عکس — قسط نمبر ۲

”نظر آتی ہے؟”
”ہمیشہ۔”
”ہر ایک کو؟”
”تقریباً… ” خیر دین نے مسکرا کر کہا۔
سات بونوں کے علاوہ اب چڑیا کو قسمت سے ملنے اور دیکھنے کا شوق بھی ہو گیا تھا۔
……٭……




شیر دل کی آنکھ کس وجہ سے کھلی تھی، اسے فوری طور پر انداز ہ نہیں ہوا۔ کمرے میں زیرو واٹ کی روشنی تھی اور یقینا اس کی صبح خیزی نہیں تھی جو رات کے پچھلے پہر اس کو یوں جگانے کے باعث بنی تھی۔ اپنے ساتھ لیٹی ہوئی مثال کو بہت آہستگی سے ہٹاتے ہوئے اس نے بایاں ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم کلاک اٹھا کر دیکھا۔ آج پھر 2: 30 کا وقت تھا۔ اس نے الارم کلاک واپس رکھ دیا۔ یہ پچھلے کئی دن سے ہو رہا تھا۔ وہ کئی دن سے رات کے اس پہر بالکل اس وقت بغیر کسی وجہ کے جاگ جاتا اور پھر اسے کوشش کے باوجود نیند نہیں آتی تھی۔ آج رات وہ ایک ٹور سے واپس آیا تھا اور رات کو تقریباً ایک بجے سویا تھا۔ بے حد تھکاوٹ کے باوجود وہ صرف ڈیڑھ گھنٹے کے بعد دوبارہ اسی مقرر وقت پر جاگ گیا تھا۔ چند لمحے اس نے دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ برابر میں لیٹی مثال کا چہرہ کمبل سے ڈھکتے ہوئے اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا اور پھر اپنے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے ہمیشہ کی طرح شہر بانو کو دیکھا۔ وہ آج بھی پھر بیڈ کے دوسری طرف بالکل بیڈ کے آخری سرے پر تھی۔ ایک کروٹ لینے کے پر وہ بستر سے نیچے گر جاتی۔ وہ آج بھی کمبل سے باہر تھی نائٹ شرٹ اور پاجامے میں ایک ننھے بچے کی طرح سکڑی سمٹی ہوئی۔
شیر دل اپنے بستر سے اٹھ گیا۔یہ جیسے اس کی زندگی کا معمول تھا۔ رات کو کبھی بھی جاگنے پر وہ لاشعوری طور پر سب سے پہلے شہر بانو کو چیک کیا کرتا تھا اور اس کا یہ معمول ان کی شادی کے چوتھے دن سے شروع ہوا تھا جب وہ رات کے وقت بستر سے گر کر بیڈ سائڈ ٹیبل کے دراز کی ناب سے اپنا سر زخمی کروا بیٹھی تھی۔ شیر دل اس کے گرنے کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھا تھا اور کچھ دیر کے لئے اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا کہ ہوا کیا تھا پھر شہر بانو کو بیڈ کی دوسری طرف فرش پر بیٹھا دیکھ کر اسے پلک جھپکتے میں سمجھ آ گیا تھا کہ کیا ہوا تھا۔ بیڈ کے دوسری طرف پہنچنے پر اس نے سب سے پہلے شہر بانو کا خون آلود چہرہ دیکھا تھا۔ وہ تکلیف میں تھی لیکن ابھی بھی جیسے آدھی نیند کی حالت میں اپنے سر کی دا ہنی طرف ہاتھ رکھے جیسے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ہوا کیا تھا۔ چوٹ دا ہنی کنپٹی سے کچھ اوپر سر میں لگی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سر پر چوٹ کی جگہ پر رکھے ہوئے تھی اور دوسرے ہاتھ سے گال پر پھیلے خون کو چھوتے ہوئے بے یقینی سے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
”فار گاڈ سیک… کیا کر لیا شبی؟” شیر دل بے اختیار اس کے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ شہر بانو کچھ بول نہیں سکی۔ شیر دل نے اس کا ہاتھ ہٹا کر اس کے زخم کا جائزہ لیا پھر وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ زخم گہرا نہیں تھا اور شہر بانو زخم سے زیادہ اس طرح بستر سے گر جانے پر شرمندہ تھی۔
”لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ تم مجھ سے اتنی دور چلی کیسے گئیں؟” شیر دل کو یہ بات واقعی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ رات کو اس کے سینے پر سر رکھے اس سے باتیں کرتے کرتے سوئی تھی اور پھر صرف ڈیڑھ گھنٹے میں بستر کے دوسری طرف جا گرنا… شہر بانو اسے یہ نہیں بتا سکی تھی کہ وہ پہلی بار بستر سے اس طرح گر کر زخمی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بچپن سے بستر سے گرتی آ رہی تھی… شیر دل کا افسوس کئی دن تک باقی رہا لیکن یہ راز زیادہ دیر تک اس کے لیے راز نہیں رہا تھا کہ شہر بانو اکثر بستر سے گرنے کی عادی تھی۔




پہلا کام جو شیر دل نے اس کی اس عادت کو جاننے کے بعد کیا تھا وہ اس کی سائڈ ٹیبل ہٹانے کا تھا یہ جیسے اسے دوبارہ کسی نقصان سے بچانے کی کوشش تھی۔ شہر بانو اس کے اس فیصلے پر ہنستی رہی تھی۔
”کوئی ہمارے بیڈ روم میں آ کر دیکھے تو کیا کہے گا۔ بیڈ کے ایک طرف سائڈ ٹیبل ہی نہیں۔” اس نے جیسے شیر دل کو اس کے اس فیصلے مضمرات سمجھانے کی کوشش کی۔
”کون آئے گا بیڈ روم میں…؟” شیر دل نے جواباً پوچھا۔
”کوئی بھی آ سکتا ہے۔” شہر بانو نے کہا۔
”جو آئے اسے بتا دینا کہ کیوں ایک طرف سائڈ ٹیبل نہیں ہے۔”شیر دل نے کہا۔
”میں اتنا زیادہ تو نہیں گرتی شیر دل۔” شہر بانو نے جیسے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”I can,t take risk پچھلی بار بہت چوٹ لگی تھی… میں دوبارہ تمہیں تکلیف میں دیکھنا نہیں چاہتا”۔ شیر دل نے اسے کہا وہ اب اسے اپنے بہت قریب سلاتا تھا اور رات کو وقتاً فوقتاً اسے دیکھتا رہتا تھا اس کے باوجود شہر بانو صبح تک اسے ہمیشہ بیڈ کے دوسرے سرے پر ہی ملتی تھی۔ جیسے اسے اس وقت ملی تھی۔ مثال کی پیدائش کے نو مہینے شہر بانو نے نہیں شیر دل نے تقریباً جاگ کر گزارے تھے… شہر بانو کے بیڈ کی سائڈ پر فلور کشنز کا ڈھیر لگا دینے کے باوجود اسے یہی خدشہ رہتا تھا کہ وہ بستر سے گر نہ جائے۔
شہر بانو نیند میں اس کے ہاتھ لگانے پر کسمسائی تھی۔ شیر دل نے بڑی احتیاط کے ساتھ اسے بیڈ کے سرے سے دوسری طرف مثال کے قریب کیا پھر کمبل اس کے گرد اچھی طرح لپیٹتے ہوئے خود بیڈ روم سے باہر آ گیا۔ اس کا جسم بے حد تھکا ہوا تھا لیکن ذہن مکمل طور پر تروتازہ تھا اور یہ ایک بے حد عجیب کیفیت تھی۔ وہ کمرے سے نکلتے ہوئے ایک جرسی پہن آیا تھا۔ کمرے کے باہر کا ریڈور کی بند لائٹس آن کرتے ہوئے وہ ہال کی طرف جانے لگا۔ وہ اسٹڈی میں جا کر کچھ دیر کام کرنا چاہتا تھا۔ اسٹڈی کی طرف جاتے جاتے گھر کے مرکزی دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ بری طرح ٹھٹکا۔ بیرونی دروازے کی چٹخنی اتری ہوئی تھی۔ وہ پرانی طرز کا ڈبل دروازہ تھا۔ اندرونی طرف لکڑی کا دروازہ اور بیرونی طرف جالی کے دروازے اور اس وقت اندرونی دروازے کی چٹخنیاں نیچے تھیں۔ شیر دل رات کو سونے سے پہلے کچن کے عقبی دروازے سے اور مرکزی دروازے کو خود اندر سے بند کیا کرتا تھا اور یہ عادت اسے ہمیشہ سے تھی۔ وہ صبح سویرے جاگنگ کے لیے نکلتے ہوئے مرکزی دروازہ کھولتا تھا۔ خانساماں یا گھر کا کوئی دوسرا ملازم رات کو دروازے بند ہو جانے کے بعد اندر نہیں آ سکتے تھے جب تک وہ اندر سے دروازہ نہ کھول دیتا… اور اب وہ دروازے کھلے تھے۔ اس نے اندرونی دروازہ کھولا ، جالی کے دروازے کی دونوں چٹخنیاں بھی کھلی تھیں، وہ کچھ اضطراب کے عالم میں باہر نکلا۔ باہر ہلکی دھند اور شدید سردی تھی لیکن راؤنڈ لیتے ہوئے گارڈ نے گھر کے اندر جلنے والی لائٹس دیکھی تھیں اور وہ چوکنا ہو گیا تھا۔ شیر دل جب تک باہر نکلا، ایک گارڈ اسے ڈرائیو وے کے پاس ہی مل گیا تھا۔
”سر خیریت ہے؟” رات کے پونے تین بجے اس طرح باہر نکلنے پر شیر دل اس سے یہی سوال کی توقع کر سکتا تھا۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ گارڈ کو کیا کہے یا اس سے کیا پوچھے۔ وہ سب جانتے تھے کہ شیر دل پہلے آفیسرز کے برعکس کچن کے عقبی دروازے کو ملازموں کے لیے کھلا نہیں چھوڑتا تھا اور رات کو عقبی اور مرکزی دروازہ خود بند کر کے سوتا تھا اگر وہ گھر سے کسی ملازم کو رات کو نکلتے دیکھتے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اسے نظر انداز کر دیتے۔
”گھر سے آج کوئی باہر تو نہیں نکلا؟” شیر دل نے لہجہ نارمل رکھتے ہوئے گارڈ سے پوچھا۔
”کیس وقت سر…؟” گارڈ نے کچھ حیران ہو کر پوچھا۔
”ابھی رات کو۔”
”نہیں سر… میں نے تو کسی کو نکلتے نہیں دیکھا… خیریت تو ہے سر؟”
”کچھ نہیں… دروازہ کھلا تھا ابھی جب میں نے دیکھا… اور میں رات کو دروازہ بند کر کے سویا تھا۔” شیر دل نے اس سے کہا۔
”سر میں اندر چیک کرتا ہوں۔” گارڈ ایک دم مستعد ہو گیا۔
”نہیں، میں خود دیکھ لیتا ہوں شاید میں ہی رات کو دروازے بند کرنا بھول گیا۔” شیر دل نے اسے روک دیا۔ گارڈ کو کچھ دوسری ہدایات دے کر شیر دل واپس پلٹ آیا تھا۔ اس نے اندر آ کر باری باری تمام کمرے بڑی احتیاط سے چیک کئے تھے۔ اندر کوئی نہیں تھا اور بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا۔ شیر دل کچھ الجھ کر ہال میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ خود کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ دروازے بند کرنا وہ شاید بھول گیا تھا اور یہ ایک اتفاق تھا لیکن اس کا لاشعور یہ ماننے پر تیار نہیں تھا۔




Loading

Read Previous

تالاب کا مینڈک

Read Next

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!