غضنفر کریم — ارم سرفراز

”یہ آدمی ایک لکھاری ہے جس کے مضمون اور کالم پاکستان اور امریکا کے علاوہ دنیا بھر کے کئی اخباروں، جریدوں اور بلاگز میں چھپتے ہیں۔ اس کے موضوعات اسلام اور مسلمانوں سے متعلق سیاست اور حالات حاضرہ کے حساس زاویوں پر ہوتے ہیں اور اس کے قارئین لا تعداد ہیں۔”
حسن افتخار حیرت سے سن رہا تھا۔ طاہرہ افتخار بالکل دم سادھے بیٹھی تھی۔
”ایک ہفتہ پہلے ہمارے سٹیشن میںDHS یا Department of Homeland Security سے alert آئی کہ ہم فوراً اس آدمی کوڈھونڈھ کر نکالیں ۔ یہ آدمی دو تین سالوں سے FBI کی واچ لسٹ پر تھا کیونکہ اس کی تحریر میں مغربی ممالک اور بالخصوص امریکی پالیسیوں کے خلاف تنقید عروج پر پہنچ رہی تھی۔ اس کے کافی مضامین میں مغرب کے خلاف جہاد کی تلقین بھی ظاہر ہوتی ہے۔”
”لیکن ان سب موضوعات پر تو کسی بھی ملک کا لکھاری لکھ سکتا ہے ، بلکہ لکھتا ہے۔” حسن افتخار نے کوفت زدہ آواز میں تبصرہ کیا۔
”پھر کسی پاکستانی مسلمان کو اس شک کا نشانہ بنانے کی کیا وجہ ہے؟”
”کیونکہ اس کے لکھنے کا انداز ہمارے شک کو تقویت دیتا ہے۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ حسن افتخار نے تو الٹا دونوں ڈی ٹیکٹو کے خلاف تحقیق شروع کر دی تھی۔ ڈی ٹیکٹو فرے پر اس آدمی کی تشکیک پرست طبیعت صاف عیاں تھی ۔
”ہم ملک کے خلاف لکھنے والوں پر نظر رکھتے ہیں۔” ڈی ٹیکٹو وارنر نے وضاحت کی۔
”گو کہ آزادی تحریر ہر انسان کا حق ہے، لیکن جب یہ تحریر منفی سوچ اداروں اور ملک دشمن عناصر کو ہوا دینے لگتی ہے تو ملک کا دفاع آزادی تحریر پر حاوی ہو جاتا ہے ۔مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے۔”
”مسٹر حسن افتخار ، آپ اس معاملے کو ذاتی مت لیں۔ ” ڈی ٹیکٹو فرے نے کہا۔




” Homeland Security والے اپنی مرضی سے مشکوک لوگوں کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ یہ ہمارا انتہائی sophisticated کمپیوٹر پروگرام ہے جو کہ کسی بھی لکھاری کے الفاظ کے چناؤ سے اس کی سوچ کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر جب وہ سوچ منفی رخ اختیار کرتی ہے تو ہمیں اس آدمی پر نظر رکھنے کا اشارہ ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ بالخصوص جب کہ وہ شخص ہماری ہی سرزمین پر بیٹھ کر منفی عناصر کو ہوا دے رہا ہو، لیکن ابھی بھی ہمارا مقصد اس کو اپنی تحویل میں لینا نہیں بلکہ صرف دوستانہ تنبیہ کرنا ہے۔”
”ڈی ٹیکٹو، کاش میں اس معاملے میں آپ کی کچھ زیادہ مدد کر سکتا ، لیکن میں واقعی اس آدمی کو نہیں جانتا۔” حسن افتخار نے دوبارہ ان کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ ایک طرح سے وہ دل میں خوش تھا کہ اسے پہلے ہی غضنفر کریم کے بارے میں علم ہو گیاتھا ۔ اب تو وہ کہیں اسے اتفاقاً مل بھی گیا، تو وہ اسے دور سے ہی سلام کر دے گا۔ اب اس کا ڈی ٹیکٹوز کے ساتھ ملاقات کو مزید طول دینے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس تمام دورانیے میں طاہرہ افتخار بالکل خاموشی سے بیٹھی رہی تھی ۔
”کیا آپ کو واقعی سو فیصد یقین ہے کہ آپ اسے نہیں جانتے ، مسٹر حسن افتخار ؟” ڈی ٹیکٹو فرے نے پرسکون آواز میں پوچھا۔
”کیونکہ ہماری تحقیق تو کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔”
”میں آپ کو صاف صاف الفاظ میں بتا چکا ہوں کہ میں غضنفر کریم نامی کسی شخص کو نہیں جانتا۔ ” اس نے بڑی مشکل سے اپنی آواز پر قابو رکھا۔
”آپ لوگ بار بار ایک ہی بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں؟” حسن افتخار کا بھڑکنا اور بمشکل غصے پر قابو رکھنا ڈی ٹیکٹو فرے اور وارنر کی زیرک نظروں سے چھپا نہیں تھا ۔ طاہرہ افتخار کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے تھے۔
”ہم آپ کے گھر اس لیے آئے ہیں مسٹر حسن افتخار کیونکہ ہم نے غضنفر کریم کی طرف سے بھیجے گئے تمام مضامین کے Addresses IP ٹریس کر لیے ہیں۔ ” ڈی ٹیکٹو وارنر نے روکھے لہجے میں حسن افتخار کو اطلاع دی ۔ حسن افتخار کی کوفت اور غصے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”اور یہی addresses ہمیں سیدھا آپ کے دروازے پر لے کر آئے ہیں۔”
حسن افتخار اور طاہرہ افتخار کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”کیا؟” حسن افتخار نے برہم لہجے میں پوچھا۔
”یہ ایک الزام ہے ۔ اس گھر میں کوئی غضنفر کریم نہیں رہتا اور اب میں مزید آپ لوگوں سے اپنے لائر کی موجودگی کے بغیر گفتگو نہیں کر سکتا۔ میں ایک انجینئر ہوں اور کمیونٹی میں میری عزت ہے۔ طاہرہ افتخار ایک house wife ہے۔ آپ بلا وجہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔
حسن افتخار کا چہرہ لال ہو رہا تھا اور طاہرہ افتخار کا اتنا ہی سفید۔ مسٹر حسن افتخار کو بہت جلدی غصّہ آتا تھا، یہ بات دونوں ڈی ٹیکٹو نے دوبارہ نوٹ کی۔
”آپ کیا کرتے ہیں، ہمیں اچھی طرح علم ہے ،مسٹر افتخار ۔ ” ڈی ٹیکٹو فرے نے جواب دیا۔
”اور یقین کیجیے، آپ ہماری کسی بھی تحقیق کا نشانہ نہیں ہیں، لیکن وہ سارے IP Addresses آپ کے ہی گھر سے اور آپ کے ہی ای میل ایڈریسز سے آ رہے ہیں۔ اگر غضنفر کریم کو آپ دونوں نہیں جانتے تو پھر اس تمام معاملے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ غضنفر کریم نامی آدمی نے آپ کا سسٹم ہیک کیا ہوا ہے اور اب آپ کے IP Address سے وہ اپنے مضمون دنیا بھر میں بھیج رہا ہے۔
حسن افتخار بھونچکا رہ گیا ۔ یعنی کہ اس غضنفر کریم نامی شخص کا IP Address ہیک کر کے اسے اس قدر سنگین اور حساس جرم کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ حسن افتخار کو لگا وہ خواب دیکھ رہا ہے ۔ اس طرح کی کہانیاں تو فلموں اور ڈراموں میں ہوتی تھیں، نہ کہ خود کے ساتھ ۔
”آپ کے گھر میں کتنے کمپیوٹر ہیں؟” ڈی ٹیکٹو وارنر نے پوچھا ۔ ان لوگوں کو اپنی تحقیق آگے بڑھانے کے لیے سرا مل چکا تھا۔
”میری بیوی، بڑے بیٹے اور میرے پاس اپنے لیپ ٹاپ ہیں۔” حسن افتخار نے جواب دیا ۔ تفتیش کا فوکس خود پر سے ہٹتا دیکھ کر ا س کی کچھ جان میں جان آئی تھی۔
”آپ فوراً تینوں کمپیوٹرز کو وائرس کے لیے چیک کریں۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے اسے ہدایت دی۔
”اگر کوئی وائرس ملے تو ہمیں اس کے بارے میں بتائیں۔ ہمیں یہ تمام معلومات DHS کو رپورٹ کرنی ہوں گی۔ آپ کو اپنا IP ایڈریس بھی بدلنا ہوگا ۔وہ نیا ایڈریس آپ ہمیں دے دیں تاکہ ہم دیکھتے رہیں کہ کہیں وہ دوبارہ ہیک تو نہیں ہو رہا۔”
”میں یہ کام فوراً کر لوں گا ۔ ” حسن افتخار نے جواب دیا۔
”لیکن یہ شخص تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر میرا IP Address استعمال کر رہا ہوگا۔ ”
”ہاں ، یہ ممکن ہے اور ہمارا کام ہی ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نکالنا ہے۔” ڈی ٹیکٹو فرے نے مسکراکر جواب دیا۔
”جلد یا بدیر ، وہ ہمیں مل جائے گا۔”
دونوں ڈی ٹیکٹو اب کھڑے ہو چکے تھے۔ انہوں نے اپنے کارڈ نکال کر حسن افتخار کو دیے ۔
”اپنے کمپیوٹرز کا معائنہ کرنے کے بعد ہمیں کال کریں تاکہ ہم اپنی رپورٹ مکمل کر سکیں۔ ” ڈی ٹیکٹو وارنر نے جاتے جاتے تاکید کی۔
”DHS غضنفر کریم کی تحریر اور IP Address کو مستقل واچ کرے گا۔ اگر آپ کا پرانا یا نیا ایڈریس دوبارہ آیا ،تو ہمیں آپ کے کمپیوٹرز ضبط کرنے پڑیں گے اور اپنی ماہر ٹیم سے ان کا معائنہ کروانا پڑے گا۔”
باتیں کرتے کرتے دونوں ڈی ٹیکٹو داخلی دروازے پر پہنچ چکے تھے ۔ ڈی ٹیکٹو فرے نے طاہرہ افتخار کی جانب دیکھا ۔ وہ اسے ایک مکمل گھریلو خاتون لگی ۔ طاہرہ افتخار کی مسلسل خاموشی سے اسے شک ہوا کہ شاید اسے انگریزی بولنی بھی نہیں آتی تھی۔




Loading

Read Previous

لفاظی — نعمان اسحاق

Read Next

لبِ بام — باذلہ سردار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!