غضنفر کریم — ارم سرفراز

”ذرا سوچو!” دونوں ڈی ٹیکٹوز کے جانے کے بعد حسن افتخار تنک کر طاہرہ افتخار کی جانب مڑا ۔
”یعنی ہمارے کمپیوٹر ہیک کر کے کوئی اس قدر سنگین کام کر رہا ہے۔ دل چاہتا ہے اس کا گلا مروڑ دوں !”اب وہ کچن ٹیبل پر بیٹھا اپنا لیپ ٹاپ کھول رہا تھا۔
”ان لوگوں کو تو بس مسلمانوں کو کسی نہ کسی وجہ سے بدنام کرنے کا بہانہ چاہیے ۔ ” وہ مسلسل اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا۔
”یہ الو کا پٹھا ضرور گوجرانوالہ یا سکھر میں بیٹھا دل لگی کے لیے یہ کر رہا ہوگا۔ ہماری جان مفت میں عذاب میں ڈال دی۔” طاہرہ چپ چاپ اس کی بک جھک سن رہی تھی ۔ان دونوں ڈی ٹیکٹوز کے اس طرح گھر آنے سے وہ اضطراب کا شکار ہو گئی تھی ۔ ویسے بھی حسن کے ہم کلامی تبصرے وہ اسی طرح خاموشی سے سنتی رہتی تھی۔
حسن اب گوگل سرچ کھول کر غضنفر کریم کے مضمون سرچ کر رہا تھا۔اسے اب اس آدمی کے بارے میں تجسس ہو رہا تھا۔
”یہ تو ویسے بھی انٹرنیٹ کا دور ہے جس کی بھی کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی رائے ہوتی ہے وہ اسے فوراً انٹرنیٹ پر ڈالنا اپنا فرض العین سمجھتا ہے۔” حسن افتخار کا تبصرہ جاری تھا۔
”تو کیا اب یہ ساری کی ساری دنیا پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیں گے؟”
حسن کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر اب غضنفر کریم کے نام کے result جگمگا رہے تھے ۔ اس کے رواں تبصرے کو یکایک بریک لگ گیا ۔ وہ ہونقوں کی طرح، آنکھیں پھاڑے سکرین کو دیکھ رہا تھا۔ غضنفر کریم کے نام کے پانچ لاکھ سے زائد result تھے اور اس کے ان گنت مضمون لائن سے گوگل کی سرچ اسکرین کی زینت بنے ہوئے تھے۔ حسن افتخار نے ایک ایک کر کے اس کے مضامین کو کھولنا شروع کر دیا۔ ڈی ٹیکٹوز ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ غضنفر کریم کی تحاریر ایک سیاسی تبصرہ نگار اور تجزیہ کار کے طور پر کئی نامی گرامی اخباروں اور بلاگس میں چھپی ہوئی تھیں ۔ اس کے بہت سے مضمون دوسرے اخباروں اور بلاگس نے دوبارہ پرنٹ کیے تھے اور اسی وجہ سے اس کے نام کے لاکھوں سرچ result تھے۔ حسن افتخار کا تجسس بڑھ گیا۔ یہ واقعی کوئی عام لکھاری نہیں بلکہ ایک انتہائی قابل انسان تھا۔
اس نے اب اس کے مضامین کو سرسری نظر سے پڑھنا شروع کیا ۔ غضنفر کریم کے زیادہ تر مضامین پر ستر ، اسّی کے قریب کومنٹس اس کی مقبولیت کے آئینہ دار تھے۔ موجودہ عالمی سیاسی فضا کے حساب سے اسلامی بلاگز اور جریدوں میں لکھے جانے والے اس کے مضمون نہ صرف بے طرح صاف گو اور کاٹ دار تھے بلکہ ان میں مغربی پالیسیوں کے خلاف کافی کھلی اور نڈر تنقید بھی تھی۔
”تبھی تو یہ FBI اور DHS کا منظور نظر بنا ہوا ہے۔” حسن افتخار نے سوچا۔




”یہ تو بڑا تجربہ کار اور منجھا ہوا لکھاری ہے۔ ” حسن افتخار نے کچن میں خاموشی سے کام کرتی طاہرہ کواطلاع دی ۔ طاہرہ افتخار نے اب تک غضنفر کریم میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تھا ۔
”نہ صرف یہ بلکہ یہ تو عقلمند بھی بہت ہے۔ کسی اور کے آئی پی ایڈریس سے اپنے مضمون بھیجتا ہے۔ بھائی میں تو مان گیا، یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔”
”اب آپ کیا کریں گے؟” طاہرہ افتخار نے اس پورے دورانیے میں پہلا سوال کیا ۔ حسن اب اپنا کمپیوٹر بند کر رہا تھا۔
”اگر آفس میں آج ایک ضروری میٹنگ نہیں ہوتی تو میں گھر میں رہ کر فوراً ہی کمپیوٹرز چیک کرنے کا کام کر لیتا، لیکن میرا آفس جانا ضروری ہے۔ واپس آکر یہ کام کروں گا۔ واپسی پر ضروری سافٹ وئیر بھی لیتا آؤں گا۔”
یہ کہہ کر اس نے اپنی چیزیں سنبھالیں اور آفس کے لیے نکل گیا ۔ اس کے جانے کے بعد طاہرہ نے فٹافٹ کچن کا کام سمیٹا اور پھر کوٹ پہن کر اپنا پرس اور گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور گھر سے نکل گئی۔
شہر کا لوکل پولیس سٹیشن ان کے گھر سے بہت قریب تھا ۔ وہ سیدھی ریسپشن ڈیسک پر گئی ۔
”میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟” وہاں موجود پولیس آفیسر نے مسکرا کر پوچھا۔
”جی ، مجھے ڈی ٹیکٹو فرے سے ملنا ہے۔” طاہرہ نے آفیسر سے درخواست کی۔
”مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔”
”آپ کا نام کیا ہے؟” آفیسر نے اس دفعہ ذرا غور سے سامنے کھڑی خوش شکل اور پر اعتماد عورت کی طرف دیکھا۔
”میرا نام طاہرہ افتخار ہے اور ڈی ٹیکٹو فرے صبح میرے گھر پر آئیں تھیں۔ ”طاہرہ نے تفصیلاً بتایا۔
آفیسر اسے وہیں رکنے کا کہہ کر اندر چلا گیا ۔ کچھ ہی سیکنڈ میں وہ واپس آیا اور طاہرہ کو ساتھ لے کر اندر آفس کی طرف آ گیا۔ ڈی ٹیکٹو فرے اندر موجود تھی ۔ اس نے مسکرا کر طاہرہ کا استقبال کیا اور اسے بیٹھنے کا کہا۔ اگر طاہرہ افتخار کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی بھی تھی تو اس کے چہرے سے اس کا اظہار نہیں ہو رہا تھا ۔
”میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ، مسز افتخار ۔ ” ڈی ٹیکٹوفرے نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔ طاہرہ نے کچھ لمحے رک کر اپنی سوچ اور الفاظ منظم کیے۔
”مجھے دراصل آپ کی اس انویسٹی گیشن کے بارے میں کچھ سوالات کرنے تھے۔ ” طاہرہ افتخار کی انگریزی ادائیگی اور الفاظ کا چناؤ بہترین تھا۔
”یہ جو غضنفر کریم ہے، یہ جب آپ کو مل جائے گا تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟”
”اس بارے میں میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی ، مسز افتخار ۔ ”ڈی ٹیکٹو نے جواب دیا۔
”وہ اپنی تحریر کا دفاع اظہار رائے کی آزادی کے تحت کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ ذرا پیچیدہ معاملہ ہے۔ ہم صرف اسے تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہماری زمین پر بیٹھ کر اپنے مضامین میں شر انگیزی اور اشتعال کو ہوا دینے والے زاویوں سے پرہیز کرے ، کیونکہ اگر اس کے خیالات کی وجہ سے لوگوں کی سوچ میں منفی اثرات آنے لگے، تو پھر ہمیں ان مضامین کو روکنا پڑے گا ۔اگر وہ امریکا سے باہر بیٹھ کر یہ کام رہا ہے، تو گو وہ ہمارے دائرہ قانون سے باہر ہو گا، لیکن ہم پھر بھی اس کے مضامین پر بین لگا سکتے ہیں۔”
”کیا آپ ہر مضبوط رائے رکھنے والے لکھاری کے ساتھ یہی کرتے ہیں؟ ”طاہرہ نے حیرت سے پوچھا۔
”جی نہیں، مسز افتخار ، ایسا نہیں ہے۔ آپ نے شاید غضنفر کریم کے مضمون نہیں پڑھے ۔ وہ کوئی معمولی لکھاری نہیں ہے۔ اس کے جیسے شعلہ فشاں خیالات اکثر امریکی اداروں کے خلاف منفی سوچ رکھنے والوں کو تشدد پر اکسا دیتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔”ڈی ٹیکٹو نے جواب دیا۔ اسے طاہرہ افتخار بہت الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ شاید پولیس کا اس طرح ان کے گھر جانا اسے کچھ زیادہ ہی پریشان کر گیا تھا ۔ طاہرہ کسی گہری سوچ میں خاموش بیٹھی رہی ۔
”دیکھیے مسز افتخار ، اگر آپ لوگ غضنفر کریم کو نہیں جانتے، تو آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”ڈی ٹیکٹو فرے نے اسے ہمدردی سے تسلی دی۔
”ضرور آپ کا سسٹم ہیک کیا گیا ہے اور وہ آپ کا آئی پی ایڈریس استعمال کر رہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہم آپ کے محلے میں دوسری پاکستانی فیملیز سے بھی بات کر رہے ہیں جن کے آئی پی ایڈریسز آپ سے ملتے جلتے ہیں۔”




Loading

Read Previous

لفاظی — نعمان اسحاق

Read Next

لبِ بام — باذلہ سردار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!