عکس — قسط نمبر ۳

ہال کمرے سے باہر نکلتے ہی شیر دل نے بھی برآمدے نما کوریڈور کی کھڑکیوں سے باہر اکٹھے ہوئے گارڈز کو دیکھ لیاتھا۔
”تم بیڈ روم میں جاؤ، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” وہ شہر بانو سے کہتے ہوئے خود بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا… شہر بانو اپنے بیڈ روم میں آ گئی۔ مثال اسی طرح اپنے بستر میں گہری نیند سو رہی تھی۔ شہر بانو کو بیڈ روم میں آ کر پہلی بار سردی کا احساس ہوا تھا۔ وہ ننگے پاؤں اوپر تک پھر آئی تھی۔ وہ کمبل ہٹاتے ہوئے دوبارہ بستر میں گھس گئی۔ بستر میں چت لیٹے وہ کچھ دیر تک شیر دل کا انتظار کرتی رہی… اسے نیند آ رہی تھی لیکن وہ شیر دل کو واپس کمرے میں موجود دیکھے بغیر سونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ شیر دل تقریباً پندرہ بیس منٹ کے بعد واپس آیا…اور وہ تب بھی جاگ رہی تھی۔




”سو جاؤ یار… کیوں جاگ رہی ہو؟” شیر دل نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اسے جاگتے دیکھ کر کہا۔
”تمہارا انتظار کر رہی تھی۔” شہر بانو نے کچھ مطمئن انداز میں جماہی لیتے ہوئے کہا۔
”میں واپس آ گیا ہوں… تم سو جاؤ۔” شیر دل نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔ وہ اب سائڈ ٹیبل پر پڑا اپنا لائٹر اور سگریٹ پیک اٹھا رہا تھا۔ شہر بانو آنکھیں بند کیے چند لمحے جیسے اس کے بستر پر لیٹنے کا انتظار کرتی رہی پھر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ کو آف کر رہا تھا لیکن بستر میں نہیں تھا۔
”تم کہاں جا رہے ہو اب؟” شہر بانو نے کچھ ہڑبڑا کر کہا۔
”میں مثال کے بیڈ روم میں ہوں ایک دو سگریٹ پی کر واپس آ جاؤں گا۔” شیر دل نے دھیمی آواز میں اس سے کہا اور برابر والے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ شہر بانو نے کچھ الجھ کر کمرے کی نیم تاریکی میں اس کے ہیولے کو برابر والے کمر ے میں غائب ہوتے دیکھا… وہ کیوں سو نہیں پا رہا تھا، وہ سمجھ نہیں پائی تھی اور آدھی رات کو کس کام سے اوپر والی منزل پر گیا تھا وہ اس سے یہ بھی پوچھ نہیں پائی تھی… وہ بہت دیر تک آنکھیں کھلی نہیں رکھ پائی۔
برابر والے کمرے میں شیر دل بیٹھا ایک کے بعد ایک سگریٹ پی رہا تھا۔ بہت زیادہ تھکن ہونے کے باوجود نیند اب بھی اس سے کوسوں دور تھی اور جو کچھ وہ اوپر والے بیڈ روم میں دیکھ آیا تھا اس کے بعد اسے نیند آ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ گھر کسی نہ کسی حد تک Haunted تھا اسے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا تھا لیکن وہ صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ اثرات کس حد تک تھے… اور کیا اس سے اس کی فیملی کے متاثر ہونے کے امکانات تھے؟ کسی آسیب زدہ گھر میں اپنی بیوی اور کم سن بیٹی کو رات کے وقت اکیلے چھوڑنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا… اس کی فرض شناسی اور دلیری اس ایک چیز پر آ کر ختم ہو جاتی تھی اور صرف اسی کی نہیں کسی بھی آفیسر کی ہو جاتی… وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ شام ہوتے ہی ہر روز گھر بھاگ آتا….اور کئی باروہ چند دنوں کے لیے کسی نہ کسی کام سے گھر سے غیر حاضر بھی ہوتا۔ وہ اس غیر حاضری کے دوران اپنی فیملی کو لاہور اپنے پیرنٹس کے پاس بھجوا سکتا تھا لیکن وہ روز مرہ امور کی انجام دہی کے دوران ہونے والی تاخیر کا کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اب سوال یہ تھا کہ وہ کرے کیا۔ اس کا سر بری طرح چکرایا ہوا تھا۔
٭٭٭
”سر، آپ پریشان نہ ہوں۔” خانساماں نے شیر دل کو تسلی دی۔ اگلے دن ویک اینڈ تھا اور شیر دل نے کچھ دیر پہلے ناشتے کے بعد خانساماں کو اپنی اسٹڈی میں بلوایا تھا۔ وہ اب اس گھر کے بارے میں اس سے تفصیلی بات چیت کرنا چاہتا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ گفتگو کا آغاز کرتا خانساماں نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا تھا۔ رات کے واقعات صبح ہونے تک تمام ملازمین کے علم میں آ چکے تھے اور شیر دل کو اس پر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ کیئر ٹیکر اور لوئر اسٹاف کی نیٹ ورکنگ آفیسرز کی نیٹ ورکنگ سے کہیں زیادہ مؤثر اور تیز ہوتی ہے۔
”یہ دروازے وغیرہ کھل جانا تو عام چیز ہے اس گھر میں اور آج تک اس سے کبھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔” وہ اب شیر دل کو بتا رہا تھا۔ ”بلکہ آج تک اس گھر میں کبھی کوئی نقصان نہیں ہوا کسی بھی صاحب کا، بس چھوٹی موٹی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں… کبھی کبھار کچھ آوازیں آنے لگتی ہیں۔ دروازے خود ہی بند اور کھلتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار گھر میں پڑی مشینیں خود ہی چل پڑتی ہیں بس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔” خانساماں اسے تفصیل سے بتا رہا تھا۔
”ابھی ”یہ” بس ہے؟” شیر دل نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا۔ ”میری بیوی نے اگر ایک بھی چیز دیکھ لی ان میں سے ہوتے ہوئے تو وہ زندگی میں دوبارہ اس گھرمیں قدم نہیں رکھے گی۔” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”مجھ سے پہلے والے آفیسر کے ساتھ بھی ہوا تھا یہ سب کچھ؟” شیر دل نے اچانک پوچھا۔
”سب کے ساتھ ہوتا ہے جو بھی آ کر یہاں رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب کو عادت ہو جاتی ہے، میں نے آپ کو بتایا نا کہ یہاں آج تک کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔” خانساماں نے اس کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”شہر بانو کو کل رات کے واقعات کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے۔” شیر دل نے اسے تحکمانہ انداز میں کہا۔
”جی سر۔”




”اور گھر میں قرآن خوانی کا انتظام کراؤ… کسی مسجد یا مدرسے سے مولوی صاحب اور طلبہ کو بلاؤ ختم قرآن کے لیے۔” شیر دل نے مزید ہدایات دیں۔ اسے یہ ہدایت دیتے ہوئے حیرانی ہوئی کہ اسے پہلے اس چیز کا خیال کیوں نہیں آیا تھا۔ خانساماں کو ہدایات دے کر فارغ کرنے کے بعد اس نے آپریٹر سے اس گھر سے پوسٹ آؤٹ ہونے والے آفیسر سے رابطہ کروانے کا کہا تھا۔ وہ خانساماں کی تسلیوں سے مطمئن نہیں ہوا تھا لیکن وہاں اس سے پہلے پوسٹڈ رہنے والے آفیسر کا بیان بھی خانساماں کے بیان سے مختلف نہیں تھا۔ اس گھر میں کچھ اثرات تھے لیکن وہاں رہنے والے ہر آفیسر کے لیے وہ قابل قبول تھے۔ شیر دل کچھ مطمئن ہونے لگا۔ اس نے ایک کے بعد ایک کتنے ہی آفیسرز کو کال کی تھی۔ ان سے وال و جواب کرتے ہوئے اسے ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں آیا کہ وہ ان سے یہ پوچھتا کہ اس گھر میں رہائش کا ان کی ازدواجی زندگی پر کیا اثر پڑا تھا نہ ہی اس نے یہ چیک کرنے کی کوشش کی کہ ان میں سے کتنے ابھی تک اپنی پہلی شادی نبھا رہے ہیں اور کتنے لائف پارٹنر تبدیل کر چکے ہیں اگر وہ یہ تحقیق کر لیتا تو اسے پتا چل جاتا کہ اس گھر میں رہنے والے تمام آفیسرز…
”شیر دل تم ویک اینڈ بھی کام کرتے گزارو گے؟” شہر بانو نے اسٹڈی میں داخل ہو کر شیر دل کا انہماک توڑا۔ شیر دل نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ریسیور واپس رکھ دیا۔ وہ آپریٹر کو ایک اور آفیسر سے رابطے کا کہتے کہتے رک گیا تھا۔
”بس ختم ہو گیا ہے کام۔” اس نے مسکراتے ہوئے شہر بانو سے کہا۔ یہ اس کے گھر کا ایک Unsaid rule تھا کہ ویک اینڈ پر کام نہیں ہوتا تھا لیکن وہ کئی بار یہ Rule توڑتا آ رہا تھا اور اس میں اس کی اپنی نیت سے زیادہ ملکی حالات کا قصور تھا۔ شہر بانو اس کی پروفیشنل مجبوریوں اور مصروفیات سے واقف ہونے کے باوجود اس ایک چیز کو بے حد ناپسند کرتی تھی۔ وہ خود کو حتی المقدور اس لائف اسٹائل سے بچتی آ رہی تھی جو ایک انتظامی آفیسر کی بیوی کا ہو جاتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کے طور پر یہ شیر دل کی پہلی پوسٹنگ تھی اور شہر بانو اب بھی بڑی محدود سوشل سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی۔ اسے ایک عام ڈپٹی کمشنر کی بیوی کی طرح اسکولز اور کالجز کے فنکشنز میں مہمان خصوصی بن کر جانے، فیتے کاٹنے اور بے مقصد تقریریں کرنے میں دلچپسی نہیں تھی۔ نہ وہ مزاجاً ایسی تھی نہ شیر دل اس کا ایسا سوشل پروفائل چاہتا تھا کہ جس میں گھر میں آنے پر اسے وہ نظر نہ آتی۔ اس کے باوجود پہلے کی نسبت اب شہر بانو کو بہت سے ایسے فنکشنز میں جانا پڑتا تھا جہاں پر انتظامی آفیسر کی بیوی کی موجودگی ناگزیر تھی۔
”کیا پروگرام ہے آج کے لیے؟” شیر دل نے اس سے پوچھا۔ پچھلے تین ویک اینڈز سے وہ اتنا مصروف تھا کہ کسی ذاتی سیر و تفریح کے پروگرام پر عملی جامہ پہنانے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ایک آدھ بار ویک اینڈ پر انہوں نے باہر کھانا کھایا تھا اور شہر بانو کے لیے شیر دل کے ساتھ اتنا وقت گزارنا بھی غنیمت تھا۔ آج تین ہفتوں کے بعد شہر بانو نے کہیں جا کر دن گزارنے کا پروگرام بنایا تھا اور شیر دل پھر صبح سے اسٹڈی میں بند تھا۔
”تم فارغ ہوئے تو کوئی پروگرام بنے گا۔” شہر بانو نے شکایتاً کہا۔
”I’m totally free now” شیر دل نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے کرسی کھسکاتے ہوئے کہا۔ وہ کرسی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ”مثال کہاں ہے۔؟”
”باہر Swing پر ہے… شیر دل کو رات کو کیا ہوا تھا؟” شہر بانو نے اسے بتاتے ہوئے سوال کیا۔
”کیا ہوا تھا؟” شیر دل نے جواباً پوچھا۔




Loading

Read Previous

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Read Next

عکس — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!