عکس — قسط نمبر ۳

”اور مجھے انا طولی پسند نہیں ہے۔ کیسپروف پسند ہے۔” اس نے اس پلیئر پر اعتراض کیا جس کے ساتھ اس کے انکل اسے اور چڑیا کو ملا رہے تھے۔
”چلو دیکھوں گا کسی دن فی الحال تو تمہارے لیے چیک میٹ ہے۔” اس کے انکل نے اپنا مہرہ اس کے بادشاہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے لگتا ہے وہ اس لیے نہیں جیتتی کہ وہ اچھا کھیلتی ہے، تم اس لیے ہارتے ہو کیونکہ تم اس سے زیادہ برا کھیلتے ہو۔” وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر ٹیبل چھوڑ گئے۔
……٭……




عقبی لان میں پڑی ایزی چیئرز کے درمیان پڑے ریڈیو پر برائن ایڈمز کا Summer of 69بج رہا تھا جب شہر بانو باہر نکلی تھی۔ شیر دل کچھ دیر پہلے وہیں ایک ایزی چیئر پر برمودا شارٹس میں نیم دراز آج کے نیوز پیپرز دیکھتے ہوئے چائے پی رہا تھا۔ صبح ہلکی بارش ہوئی تھی اور آسمان پر ابھی بھی ہلکے بادل تھے اور ان دونوں چیزوں نے اسے اس وقت باہر کے موسم کو بے حد خوشگوار کر دیا تھا اور اس موسم میں برائن ایڈمز کے اس Song نے شہر بانو کو بہت کچھ یاد دلا دیا تھا… بہت سے خاص… خوشگوار… زندگی بھر نہ بھولنے والے لمحے… یادیں… جو برائن ایڈمز کے اس Song کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ اس کے قدموں کو باہر کھینچ لانے والی چیز بھی اس گانے کی آواز ہی تھی… موسم نہیں… وہ ویک اینڈ تھا اور وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی جاگی تھی اور اب انٹرکام کے کام نہ کرنے کی وجہ سے کچن میں ملازم کو ناشتے کے لیے ہدایات دے کر آئی تھی جب کاریڈور سے گزرتے ہوئے اس نے لان میں بجتا ہوا یہ Song سنا تھا۔ شیر دل میوزک کا شوقین تھا اور ویک اینڈز پر فرصت میں پرانے انگلش Songs سننا اس کی ہابیز میں سے تھا۔ اس وقت بھی لان میں وہی ہو سکتا تھا۔
شہر بانو ایک ایزی چیئر پر بیٹھ گئی… سامنے ٹیبل پر پڑے چائے کے کپ کو اس نے ہاتھ بڑھا کر چھوا وہ ہلکا سا گرم تھا۔ کپ میں ہمیشہ کی طرح چائے کی کچھ مقدار موجود تھی۔ وہ یقیناً ابھی ابھی وہاں سے اٹھ کر گیا تھا۔ شیر دل کو عادت تھی ہمیشہ چائے کے کپ میں چائے چھوڑنے کی… وہ چائے بہت پیتا تھا لیکن وہ چائے اسی طرح پیتا تھا… برائن ایڈمز کی آواز اور گٹار ماحول کی خاموشی کو عجیب انداز میں رومینٹک کر رہے تھے یا یہ ہمارے اپنے دل کی کیفیت ہوتی ہے جو ایک عام گانے کو ہر بار بجنے پر یا کسی خاص گانے کو کسی خاص لمحے میں بجنے پر یادگار بنا دیتی تھی۔ شہر بانو نے زیر لب گانے کے بول گنگناتے ہوئے چائے کے مگ میں کچھ اور چائے بنائی۔ شیر دل کو اپنی چائے کپ میں چھوڑنے کی عادت تھی اور اگر وہ اکیلا چائے پی رہا ہوتا اور شہر بانو پاس ہوتی تو وہ ہمیشہ اس کے چھوڑے ہوئے وہ تین چار گھونٹ خود پی لیتی تھی۔ یہ عجیب سی عادت تھی اور اس کا آغاز ان کے ہنی مون کے دوران ہوا تھا۔ وہ چائے کی شوقین نہیں تھی اور امریکا میں اکٹھے تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ شیر دل کی اس عادت سے واقف تھی کہ وہ کپ میں بہت سی چائے چھوڑ دیتا تھا او وہ جتنی چائے چھوڑتا تھا وہ چائے کی وہ مقدار تھی جو شہر بانو عام طور پر ایک وقت میں پی پاتی تھی اور ہنی مون کے دوران ایسا ہونے لگا تھا کہ وہ کہیں باہر گھومتے پھرتے چائے کا ایک کپ لیتے۔ شیر دل عادتاً چائے چھوڑتا اور شہر بانو وہ چائے پی لیتی۔ اس عادت پر سب سے پہلا اعتراض شیر دل کو ہی ہوا تھا۔
”تم کیوں پی رہی ہو یار…Leave it… مجھے تو عادت ہے۔” اس نے پہلی بار اس کی بقیہ چائے پینے کی کوشش پر کپ اس کے ہاتھ سے لے کر خفگی کے عالم میں پھینک دیا تھا۔
”کیا ہوگیا… ویسے ایک دوسرے کی جھوٹی چیزیں نہیں کھا رہے کیا؟” شہر بانو بھی جواباً خفا ہوئی۔
”پر یہ تو میری بچی ہوئی چائے ہے۔” شیر دل نے اسے جتایا۔
”تو؟”
”یار میں عورتوں کی Equaityپر Believe کرتا ہوں… یہ شوہروں کا جھوٹا کھانے والی بات میں Digestنہیں کر سکتاYou don’t have to do this” شیردل نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
”تم میرے شوہر نہیں ہو شیر دل… اور میں اپنے شوہر کا جھوٹا نہیں کھا رہی۔ نہ میں جھوٹا کھانے والی لڑکی ہوں… تم بس وہ مرد ہو جس سے میں دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں… ٹرسٹ کرتی ہوں…And i find it very romantic to sip your tea” شہر بانو نے جواباً اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تو یار تم پہلے پی لیا کرو نا۔” شیر دل نے آفر کی۔
”تم پھر بھی کپ میں چائے چھوڑ دو گے۔” شہر بانو نے چیلنج کیا۔
”تو؟”
”تو یہ کہ مجھے پینے دیا کرو اگر میں پینا چاہتی ہوں۔” شیر دل کچھ دیر الجھی نظروں سے اسے دیکھتا رہا… پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
”شبی لڑکیوں کے دماغ میں کسی نہ کسی حد تک خرابی ضرور ہوتی ہے۔”
”ہاں یہ تو ہے… خرابی نہ ہو تو ہم شادی کیوں کریں۔” اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
””ON the way you held my hand
I knew that it was now or never
Those were the best days of my life
Back in the summer of 69”
چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے وہ بے اختیار مسکرائی۔ وہ اب بھی ہولے سے گنگنا رہی تھی۔ شیر دل اردگرد کہیں نظر نہیں آ رہا تھا لیکن وہ بجتا ہوا ریڈیو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ آس پاس ہی کہیں تھا اور تھوڑی دیر میں واپس وہاں آ جاتا۔




دور مالی لان میں پودوں کی کانٹ چھانٹ میں مصروف تھے۔ شہر بانو کی طرح متوجہ نہ ہونے کے باوجود وہ اس کی یا شاید شیر دل کی باہر موجودگی کی وجہ سے بڑی مستعدی سے کام کر رہے تھے۔
انگریزوں کے زمانے کی ہر سرکاری رہائش گاہ کی طرح وہ ڈی سی ہاؤس بھی وسیع و عریض رقبے پر شہر کی ایک پرائم لوکیشن تھا جو یقیناً انگریزوں کے زمانے میں شہر سے بہت ہٹ کر واقع ہو گا۔ عمارت کے چاروں طرف لان کے لیے جگہ چھوڑی گئی تھی اور عمارت کے عقب میں سرونٹ کوارٹرز کے لیے کچھ حصہ مختص تھا۔ شیر دل اور وہ کچھ مہینوں پہلے جب یہاں منتقل ہوئے تھے تو گھر کے سامنے والے لان اور عقب میں موجود کچن گارڈن کے علاوہ گھر کے چاروں اطراف میں موجود لان گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ سے بھرا ہوا تھا۔ سالوں پرانے درخت اور پودے تراش خراش سے محروم چلے آ رہے تھے۔ بیرونی دیواروں پر چڑھی بیلوں کے نیچے موجود دیواروں نے شایدصدیوں سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی اور نمی دیواروں کا جو حال کر سکتی تھی،اس نے وہی کیا تھا۔بہت سے پودے مناسب نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ عدم توجہی کی بنا پر اپنی جگہ پر اسی حالت میں موجود تھے۔ انہیں زمین سے اکھاڑ نکالنے کے لیے جس وقت اور محنت کی ضرورت تھی وہ گھر کے مالک کی ہدایات اور دلچسپی کے بغیر کسی مالی کی طرف سے ملنا مشکل تھا۔ عمارت کے عقب میں موجود کوارٹرز کے ساتھ ایک حصے میں پھل دار درختوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن میں سے کچھ درخت اب اپنی مدت پوری کر چکے تھے اور پتوں کے ڈھیر سے زمین بھر دینے کے علاوہ کوئی اور خدمت کرنے سے قاصر تھے۔ اگر ان پھل دار درختوں سے گھر کے مکین مستفید ہو رہے ہوتے اور مسلسل لان کا جائزہ لیتے رہے ہوتے تو وہ درخت مناسب وقت پر Replace ہو جاتے مگر اتنے وسیع و عریض لان میں ہر طرف جانا اور خاص طور پر سرونٹ کوارٹرز والے حصے میں کبھی بھی کسی آفیسر یا اس کی فیملی کے لیے دلچسپی کا کام نہیں تھا۔ ان درختوں سے اترنے والا پھل وہیں سرونٹ کوارٹرز میں موجود ملازم استعمال کرتے یا پھر صاحب کے کچن میں اس کی تھوڑی بہت سپلائی جا ری رکھتے۔ سرونٹ کوارٹرز کی اپنی حالت ان کے شفٹ ہونے پر بے حد مخدوش تھی۔ سفیدی یا رنگ روغن نام کی کوئی شے وہاں مستقبل قریب میں تو ایک طرف ماضی بعید میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ کوارٹرز کی سیلن زدہ دیواریں کئی جگہوں پر کائی اور بے ہنگم چڑھی ہوئی بیلوں سے بھری ہوئی تھیں جو ان سرونٹ کوارٹرز میں مقیم ملازمین کی کانٹ چھانٹ کے باوجود بار بار پھیل جاتی تھیں… عمارت کے عقب میں کچن گارڈن وہ واحد جگہ تھی جہاں بے حد منظم انداز میں باغبانی ہو رہی تھی اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ کچن گارڈن اس عمارت میں مقیم تمام سرونٹس کے کھانے کی ضروریات پوری کر رہا تھا ورنہ شاید وہاں بھی موسمی سبزیوں کے بجائے وہیں جھاڑ جھنکاڑ ہوتا جو عمارت کے باقی دو اطراف کے لان میں تھا۔
عمارت کے دا ہنی طرف کے لان میں کسی زمانے میں شاید ٹینس کورٹ بنایا گیا ہو گا۔ اس کا اندازہ شیر دل اور شہر بانو کبھی نہ کر پاتے اگر وہ خود ٹینس پلیئر نہ ہوتے اور گھاس پھونس کے اس جنگل سے گھاس کے نشیب و فراز کو جانچتے ہوئے ایک عدد گراس کورٹ کے Fossils نہ دریافت کر لیتے۔




Loading

Read Previous

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Read Next

عکس — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!