عکس — قسط نمبر ۳

”ہمارا کوارٹر ہے پیچھے… میں وہاں سے دیکھتی ہوں” وہ پہلے ہکلائی پھر اس نے گول مول انداز میں کہا۔ یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ جھاڑیوں اور پودوں میں اپنے ساتھی بونوں کے ساتھ چھپ کر وہ سارے میچز اور ایبک کی سرگرمیاں دیکھتی تھی۔




”سرونٹ کوارٹرز تو پیچھے ہیں اور بہت دور… وہاں سے کیسے نظر آ جاتا ہے؟” ایبک نے حیران ہو کر کہا تھا۔ اس بار چڑیا جواب نہیں دے سکی۔
”تم کہیں اور سے دیکھتی ہو۔” ایبک نے پورے یقین سے کہا۔ ”اور چھپ کر۔” چڑیا کا چہرہ رنگین ہو گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا ایبک کا اگلا اندازہ یہ ہو گا۔ وہ چیس کے Knightکی چال تھی… سیدھے سے الٹی… بے حد اچانک… اور بظاہر سادہ پر انتہائی کاری… اور چیس کا Knight چڑیا کا پسندیدہ ترین مہرہ تھا… کوئین کے بعد… خیر دین کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ سب سے پہلے خیر دین کے Knightپکڑنے کی کوشش کرتی تھی… باقی مہروں سے اس کو نہ اتنا شغف تھا نہ خوف… لیکن Knight سے اس کی عجیب Love – Hate Relationship تھی … تو اس دن چڑیا نے ایبک کو چیس کا Knightبنا لیا تھا۔
”کہاں سے چھپ کر دیکھتی ہو؟” Knight نے ایک اور مہلک چال چلی۔
”پودوں کے پیچھے چھپ کر۔” کوئین نے ہتھیار ڈالے۔ ایبک فخریہ انداز میں مسکرایا۔
”چھپنے کی کیا ضرورت ہے۔ تم ویسے بھی دیکھ سکتی ہو۔” اس نے بڑی فیاضانہ آفر کی۔ چڑیا کا چہرہ چمک اٹھا… وہ یہ بھول گئی تھی کہ یہ ایبک کا گھر نہیں تھا۔ یہ اس کے انکل کا گھر تھا اور وہ پابندیاں جو اس پر لگی تھیں، وہ وہی اٹھا سکتے تھے۔
”تم کو ٹینس کھیلنا آتا ہے۔” ایبک نے یک دم اگلا سوال کیا۔ یہ جیسے ایک پارٹنر کی تلاش تھی۔ اس کے انکل کے پاس وقت نہیں تھا۔ چھوٹے بہن بھائی اس کے مقابلے کے نہیں تھے… اور گھر میں کوئی دوسرا ایسا بچہ نہیں تھا جو اس کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ ٹینس کورٹ میں اپنا وقت ضائع کر سکے۔ اب اگر ایک ہم عمر نظر آ گیا تھا تو کیا پتا ایک ٹینس پارٹنر ہی مل جاتا۔ چڑیا اس کے سوال پر گڑبڑائی۔
”میں سیکھ رہی ہوں۔” انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور یہ جھوٹ نہیں تھا کہ وہ سیکھنے کی کوشش کر رہی تھی… بیڈ منٹن کے ریکٹ سے ہی سہی… اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ اس نے جھوٹ نہیں بولا۔
”کون سکھا رہا ہے؟” اگلا سوال آیا۔
”میں خود سیکھ رہی ہوں۔” ایبک نے بے اختیار پلٹ کر اسے دیکھا پھر کھلکھلا کر ہنسا۔ چڑیا کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”خود کیسے سیکھ سکتے ہیں؟” اس نے بے ساختہ کہا۔
”تم بھی تو خود سیکھتے رہتے ہو۔” جواب اسی انداز میں ملا… جس انداز میں سوال کیا گیا تھا۔ اس بار ایبک گڑبڑایا۔ بات ٹھیک تھی۔ وہ بھی آئینے کے سامنے کھڑا یہی کر رہا تھا۔
”اگر تم چاہو تو میں سکھا سکتا ہوں تمہیں۔” چڑیا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ایبک سے اس آفر کی توقع وہ نہیں کر سکتی تھی۔
”اوکے۔” اپنے بلیوں اچھلتے دل کو سنبھالتے اس نے ایبک سے کہا۔
”کون سا ریکٹ ہے تمہارے پاس؟” ایبک اب ایک تجربے کار کوچ کی طرح بولنے لگا تھا۔ چڑیا کا رنگ زرد پڑا۔ وہ یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ اس کے پاس ریکٹ نہیں تھا۔
”ریکٹ تو نہیں ہے۔” بے حد مدھم آواز میں اس نے جیسے اعترافِ ندامت کیا۔
”تو پھر تم سیکھ کیسے رہی ہو؟” ایبک حیران ہوا تھا۔
”تمہیں دیکھ کر۔” چڑیا نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”خالی دیکھنے سے ٹینس کھیلنا تھوڑی آتا ہے۔” ایبک نے اس بار جھنجلا کر کہا۔ لڑکیاں ہمیشہ اتنی بے وقوف کیوں ہوتی ہیں۔ اس نے ساتھ ہی سوچا… چڑیا نے چہرہ جھکا لیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر وہ اس کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ اس نے اپنے کوارٹر کی دیوار کے ساتھ بیڈمٹن ریکٹ کے ساتھ ٹینس کھیلنے کی پریکٹس کی تھی۔ ایبک نے آئینے میں اس کے لٹکے ہوئے منہ کو دیکھا وہ اداس اسے اچھی نہیں لگی تھی۔
”اچھا چلو، میرے پاس ایک اور ریکٹ ہے تم اس کے ساتھ کھیل لینا۔” اس نے بے ساختہ اسے آفر کی اور چڑیا کا چہرہ سیکنڈز میں چمک اٹھا۔
٭٭٭




وہ بالکل پاگلوں کی طرح ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو اس کمرے میں جس کے بارے میں وہ اتنا بہت کچھ سن چکی تھی کی طرف جانے سے پہلے… سو بار سوچتی اور خاص طور پر رات کے اس پہر… لیکن فی الحال وہ حواس باختہ تھی… شیر دل کی طرف سے جواب نہ آنا اس کے حواس کو ماؤف کرنے کے لیے کافی تھا۔
ایک ہی وقت میں دو، دو، تین تین زینے پھلانگتی وہ اوپر آ گئی… اور اس کے اوپر آتے ہی اس نے کاریڈور میں اس ماسٹر بیڈ روم کے دروازے کی جھری سے آتی روشنی کو بند ہوتے دیکھا۔ کاریڈور روشن تھا لیکن کمرا ایک بار پھر تاریک ہو چکا تھا۔ شہر بانو ٹھٹکی تھی۔ کمرے میں کوئی تھا اب اس میں شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کمرے کی لائٹس کو آف ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگیں۔ شیر دل وہاں بھی کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ وہ بے اختیار اس کمرے کے دروازے کے سامنے آئی… اور تبھی کمرے کا دروازہ یکدم کھل گیا۔ چند لمحوں کے لیے شہر بانو کی سانسیں، دھڑکن اور خون کی گردش بیک وقت تھمی… اور پھر جیسے ایک الیکٹرک شاک کے ساتھ وہ اپنے حواس میں واپس آئی تھی۔ اندر سے نکلنے والا شیر دل تھا… مطمئن انداز میں نائٹ ڈریس پر ایک سیاہ جرسی چڑھائے بے حد Casual انداز میں وہ اس طرح باہر نکلا تھا جس طرح کوئی اپنے گھر کے ایک کمرے سے اچانک نکل آتا ہے۔ شہر بانو بچوں کی طرح ایک لمحے کے توقف کے بعد اس سے لپٹ گئی تھی۔ اس کی زندگی میں شیر دل اور مثال کے علاوہ اور کوئی قیمتی چیز نہیں تھی ایسی چیز جس کو کھونے کے خدشے سے اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی یا وہ کھانا پینا بھول جاتی۔ مثال، شیر دل کے بہت بعد آتی تھی اور شیر دل یہ بات جانتا تھا… شہر بانو کے کہے بغیر… جتائے اور بتائے بغیر بھی… شیر دل نے اس کے گرد اپنے بازو لپیٹتے ہوئے کسی بڑے کی طرح اس کی پشت کو تسلی دینے والے انداز میں نرمی سے رگڑا۔
”تم پھر بیڈ سے گری ہو؟” شیر دل اس کے اس طرح اٹھ کے آ جانے کی وجہ یہی سمجھا تھا۔ اس کے سینے میں سر چھپائے شہر بانو اس کو یہ نہیں بتا سکی کہ چند منٹوں میں وہ خدشات کے کتنے جنگل پار کر آئی تھی۔
”تم یہاں کیوں آئے ہو؟ تم نے وعدہ کیا تھا اس کمرے کو بند رکھنے کا؟” اس کی پشت پر اس کی جرسی کو دونوں مٹھیوں میں بھینچے سر اٹھائے بغیر اس نے بے حد خفگی کے عالم میں اپنی سانس کو بحال کرنے کی کوشش میں کہا۔
”کام تھا۔” شیر دل نے بے حد گول مول انداز میں اس کے سر کو چومتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔ وہ اب پلٹ کر اس دروازے کے باہر لگے ہوئے بولٹ کو چڑا کر تالا بند کر رہا تھا۔
”مجھے آپریٹر نے جگایا ہے… اس کمرے میں لائٹ دیکھ کر انٹرکام کر رہے تھے وہ تمہیں۔” شہر بانو نے اسے اطلاع دی۔
”اوہ… مجھے خیال ہی نہیں روہا کہ اوپر والے فلور پر اچانک لائٹس دیکھ کر…” شیر دل بات کرتے کرتے رک گیا۔ وہ شہر بانو کو اس کی نیند کے دوران ہونے والے کسی واقعے کے بارے میں کوئی کلیو نہیں دینا چاہتا تھا۔
”ایسی کسی سچویشن میں تمہیں گارڈ کو بلا کر اسے اوپر بھیجنا چاہیے تھا، تم بے وقوفوں کی طرح خود اوپر آ گئیں۔” اس کے ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے شیر دل نے اسے ڈانٹا۔
”لیکن تم اوپر آئے کیوں تھے؟” شہر بانو نے اس کی ڈانٹ کا برا منائے بغیر کہا۔
”کام تھا کوئی یار۔” شیر دل نے اس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہٹاتے ہوئے اسے ایک بار پھر ٹالا۔




Loading

Read Previous

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Read Next

عکس — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!