عکس — قسط نمبر ۳

کم از کم چیس وہ کھیل نہیں تھا جس میں ایبک کے ساتھ کھیلنے سے پہلے چڑیا کو پریکٹس کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ اگر ایبک پانچ سال کی عمر سے ٹینس کھیل رہا تھا تو چڑیااسی عمر سے خیر دین کے ساتھ چیس بورڈ پر مہروں کو اکھاڑتی پچھاڑتی آ رہی تھی۔ خیر دین نے کئی سالوں سے اکیلے کھیلتے کھیلتے تین سالوں سے اکیلے کھیلنا چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ جب بھی بورڈ لے کر بیٹھتا … چڑیا میکانکی انداز میں آ کر پاس بیٹھ جاتی۔ بورڈ پر مہرے سجانا اس کی پسندیدہ سرگرمیوں میں سے ایک تھا اور مہرے سجاتے سجاتے وہ ان مہروں کی اکھاڑ پچھاڑ میں شریک ہو گئی تھی۔ اس نے خیر دین کو پہلی بازی ایک سال کھیلتے رہنے کے بعد ہرائی تھی۔ خیر دین اسے اتفاق سمجھا تھا اور ہار کا سبب اس نے اپنی بے دھیانی کو قرار دیا تھا لیکن پھرہر تیسرے چوتھے دن ایسا ہونے لگا تھا کہ چڑیا چیک میٹ کی پوزیشن میں آجاتی اور خیر دین کو اپنا بادشاہ بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے… اور اب تین سال بعد خیر دین اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس طرح محتاط اور مستعد رہتا تھا جس طرح اپنے کسی ہم عمر کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔ جیت کا تناسب اب بھی خیر دین کے حق میں تھا لیکن ایک آٹھ سال کی بچی سے کبھی کبھار ہارنا بھی بڑا کٹھن کام تھا اور خاص طور پر اس بچی سے جس کو آپ نے خود کھیل سکھایا ہو۔ چڑیا سے ہار کے سارے لمحات خیر دین کے لیے فخر کے لمحات تھے۔ اپنی اگلی نسل سے ہارنا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے۔




چڑیا اگلے دن اپنا ڈبا لے کر ایبک کے پاس پہنچ گئی تھی جس میں ایک سستا پلاسٹک کے مہروں والا چیس بورڈ تھا۔
”You know chirya چیس مجھ کو کیوں زیادہ اچھی نہیں لگتی۔” ایبک نے اسے بورڈ پر مہرے سجاتے دیکھ کر بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں؟” چڑیا ٹھٹکی تھی۔ اسے یہ اندازہ تو تھا ہی نہیں کہ ایبک کو چیس زیادہ پسند نہیں تھی۔
”اس میں وقت بڑا لگتا ہے۔ بیٹھے رہو… سوچتے رہو… مجھے جلدی ہونے والے کام پسند ہیں۔” ایبک نے کہا۔
”نانا کہتے ہیں جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔” ایبک لاجواب ہو کر گڑبڑایا۔
”نہیں، اتنی جلدی کی بات نہیں کر رہا میں۔” اس کو محاورے کی سمجھ آئی ہو نہ آئی ہو شیطان سے وہ اچھی طرح متعارف تھا۔
پہلی بازی کا فیصلہ سات منٹ میں ہو گیا۔ دوسری کا آدھے گھنٹے میں تیسری کا ٢٠منٹ میں۔ چوتھی Stalmate تھی۔٤٥منٹ جاری رہی… اور پانچویں کا فیصلہ ایک بار پھر ٢٠منٹ میں ہوا تھا… اور یہ تمام بازیاں چڑیا نے جیتی تھیں۔ ایبک اس دن ٹینس کھیلنا بھول گیا تھا۔ وہ ایک ہفتے سے چڑیا کا گاڈ فادر بنا بیٹھا تھا۔ وہ Instruct کر رہا تھا وہ Direct کر رہا تھا اور اب وہ ایک ایسے کھیل میں آ گیا تھا جہاں وہ اسی چڑیا کے ہاتھوں منٹوں میں چت ہوا تھا… شکست کا وار کاری پڑ رہا تھا پر بورڈ پر نہیں ایبک کے ذہن پر… وہ ایک نرم اور ہمدرد طبیعت والا باتونی لیکن مدد کرنے والا بچہ تھا… خاندان کا بڑا اور فیورٹ بچہ تھا۔ لائم لائٹ میں رہنے والا اور فیورز ملنے کا عادی… اس یقین اعتماد کے ساتھ پرورش پانے والا بچہ کہ وہ جو بھی کرے گا ہمیشہ اچھا اور Above averageہی کرے گا کوئی کسی چیز میں اس سے بہتر نہیں ہو سکتا، اس کو Beat نہیں کر سکتا۔ وہ کھیل میں ہارنے والے کو جا کر خود گلے لگا سکتا تھا۔ اپنی ٹرافی اس کو تھما سکتا تھا۔ اس کے ساتھ رو بھی سکتا تھا لیکن وہ جیتنے والے کے گلے میں ہار نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس کے لیے تالیاں نہیں بجا سکتا تھا اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو نہیں کھنچوا سکتا تھا۔ اس میں اسپورٹس مین اسپرٹ تھی لیکن وہ ایک بچہ تھا۔ ایک ایسا بچہ جو ہر چیز میں جیتتا تھا۔
”اب ہم کل کھیلیں گے۔” مسلسل پانچویں بازی میں سر دھڑ لگا دینے کے باوجود بھی ہارنے پر اس نے بالآخر کہا۔
”اوکے۔” چڑیا فوراً مان گئی، اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ کھیلتے کھیلتے اس دن انہیں بہت دیر ہو گئی تھی۔ ابھی اسے ہوم ورک کرنا تھا اور ایبک کو بھی۔
وہ پہلا دن تھا جب ایبک کے سر پر چڑیا سوار رہی تھی۔ وہ باقی کا سارا دن بھی چڑیا اور چیس کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں سوچ نہیں سکا۔ شام کو اس نے اس دن ٹینس کے بجائے اپنے انکل کے ساتھ چیس کی پریکٹس کی تھی۔
”یہ چیس میں بیٹھے بٹھائے تمہیں کیسے دلچسپی ہو گئی؟” اس کے انکل کو حیرت اور تجسس ساتھ ساتھ ہوا تھا۔
”بس ایسے ہی… دل چاہ رہا تھا کھیلنے کو۔” ایبک نے اگلی چال سوچتے ہوئے بورڈ پر نظر جمائے گول مول جواب دیا۔ وہ اپنے انکل کو جو اس کے آئیڈیل تھے، یہ کیسے بتا دیتا کہ وہ ایک لڑکی سے ہارا تھا چیس میں… ایک بار نہیں کئی بار، ایک بچے کے طور پر بھی اس کی Egoبری طرح ہرٹ ہوئی تھی۔
اگلے دن چڑیا سے مقابلے کے لیے وہ اگر چیس کی پریکٹس کرتا رہا تھا تو چڑیا اپنی نئی تختی سے ٹینس کی پریکٹس کرتی رہی تھی۔
”چیس ہی کھیلیں گے آج بھی۔” ایبک نے اس سے کہا۔




”ٹینس کیوں نہیں؟” چڑیا کچھ جزبز ہوئی… دو دن ٹینس نہ کھیلنے کا مطلب تھا کہ اس کے بہتر ہوتے ہوئے شاٹس پھر پہلے جیسے ہونے لگتے…Weak and wayward
”بس چیس کھیلنے کو دل چاہ رہا ہے۔” ایبک نے اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کی سوئی اب تب تک چیس میں ہی اٹکنے والی تھی جب تک وہ اس کھیل میں اسے کم از کم ایک باہر ہرا نہیں لیتا۔ چڑیا کو زیادہ اعتراض نہیں ہوا تھا۔ پاپ کارن کھاتے ہوئے وہ اس دن بھی چڑیا سے سات بازیاں ہارا تھا… اور سات ہی کھیلی گئی تھیں۔ چڑیا نے ایبک کی الجھن اور ٹینشن نوٹس نہیں کی تھی، نہ ہی اسے یہ اندازہ ہو پایا تھا کہ مسلسل شکست ایبک کو کسی حد تک خفا کر رہی تھی۔ وہ دوسرے دن بھی رات گئے تک اپنے انکل کو مجبور کر کے ان کے ساتھ چیس کھیلتا رہا تھا لیکن تیسرے دن بھی ایک کے بعد ایک بازی ہارنے کے بعد اس نے بالآخر ذہنی طور پر یہ تسلیم کر لیا تھا کہ چڑیا چیس میں اس سے بہتر تھی اور اس اعتراف نے چڑیا سے اس کی مرعوبیت کا آغاز کیا تھا۔
”چڑیا تم بہت اچھا کھیلتی ہو۔” ایبک نے آخری بازی ہارنے کے بعد ایک گہری سانس لیتے ہوئے چڑیا سے کہا۔ تین دنوں میں یہ پہلی بار تھا کہ چڑیا کو ایبک سے داد ملی ہو۔ وہ بے حد خوش ہوئی تھی۔ ”اگر تم کھیلتی رہو گی تو اور بھی اچھا کھیلو گی۔” ایبک نے تین دن کے بعد بالآخر ٹینس ریکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”But i promise میں Next yearجب Summers میں آؤں گا تو تم سے زیادہ اچھا کھیلوں گا۔” ایبک نے اعلان کیا۔ چیس اس کیWork Sheet کا حصہ بن گئی تھی۔
”تم اگلے سال پھر آؤ گے؟” چڑیا نے بہت خوش ہو کر پوچھا۔
”ہاں، ہم ہر سال Summersمیں انکل کے پاس ضرور آتے ہیں لیکن اتنا لمبا Stayشاید نہ کریں، اس بار تو پاپا کورس کے لیے امریکا میں ہیں اس لیے ہم ساری Vacationsادھر ہی گزار رہے ہیں۔” ایبک نے تفصیل سے بتایا۔ ”ویسے تم اگر میرے انکل کے ساتھ کھیلو تو مجھے لگتا ہے You will beat him too” ایبک نے بات کرتے کرتے پھر موضوع بدلا۔ چڑیا مسکرا کر چیس بورڈ اور مہرے سمیٹنے لگی تھی۔ اس نے دانستاً اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس کے انکل اپنی بیٹی کے آس پاس بھی اس کی موجودگی پسند نہیں کرتے۔
”نانا، ایبک کہتا ہے میں بہت اچھا کھیلتی ہوں۔” اس شام چڑیا نے بے حد خوشی کے عالم میں خیر دین کے ساتھ ایبک کی ستائش شیئر کی تھی۔
”وہ تو تم کھیلتی ہو … میں تو ہمیشہ بتاتا ہوں تمہیں۔” خیر دین نے مسکرا کر اس کی بات سنتے ہوئے کہا۔
”اور ایبک کہتا ہے کہ اگر میں صاحب کے ساتھ کھیلوں تو ان کو بھی Beatکر سکتی ہوں۔” چڑیا نے فخریہ انداز میں ایبک کا اگلاجملہ دہرایا۔
”نہیں… نہیں چڑیا۔ ہمیں صاحب کو ہرانے کا نہیں سوچنا چاہیے… صاحب تو بڑا لائق ہے… بہت بڑا افسر ہے… اس کو ہرانا آسان تھوڑی ہوتا ہے… اور پھر کیوں ہرائیں…” خیر دین نے فوراً چڑیا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”جی نانا۔” وہ کچھ بجھ گئی۔ اس کا خیال تھا خیر دین ایبک کی اس تعریف پر بہت خوش ہو گا۔
اس دن ایبک نے بھی گھر میں چڑیا کا ذکر کیا تھا۔ اپنے انکل کے ساتھ چیس کھیلتے ہوئے اور وہی لفظ دہرائے تھے جو اس نے چڑیا سے کہے تھے۔
”انکل! وہ اتنا اچھا کھیلتی ہے کہ آپ کو بھی Beat کر سکتی ہے۔” اس کے انکل اس کی بات پر ہنس پڑے۔ وہ بچوں کی تعریفوں اور دعوؤں پر غور کرنے کے عادی نہیں تھے۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں انکل۔” ایبک کو جیسے ان کا ہنسنا یا دوسرے الفاظ میں اس کا مذاق اڑانا اچھا نہیں لگا تھا۔
”وہ تم کو ہرا سکتی ہو گی لیکن مجھے نہیں ہرا سکتی… سمجھے تم… انا طولی کارپوف نہیں ہے وہ… اورنہ تم۔” اس کے انکل نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”اچھا تو پھر آپ اس کے ساتھ کھیل کر دیکھیں۔” ایبک نے جیسے چیلنج کیا۔




Loading

Read Previous

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Read Next

عکس — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!