عکس — قسط نمبر ۲

شہر بانو نے Intramuralمیچز میں سے شیر دل کا کوئی ایک میچ Missنہیں کیا تھا۔ Winthrop Houseایونٹ جیت گیا تھا اور ایونٹ کا اختتام شہر بانو کے لیے مایوسی لایا تھا۔ شیر دل کو دیکھنے کا اب اور کوئی موقع اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ شیر دل کے ہر میچ کے بعد شیر دل کو ایک تہنیتی ای میل بھیجتی تھی۔ جواب گھنٹوں میں نہیں تو دوسرے دن ضرور آ جاتا تھا اور شہر بانو چند لائنز کی اس شکریہ کی ای میلز کو گھنٹوں پڑھتی رہتی تھی۔ شیر دل جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگا تھا۔ اس کے لیپ ٹاپ میں میچز کے دوران شیر دل کی لی ہوئی سینکڑوں تصویریں اور ویڈیو کلپس تھے۔ ان تصویروں کو دیکھنا اس کا پسندیدہ ٹائم پاس تھا۔




ٹورنامنٹ کے اختتام پر اس نے کچھ ڈرتے جھجھکتے شیر دل کو فون کیا۔ بے حد نروس انداز میں اپنا تعارف کروایا۔
”I Know You Shaher Bano” اس نے جواباً اسے کہا تھا اور چند لمحوں کے لیے شہر بانو ہکا بکا رہ گئی تھی۔
”آپ کیسے جانتے ہیں مجھے؟” اس نے اسی حیرت کے عالم میں اس سے پوچھا۔
”آپ بہت باقاعدگی کے ساتھ میرے میچز دیکھنے آتی رہی ہیں۔” شہر بانو اب جیسے بالکل فریز ہو گئی تھی۔ شیر دل کو یہ کیسے پتا چلا کہ میں اس کی ہر گیم دیکھنے جاتی رہی ہوں۔
”آ… آ… یہ کیسے پتا چلا آپ کو؟” اس نے کچھ اٹک کر ہلکی خوش فہمی کے ساتھ کہا۔
”آپ ہر میچ کے بعد ایک ای میج بھیجتی تھیں…Full of Complimentsبعض دفعہ میرے میچز کھیل کر آنے کے بعد بھی صرف آپ کی ای میل میں میری گیم کی تعریف ہوتی تھی… حالانکہ گوچ سے گالیاں پڑی ہوتی تھیں۔” دوسری طرف سے بے حد اطمینان کے ساتھ کہا گیا۔ شہر بانو پر گھڑوں پانی پڑا… اس تبصرے کے بعد کسی پر بھی پڑ جاتا۔ شیر دل سے مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی اس کی … چند رسمی کلمات کے ساتھ اس نے سیکنڈز کے اندر فون بند کیا۔ شرمندگی کی انتہا سی انتہا تھی جو اگلے کئی دن اسے گھیرے رہی۔ وہ چاہتی تھی شیر دل اس کو نوٹس کرتا اور یاد رکھتا لیکن وہ اس طرح ٹونس ہونا اور یاد رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ تھا شیر دل کو سینکڑوں نہیں تو درجنوں لڑکیاں تو ای میلز ضرور کرتی ہوں گی۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسے باقاعدگی سے ای میلز کرنے والی درجنوں لڑکیاں اپنی درجنوں ای میلز کو صرف ٹینس پر فوکس نہیں رکھتی تھیں… دو نہیں تو تین اور تین نہیں تو چار پانچ ای میلز کے بعد ای میل کا سیاق و سباق بدلنا شروع ہو جاتا تھا۔ لڑکیاں شیر دل سے اسی طرح دوستی کا آغاز کرتی تھیں وہ جو اس سے کھیل کے ذریعے متعارف ہوتیں لیکن شہر بانو کی صورت میں شیر دل کو پہلی بار ایک انتہائی مستقل مزاج مداح ملا تھا۔ جس کی پوری ای میل صرف ٹینس کے گرد گھومتی تھی… اور اگر وہ واقعی صرف شیر دل کے کھیل میں ہی دلچسپی رکھتی تو یہ اس کے حلقۂ احباب میں ایک انوکھا اضافہ تھا۔ شیر دل اس کو ٹونس نہ کرتا تو کیسے نہ کرتا۔
شہر بانو نے اس کے بعد دوبارہ شیر دل کو ای میل نہیں کی۔ شرمندگی کچھ اس حد تک ہوئی تھی اسے لیکن شیر دل اس کے دل و دماغ سے کوشش کے باوجود محو نہیں ہو سکا۔ وہ چند ہفتوں میں اپنا سمسٹر ختم کرنے والا تھا اور شہر بانو کو ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید وہ ماسٹرز کے لیے وہاں رکے۔ وہ برائٹ اسٹوڈنٹس میں سے تھا یہ وہ جانتی تھی اس لیے ایڈمیشن اس کے لیے زیادہ مسئلہ نہیں تھا لیکن اس وقت شہر بانو کو شدید دھچکا پہنچا جب پاکستان جانے سے پہلے اس نے شہر بانو کو ایک ای میل کی تھی۔ اپنے in box میں شیر دل کا نام دیکھ کر شہر بانو کا دل جیسے اچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔ چند لمحوں کے بعد اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا کہ شیر دل نے اسے ای میل کی تھی… کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ای میل کھولی تھی اور اس کے حواس اسی برق رفتاری سے بحال ہو گئے تھے۔ وہ ایک گروپ ای میل تھی۔ شیر دل کی طرف سے ہاورڈ میں گزارے ہوئے یاد گار وقت کے حوالے سے ایک الوداعی پیغام جو اس کی ایڈریس بک میں موجود تمام contactsکو بھیجا گیا تھا۔ شہر بانو نے see more کے optionکو دبا کر Hidden contactsکو دیکھنا چاہا اور اس پر جیسے منوں کے حساب سے برف پڑی تھی۔ کم سے کم تین صفحات پر پھیلی ہوئی Contact Listمیں سینکڑوں ایڈریس تھے اور اگر ان میں سے ایک شہر بانو بھی ہو گئی تھی تو کون سی خاص بات ہو گئی تھی۔ مایوسی کچھ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے شیر دل کے Contactsمیں موجود ایک ایک نام کو پڑھا۔ حسب توقع 70فیصد خواتین ہی تھیں اس فہرست میں۔
شہر بانو کا دل نہیں چاہا کہ وہ اس ای میل کا جواب دے اور اسے الوداع کہے اسے یقین تھا کہ سینکڑوںContacts میں اگر ایک کی طرف سے اسے جواب نہ ملا تو کیا فرق پڑے گا لیکن اگلے کئی دن ان Contacts سے Reply to allکے آپشن کے ساتھ آنے والے جوابات اور پیغامات ایک طرف اس کو بار بار ریمائنڈر دیتے رہے اور دوسری طرف بہت سی ای میلز میں شیر دل کے لیے خواتین کی طرف سے دکھائی جانے والی بے تکلفی اور اپنائیت اسے بے چین کرتی رہی اور کسی حد تک اسے ان لڑکیوں پر رشک بھی آتا رہا کہ وہ شیر دل کے ساتھ اس طرح بات کر سکتی تھیں… وہ کتنا پاپولر تھا، پہلے اسے صرف اندازہ تھا لیکن ان میسجز سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ وہاں Heart Throbتھا اور کتنوں کے دل توڑ کر جا رہا تھا اور نہ ماننے کے باوجود شہر بانو جانتی تھی کہ وہ بھی کسی نہ کسی حد تک ان کتنوں میں شامل تھی جن کا Crushشیر دل پر تھا۔
اگر اتنی لڑکیاں شیر دل کو ای میل کا جواب نہ دے رہی ہوتیں تو شہر بانو یقیناً اسے الوداعی پیغام کا جواب ضرور دے دیتی لیکن ان ای میلز کو پڑھ پڑھ کر شہر بانو کا دل شیر دل سے اٹھتا گیا تھا… یا کم ازکم اب اسے ہیرو سے ولن بنانا ضروری تھا تاکہ وہ اپنی اسٹڈیز، یونیورسٹی اور زندگی پر توجہ کر سکے۔




شیر دل آہستہ آہستہ اس کے ذہن سے محو ہوتا گیا۔ ویب سائٹ پر دوسری تصویریں آ گئی تھیں اور اس کی زندگی میں بھی بہت کچھ بدلتا جا رہا تھا۔ تھرڈ ائیر میں اسے اپنی ممی کی بیماری کی وجہ سے U-Pen میں مائیگریشن کروانی پڑی تھی۔ اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اسے خوش قسمتی سے ایک بار پھر ہاورڈ میں ماسٹرز کے لیے ایڈمیشن مل گیا تھا۔ اس بار وہ Dudley Houseمیں تھی اور یونیورسٹی میں آنے کے چوتھے دن اس نے اپنے اپارٹمنٹ کے لاؤنج میں شیر دل کو دیکھا تھا۔ وہ پانچ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس چار بیڈ روم اپارٹمنٹ کو شیئر کر رہی تھی اور اس وقت یونیورسٹی سے واپس آئی تھی جب سیدھے اپنے بیڈ روم کی طرف جانے کے بجائے وہ پانی پینے کے لیے کچن میں آئی تھی اور لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس نے جس شخص کو وہاں مارٹن کے ساتھ محو گفتگو دیکھا تھا اس نے شہر بانو کے ہوش اڑا دئیے تھے۔ سیاہ جینز اور سیاہ ٹی شرٹ پہنے وہ شیر دل تھا جو بڑے ریلیکس انداز میں اپنی ٹانگیں سینٹر ٹیبل پر ٹکائے صوفے پر نیم دراز کسی ڈرنک کا کین ہاتھ میں لیے برابر بیٹھے مارٹن کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ شہر بانو کی ہیلو کے جواب میں مارٹن کے ساتھ اس نے بھی گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہیلو سے آگے کچھ نہیں کہہ سکی۔ وہ اسی طرح فریز ہوئی تھی۔ شیر دل نے سینٹر ٹیبل سے اپنی ٹانگیں ہٹاتے ہوئے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے اس کی ہیلو کا جواب ایک خیر مقدمی مسکراہٹ سے دیا۔ شہر بانو کی بھوک پیاس لمحوں میں غائب ہو گئی تھی۔ اس اپارٹمنٹ کے ایک بیڈ روم کو ہائر کرتے ہوئے اس نے سنا تھا کہ اس اپارٹمنٹ کے پانچ مکینوں میں ایک پاکستانی بھی تھا لیکن وہ اس ”پاکستانی” کو آج پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ وہ ساڑھے پانچ سال پہلے کی طرح ایک ٹین ایج، بے وقوف نہیں تھی پھر بھی شیر دل کو دیکھ کر اس کے طوطے، کبوتر اسی طرح اڑے تھے۔ شیر دل نے اپنا تعارف کروایا اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ فل برائٹ اسکالر تھا اور ہارورڈ کینڈی اسکول میں ماسٹرز کے لیے زیر تعلیم تھا۔ شہر بانو ہاروڈر کے آرکیٹیکچر اسکول میں ماسٹرز کے لیے Enrolledتھی۔ اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے اسے بار بار گریجوشن کے دوران اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ کرنا پڑتا تو وہ اس وقت فائنل سمسٹر میں ہوتی اور پھر شاید شیر دل سے اس کی ملاقات نہ ہوتی۔ بعض دفعہ تاخیر بھی زندگی بدل دیتی ہے جیسے اس سال اس کی بدلی تھی۔
شیر دل اور اس کے درمیان صرف چند رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا وہاں لاؤنج میں کھڑے کھڑے… پھر وہ کچن ایریا میں گئے بغیر وہیں سے واپس اپنے بیڈ روم میں آ گئی تھی لیکن اپنا دل و دماغ سب کچھ باہر لاؤنج میں بیٹھے شیر دل کے پاس چھوڑ آئی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں ایک جن کی طرح آیا تھا۔
٭٭٭
”تم نے بتایا نہیں؟” شہر بانو چونکی۔ تزئین کی آواز اس کو ماضی سے واپس کھینچ لائی۔ تزئین اپنا سوال دہرا رہی تھی۔ شہر بانو نے ایک نظر پھر شیر دل کو دیکھا اور مسکرا کر کہا۔
”ہم لوگ کزن ہیں۔”
”اوہ، اچھا… یعنی خاندان میں ہی شادی ہوئی ہے۔” تزئین نے دلچسپی لی۔
”جی۔” شہر بانو مسکرائی۔
”فرسٹ کزن؟”
”جی، فرسٹ کزن۔” اس سے پہلے کہ تزئین کچھ اور کہتی ملازم نے آ کر ڈنر لگنے کی اطلاع دی اور سارے مسائلے کا آغاز ڈنر ٹیبل پر تزئین کی گفتگو سے ہوا تھا۔
”بھائی آپ نے اس گھر کے بارے میں کچھ سنا ہے؟” شیر دل اور شہر بانو بیک وقت چونکے۔ ان کا ذہن SP ہاؤس کی طرف گیا تھا۔
”اس گھر کے بارے میں بھائی؟” شیر دل نے کچھ حیرانی سے تزئین سے کہا۔




Loading

Read Previous

تالاب کا مینڈک

Read Next

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ۔ احمد سلمان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!