گفتگو
فصیح باری خان
فصیح باری خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ پاکستانی ڈرامہ کو ایک نیا رنگ اور ایک نیا مزاج دینے والے فصیح باری خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سیریل اور سکرپٹ کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔’ برنس روڈ کی نیلو فر’،’ بڑے شہر کی اکیلی عورت’،’ ٢/٢٦ بہار کالونی’، ‘قدوسی صاحب کی بیوہ’،’ تارِ عنکبوت’ اور اس جیسے لاتعداد شاہ کار ٹیلی فلم اور سیریلز لکھنے والے فصیح باری خان جتنے اچھے رائٹر ہیں، اس سے بھی زیادہ اچھے انسان بھی ہیں۔ اس ماہ گفتگو کے سلسلے میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ فصیح باری خان نے ہمیں وقت دیا۔
٭ سب سے پہلے تو فصیح آپ اپنے بارے میں بتائیں، لکھنے کا آغاز کیسے ہوا؟
فصیح: میرے گھر میں میری والدہ کو پڑھنے پڑھانے کا بڑا شوق تھا، وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں لیکن انہیں شوق تھا، انہیں ادبی چیزیں پڑھنا پسند تھیں جیسے عصمت چغتائی، منٹو ، غلام عباس ۔ گھر میں طرح طرح کے ادبی جرائد بھی آتے تھے،میں بہت چھوٹا تھا اور بہت کم عمری سے ہی ان جرائد کو پڑھتا رہا ، میںجب وہ پڑھتا تھا تو مجھے وہ چیزیں اچھی لگتی تھیں، سمجھ میں اکثر اوقات نہیں آتی تھیں لیکن مجھے اچھی لگتی تھیں۔ میرے ایک کزن ہوا کرتے تھے، ہم ان کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں جایا کرتے تھے۔ ان کے گھر ایک بہت بڑی لائبریری ہوا کرتی تھی اور ان کے پاس کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا تھا، جب میں پانچویں یا چھٹی کلاس میں تھا تب میں نے منٹو کو پڑھا۔ منٹو کی چیزیں ظاہر سی بات ہے اتنی گہری اور بلیغ ہوتی ہیں کہ آپ کو کم عمری میں سمجھ میں نہیں آسکتی تھیں۔ لیکن اس زمانے میں وہ سب پڑھنے کی وجہ سے مجھے ادب پڑھنے کی لت لگ گئی۔ میں بچوں کی دوسری چیزیں پڑھتا تھا تو مجھے مزہ ہی نہیں آتا تھا۔ میں جب آٹھویں کلاس میں تھا تو اس وقت ‘مشرق’ میں ہوتی تھیں شین فرخ، ان کا ایک کالم آتا تھا جس میں وہ لوگوں کو مشورے دیا کرتی تھیں۔میں نے اس وقت اپنا ایک پہلا افسانہ لکھا تھا جس کا نام تھا ”کوے کا راگ۔” ایک لڑکی ہے جو سنسان سے پلیٹ فارم پر کسی کا انتظار کرتی ہے، اور اس ہی دوران وہ فیصلہ کرتی ہے اور واپس مڑجاتی ہے۔ کچھ اس کی اپنی ذات کے ساتھ خودکلامی کی کیفیت تھی افسانے میں، وہ افسانہ میں نے اُن کو بھیجا اور اُن سے پوچھا کہ آپ بس مجھے یہ بتادیں کہ میں ادیب بن سکتا ہوں یا نہیں؟ مجھے ابھی بھی یاد ہے جو جواب انہوں نے دیا کہ تم ادیب بن سکتے ہو بلکہ اچھے ادیب بنوگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میرے پاس آؤ اور آکر مجھ سے ملو، وہ PECHS میں رہتی تھیں، میں گیا ان سے ملنے، انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی، اس کے بعد میرا ان سے رابطہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد اتفاق یہ ہوا کہ میٹرک کے پیپرز دینے کے بعد میں نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا جو ان ہی لوگوں کی طرف سے آیا تھا کہ ہمیں نو عمر contributors کی ضرورت ہے، جو لکھ سکیں، میں ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے مجھے ایک پراجیکٹ دیا کہ کراچی کی لائف پر لکھیں، یہاں پر بعض لوگ ہوتے ہیں جو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، بعض لوگ باہر سے آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ کراچی کے نوجوانوں پر تم مجھے کچھ لکھ کر دو۔ پھر میں نے ان کو لکھ کر دینا شروع کیا۔ انہیں پتا تھا کہ مجھے موویز وغیرہ دیکھنے کا شوق تھا تو انہوں نے مجھ سے reviews وغیرہ لکھوانے شروع کیے، لیکن ان کا کہنا یہ تھا کہ تم اس طرح سے نہیں دو جیسے عام انڈین فلمیں آتی ہیں، تم مجھے انڈین فلموں کا بھی دو، پاکستانی فلموں کا بھی دو اور باہر کی فلموں کا بھی دو۔میں نے شین فرخ کے ساتھ تین سال کام کیا ، پھر وہاں سے مجھے TV Times کے لئے آفر آئی، میں نے وہاں پر تھوڑا عرصہ کام کیا، پھر وہاں سے مجھے کسی نے فاصلہ میگزین کا بتایا، میں نے فاصلہ میں کام کیا۔ میں نے شین فرخ کے ساتھ جو کام کیا وہ inner satisfaction کے لئے کیا، اس کے اندر ہم نے بڑے مشکل مشکل موضوعات پر کام کیا، خواجہ سراؤں کے اوپر میں نے اس وقت بہت تفصیلی کام کیا اور وہ چیزیں بعد میں میرے بہت کام آئیں۔ کیوں کہ میں جو ڈرامے لکھتا ہوں تو مجھے پتا ہے کہ یہ نہیں ہے کہ آپ نے صرف ایک خواجہ سرا پر ڈرامہ بنادیا۔ میں ٹی وی پر چلتے ہوئے ڈرامہ دیکھتا ہوں ان میں کسی کو پتہ نہیں ہے کہ ان خواجہ سراؤں کی زندگی کے کیا مسائل ہیں، ان کی بولی جس کو فارسی چانڈ کہتے ہیں اور ایک اور ہوتی ہے، وہ کیا ہوتی ہے؟ میں نے تارِ عنکبوت جب لکھا تو اس کے اندر ایک علم تھا اُلّو تنتر، اس کے بارے میں پڑھا۔