”ہونہہ…” شہر بانو نے ذرا سا سر اٹھا کر شیر دل سے کہا۔
”شیری اب تم مجھ سے بات کروگے یا ابھی بھی کمشنر کو text کرتے رہوگے؟” اس کے انداز میں خفگی تھی۔
”میں سن رہا ہوں یار۔” شیر دل نے مسکرا کر بہلانے والے انداز میں سیل فون سے اس کے ناک کی نوک تھپتھپائی. وہ ایک بار پھر فون کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
”لگتا ہے تمہارے چیف نے نیا نیا text کرنا سیکھا ہے۔ پچھلے دو دن سے اس نئی مصیبت نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔” شہر بانو واقعی شیر دل اور کمشنر کے درمیان رابطے کے اس ایک اورذریعے سے تنگ آگئی تھی جو دو دن پہلے شروع ہوا تھا۔ شیر دل اس کی بات پر مسکرادیا۔
”چیف نے بلیک بیری لیا ہے نیا نیا اور ابھی اس کے فنکشنز نہیں سمجھ پارہے۔ آج ڈنر پر بھی وہی سمجھاتا رہا ہوں انہیں اور اب بھی وہی سمجھارہا ہوں۔” شہر بانو اس کے اس سوشل ورک کے بارے میں جان کر زیادہ خوش نہیں ہوئی تھی۔
دو دن سے بھابی کو کیے جانے والے سارے میسجز بھی مجھ تک آرہے ہیں۔ پتا نہیں بھابی تک کس کے جارہے ہوں گے۔ میں نے ابھی منع کیا ہے انہیں کہ جب تک ہاتھ صاف نہ ہوجائے کم سے کم بھابی کو کوئی پرائیوٹ میسج نہ کریں۔” شہر بانو کو بے اختیار ہنسی آگئی۔وہ کمشنر کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے Incompetence کے بارے میں آگاہ تھی۔
”تم نے یہ کہہ دیا ان سے؟” اس نے ہنستے ہوئے شیر دل سے پوچھا۔
”ہاں کہا لیکن اس طرح نہیں کہا۔”شیر دل بھی جواباً مسکرایا۔
”اب تک پہنچ نہیں گئے ہوں گے؟” اس نے کمشنر کے اپنے شہر میں پہنچنے کے حوالے سے پوچھا۔
”نہیں لیکن پہنچنے والے ہیں۔” شیر دل اب بھی text کررہا تھا۔
”اب بس کرو نا۔” شہر بانو جھلائی۔
‘‘One last text ”شیر دل نے بے ساختہ کہا اور پھر چند لمحوں کے بعد سیل فون بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”کیا کہہ رہی تھیں تم؟”شہر بانو کے گرد اپنے دونوں بازو حمائل کرتے ہوئے اس نے کہا۔
”عکس کے بارے میں بات کررہی تھی۔”
”ہونہہ۔” شہر بانو نے بے اختیار سر اٹھا کر شیر دل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”یہ ہونہہ کیا ہوتا ہے؟”
”اور کیا کہوں؟تعریف تو تم پہلے ہی کررہی ہو۔” شیر دل مسکرایا تھا۔
”وہ جتنی اٹریکٹو ہے میں حیران ہوں اب تک سنگل کیسے ہے… شادی کیوں نہیں کی اس نے ابھی تک۔” وہ شیر دل سے یہ سوال نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آیا یہ سوال کیسے اس کی زبان پر آیا تھا۔ رات کے پچھلے پہر جیسے اس کا لاشعور بولنے لگا تھا۔ شیر دل کے چہرے سے چند انچ دور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس نے شیر دل کو جیسے کسی دام میں لانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس سوال کا جواب اس کی زبان سے نہیں جیسے اس کی آنکھوں میں پڑھنا چاہتی تھی۔ شیر دل اس سے آنکھیں نہیں چرا سکا۔ وہ اس کے اتنے قریب تھی کہ آنکھیں چرا کر بھی اسے دوبارہ اس سے آنکھیں ملانی پڑتیں۔
”اس کا ذاتی مسئلہ ہے… میں نے کبھی پوچھا نہیں۔” بے تاثر لہجے میں شیر دل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے لاشعور کو بولنے نہیں دیا۔ اس کے اور عکس کے درمیان ہونے والا ہر سوال جواب صرف دو سامعین اور دو لوگوں کے لیے تھا… عکس…اور… شیر دل کے لیے۔ وہ اپنی اور عکس کی کوئی ذاتی گفتگو کہیں نہیں دہراتا تھا، کسی تیسرے چوتھے شخص کے سامنے نہیں۔یہ ان کے رشتے اور تعلق کا ایک unsaid rule تھا۔ایک دوسرے کا کوئی راز کسی سے شیئر کرنا تو خیر ناممکنات میں سے تھا۔
”تم اور وہ تو آپس میں کافی کلوز ہو شاید… تم نے بھی کبھی نہیں پوچھا؟” لاشعور نے پھر ایک اور سوال کیا جوشعور چھپائے ہوئے تھا۔
”نہیں۔” وہ پلکیں جھپکائے بغیر شیر دل کو دیکھتی رہی، وہ بھی اسے اسی طرح دیکھ رہا تھا۔ یہ بھی وہ جواب نہیں تھا جس کی اسے توقع تھی۔ نہ اس جواب کی… نہ اس کے اتنے مختصر ہونے کی لاشعور اگلا سوال کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ جب اس نے شیر دل کو کہتے سنا۔
‘‘I love you shabi ” وہ اب اس کے بالوں میں انگلیاں پھیررہا تھا۔عکس مراد علی سیکنڈز میں کہیں غائب ہوگئی تھی۔
”سو بار کہو۔” اس نے مسکراتے ہوئے شیر دل کی ٹھوڑی کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے کہا۔
”صرف سو بار…؟” شیر دل ہنسا۔
”تم زیادہ بار کہنا چاہتے ہو؟” اس نے شیر دل کے سینے پر عجیب سرشاری کے عالم میں اپنا ماتھا ٹکاتے ہوئے اسے چھیڑا۔
”نہیں تو…” شیر دل مسکراتے ہوئے سنجیدہ ہوا۔
”نہیں؟” وہ ایک دم اس سے الگ ہوئی۔
”ہاں…” وہ پھر ہنسی۔
”تو پھر کہو ۔ ”
” After you ma’am.”وہ پھر ہنسی۔
‘‘I love you sherdil.” شیر دل مسکرایا۔”میں نے تمہارے علاوہ کسی دوسرے مرد سے محبت نہیں کی ۔کر ہی نہیں سکتی۔” اس کے گال چھوتے ہوئے وہ اسی سرشاری کے عالم میں کہہ رہی تھی۔
”اور تم…؟” وہ جیسے اب وہی سب کچھ اس کی زبان سے سننا چاہتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی اس نے اپنے سوال سے شیر دل کو کیسی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ وہ نادانستگی میں اپنے اور اس کے بیچ عکس مراد علی کو لے آئی تھی۔
”I love you shabi ” شیر دل ایسے نازک مرحلوں سے بہت بار گزرا تھا۔ عکس مراد علی سے بہت بار بچ کر گزرنے کی کوشش کی تھی اس نے۔ لیکن عکس کو اپنے دل میں اس جگہ سے ہٹائے بغیر اور ہلائے بغیر جہاں وہ تھی۔
”تم میری زندگی کی دو خوب صورت اور قیمتی ترین چیزوں میں سے ایک ہو”…I am incomplete without you شہر بانو مسکرادی۔ وہ ہمیشہ اس سے یہی کہا کرتا تھا اور وہ جانتی تھی وہ دوسری قیمتی اور خوب صورت چیز کون تھی … مثال شیر دل۔
دنیا کا کوئی مرد شیر دل جیسا نہیں تھا …ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے سینے پر سر رکھے آنکھیں موندتے ہوئے شہر بانو نے سوچا ۔وہ ٹھیک سوچ رہی تھی۔ دنیا کا کوئی مرد شیر دل جیسا نہیں تھا… ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہاں سے 250 کلو میٹر دور اپنے گھر کے بیڈ روم میں اپنے پرس سے شیر دل کا دیا ہوا ٹشو پیپر نکالتے ہوئے عکس مراد علی نے بھی یہی سوچا تھا۔
……٭……