غضنفر کریم — ارم سرفراز

”ڈی ٹیکٹو فرے، کیا میں آپ سے انتہائی اعتماد میں کچھ بات کر سکتی ہوں کہ یہ گفتگو صرف آپ کے اور میرے بیچ رہے گی؟” طاہرہ افتخار نے گہرا سانس لے کر پوچھا ۔ ڈی ٹیکٹو فرے نے غور سے اسے دیکھا ۔
”اگر یہ بات اس کیس سے متعلق ہے تو یہ صرف مجھ تک محدود نہیں رہ سکتی۔ ” ڈی ٹیکٹو نے جواب دیا ۔
”میں یہ سمجھتی ہوں ، لیکن میں انسانی ہمدردی کے تحت آپ کی مدد مانگ رہی ہوں۔ ”طاہرہ افتخار نے دوبارہ اپنی تسلی کی۔ اس کی باتیں کسی صورت حسن افتخار تک نہیں پہنچنی چاہیے تھیں ۔
”دیکھیے مسز افتخار ، میں آپ کی بات سنے بغیر آپ سے کسی قسم کا کوئی وعدہ نہیں کر سکتی۔ ”ڈی ٹیکٹو فرے اپنی بات پر اڑی رہی۔
”لیکن میں آپ سے اپنی پوری کوشش کے تحت مدد کا وعدہ ضرور کرتی ہوں۔” ڈی ٹیکٹو فرے نہیں چاہتی تھی کہ طاہرہ گھبرا کر اسے کچھ بھی نہ بتائے ۔اس کی بات سے طاہرہ افتخار کے چہرے پر کچھ اطمینان آیا ۔
”مجھے پتا ہے کہ غضنفر کریم کون ہے۔” طاہرہ افتخار کا اگلا جملہ صاف اور مضبوط آواز میں تھا ۔ ڈی ٹیکٹو فرے نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”آپ کو پتا ہے کہ وہ کون ہے ؟”ڈی ٹیکٹو فرے کا لہجہ تیز ہو گیا ۔
”تو پھر آپ نے صبح اس بات سے لا علمی کا اظہار کیوں کیا؟ ”




”کیونکہ میرے شوہر کو یہ بات پتا نہیں چلنی چاہیے۔ ”طاہرہ نے گہرا سانس لیا۔
”اگر اُسے پتا چل گیا تو بہت گڑ بڑ ہو جائے گی۔”
”گڑ بڑ ؟” ڈی ٹیکٹو فرے چونکی۔
”کیسی گڑ بڑ ؟کیا آپ کا اور غضنفر کریم کا افیئر چل رہا ہے ؟” ڈی ٹیکٹو فرے کے نکالے گئے نتیجے پر معاملے کی سنگینی کے باوجود طاہرہ افتخار کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔
”نہیں، نہیں، ڈی ٹیکٹو فرے۔ ” اس نے ڈی ٹیکٹو فرے کی تسلی کی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ دراصل میں ہی غضنفر کریم ہوں۔” طاہرہ افتخار کی بات پر آفس میں کچھ سیکنڈ کے لیے گہرا سکوت چھا گیا ۔ ڈی ٹیکٹو فرے کو لگا اس نے شاید سننے میں غلطی کر دی۔
”آپ غضنفر کریم ہیں؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا ۔
”جی ہاں ۔ ” طاہرہ نے سر ہلایا۔
”میں ہی غضنفر کریم ہوں۔ یہ میرا قلمی نام ہے۔”
”کیا آپ کے شوہر کو اس بات کا علم ہے؟” ڈی ٹیکٹو فرے نے پوچھا ۔ وہ ابھی تک یقین اور بے یقینی کے مابین تھی ۔
”جی نہیں۔ ” طاہرہ نے جواب دیا۔
”کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے ۔ بہت سے مدیروں کو بھی نہیں جو بہت شوق سے میرا کام چھاپتے ہیں ۔”
”تو آپ ایک قلمی نام استعمال کر کے شر انگیز مواد لکھتی اور چھپواتی ہیں۔ ”ڈیٹکیٹو فرے نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
”نہیں ڈی ٹیکٹو، میرا مقصد شر انگیزی ہر گز نہیں ہے ، نہ ہی میرا مقصد کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا ہے۔ ”طاہرہ افتخار نے صاف الفاظ میں نفی کی۔
”یہ کہنا البتہ درست ہوگا کہ میں اپنی رائے کا بے خوف و خطر اظہار کرتی ہوں۔ ویسے ڈی ٹیکٹو فرے، مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ آپ لوگ آج صبح ہمارے دروازے پر اتفاقاً نہیں پہنچے تھے۔ آپ نے اپنی تحقیق کافی حد تک مکمل کرنے کے بعد ہی ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ آپ کو اچھی طرح پتا تھا کہ غضنفر کریم آپ کو اسی پتے سے ملے گا۔” ڈی ٹیکٹو فرے اپنے دل میں طاہرہ افتخار کی ذہانت کی قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ۔ اس وقت اس کے سامنے بیٹھی عورت تو اس خاموش اور دم سادھی عورت سے بالکل مختلف تھی جو اس نے صبح حسن افتخار کے گھر پر دیکھی تھی۔
”اس قلمی نام کا مقصد؟” ڈی ٹیکٹو فرے کا تجسس عروج پر تھا۔
”کیونکہ حسن افتخار اپنی بیوی کو اپنی رائے کا اظہار صاف گوئی سے کرتا نہیں دیکھناچاہتا ۔ اس کے خیال میں عورتوں کی آواز ان کے شوہر ہوتے ہیں ، نہ کہ وہ خود۔ ” طاہرہ افتخار نے مسکرا کر جواب دیا لیکن لہجہ کاٹ دار تھا ۔
”لیکن آپ کے مضامین سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ایک پڑھی لکھی، ذہین اور باشعور انسان ہیں ۔ ” ڈی ٹیکٹو فرین ے کھلے دل سے طاہرہ کی تعریف کی۔
”آپ کے شوہر کو ایسی قابل بیوی پر فخر ہونا چاہیے۔”
”آپ کی تعریف کا شکریہ ڈی ٹیکٹو فرے، لیکن یہی وہ تمام خصوصیات ہیں جو حسن افتخار مجھ میں نہیں دیکھنا چاہتا، کیونکہ بیوی کی غیر معمولی ذہانت ان کے شوہروں کو خائف کر دیتی ہے ۔ ”طاہرہ افتخار نے وضاحت کی۔
”میرا شوہر مجھے صرف خاموش اور باتمیز دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے نزدیک میری معلومات صرف امور گھرداری اور بچوں تک محدود ہونی چاہئیں ۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے گہرا سانس لیا ۔
”آپ ایسے آدمی کے ساتھ زندگی کیوں گزار رہی ہیں؟” اس نے طاہرہ افتخار سے پوچھا۔
”اپنے بچوں کی وجہ سے۔ ”طاہرہ نے سکون سے جواب دیا۔
”حسن افتخار ایک اچھا شوہر ہو نہ ہو، وہ ایک اچھا باپ ضرور ہے اور میں اپنے بچوں کے سر سے ان کے باپ کی چھت نہیں چھین سکتی ۔ وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں اور ایک عزت دار زندگی اور پرسکون گھر ان کا حق ہے ۔ ماں باپ کی لڑائی یا علیحدگی ان معصوموں کی شخصیت کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔ ویسے بھی ہماری کمیونٹی میں اکیلی عورت کی جدوجہد کی قیمت اس کے بچے بھی ادا کرتے ہیں۔” طاہرہ افتخار نے اپنی بات سے ڈی ٹیکٹو فرے کو لاجواب کر دیا تھا ۔
”تو تم حسن افتخار جیسے آدمی کے ساتھ ایک تکلیف دہ زندگی گزارنے پر رضامند ہو؟” اس نے پوچھا ۔
”اس زندگی کا انتخاب میں نے اپنے بچوں کی خاطر کیا ہے۔ ”طاہرہ افتخار نے پھر پرسکون لہجے میں ڈی ٹیکٹو فرے کو لا جواب کیا۔
”یہ ایک بے انتہا تکلیف دہ انتخاب ہے۔ ” ڈی ٹیکٹو فرے نے صاف گوئی سے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”تم یہ برداشت کیسے کرتی ہو؟”
”غضنفر کریم میری زندگی کو آسان بناتا ہے۔” طاہرہ مسکرائی۔ ڈی ٹیکٹو فرے نے گہرا سانس لیا۔
”اب آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”میں چاہتی ہوں کہ آپ غضنفر کریم کی فائل اور انویسٹی گیشن کلوز کر دیں۔” طاہرہ افتخار نے سنجیدگی سے ڈی ٹیکٹو کی آنکھوں میں دیکھا۔
”میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ غضنفر کریم آئندہ اپنی رائے کا اظہار تھوڑے ٹھنڈے دماغ سے کرے گا ۔ویسے بھی آپ کا مقصد صرف اس کو تنبیہ کرنا تھااور وہ آپ کر چکیں ۔ اگر میری اور آپ کے درمیان ہونے والی گفتگو آپ دوسروں کے علم میں لائیں گی تو اس سے میرا گھر ٹوٹ جائے گا اور سب سے زیادہ نقصان میرے تینوں بچے اٹھائیں گے۔ میں فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے کچھ لمحے خاموشی سے اپنے سامنے بیٹھی عورت کو دیکھا جس نے اسے مخمصے میں ڈال دیا تھا ۔
”اچھا ٹھیک ہے، پھر آپ کچھ دنوں کے لیے لکھنا بالکل چھوڑ دیں ۔ ”ڈی ٹیکٹو فرے بالآخر ایک فیصلے پر پہنچ گئی۔
”اب جب اپنے خیالات کا اظہار کریں تو الفاظ کا چناؤ ٹھنڈے دماغ سے کریں ۔ بالخصوص سیاسی تناؤ والی جگہوں سے چھپنے والے جریدوں اور اخباروں سے دور رہیں کیونکہ ان پر ہماری خاص نظر ہوتی ہے۔”
”ٹھیک ہے۔ ” ڈی ٹیکٹو کی باتیں طاہرہ افتخار نے دماغ میں بیٹھا لیں ۔ اس کے لہجے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔
”اور اگر آپ کو مجھ سے کبھی بھی کوئی بات کرنی ہو تو گھر پر ہرگز کال نہ کریں بلکہ مجھ سے غضنفر کریم کے ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اس کا ای میل ایڈریس ہو گا۔ آخری فقرہ کہتے ہوئے طاہرہ کی آنکھوں میں شرارت سی جھلکی۔ ڈی ٹیکٹو فرے سامنے بیٹھی عورت کی بذلہ سنجی پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی ۔ طاہرہ اب جانے کی لیے اٹھ گئی تھی ۔
”میں آپ کے تعاون کے لیے ہمیشہ شکرگزار رہوں گی۔ ” اس نے ڈی ٹیکٹو فرے کا ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کیا۔
”حسن آج ہی ہمارے سارے لیپ ٹاپس کو وائرس کے لیے چیک کر لیں گے ۔ پھر وہ آپ کو یقینا کال کر کے بتا بھی دیں گے ۔”
”اور جب وہ ایسا کریں گے تو میں اس کیس فائل کو یہ کہہ کر بند کر دوں گی کہ غضنفر کریم کے آئی پی ایڈریسز ہیک شدہ کمپیوٹر کے تھے اور یہ کہ اس علاقے میں کوئی اس نام کا آدمی نہیں رہتا۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے طاہرہ افتخار کو اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں بھی بتا دیا ۔
”شکریہ ڈی ٹیکٹو فرے۔ ” طاہرہ افتخار نے جواب دیا ۔ وہ جس کام سے آئی تھی وہ پورا ہو گیا تھا ۔
”ویسے مسز افتخار ، حفاظتی تدبیر کے طور پر آپ اپنا قلمی نام تبدیل بھی کر سکتی ہیں۔” ڈی ٹیکٹو نے مشورہ دیا ۔
”ارے نہیں!” طاہرہ افتخار ہنسی۔
”غضنفر کریم کے چاہنے والوں کی تعداد اب اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ یہ اب تو مجھے بھی ایک جیتا جاگتا انسان محسوس ہوتا ہے، نہ کہ میرے تخیل کی پیداوار ۔ اس کے عقیدت مند اس کے اچانک منظر سے غائب ہو جانے پر ہراساں ہو جائیں گے ۔”ڈی ٹیکٹو نے سر ہلایا اور مسکرائی ۔
”اور مسز افتخار ، بہت محتاط رہیے۔ ” ڈی ٹیکٹو فرے نے پھر سے تنبیہ کی۔
”آپ کے دروازے پر دستک دینے والا کوئی دوسرا ڈی ٹیکٹو شاید میری طرح انڈرسٹینڈنگ نہ ہو ۔”
”جی میں سمجھ گئی۔ ” طاہرہ افتخار مسکرائی اور باہر نکل گئی ۔
اپنی کھڑکی میں کھڑی، گہری سوچ میں گم، لنڈا فرے اس دراز قامت، باوقار عورت کو دور تک جاتے دیکھتی رہی۔ کیسا زیاں تھا ایک اچھی بھلی زندگی کا، اس نے سوچا، لیکن کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ اس کی سوچ نے پلٹا کھایا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ طاہرہ افتخار کے لیے ہمدردی اور ترس محسوس کرے، لیکن اس کا دماغ اسے سمجھا رہا تھا کہ اس عورت کے اندر ترس کھانے والی کوئی بات تھی ہی نہیں۔ طاہرہ افتخار بے باک، بے خوف اور نڈر تھی ۔ اپنی زندگی اور اس میں کیے گئے فیصلے اس کے مکمل اختیار میں تھے ۔ طاہرہ افتخار جیسی عورتیں تو قابل ستائش ہوتی ہیں، نہ کہ قابل ترس۔ طاہرہ افتخار کی زندگی میں ڈی ٹیکٹو فرے کو صرف ایک ہی قابل رحم ہستی نظر آ رہی تھی اور وہ تھا حسن افتخار۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لفاظی — نعمان اسحاق

Read Next

لبِ بام — باذلہ سردار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!