” عکس! تمہیں شرم نہیں آئی اس طرح کی بات کرتے ہوئے؟”
”تم نے کہا پہلے یہ۔چلو ٹھیک ہے میںفون رکھ رہی ہوں۔” وہ بے حد اور خلاف معمول سنجیدہ تھی۔
”تم کیا واقعی میری سیٹ پر آنا نہیں چاہتی تھیں؟” شیر دل کو اس کے لہجے سے پہلی بار تشویش ہوئی۔
”نہیں…” اس کا جواب دوٹوک تھا۔
”کیوں؟” وہ بھی سنجیدہ ہوا۔ یہ پہلی بارتھا کہ اس نے عکس کو کسی ٹاسک یا پوسٹ کے حوالے سے اتنا reluctant دیکھا تھا۔
”بہت ساری وجوہات ہیں۔”
”کوئی ایک دو بتادو۔” وہ واقعی حیران تھا۔
”چلو خیر اب کیا ہوسکتا ہے… پوسٹنگ ہوگئی ہے تو سیٹ تو سنبھالنی ہی پڑے گی ۔” شیر دل کو محسوس ہوا اس نے بات بدلی تھی۔
” Trust meاس پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ تم کو پتا ہے میں کبھی tenure پوری کیے بغیر ان ایمر جنسی ٹرانسفرز کے حق میں نہیں رہا. میں نے تو پتا نہیں کیا کیا شروع کروایا ہے یہاں اس بجٹ کے بعد. ہر چیز کا کریڈٹ تم لے جاؤگی۔” شیر دل ایک ہی جملے میں سنجیدہ ہوا اور پھر فکر مند۔ عکس کو ہنسی آئی وہ جانتی تھی یہ فکر مندی مصنوعی نہیں تھی۔ شیر دل کو ٹرانسفر آرڈرز آتے ہی سب سے پہلے یہی پچھتاوا لگا ہوگا کہ اس کی محنت کا پھل کوئی اور کھانے والا تھا۔
”ایک سال میں ایسے بھی کیا تیر مارلیے ہوں گے تم نے، حوصلہ رکھا کرو اور دل بڑا کرو اپنا۔” اس کے تبصرے کو نظرا نداز کرتے ہوئے شیر دل نے اس سے اچانک خیال آنے پر پوچھا۔
”عکس تم conventarian ہو؟” وہ اس کے سوال پر چند لمحوں کے لیے ٹھٹکی پھر اس نے کہا۔
”ہاں، تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”
”مثال کے اسکول گیا تھا۔وہاں پرنسپل آفس میں رول آف آنر پر تمہارا نام دیکھا۔ پہلے تو کبھی میں نے غور نہیں کیا تھا، اس بار اتفاقاً اسے دیکھتے ہوئے تمہارے نام پر نظر پڑگئی میری۔” شیر دل نے اسے بتایا۔” ویسے تمہیں اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے بتارہا ہوں کہ تمہارا ریکارڈ ابھی تک ٹوٹا نہیں ہے۔” عکس اس کی بات پر مسکرادی۔
”اچھا…نہیں ٹوٹا…؟ ٹوٹ جائے گا، ہر ریکارڈ کسی نہ کسی نشانے کی زد میں ہوتا ہے، کون پرنسپل ہے آج کل وہاں؟” اس نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
”سسٹر ایگنس ہیں۔”
….Great”تو مثال کو بھی تم نے وہیں ایڈمٹ کروایا ہو اہے؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں، شہر بانو کانونٹ کے علاوہ کہیں اور بھیجنے پر تیار نہیں ہوئی ورنہ میں کچھ اور try کرنا چاہتا تھا اس کے لیے۔” عکس دلچسپی لیتے ہوئے اس کی بات سنتی رہی۔ وہ مثال کے ساتھ شیر دل کی گہری جذباتی وابستگی سے واقف تھی۔ مثال شیر دل کی کمزوریوں میں سے ایک تھی اور وہ ان موضوعات میں سے ایک تھی جس پر بات کرتے ہوئے شیر دل کسی کو بھی بور کرسکتا تھا… عکس کے علاوہ۔ وہ دلچسپی سے شیر دل کی باتیں سنتی رہتی تھی اور اس کی باتیں سنتے ہوئے اسے اکثر احساس ہوتا کہ وہ قابل رشک حدتک اچھا باپ تھا اور وہ کئی بار شیر دل کو یہ بتائے بغیر نہیں رہ سکی ۔وہ ہر بار جواباً مسکرادیتا تھا۔
”تمہیں پتا ہے سب سے بڑا فائدہ تمہیں میری سیٹ پر آکر کیا ہونے والا ہے؟” شیر دل بات کرتے کرتے اچانک بولا۔عکس کو موضوع گفتگو کی اس abrupt تبدیلی سے حیرانی نہیں ہوئی ۔وہ جب سے شیر دل کو جانتی تھی وہ ایسا ہی تھا۔ ایک ایشو پر بات کرتے کرتے اس کی ذہنی رو پتا نہیں کہاں پلٹا کھاجاتی۔ بے حد سنجیدہ باتیں کرتے ہوئے وہ اچانک درمیان میں ایک انتہائی احمقانہ بات بڑی سنجیدگی سے کردیتا اور کبھی انتہائی احمقانہ باتیں کرتے ہوئے سنہری حروف میں لکھی جانے والی کوئی بات کہہ دیتا۔ عکس اس کے چہرے اور ذہن کو کسی psychic کی طرح پڑھتی تھی۔
”کیا…؟”
”تمہیں ایک شاندار گھر ملنے والا ہےwell decorated.well maintained شہر بانواور میں نے جان لگادی ہے اس بھوت بنگلے کو اس حالت میں پہنچانے میں… جس میں تم نے اسے دیکھا ہوگا۔”
”اچھا…” مختصر جواب آیا۔
”اوربڑی مزے کی بات بھی ہے اس گھر کے بارے میں۔” شیر دل کو اچانک اس پر ایک اور انکشاف کرنے کا خیال آیا۔
”کیا…؟” عکس نے اسی انداز میں ایکسائٹڈ ہوئے بغیر کہا۔
”اس گھر کے بارے میں بہت ساری myths ہیں۔ پہلی یہ کہ یہاں بونے ہیں اور دوسری یہ کہ یہاں رہنے والا کوئی کپل اکٹھا نہیں رہ سکتا۔ وہ ضرور الگ یا کسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ چیف نے یہ کام کروانے کی بڑی کوشش کی ہے لیکن کچھ ہوا نہیں ورنہ کچھ ہوجاتا تو میری پوری خواہش ہوتی کہ تم اور جواد ملہی بھی شادی کے بعد اسی گھر میں رہتے۔” وہ اس کی انتہائی سنجیدگی سے کہی بات پر کھلکھلا کر ہنس دی۔
”تم کتنے mean ہو شیر دل ۔”
”ہمیشہ سے تھا۔”اس نے برجستہ کہا۔” ویسے یہ پہلی myth کوئی myth نہیں ہے. یہاں واقعی کچھ نہ کچھ ہے ۔ لیکن وہ کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔”شیر دل کو اس سے بات کرنے کے بعد اچانک خیال آیا تھا کہ شاید اس نے کسی مافوق الفطرت چیز کا ذکر کر کے کچھ غلطی کی تھی کیونکہ عکس کو اس گھر میں اکیلا رہنا تھا لیکن پھر اسے خیال آیا تھا کہ وہ غلطی کوئی اتنی سنگین نہیں تھی۔ وہ جس عورت سے بات کررہا تھا اسے اس نے کم از کم اپنے سامنے اکیڈمی کے تمام عرصہ کے دوران کسی چیز سے خائف نہیں دیکھا تھا۔ اس کا نرم ونازک سراپا آہنی اعصاب رکھتا تھا۔ وہ اس سے اکیڈمی میں پہلی بار متاثر بھی ایسی ہی کسی چیز سے ہوا تھا۔
اکیڈمی کے دنوں میں کسی اسٹڈی ٹور کے سلسلے میں وہ لوگ قلعہ روہتاس گئے تھے وہاں سے واپسی پر انہوں نے ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں لنچ کیا تھا۔ لنچ ابھی ارینج نہیں ہوا تھا اور اس کے انتظامات دیکھنے کے لیے ہی کچن میں دوسرے کامنرزکے ساتھ انہوں نے کچن کا وزٹ کیا تھااور کچن سے ملحقہ ڈائنگ ہال میں گھومتے ہوئے انہیں پتا چلا کہ وہاں یہ آزادی صرف سول سروس اکیڈمی میں زیر تربیت ان کے کامن کو نہیں تھی بلکہ ہر رنگ، سائز اور شکل کے بے خوف چوہوں کو بھی تھی جن میں اور شیر دل سمیت دوسرے کامنرز کی اس ریسٹ ہاؤس میں گھومنے پھرنے کی آزادی اور بے تکلفی میں صرف یہ فرق تھا کہ وہ ان کی طرح پشت کے پیچھے ہاتھ باندھ کر ادھر سے ادھر نہیں جارہے تھے… ورنہ انہیں کم از کم اس ریسٹ ہاؤس میں انسان نامی شے سے تو کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔ جس اطمینان وسکون سے وہ تمام چوہے ان سب کی موجودگی کے باوجود اپنی اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھے ان پر کامنرز کو رشک آرہا تھا اور رشک کی اس کیفیت کے دوران ہی مرد کامنرز میں سے کسی نے ان چوہوں میں سے کسی ایک کو پکڑ کر لڑکیوں کو خوفزدہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
شیر دل ویسے تو اس طرح کے پریکٹیکل جو کس میں شامل نہیں ہوتا تھا لیکن اس دن یہ عکس کو دوسری لڑکیوں کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں ڈرتا ہوا بھاگتے ہوئے دیکھنے کی خواہش تھی جس نے اسے بھی اس پریکٹیکل جوک کا حصہ بنادیا۔