”اچھا…؟میں نے آپ کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔” عکس اس کی بات پر مسکرادی۔ شہر بانو نے کچھ جتانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس نے واقعی شیر دل سے عکس مراد علی کے نام کے سوا اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، اس کے باجود وہ اتنا احساس ضرور رکھتی تھی کہ عکس مراد علی شیر دل کا وہ بلیک ہول ہے جسے کھوجنا صبر آزما اور خود اذیتی کے سوا کچھ نہیں آور شہر بانو کو کسی بلیک ہول میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شیر دل کے ساتھ اس کی ازدواجی زندگی مثالی تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی کوئی آئیڈیل نہیں بنایا تھا لیکن شیر دل کے ساتھ اتنے سال گزارنے کے بعد وہ جانتی تھی کہ وہ اگر ایک آئیڈیل شوہر کا کوئی خاکہ بناتی تو وہ شیر دل ہی کاہوتا۔ وہ پیار کرنے والا، خیال رکھنے والا، وفادار شوہر تھا جس سے شہر بانو کو اس کی مصروفیات کے علاوہ کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔ وہ ان عورتوں میں سے نہیں تھی جو شوہر کی زندگی اور ہر سرگرمی کو قابل دراندازی سمجھتی تھیں۔ شیر دل نے اسے ایک عورت اور بیوی کے طور پر بہت space دی تھی اور شہر بانو نے وہی space اس کو دی تھی۔شیر دل اب اس کا تھا اور جب تک وہ اس کا تھا اسے یہ جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اس سے پہلے کون کون شیر دل کو اپنا بنانا چاہتا تھا یا شیر دل کس کو اپنا… اور صرف یہ ایک بات اور سوچ تھی جس پر ہمیشہ اس کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے رکتی تھی جس کو وہ ہمیشہ سر سے جھٹک دیتی تھی۔ اس کا دل یہ کبھی نہیں مان سکتا تھا کہ شیر دل اس سے پہلے کسی سے محبت کرتا تھاکرچکا تھا یا کرسکتا تھا… یہ خیال بھی اس کو جسم میں ٹھکنے والی میخوں کی طرح لگتا تھا۔
”شیر دل کی زندگی میں بہت لڑکیاں آئی ہوں گی لیکن محبت… وہ اس نے صرف مجھ سے کی، مجھ سے کی تو مجھ سے شادی کی ورنہ وہ کسی سے بھی شادی کرسکتا تھا۔ کوئی لڑکی شیر دل کو انکار تو نہیں کرسکتی تھی۔”پتا نہیں کیا کیا تاویلیں اور جواز دے کر وہ خود کو یہ یقین دلاتی تھی کہ محبت نام کی شے شیر دل نے صرف اسی کے لیے محسوس کی ہوگی… باقی سب کچھ… کچھ بھی نہیں تھا اور شیر دل نے ازدواجی زندگی کے اتنے سالوں میں اپنے رویے سے جیسے اس کے اس بلی کے سامنے آنکھیں بند کیے کبوتر جیسے اعتماد اور یقین پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی… اس نے شہر بانو کی ماں کی ان تمام پیش گوئیوں اور اعلانات کو غلط ثابت کردیا تھا جو شرمین نے شیر دل کے ساتھ شادی کی ضد پر اسے شیر دل اور اس کی فیملی کے حوالے سے بتائی تھیں۔
ضلع کی تمام ایڈمنسٹریشن ہال کمرے میں اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ شیر دل کے گھر پر ہونے والے اس ڈنر کے لیے موجود تھی اور کمشنر اور ان کی بیوی وہ آخری مہمان تھے جنہیں پہنچنا تھا۔ عکس وہاں بہت پہلے آچکی ہوتی اگر کمشنر اور ان کی بیوی نے ایک ہی شہر سے جانے کی وجہ سے اسے اپنے ساتھ جانے کی د عوت نہ دی ہوتی۔
ڈنر کے دوران شہر بانو کی نظریں وقتاًفوقتاً عکس پر بھٹکتی رہیں۔ وہ عکس مراد علی کو سننا چاہتی تھی جیسے اسے جاننا چاہتی تھی لیکن عکس مراد علی نے سارا وقت بے حد خاموشی سے وہاں ہاتھ میں ڈرنک یا چائے لیے مسکراتے دوسروں کی باتیں سنتے ہوئے گزارہ تھا۔ چند ایک بار ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔ شہر بانو نے ایک مہمان نواز میزبان کی طرح اس سے کھانے وغیرہ کے حوالے سے پوچھا۔ عکس نے ایک مہذب مہمان کی طرح اپنی سیری کا اظہار کیا۔ شہر بانو کسی اور کی طرف متوجہ ہوگئی اور گفتگو کہیں سے کہیں چلی گئی۔
ڈنر کے اختتام پر مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے شہر بانو اور عکس کا ایک بار پھر آمنا سامنا ہوا تھا۔ شہر بانو اب اس سے پہلے کی طرح نہیں ملی تھی۔ وہ ایک گرم جوش میزبان کی طرح اس سے گلے ملی تھی۔ عکس مراد علی کی پورچ سے نکلتی ہوئی گاڑی کو دیکھتے ہوئے شہر بانو کواندازہ نہیں تھا کہ وہ چند ہفتوں میں عکس سے دوبارہ وہاں ایک مہمان کے طور پر ملے گی اور وہ اس سے میزبان کے طور پر۔
……٭……
کریٹ میں سے ایک ایک آم نکال کر وہ ساتھ ساتھ اس پر لگے اسٹیکرز چیک کررہی تھی جس آم پر اسٹیکر نظر نہ آتا وہ ایک لحظے کے لیے رک کر آم کو گھما پھر ا کر اس کا اسٹیکر تلاش کرنے کی کوشش کرتی پھر اسٹیکر کو آم کے کسی نہ کسی حصے پر موجود پا کر وہ جیسے مطمئن ہوجاتی۔صبح اسکول جانے سے پہلے ریڑھی پر پھلوں کو سجانا اور ترتیب سے رکھنا اس کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک تھا لیکن آج چھٹی کا دن تھا اور چھٹی کے دن وہ خیر دین کے ساتھ آتی اور فٹ پاتھ پر ایک اسٹول پر بیٹھی اپنا سبق یاد کرتے ہوئے پھلوں کی ترتیب کو بگڑنے نہ دیتی۔ کسی بھی گاہک کے آنے پر وہ بے حد ایکسائٹڈ انداز میں گاہک کے سب سے اچھا پھل چننے کی کوشش میں جیسے اس گاہک سے بھی زیادہ پھرتی اور دلچسپی دکھاتی، وہ اس کو پھلوں کی سجائی ہوئی ڈھیر یوں میں سے اچھے سے اچھا پھل نکال کر دکھاتی اور پھر ترازو پر رکھ دیتی جس پر خیر دین پھل تول رہا ہوتا اور جب وہ گاہک چلا جاتا تو وہ نئے سرے سے بچے ہوئے پھلوں کو ترتیب دیتی۔ پھلوں کی بڑی بڑی ڈھیریوں کو گھٹتے دیکھنا اس کا جیسے ایک اور پسندیدہ مشغلہ تھا۔ خیر دین نے کیا کمایا اور کیا بچایا سے زیادہ چڑیا کو خوشی اس بات کی ہوتی تھی کہ اس کی ریڑھی کا پھل ضرور بکتا اور شام تک ختم ہوجاتا تھا۔ بالکل دال کی اس دیگ کی طرح جو صبح لبالب بھری ہوتی اور خیر دین کے لیے اسے ہلانا بھی مشکل ہوتا لیکن شام تک وہ اس طرح خالی ہوجاتی کہ بعض دفعہ خیر دین کو اسے ٹیڑھا کر کے چمچ کے ساتھ اس کے پیندے کو کھرچ کھرچ کر بھی اپنے کسی گاہک کی فرمائش پر اس کا پیالہ بھرنا پڑتا۔ خیر دین دال سے جتنا کماتا تھا پھلوں سے اتنا نہیں کماتا تھا لیکن چڑیا کو دال کے بزنس سے زیادہ پھلوں کی اس رنگین ریڑھی میں دلچسپی تھی جسے وہ خود سجاتی تھی۔ وہ جیسے اس کا کینوس تھی جس پر وہ مختلف رنگوں اور شکلوں کے پھلوں سے اپنی Creativity کا اظہار کرتی تھی۔ وہ ریڑھی اس فٹ پاتھ پر خیر دین کی دال مشہور اور مقبول ہوجانے سے پہلے اس فٹ پاتھ کی سب سے خوب صورت پھلوں کی ریڑھی تھی جس پر پہلی نظر ڈالنے کے بعد کوئی پھل خرید نے کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود بھی ایک دوسری ستائشی نظر ضرور ڈالتا تھا۔ کسی نے کبھی اس ریڑھی پر بد نظمی اور بے ترتیبی نہیں دیکھی تھی، نہ ہی گندگی اور اس میں خیر دین کے اپنے سلیقے کے ساتھ ساتھ چڑیا کے مزاج کی نفاست کا بھی عمل دخل تھا۔ شروع شروع میں خیر دین صرف پھلوں کی ایک ریڑھی لے کر ہی اس فٹ پاتھ پر کھڑا ہوا تھا۔ لیکن چند ہفتوں میں ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ صرف پھلوں کی ریڑھی کے ساتھ گھر کا خرچہ چلانا مشکل تھا… خاص طو ر پر اب جب کچھ بھی مفت نہیں تھا… چند ہفتوں میں ہی خیر دین نے اسی پھلوں کی آدھی ریڑھی کو خالی کرتے ہوئے وہاں اس دال کا دیگچہ رکھ لیا تھا جس کے لیے وہ ڈی سی ہاؤس میں مشہور تھا… اور اس کی دال کچھ دنوں کے اندر اس کی توقعات سے بھی زیادہ بکنے لگی تھی۔ چند ہفتے گزرتے ہی اسے اس دال کے دیگچے کو دیگ میں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی اس نے پھلوں کی ریڑھی کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ صبح صبح منڈی جا کر پھل لانا اور دال پکانا بہت دقت طلب کام تھے لیکن چڑیا کی آنکھوں اور چہرے پر اترتی مایوسی اسے اس کے فیصلے پر عمل در آمد نہ کراسکی۔
خیر دین نے اپنی زندگی کی مشقت کچھ بڑھالی تھی لیکن پھلوں کی وہ ریڑھی اس نے ختم نہیں کی البتہ اب اس ریڑھی سے دال کا بزنس اس نے ایک دوسری ریڑھی پر منتقل کرلیا تھا اور ایک نوعمر لڑکا اس نے اپناہاتھ بٹانے کے لیے بھی رکھ لیا تھا۔
خیر دین کی رہائش اس فٹ پاتھ سے ملحقہ رہائشی علاقے میں تھی اور اسکول سے واپس آنے کے بعد چڑیا خیر دین کے پاس آکر اس کی ریڑھی پر بیٹھ جاتی۔ وہ وہیں اپنا اسکول کا ہوم ورک بھی کرتی اور اس کی ریڑھی کی حفاظت اور نگرانی بھی۔جب تک خیر دین نے اپنا ہاتھ بٹانے اور ادھر ادھر کے کاموں کے لیے وہ لڑکا نہیں رکھا تھا چڑیا ہی تب تک خیر دین کا ”چھوٹا” تھی۔ جو اس کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ سڑک پر لوگوں اور گاڑیوں کے شور سے بے نیاز اور بے پروا اپنا سبق یاد بھی کرتی تھی اور لکھنے والا ہوم ورک بھی۔ اس کے آس پاس ہونے والا کوئی شور اس کے فوکس اور توجہ کو بانٹنے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہی چڑیا نے اپنے آپ کو آس پاس کی شور مچاتی دنیا کو شٹ آف کرنا سیکھا بالکل اس طرح جیسے اس نے اس رات اپنی زندگی کے سب سے بھیانک اورتکلیف دہ تجربے پر ایک مینٹل بلاک لگایا تھا اور جب تک وہ اس پر مینٹل بلاک نہیں لگا سکی چڑیا تب تک ذہنی طور پر مفلوج ہوتی رہی۔نو سال کی اس بچی نے بڑوں کی دنیا کا” جنس” نام کا آسیب بہت غلط عمر میں دیکھا تھا۔ اس آسیب نے اس کی بچوں کی دنیا کی ساری خوب صورتی اور رنگینی کو پلک جھپکتے میں غائب کردیا تھا۔ چند ہولناک گھنٹوں نے اس کی زندگی میں نیپام بم سے زیادہ تباہی برپا کی تھی۔ زندگی وہ airytale fنہیں تھی جو وہ گزار رہی تھی بلکہ وہ تھی جس کی ایک جھلک نے اس کولرزا کر رکھ دیا تھا۔
وہاں اس رات اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ یہ سوال چڑیا کو گونگا کردیتا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں کرپائی تھی، صرف تاریکی اور اپنی گردن پر کسی کے ہاتھوں کی گرفت ۔ایبک کی ہذیانی چیخیں اور اس ساری تکلیف سے زیادہ تکلیف دہ اپنی عریانی اپنے برہنہ جسم کا تصور… اور اس کے بعد چڑیا کا ذہن مفلوج ہوجاتا۔ وہ کانپتے جسم اور بھینچے ہونٹوں کے ساتھ سرد جسم اور پھٹی آنکھوں کے ساتھ ماں کو دیکھتی بے آواز اور بے حس وحرکت روتی جاتی اور اس کے جسم پر ٹھنڈے پسینے آتے… اور اس کی ماں اس کی حالت دیکھنے کے بعد بلک بلک کر روتی جاتی۔ اس نے چڑیا سے کچھ بھی پوچھنا چھوڑدیا تھا۔ جس حالت میں خیر دین نے اسے ڈی سی ہاؤس میں دیکھا تھا اس کے بعد کسی سوال جواب کے بغیر بھی وہ جانتا تھا وہاں کیا ہوا تھا؟ چڑیا کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ حلیمہ کی طرح وہ چڑیا سے کبھی کچھ نہیں پوچھ سکا تھا، وہ سوال یا کوئی بھی سوال۔وہ خیر دین کی عمر بھر کی کمائی سے کھڑی کی ہوئی ایک شاندار عمارت تھی جسے اس حالت میں اس گھر میں دیکھ کر خیر دین پلک جھپکتے میں خود ڈھے گیا تھا۔ کوئی ظلم سا ظلم ہوا تھااس پر… سوال جواب کیا رہ گئے تھے، کس نے کرنے تھے اور کیوں کرنے تھے۔
اس نے ہذیانی اور جنونی انداز میں صرف ڈی سی کو مارنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ وہی ہوا تھا جو ہوسکتا تھا۔ چند منٹوں میںڈی سی کے حفاظتی عملے نے اسے زدوکوب کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن پہچادیا تھا جہاں وہ اگلے دو دن تشدد کا نشانہ بنتارہا۔ راتوں رات اس کی بیٹی کو چڑیا اور کوارٹر کے سامان کے ساتھ ڈی سی ہاؤس سے باہر پھنکوادیا گیا تھا۔ رات کے وہ آخری چند گھنٹے چڑیا نے اپنی ماں کے ساتھ ڈی سی ہاؤس سے باہر پھنکوائے ہوئے ان کے سامان کے ڈھیر پر اپنی روتی ہوئی ماں سے لپٹے ایک عجیب خوف اور دہشت کے عالم میں گزاردیے تھے۔
فجر کی نماز کے بعد دن ہونے پر اس کی ماں سامان کے اس ڈھیر کو وہیں چھوڑے اسے ساتھ لیے وہاں سے کئی فرلانگ دور ایک pco سے اپنے کسی جاننے والے کو فون کر کے وہاں پہنچنے کا کہہ کر جب تک واپس آئی سامان کے اس ڈھیر سے بہت کچھ راستے سے گزرنے والے اٹھا کر لے جاچکے تھے اس سامان کا ماتم چڑیا کی ماں تب کرتی اگر ماتم کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی اور سامان نہ ہوتا۔ اگلے چند گھنٹوں میں اس جاننے والے نے اس سامان کو اٹھوا کر انہیں اپنی چھت کے نیچے پناہ تو دے دی تھی لیکن خیر دین کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں تھا۔ وہ بھی کسی کالج میں اردلی تھا اورڈی سی کے حکم پر بند کیے جانے والے خیر دین کے لیے وہ کیا کرتا۔ ایف آئی آر میں خیر دین پر ڈی سی کے گھر میں چوری کے الزام کے ساتھ چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے پرڈی سی پر قاتلانہ حملہ کرنے کا بھی الزام تھا اور ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر کے جان اور مال پر ہاتھ ڈالنے کا نتیجہ جو ہوسکتا تھا وہی ہوا تھا۔ شہر کا کوئی بھی وکیل فیس لیے بغیر خیر دین کے لیے ضمانت کی کوششوں کا حصہ بننے کو تیار نہیں تھااور بے بسی اور کسمپرسی کی اس انتہا کا ایک ایک لمحہ اس نو سالہ بچی کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ کر گیا تھا۔