فیصلہ — محمد ظہیر شیخ

پولیس والوں کی بھی عجیب قسمت ہوتی ہے۔ ہر شخص امن و امان اور سلامتی کی دعا مانگتا ہے، مگر پولیس کے محکمے سے تعلق رکھنے والا ہر کارندہ یہی کہتا ہو گا کہ پروردگار آج کوئی کسی کا سر پھاڑ دے، آج کوئی قتل ہو، آج کوئی ڈکیتی کرے یا ہمسائیوں کی ہی آپس میں لڑائی ہو جائے۔
اگر ہر طرف امن و امان اور سلامتی رہے تو کون پوچھے تھانیدار کو اور کون گھاس ڈالے اس محکمے کو… گو کہ ہر جگہ ایسی وارداتوں کا سب سے زیادہ فائدہ پولیس ہی کو ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود راج نگر میں کسی بھی بدامنی کی اطلاع پر پولیس ناک بھوں چڑھا لیتی تھی۔ اس علاقے کے تھانیدار کی بدقسمتی کہ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی ایسی خبر ملتی کہ مجبوراً پولیس کو پہنچنا پڑتا تھا۔ چھوٹے موٹے واقعات اپنی جگہ تھے کہ اطلاع ملی کہ راجہ شہباز کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے۔ گاؤٔں کی بات تھی جنگل کی آگ کے مانند پورے علاقے میں فوری طور پر پھیل گئی۔
٭…٭…٭





راج نگر یوں تو گاؤں ہی تھا، مگر اس کی آبادی اور رقبہ کسی چھوٹے شہر سے کم نہ تھا۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں ایک حلقے کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے تمام متعلقہ امیدواروں کی توجہ کا مرکز راج نگر ہوتا تھا۔ یوں تو راج نگر کی آبادی کا بڑا حصہ راجپوت خاندان پر مشتمل تھا، مگر اس کے باوجود کم ازکم چھے سات مختلف برادریوں کے لوگ بھی اسی گاؤں کے باسی تھے۔ ساری برادریوں کے ہوتے ہوئے بھی راجپوتوں کو اکثریت حاصل تھی۔ اس لیے کسی قسم کے سماجی یا سیاسی فیصلے کرنے میں ان کے پاس جملہ حقوق محفوظ تھے اور کسی برادری کے کسی فرد کی مجال نہ تھی کہ ان کے فیصلوں پر احتجاج یا نافرمانی کرے۔ باقی لوگ تو اللہ اللہ کرکے اور مصلحت کے تحت جی حضوری کرکے وقت گزار رہے تھے مگر جب سامنے اپنا ہی خون آجاتا تو بات بڑی دور تک چلی جاتی۔ اپنوں سے محبت تو ہوتی ہے، مگر جب وہی ادشمنی پر اتر آتے ہیں تو قیامت کا سماں ہوتا ہے۔
راجہ عامر بچپن ہی سے بہت نازک طبیعت واقع ہوا تھا۔ اسکول کے لڑکے اکثر اسے لیڈی، لیڈی کہہ کر چھیڑتے تھے۔ اسے خود بھی کبھی کبھی احساس ہوتا تھا کہ وہ جس گاؤں اور فیملی سے تعلق رکھتا ہے وہاں تو حاکم رہا جاتا ہے ، مگر وہ الگ طبیعت رکھتا تھا ۔ گاؤں میں کوئی بھی شادی بیاہ یا کسی بھی قسم کی تقریب میں شامل ہونا اسے باعثِ شرم محسوس ہوتا تھا۔ لڑائی جھگڑا کرنا تو درکنار وہ کسی ایسی جگہ جانا بھی ناپسند کرتا تھا جہاں اس قسم کی کسی بات کا اندیشہ ہو۔ اسکول سے کالج پہنچا تو مسیں بھیگی اور نوجوانی سے جوانی کا سفر طے ہوا، مگر طبیعت کی وہ شادابی برقرار رہی۔ گھر والے تو ایک طرف گاؤں والے بھی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیسا راجپوت ہے جو ہر ایک سے مسکرا کر ملتا ہے اور گریبان بھی کھلا نہیں رکھتا۔ باقی برادریوں کے تمام افراد اس کی دل سے عزت کرتے تھے مگر اپنی برادری میں وہ کم حیثیت شمار ہوتا تھا ۔ وہ ایسا پھول تھا جو صرف دکھائی دینے کے لیے تھا، مگر پھول کانٹوں کے بغیر ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ اسی لیے اس کے ساتھ بھی ایک زہریلا کانٹا تھا، اس کا بڑا بھائی ناصر……..
عامر شبنم تھا تو ناصر شعلہ، دونوں بھائیوں کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ ہر کام مل جل کر کرتے، ہر راز ایک کا دوسرے کو پتا ہوتا تھا۔ کھانا پینا اور کھیلنا حتیٰ کہ سونے کا کمرا بھی کا مشترکہ تھا، مگر جب بات آتی لڑائی جھگڑے کی تو عامر بھیگی بلی اور ناصر بھیڑیا بن جاتا تھا۔ ناصر بلا کا لڑاکا تھا۔ گھر والوں کی روک ٹوک نہ ہونے کے باعث وہ ہر پھڈے میں پیش پیش ہوتا تھا۔ اس کے والد راجہ دلاور ایک سرکاری کالج کے پرنسپل تھے، گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ عیاش پرست گھرانہ تھا۔ مکان کی تعمیر کے علاوہ جو کچھ کمایا جاتا عیش و عشرت میں اڑا دیا جاتا۔ گزر بسر اچھے سے ہو رہی تھی اور کیا چاہیے تھا۔ مستقبل کی فکر اس لیے بھی نہیں تھی کہ چار پانچ سال بعد ریٹائرمنٹ کی رقم سے کاروبار کرنے کا ارادہ تھا۔ اسی لیے کسی بھی پھڈے کی صورت میں فوری طور پر ناصر کو مکھن کے بال کی مانند بچا لیا جاتا۔ زیادہ باز پرس نہ کی جاتی کیونکہ یہی ایک ہتھیار تھا جس کی بدولت وہ برادری ہر سو حاوی تھی۔ ناصر، عامر کو اکثر طنز کا نشانہ بناتا مگر عامر ٹس سے مس نہ ہوتا۔ وہ اکثر کہتا ’’دیکھ عامرے! یہ جو طاقت ہے نا یہ مرد کی شان ہوتی ہے ۔ اگر انسان اس سے محروم ہو جائے یا جان بوجھ کر اسے زنگ لگا دے تو پھر مرد اور خواجہ سرا میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔‘‘
’’ہوں! تو اس کو تم مردانگی کہتے ہو۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے سادہ سے انداز میں کہتا۔
’’اگر مظلوموں کو دبانے کو، ان کا حق چھین لینے کو اور اپنے سے کمزور لوگوں کو پیٹنے کو تم مردانگی سمجھتے ہو تو میں ایسی مردانگی پر سو بار لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
’’ایک دن آئے گا جب میری بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی ۔ جب تمہیں احساس ہوگا کہ ہر چیز تمنا اور محبت سے نہیں ملتی، کچھ حقوق ایسے ہوتے ہیں جو چھیننے پڑتے ہیں ۔ پھر تم میرے پاس آؤ گے اپنا ہیجڑا پن لے کر……
’’دیکھنا ایک دن تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی عامرے۔‘‘وہ میٹھی ڈانٹ پلاتے ہوئے عامر سے کہتا اور پھر ایک دن عامر کو اس کی بات سمجھ آگئی۔ وہ پریشان تھا کہ اپنی مشکل کیسے ناصر سے بیان کرے۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی کیونکہ ناصر نے اس کی حالت سے خود ہی اندازہ لگا لیا کہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ عامر اپنی کتب لیے بیٹھا تھا کہ ناصر اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ناصر زیر لب مسکرا رہا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اب اس کی خیر نہیں سب کچھ ناصر کے گوش گزار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔
٭…٭…٭
نیلم، راج نگر کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ جب وہ یونیفارم میں ملبوس گاؤں کے راستوں سے اسکول پہنچتی تھی تو راہ میں گزرنے والا ہر جوان اسے دیکھ کر سانس لینا بھول جاتا تھا۔ راجپوت گھرانے کی لڑکی ہوتی تو ہر کوئی دیکھ کر نظر جھکا لیتا، مگر اس کی بدقسمتی کہ وہ ایک غریب کسان غلامو کی بیٹی تھی جو راجہ اکرام کی زمینوں پر کام کرتا تھا۔ غلامو خود تو مریل سا کالی رنگت کا تھا، مگر اس کی بیٹی لاکھوں میں ایک تھی ۔ غریب کی بیٹی تھی اس لیے ہر کوئی دیدارِ عام کا حق رکھتا تھا۔ نیلم کی ماں نے جب ایسی صورتحال کے بارے میں محسوس کیا تو اپنی بیٹی کو گاون، میں اسکول بھیجنے لگی مگر لوگوں کی نظریں پھر بھی نہ رکیں۔ غلامو کو اپنی محنت مزدوری سے فرصت نہیں ملتی تھی گھر کا خیال خاک رکھتا۔ ہاں البتہ وہ اور اس کی بیوی، نیلم کے بچپن ہی سے اس کے جہیز کے لیے پائی پائی جمع کررہے تھے۔ نیلم کی میٹرک کے بعد اس کی شادی کا ارادہ تھا۔ ابھی نیلم نویں جماعت میں ہی تھی کہ گاؤں کا بچہ بچہ اس کے خواب دیکھنے لگ گیا۔ ایک دو بار لڑکوں نے اس سے بات کرنی چاہی مگر اس نے کسی کو لفٹ نہ دی۔ گھر آکر اس نے ماں کو بتایا تو اس کی وساطت سے غلامو تک یہ خبر پہنچی۔ غریب آدمی تھا اس لیے عزت ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے مالک سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو راجہ اکرام نے اس کی بات سن کر اسے مشورہ دیا کہ جلد از جلد بیٹی کی شادی کردے ، مگر وہ جانتا تھا کہ فی الحال وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بیٹی کو عزت سے رخصت کرسکے۔ اس کے پاس جمع پونجی ابھی مطلوبہ ہدف سے بہت کم تھی۔ دوسرا وہ کم از کم دسویں کا امتحان پاس کروانے تک اپنی بیٹی کی شادی کا خواہش مند بھی نہیں تھا۔ اس نے راجہ صاحب کی بات سن کر سر جھکا لیا۔ گھر آکر اس نے بیوی سے مشورہ کیا اور اس بات پر دونوں راضی ہو گئے کہ اگر اچھا لڑکا مل گیا تو وہ لوگ شادی میں دیر نہیں لگائیں۔ فی الحال اللہ کے بھروسے وہ نیلم کو اسکول بھیجتے رہے۔ نیلم کے چاہنے والوں میں راجپوت خاندان کے بھی کئی لڑکے تھے مگر وہ لوگ برادری سے باہر رشتہ داری باعثِ ندامت سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر بہت سے لڑکے دل تھام کے رہ گئے مگر عابد اس کے تیرِ نگاہ کا ایسا شکار ہوا کہ اس نے سارے بندھن، ذات پات، برادری اور رسوم و رواج کے فلسفے کو پسِ پشت ڈال دیا۔
وہ راجہ اکرام کا بھتیجا تھا اور سوائے بدمعاشی کے اسے کچھ نہیں آتا تھا۔ تین بڑے بھائی تھے جو برسرِ روزگار تھے۔ اس لیے سوائے بدمعاشی اور آوارہ گردی کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔
اس نے کئی دنوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث آخر کار گھر والوں کو راضی کر لیا کہ اس کا رشتہ نیلم کے لیے مانگا جائے۔ یہ الگ بات تھی کہ مانگنے کا جھنجھٹ پالا گیا تھا ورنہ سب ہی اس بات سے آگاہ تھے کہ غلامو کی یہ مجال کیسے کہ وہ انکار کر دیتا، چنانچہ اس سے بات کی گئی اور اس نے بخوشی اس بات پر رضامندی ظاہر کردی۔ یوں ایک مشکل مرحلہ عابد کے لیے طے ہوا، مگر وہ حالات کا ایک رخ تھا دوسرے رخ سے اس پر کون سے طوفان نازل ہونے والے تھے وہ اس سے بے خبر تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آسیب — دلشاد نسیم

Read Next

ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!