا بس چلا اس نے برداشت کیا مگر پھر جب اسے لگا کہ اگر مزید مزاحمت کی تو یقینا کوئی ہڈی ٹوٹ جائے گی تو اس نے ہار مان لی ۔
’’بول جلدی بول کیا بات ہے ورنہ میں تیرا خون پی جاؤں گا۔‘‘
’’بتاتا ہوں… چھوڑ تو سہی مجھے ۔‘‘ وہ منمنایا ۔
’’بالکل بھی نہیں جب تک بات پتا نہیں چلے گی کسی صورت گردن اس شکنجے سے نہیں چھوٹ سکتی اس لیے جلدی منہ کھولو ۔‘‘
’’مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے۔‘‘ اس نے بہ مشکل تمام اتنا ہی کہا تھا کہ ناصر کو یوں لگا جیسے اسے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا ہو۔ اس کا دماغ پہلے تو بھک سے اڑ گیا، آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے عامر کی گردن چھوڑ دی تھی اور عامر وہاں سے بھاگ کر کمرے میں گھس گیا ۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا اور اچانک ہی اس نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور عامر کے پیچھے دوڑ لگا دی ۔
’’میں تیری کلیجی کھا جاؤں گا عامرے! اتنی بڑی بات تو نے مجھ سے چھپائی۔‘‘ اس نے جاتے ہی عامر کو اٹھا کر گدے پر دے مارا۔ عامر شرمندہ شرمندہ سا نظر آرہا تھا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ اس کی گردن دوبارہ بازوؤں کے شکنجے میں کستے ہوئے بولا۔
’’ساری بات صاف صاف بتا ورنہ ابھی تیرا گلڑ بنا دینا ہے میں نے ۔ ‘‘
’’ارے سانس تو لینے دو بھئی! بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں۔‘‘ اس نے گردن چھوڑ دی تو عامر کھانسنے لگا۔ اگلے چند سیکنڈز تک وہ سانس بحال کرتا رہا اور ناصر اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتا رہا۔
’’بھائی وہ نیلم ہے نا؟ ‘‘
’’گی، پھر؟‘‘





’’وہ ناہید ماسی کی بیٹی جو گورے ماموں کے گھر کام کرنے آتی ہیں۔‘‘
’’ اس ناہید کی بیٹی نیلم ۔ ہوں! اس پہ مر مٹے ہو؟‘‘ وہ خاموش ہی رہا جس کا مطلب رضامندی ہی تھا۔
’’جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے پھر بھی؟‘‘
’’بھائی اسی لیے تو پریشان ہوں نا ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس سے پہلے میں خالی سانس لیتا رہا ہوں، زندگی تو حقیقتاً اب شروع ہوئی ہے مگر ایسا بھی لگتا ہے کہ سانسیں بس اسی کو دیکھ کر چل رہی ہیں۔ وہ جدا ہوتی ہے تو سانس سینے میں اٹکنے لگتی ہے۔‘‘ ناصر اسے غور سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرائے جارہا تھا۔
’’ڈائیلاگز زبردست ہیں۔ خیر کیا نام بتایا تھا محترمہ کا… ہاں نیلم، نام تو اچھا ہے۔ اب کتنا قیمتی پتھر ہے، یہ تو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘
’’ارے وہ تو نام ہے بھیا! ورنہ اس کے سامنے کیا زمرد، کیا ہیرا اور کیا جواہرات سب ہیچ ہیں۔‘‘ عامر سنبھل چکا تھا ۔ اس لیے شوخ لہجے میں بولا مگر پھر اس پر اداسی کی چادر تن گئی۔
’’بھیا کچھ کرو نا پلیز…….! ورنہ میں کچھ کر جاؤں گا ہاں۔‘‘
’’کیا کرلے گا، بتا ذرا مجھے؟ بھگا کر لے آئے گا اسے یہاں یا اٹھا کر؟ ہمت ہے تجھ میں اتنی بزدل کہیں کے ۔ خیر کچھ سوچنا پڑے گا۔ تیرے پاس تو عقل نام کی چیز ہے نہیں وگرنہ خود ہی کچھ کرتا۔ مجھے ہی کچھ سوچنا پڑے گا۔‘‘ وہ دونوں اس حوالے سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔ عامر نیلم کے عشق میں بری طرح مبتلا ہو چکا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے گھر والے ایسا بہ مشکل ہی مانیں اور دوسرا اس کی شادی کا بھی فی الحال پانچ سات سال تک کوئی ارادہ نہیں تھا جس کی وجہ سے فی الحال بھینس ابھی پانی میں ہی تھی۔ ناصر اس کے لیے کچھ کرنے کا سوچ رہا تھا۔ ابھی اس نے گھر والوں کے کانوں تک بات بھی نہ پہنچائی تھی کہ انہیں اطلاع ملی کہ نیلم کی منگنی ہونے والی ہے ۔ ان کا کزن عابد امیدواروں کی فہرست میں سب سے پھرتیلا نکلا تھا۔ اس نے وہ قلع فتح کرلیا تھا جس کے باعث عامر کی دنیا اندھیر ہو گئی تھی۔ ناصر الگ حیرت زدہ تھا کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا، مگر جو بھی تھا وہ بازی تقریبا ًہار چکا تھا۔ مگر اس نے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں تھا ۔ پھر وہ کیسے ہار مان لیتا۔
٭…٭…٭
کھیل کے میدان میں اکثر لڑکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مشغول تھے۔ میدان کافی وسیع تھا جس کے باعث اپنی اپنی عمر کے حساب سے کھیل اور جگہ منتخب کی گئی تھی۔ چھوٹے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے جبکہ نوجوانوں کی ٹولی میں سے کچھ تو الگ سے اپنی مخصوص پچ پر نیٹ لگا کر پریکٹس کررہے تھے جبکہ جوان سارے ان سے الگ تھلگ فٹ بال کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ کچھ منچلے لڑکے موٹر سائیکل سیکھ رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکے بھاگ دوڑ میں شامل تھے۔ یوں ہر ایک شام کے وقت اپنی اپنی تفریح میں لگا ہوا تھا۔ عابد الگ بیٹھا مطمئن و مسرور، نیلم کے خوابوں میں کھویا ہوا تھا کہ ناصر کی ملاقات اس سے ہوئی۔ ناصر اسی ٹوہ میں تھا کہ عابد الگ سے کہیں بیٹھے تو اسے پکڑا جائے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عابد کے پاس آیا تو عابد اسے دیکھ کر چونکا
’’آؤ ناصر کیسے ہو؟‘‘
’’بس ٹھیک ہوں تم سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘ وہ اکھڑے اکھڑے لہجے میں گویا ہوا۔
’’حکم کرو۔‘‘
’’بھائی کوئی کام ہے کیا؟‘‘
’’ہاں کام ہی ہے ذرا الگ کسی جگہ پر آؤ۔‘‘
’’وہ پیپل کے درخت تلے جا کر بیٹھتے ہیں چلو۔‘‘ عابد نے ایک درخت کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے لہجے سے ٹھٹک گیا تھا کہ ضرور کوئی غیر معمولی بات ہے مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بات کس نوعیت کی ہوگی۔ وہاں پہنچ کر عابد نے اس کی جانب دیکھا تو ناصر گلا صاف کرتے ہوئے بولا :
’’دیکھو عابد! تم دور پار کے ہی سہی ہمارے رشتہ دار ضرور ہو اور مجھے امید ہے کہ تم میری بات اچھے طریقے سے سمجھ جاؤ گے۔ ہر کام کا ایک حل ہوتا ہے۔ اگر اچھے طریقے سے افہام و تفہیم سے وہ حل نکال لیا جائے تو سب کے لیے بہتر ہوتا ہے بصورت دیگر بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ‘‘
’’میں بالکل بھی نہیں سمجھ سکا کہ تمہاری بات کا اصل مدعا کیا ہے؟ کھل کر بات کرو اور صاف صاف کہو جو کہنا یا پوچھنا ہے۔ ‘‘عابد بھی اسی گاؤں اور خاندان سے تعلق رکھتا تھا اسی لیے بلا جھجھک اس نے اسی لہجے میں پوچھا تو ناصر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میرے بھائی کو وہ لڑکی پسند آ گئی ہے کیا نام ہے اس کا تم جسے منگیتر بنانا چاہتے ہو؟ ‘‘عابد کا دماغ بھک سے اڑ گیا وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ سرد لہجے میں اس نے اتنا ہی کہا۔
’’نیلم کی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں وہی ۔ نیلم عامر کو پسند ہے اور وہ اس سے شادی کا خواہاں ہے اس لیے میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم دونوں کو مل کر…‘‘
’’ واہ واہ کیا کہنے جناب کے۔‘‘وہ قطع کلامی کرتے ہوئے بولا۔
’’نیلم انسان نہ ہوئی کوئی گائے بھینس ہو گئی جو تمہارے بھائی کو بیچ دوں۔ اگر یہی بات کرنے کے لیے مجھے بلایا ہے تو میری بات کان کھول کر سن لو ۔ میں نے ڈنکے کی چوٹ پر نیلم کو اپنی زوجیت میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہیں اس سے میں ہی واقف ہوں۔ اگر آئندہ اس موضوع پر بات کرنی ہوئی تو براہِ مہربانی مجھ سے مت کرنا ۔ ‘‘
’’سوچ لے عابدے! ‘‘ وہ سرد لہجے میں بولا ۔
’’میں سوچتا کم ہوں عمل زیادہ کرتا ہوں اس لیے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے بھائی کے سر سے یہ بھوت اتار دو ۔ نیلم صرف میری ہے اور میری ہی رہے گی ۔ اس کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے والا میرا مجرم ہوگا ۔ ‘‘
’’ایک بار پھر کہہ رہا ہوں سوچ لو! یہ نہ ہو یہ باتیں دور تک جائیں اور پھر واپسی کی راہ ہی نہ رہے۔‘‘
’’میرا دماغ مت خراب کرو ۔ میں کوئی تھرڈ کلاس فیملی کا فرد نہیں ہوں جو تمہاری دھونس دھمکیوں سے ڈر جاؤں، جا جو کرنا ہے کرلو میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ ‘‘
ناصر پاؤں پٹختے ہوئے غصے میں وہاں سے چلا گیا۔ عابد کچھ دیر وہیں بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور پھر وہاں سے اٹھ کر گھر کی جانب چلا گیا۔ راستے میں اس کے ذہن پر یہی دھن سوار تھی کہ ہر حال میں جلد از جلد نیلم کو حاصل کرلے گا تاکہ ناکامی کا ڈر ہی نہ رہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آسیب — دلشاد نسیم

Read Next

ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!