عکس — قسط نمبر ۲

اسے بہت اچھی طرح دروازے بند کرنا یاد تھا کیونکہ وہ رات کو کسی ٹور سے بہت لیٹ واپس آیا تھا۔ اس کی آمد پر شہر بانو نے اندرونی دروازہ کھولا تھا۔ شیر دل اگر خود کبھی گھر پر نہ ہوتا یا اسے لیٹ واپس آنا ہوتا تو شہر بانو ڈنر کے بعد ملازمین کے کچن صاف کرنے کے بعد گھر اندر سے بند کر لیتی تھی۔ یہ شیر دل کی ہدایات تھیں اور شیر دل کیوں اس معاملے میں اس قدر احتیاط پسند تھا یہ شہر بانو کو کبھی سمجھ نہیں آیا لیکن وہ اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔
دروازے میں کھڑے ہو کر شیر دل نے ڈرائیور کو اپنے کل کے کسی وزٹ کے لیے ہدایات دی تھیں اور اس کے جانے کے بعد اس نے دروازے بند کئے تھے۔ شہر بانو اس سے باتیں کر رہی تھی جب شیر دل نے اس سے پوچھا تھا۔




”کچن کا دروازہ بند کر لیا؟”
”ہاں، ڈنر کے بعد ہی کر لیا تھا۔” شہر بانو نے اس سے کہا تھا لیکن شیر دل پھر بھی اس کو وہیں چھوڑ کر خود اندر ایک بار دروازہ دیکھنے گیا تھا تو کم از کم یہ سوال کہیں نہیں پیدا ہوتا تھا کہ وہ دروازہ خود بند کرنا بھول گیا تھا اور اب حیرانی کی بات یہ بھی تھی کہ کچن کا دروازہ بند تھا لیکن گھر کا مرکزی دروازہ کھلا تھا۔
ہال میں کھڑے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش میں شیر دل کو ایک سگریٹ کی طلب ہوئی۔ وہ ہال سے اپنے بیڈ روم میں چلا آیا۔ مثال اور شہر بانو دونوں اسی طرح گہری نیند سو رہی تھیں۔ شیر دل نے اپنا سگریٹ کا پیک اور لائٹر اٹھایا اور وہاں سے دوبارہ ہال میں واپس آ گیا اور تبھی اسے پہلی بار یاد آیا کہ اس نے صرف گھر کے گراؤنڈ فلور کو چیک کیا تھا۔ وہ اوپر والی منزل پر نہیں گیا تھا۔ ایک سگریٹ سلگا کر پیک اور لائٹر وہیں میز پر چھوڑتے ہوئے شیر دل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گیا۔ اس نے اوپر والے فلور کی لائٹس آن کرنا شروع کر دی تھیں۔ تمام دروازوں کے باہر اسی طرح تالے موجود تھے۔ جس طرح وہ ہمیشہ دیکھتا تھا۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ کچھ مطمئن انداز میں دروازوں کو دیکھتے ہوئے ماسٹر بیڈ روم کے سامنے سے گزرا اور پھر وہ چھت کے دروازے کو دیکھنے اس سے اوپر والی سیڑھیاں چڑھنے لگا اور آدھی سیڑھی میں ہی وہ جیسے کرنٹ کھا کر رکا تھا۔ چھت کا دروازہ مکمل طور پر کھلا تھا۔ شیر دل کے کسی بدترین خدشے کی جیسے تصدیق ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس نے چھت کو صاف بھی کروا لیا تھا اور اس کی مرمت بھی کروائی تھی شفٹ ہونے سے پہلے۔ چھت پر اب وہ لاک نہیں لگایا جاتا تھا کیونکہ شیر دل کبھی کبھار چھت کا چکر لگایا کرتا تھا۔ سردیوں میں وہاں دھوپ ہی نہیں بلکہ وہاں سے شہر کا View بھی بہت شاندار ہوتا تھا لیکن شہر بانو کی ناپسندیدگی کی وجہ سے یہ کام کبھی کبھار ہی ہو پاتا تھا۔ وہ اس چھت سے خوف کھاتی تھی اور چھت عام طور پر بند رہتی تھی۔ لاک نہ ہونے کے باوجود یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی ملازم چھت پر جاتا اور پھر دوازہ اس طرح چوپٹ کھلا چھوڑ آتا۔
شیر دل برق رفتاری سے آدھے راستے سے نیچے آ گیا تھا۔ ہال کمرے کے انٹرکام سے اس نے گیٹ پر موجود گارڈز کو اندر آنے کی ہدایت دی۔ ان کے آنے تک وہ اپنے بیڈ روم میں آ کر سائڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا اپنا ریوالور نکال لایا تھا۔ بیڈ روم سے نکلتے ہوئے اس نے بیڈ روم کے دروازے کا بولٹ باہر سے چڑھا دیا۔
اندر آنے والے گارڈز میں سے ایک کو وہ وہیں چھوڑتے ہوئے دوسروں کے ساتھ اوپر چلا آیا تھا۔ چھت کا کھلا دروازہ دیکھ کر گارڈز بھی اسی کی طرح متوحش ہوئے تھے۔ شیر دل ان کے ساتھ بڑی احتیاط کے عالم میں چھت پر نکلا۔ دھند میں لپٹی ہوئی وہ وسیع و عریض چھت بالکل خالی تھی۔ گارڈز نے ٹارچ کے ساتھ چھت کا ایک ایک حصہ چیک کر لیا تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا اور چھت پر کھڑا شیر دل خود کو جیسے اس وقت دنیا کا احمق ترین انسان محسوس کر رہا تھا۔ ایک گارڈ نے چھت کا دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔ سوال و جواب کے کسی تبادلے کے بغیر شیر دل واپس نیچے آیا۔ نیچے والا گارڈ برآمدے نما محرابی کاریڈور میں اسی طرح چکر کاٹ رہا تھا۔ چند رسمی ہدایات کے بعد انہیں بھیج کر شیر دل دروازے بند کرتا ہوا ریوالور رکھنے اپنے بیڈ روم کی طرف آیا اور کچھ دیر پہلے ہی کی طرح وہ ایک بار پھر شاکڈ ہوا۔ بیڈ روم کے دروازے کا بولٹ اترا ہوا تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر دیوانہ وار کمرے میں داخل ہوا۔ مثال اور شہر بانو اسی طرح بستر پر سکون سو رہی تھیں۔
شیر دل کی جیسے جان میں جان آئی تھی۔ چند لمحوں کے لیے بے مقصد کمرے میں کھڑے وہ بستر پر لیٹی مثال اور شہر بانو کو دیکھتا رہا پھر اس نے باتھ روم اور برابر والا کمرا چیک کیا۔ ریوالور واپس سائڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ کر شیر دل کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔
پورے گھر میں سب کچھ ٹھیک تھا اس کے باوجود شیر دل یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ اسے دو دروازوں پر لگی ہوئی چٹخنیوں کے بارے میں غلط فہمی ہو سکتی تھی۔ خاص طور پر اپنے بیڈ روم کے دروازے کے بولٹ کے بارے میں۔
اس رات پہلی بار وہاں بیٹھ کر اس نے اس گھر کے بارے میں سنے ہوئے تمام قصے ذہن میں دہرائے تھے اور گھر کی تاریخ یاد کی پھر پتا نہیں کیا خیال آنے پر وہ دوبارہ کمرے سے نکل آیا۔ ہال میں آ کر اس نے اوپر جانے والے کمروں کی چابیاں نکالیں اور دوبارہ اوپر کے فلور پر آ گیا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس طرح کے واقعات کے بعد رات کے اس وقت دوبارہ اوپر والی منزل پر اکیلا موجود نہ ہوتا لیکن وہ اپنے نام کا ایک تھا۔




اس نے ماسٹر بیڈ روم کے تالے کو ساری چابیاں لگا لگا کردیکھنا شروع کیا۔ ایک چابی سے دروازہ کھل گیا۔ شیر دل نے دروازہ کھول دیا۔ تاریک کمرے میں اسے ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ یوں جیسے بہت سی آنکھیں اسے دیکھ رہی ہوں۔ دروازے کے پیچھے سوئچ بورڈ کو ٹٹول کر اس نے کمرے کی لائٹس آن کر دیں۔ کمرے کو بند رکھنے کے باوجود اب باقاعدگی سے صاف کیا جا رہا تھا تو دروازہ کھلنے پر بھی اسے وہ وحشت نہیں ہوئی تھی جو پہلی بار اس کمرے کا دروازہ کھلنے پر اندر کا ابتر حال دیکھ کر ہوئی تھی۔ کمرے میں اب بھی بہت پرانا فرنیچر تھا اور وہ بھی نہ ہونے کے برابر… شیر دل آگے بڑھ آیا۔ وہ وہاں کیا دیکھنے آیا تھا، وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ وہاں موجود تھا۔ وہ چند قدم اور آگے بڑھا تھا جب یک دم اپنے قدموں کے قریب پڑی کسی چیز نے اسے روک دیا۔ پہلی بار خوف کی لہر اسے سُن کر گئی تھی۔
٭٭٭
شہر بانو کی آنکھ انٹرکام کے مسلسل بجنے کی آواز پر کھلی تھی۔ مندھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے برابر میں مثال سو رہی تھی اور شیر دل کا بستر خالی تھا۔ بیڈ روم ٹیبل لیمپ آن تھا اور ٹیبل پر پڑا انٹرکام بج رہا تھا۔ کسلمندی کے عالم میں اس نے لیٹے لیٹے شیر دل کو آواز دی۔
”شیر دل… شیر دل۔” پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ باتھ روم میں نہیں ہو سکتا۔ باتھ روم کی لائٹ آف تھی۔ کچھ الجھ کر اس نے باتھ روم کے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہنی کے بل اٹھتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر انٹرکام کا رسیور اٹھایا۔
”ہیلو۔” دوسری طرف سے گیٹ پر موجود چوکی میں تعینات سیکیورٹی انچارج تھا۔
”میڈم سر سے بات کروا دیں۔” اس نے شہربانو کی آواز سنتے ہی کہا۔
”وہ کمرے میں نہیں ہیں، ابھی آتے ہیں تو بات کرواتی ہوں۔”
”اوپر والے کمرے کی لائٹ آن کی ہوئی ہے کسی نے… کوئی وہاں ہے؟” سیکیورٹی انچارج نے کچھ ہڑبڑائے ہوئے انداز میں کہا۔
”کہاں…؟” وہ نیند میں الجھی تھی۔
”اوپر والے بڑے کمرے میں۔”
”ماسٹر بیڈ روم میں۔” شہر بانو کی نیند پہلی بار اڑی۔
”جی… سر کو بتا دیں اور دروازہ کھول دیں، ہم اوپر جا کر چیک کرتے ہیں۔” سیکیورٹی انچار ج نے اس سے کہا۔ چند لمحوں کے لیے شہر بانو کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
”میں تھوڑی دیر میں بتاتی ہوں۔” اس نے انٹرکام رکھتے ہوئے کہا تھا۔ اسے یک دم یہ احساس ہوا تھا۔صوفے پر پڑی شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے ننگے پاؤں بیڈ روم سے نکل آئی۔ باہر راہداری کی کھڑکیوں سے اس نے سکیورٹی گارڈ ز دیکھ لیے تھے۔ وہ لوگ اب مرکزی دروازے کے بالکل باہر الرٹ کھڑے تھے۔ شہر بانو بیرونی دروازہ کھولنے کی بجائے ہال کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
”شیر دل… شیر دل… تم اوپر ہو کیا؟” اس نے اوپر والے فلور کی لائٹس آن دیکھ کر شیر دل کو آواز دی۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ شہر بانو کی حواس باختگی میں اضافہ ہو گیا۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھی تھیں۔ اس وقت اسے یہ بھول گیا تھا کہ اوپر والا حصہ آسیب زدہ سمجھا جاتا تھا اور اس وقت اس ماسٹر بیڈ روم کی لائٹس آن تھیں جہاں کسی زمانے میں کوئی خود کشی کر چکا تھا اس کو حواس باختہ کرنے کے لیے یہ کافی تھا کہ اس نے شیر دل کو آواز دی تھی اور اس کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
٭٭٭
عقبی لان کے درخت میں پڑا جھولا جھولتے ہوئے اس دن چڑیا نے گھر کی د ا ہنی طرف والے لان میں ٹینس کورٹ بنتے دیکھا۔ چند آدمی بڑی جانفشانی کے عالم میں گھاس کی تراش خراش کرنے کے بعد پیمائشی ٹیپ کے ساتھ پیمائش کرتے ہوئے سفید پینٹ سے زمین پر لکیروں کا ایک جال سا بنا رہے تھے پھر اس نے ان لکیروں کے بیچ میں ایک نیٹ کو ایستادہ ہوتے دیکھا۔ وہ بے حد دلچسپی سے اپنے تمام کام چھوڑ کر بار بار وہاں آ کر اس ٹینس کور ٹ کی تیاری کے مراحل دیکھتی رہی۔ نئے ڈپٹی کمشنر اور اس کی بیوی کے آنے کے بعد اس گھر میں بہت سی نئی نئی چیزیں ہو رہی تھیں۔
کچن گارڈن میں مقامی سبزیوں کے علاوہ چائنیز سبزیوں کی کاشت شروع ہو گئی تھی۔ لان کی از سرو نو تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ گلاب کی نئی کیاریاں بنائی گئی تھیں اور سامنے والے لان میں ایک روکری کا اضافہ بھی ہو گیا تھا۔ بچوں کے چند جھولے بھی نصب کئے گئے تھے۔ چڑیا اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ ان میں سے کون سا کام کس کی فرمائش پر ہو رہا تھا لیکن وہ بیگم صاحبہ کو ہر جگہ موجود پا رہی تھی۔ ٹینس کورٹ وہ واحد جگہ تھی جہاں اس نے صاحب کو بار بار آتے دیکھا تھا۔ دو دن میں وہ ٹینس کورٹ تیار ہو گیا تھا اور تیسرے دن چھٹی والے دن اس نے صاحب اور بیگم صاحبہ کو اس ٹینس کورٹ پر کھیلتے ہوئے دیکھا۔ چڑیا جیسے مسمرائزڈ ہو گئی تھی۔ اس نے یہ کھیل پہلے کتابوں میں اور ٹی وی کی جھلکیوں میں دیکھا تھا ، آج پہلی بار آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی اور وہ Fascinatedصاحب اور بیگم صاحبہ کے جانے کے بعد لان کی ان تمام کیاریوں میں جا جا کر وہ گیند ڈھونڈتی رہی تھی جو صاحب اور ان کی بیوی کے کھیل کے دوران شاٹ کے کورٹ سے باہر چلے جانے کے بعد نہیں ڈھونڈ سکے تھے۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے کے کھیل کے دوران چھ گیندیں تھیں جو گم ہوئی تھیں اور اسے جیسے کسی مشین کی طرح ازبر تھا کہ وہ چھ گیند کن اطراف میں گئی تھی، پانچ گیندیں اس نے بے حد آسانی سے ڈھونڈ لی تھیں۔ چھٹی گیند وہ کنٹا، منٹا، ٹوکو، ٹوفو، ٹیڈو، شنٹو، کٹو کے ساتھ وہ نہیں ڈھونڈ سکی تھی اس نے وہ پانچوں گیند کورٹ کے باہر رکھی کرسیوں اور میزوں کے اوپر رکھ دی تھیں۔ اس کے سات کے سات دوست بونے مل کر بھی اس چھٹی گیند کو نہیں ڈھونڈ سکے تھے۔
اسے اگر صاحب اور ان کی بیوی سے اپنی اس کارکردگی کے بدلے میں کسی داد یا ستائش کی توقع تھی تو وہ اسے نہیں ملی تھی۔ ان دونوں میاں بیوی نے اگلے دن وہاں دوبارہ ٹینس کھیلتے ہوئے شاید غور تک نہیں کیا تھا کہ ٹینس کی وہ گمشدہ گیند کون وہاں میز پر رکھ گیا تھا لیکن چڑیا کے لیے یہ جیسے ایک اور نیا دلچسپ مشغلہ تھا۔ وہ اپنے کوارٹر میں پڑھتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے شام کے اوقات میں ٹینس شاٹس کی آواز سنتی اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر بھاگ جاتی۔ پھر عقبی لان کے کسی درخت یا پودے کے پیچھے دبک کر وہ صاحب کو اپنی بیوی یا کبھی کبھار کسی دوسرے آفیسر کے ساتھ ٹینس کھیلتا دیکھتی رہتی اور صاحب کے جانے کے بعد وہ گیند تلاش کرتی رہتی۔ اس نے کبھی کوئی گیند گھر لانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تمام گیندیں ڈھونڈ کر کبھی ان کے ساتھ تھوڑا بہت کھیل کر انہیں وہیں میز پر ایک رو میں سجا کر چلی آتی تھی۔ خیر دین نے زندگی میں اسے بہت سی چیزیں سکھائی تھیں اور ان میں سے ایک چیز ایمانداری بھی تھی۔
”وہ انگریز صاحب اور ان کی میم صاحب میرے لیے پورا گھر کھلا چھوڑ کر جاتے تھے… کئی بار میں صاحب کا والٹ اور میم صاحب کی جیولری بھی ادھر ادھر سے اٹھا کر انہیں دیتا تھا۔” وہ چڑیا کو بڑے فخریہ انداز میں بتایا کرتا تھا۔
”تو صاحب اسی لیے مجھ پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔” چڑیا نے خیر دین سے دیانتداری سیکھی تھی اور قناعت لی تھی اور محنت کرنا پایا تھا۔ ایک بچے کی معصوم فطرت اور ناسمجھی کے باوجود اس نے کبھی ڈی سی ہاؤس میں موجود ان چیزوں کو اپنے کوارٹر میں لے جانے کی کوشش نہیں کی تھی جو اسے فیسینیٹ کرتی تھیں۔
اور ایسی ہی ایک فیسینیٹ کرنے والی چیز اس کے لیے ٹینس ریکٹ تھا جس کو کبھی چھونے اور اس سے کھیلنے کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود کبھی صاحب یا بیگم صاحبہ کے ریکٹس کو ہاتھ نہیں لگا سکی تھی۔ ان کا کھیل ختم ہوتے ہی ایک ملازم دونوں ریکٹس اور گیند کا ڈبا اٹھا کر اندر کہیں لے جاتا تھا اور چڑیا ہر بار کچھ مایوس سی ہو کر رہ جاتی تھی۔ اسے انتظار تھا کسی ایسے دن کا جب صاحب یا وہ ملازم ریکٹ اٹھانا بھول جاتے لیکن وہ دن کبھی نہیں آیا البتہ ایبک آ گیا تھا۔ چڑیا نے سات بونے نہیں دیکھے لیکن اس نے وہ قسمت دیکھ لی تھی جسے خیر دین بہت بڑی شے کہتا تھا۔ ایبک اس کی زندگی کا سیاہ ترین اور خوبصورت ترین باب تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

تالاب کا مینڈک

Read Next

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!