عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

”ہاں۔” اس بار عکس نے بالآخر تمہید اور کسی جھجک کے بغیر کہا۔ غنی کے سامنے تمہیدوں کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
”اچھا فیصلہ ہے…” اس کے اگلے جملے نے عکس کو حیران کردیا تھا۔ وہ کم از کم غنی سے اس جملے کی توقع نہیں کرسکتی تھی۔
”اوہ… تمہیں واقعی لگتا ہے اچھا فیصلہ ہے یا تم صرف طنز کررہے ہو؟”
”طنز کیوں کروں گامیں… تمہاری زندگی ہے تمہیں حق ہے اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے کا… اور شیر دل مجھے برا لگتا ہے لیکن تمہارے لیے اچھا ہے وہ۔” غنی کا لہجہ بے تاثر تھا، وہ کوشش کے باوجود کسی قسم کا طنز یا گلہ کہیں ڈھونڈ نہ سکی تھی۔ ”میں ویسے بھی بہت عرصے سے اس خبر کی توقع کررہا تھا تم سے لیکن میں اگر حیران تھا تو صرف اس بات پر کہ شہر بانو کے ہوتے ہوئے… تم شیر دل سے شادی کرنے پر تیار ہوگی لیکن…” غنی نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا عکس نے بے اختیار گہری سانس لی۔ بالآخر وہ کانٹا دکھنے لگا تھا جو چبھا ہوا تھا۔
”تم کیوں اس خبر کی توقع کررہے تھے؟” اس نے بڑی سنجیدگی سے غنی سے پوچھا۔




”مجھے جواد نے تم دونوں کے بارے میں ایسی کچھ باتیں کہی تھیں جس کے بعد مجھے توقع تھی تمہاری طرف سے ایسی کسی خبر کے آنے کی۔میں نے جواد سے تب صرف اس لیے بات کی تھی کہ اگر ممکن ہوسکے تو میں تم دونوں کے درمیان Patchup کراسکوں۔ تمہیں تو پتا ہے ناں، اس کی فیملی کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں… لیکن جواد نے جواباً جو کچھ بتایا، س کے بعد مجھے لگا کہ اس کے ساتھ منگنی ختم کرنا تمہاری خواہش تھی، اس کی نہیں۔” عکس خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی وہ اگرچہ کچھ تلخ باتیں کہہ رہا تھا لیکن اس کا انداز دوستانہ تھا۔ تلخی نام کی کوئی شے اس میں نہیں تھی۔ عکس نے اس کی بات ختم ہونے پر بڑی متانت سے اس سے کہا۔
”میں جواد کی کسی بات پر Comment نہیں کروں گی کیونکہ جواد کی بات پہ تبصرہ کرنا بیکار ہے۔ لیکن میں اس بات پر ضرور حیران ہوں کہ تم دوست ہوتے ہوئے بھی جواد کی یہ ساری باتیں سن کے مجھ سے بات کرنے کے بجائے خاموش رہے۔ کم ازکم تمہیں اس وقت مجھ سے پوچھنا تو چاہیے تھا کہ میں نے تمہارے بارے میںیہ سنا ہے۔ بیٹھے بٹھائے خود سے کچھ بھیassume کرلینا کم ازکم مجھے تم سے اس چیز کی توقع نہیں تھی۔” غنی نے بھی اس کی بات اسی خاموشی سے سنی تھی جس طرح وہ اس کی بات سنتی رہی تھی۔
”تمہارا ذاتی مسئلہ تھا اور میں اگر حیران تھا تو صرف اس بات پہ کہ بیٹھے بٹھائے تمہیں شیردل سے شادی کرنے کا شوق کیسے پیدا ہوگیا۔ اگر ایسا کچھ تھا تو تمہیں بہت پہلے اس سے شادی کرلینی چاہیے تھی جب ابھی وہ غیرشادی شدہ تھا۔” جب عکس نے اپنی بات ختم کرلی تو غنی نے کہا۔
”اس کی شادی میری وجہ سے ختم نہیں ہوئی تھی۔”عکس نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا۔” کم ازکم میرے اور شیردل کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں تھا جسے بنیاد بناکر اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہوتی۔ لیکن میں یہ مانتی ہوں کہ شہربانو میرے حوالے سے کچھ خدشات کا شکار ہوئی، یا شاید مجھے یہ کہنا چاہیے کہ وہ کچھ غلط فہمیوں کا شکار ہوئی… میں directly نہ سہی لیکن Indirectly ان دونوں کی شادی ختم ہونے کا باعث بن گئی اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے۔ ” directly غنی نے اس کی بات کاٹی۔
‘‘یار! چھوڑو اب اس سارے افسوس وغیرہ کو، ان دونوں کی طلاق ہوگئی، بات ختم ہوگئی۔”
”بات ختم نہیں ہوئی، ختم ہوبھی جائے، تو بھی اس کی بازگشت بہت دیر تک گونجتی رہتی ہے۔ جس طرح تم نے منہ اٹھاکے کہہ دیا کہ تم شیردل اور میرے بارے میں بہت دیر سے جانتے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ہم دونو ں عنقریب شادی کرلیں گے۔ اس طرح اور بھی ڈھیروں لوگ یہاں اسی طرح کی باتیں سوچ اور کررہے ہوں گے۔” عکس نے اس سے کہا۔
”تو کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ افواہیں صرف تب پھیلتی ہیں جب واقعی کچھ ہورہا ہو؟ ایسا نہیں ہے ۔ کوئی بات نہ ہو تب بھی بہت باتیں کی جاسکتی ہیں اور بہت باتیں بنائی جاسکتی ہیں۔ یہ انسانوں کی پسندیدہ activity ہے۔ ویسے بھی جو قوم جتنی فارغ ہو، اس کے پاس بات کرنے کے لیے اتنا ہی زیادہ فالتو وقت ہوتا ہے تمہیں پروا کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔” غنی نے بے پروائی سے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”تم مجھے سپورٹ کیوں کررہے ہو؟ اس مسئلے پر؟”عکس تھوڑا سا مسکرائی۔
”تمہیں، غلط فہمی بالکل نہیں ہونی چاہیے کہ میں تمہیں سپورٹ کررہا ہوں۔ تم نے کون سا مجھ سے پوچھ کے شادی کا فیصلہ کیا ہے۔ تم تو سب کچھ مجھ سے اس طرح چھپائے ہوئے تھیں جیسے مجھے کبھی کچھ پتا ہی نہیں چلے گا لیکن دیکھ لو، میں جانتا ہوں اور بہت دیر سے جانتا ہوں۔”
”تم جانتے ہو ، تواور لوگ بھی جانتے ہوں گے،ہمارے batch mates’ میں سے ” عکس نے اس کی بات غور سے سنتے ہوئے اس سے کہا۔
”یقینا جانتے ہوں گے تو کیا ہوا؟تم خائف کیوں ہو اس بات سے؟”غنی ایک لمحے کے لیے رکا، پھر اس نے کہا۔
”خائف ہونے والی بات ہے، اس لیے خائف ہوں۔”اس کی بات سن کرعکس نے ایک گہری سانس لی اور کہا۔
”تم سول سروس میں جس سے بھی شادی کرتیں، تمہارے بارے میں کچھ نہ کچھ افوہیں بنتی۔ کہیں باہر کرتیں تو شاید بچ جاتیں۔ اب شیردل کے ساتھ کررہی ہو تو بھی تھوڑی بہت باتیں تو ضرور ہوں گی۔ہم فرشتے نہیں ہیں، جن کے بارے میں لوگ بات نہ کریں اور اگر کریں تو ہمیشہ اچھی بات ہی کریں۔ شیردل کی شادی ختم ہونے کی جو بھی وجوہات ہوں لیکن وہ ختم ہوگئی ہے۔ اس لیے تم شہربانو اور شیردل کے بریک اپ کو اپنے اعصاب پر سوار کیے بغیر اس رشتے کو شروع کرو۔” وہ بڑی سنجیدگی سے اسے نادانستگی میں بہت ساری ایسی چیزیں سمجھاگیا تھا جو عکس کو کسی دوسرے سے سمجھ میں نہ آتیں۔
”تمہیں شادی کی خبر کس نے دی ہے؟”عکس نے پوچھا۔
”شیردل نے ایک دو batch mates ذکر کیا ہے کل۔ مجھے انہی میں سے ایک سے پتا چلا تو میں نے تڑپ کے تمہیں فون کیا۔ آخر تم میرے ساتھ بے وفائی کیسے کرسکتی ہو؟”
”اس طرح کی باتیں کسی دوسرے کے سامنے کی ناں تم نے تو شیردل تک بھی پہنچیں گی۔ اس کے بعد تم اس اندازہ لگاسکتے ہو، کہ وہ کیا کرے گا تمہارے ساتھ۔” وہ اس کے آخری جملے پہ ہنس پڑی تھی۔
”میں اپنے جذبات کا اظہار ابھی نہیں کرسکتا کیا؟ اور شیردل کی دھمکیاں دینا بند کردو۔”غنی نے مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”تم اپنے جذبات کا اظہار اپنی بیوی سے جاکے کیا کرو یا پھر میں خود ثانیہ کو فون کرکے تمہارے جذبات پہنچاؤں اس تک؟” عکس نے جواباً کہا۔
”تم اب مجھے میری بیوی سے جوتے پڑواناچاہتی ہو۔ اسے پہلے ہی تم سے شدید قسم کیinsecurity ہے۔”غنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس insecurity کی وجہ تم خود ہو اور دس دفعہ تو تمہاری بیوی خود مجھ سے کہہ چکی ہے کہ میں بڑی سمجھدار اور خوش قسمت تھی کہ غنی کی کوشش کے باوجود اس سے شادی نہیں کی ۔کاش وہ بھی ایسی عقل مندی کا مظاہرہ وقت پر کردیتی۔” غنی نے اس کی بات سے ذرہ برابر بھی متاثر ہوئے بغیر کہا۔
”وہ ہر اس لڑکی سے ایسی ہی باتیں کرتی رہتی ہے جس کے بارے میں اسے تھوڑا سا بھی یہ شک ہو کہ میں کبھی اس کو پسند کرتا تھا۔ عورتوں کی عادت ہوتی ہے ایک دوسرے کے سامنے اس طرح کی باتیں کرنے کی۔”
”تانیہ کے سامنے تمہاری بولتی بند ہوجاتی ہے یہ مثالیں اس کے سامنے کبھی نہیں سنیں تمہارے منہ سے۔” عکس نے اسے tease کیا تھا۔
” میں بے وقوف نہیں ہوں صرف شوہر ہوں۔” غنی نے مسکراتے ہوئے کہا ساتھ ہی اس سے پوچھا۔” اس کی فیملی تمہیں قبول کرلے گی؟”
” اس کی فیملی ہی نے initiate کیا ہے یہ جو کچھ بھی ہوا ہے۔” عکس بھی سنجیدہ ہوگئی۔
”یہ سب کچھ ویسے بہت ناقابل یقین ہے۔” غنی نے کہا۔
”کیوں…؟” وہ غنی کی بات کے جواب میں کہنا چاہتی تھی کہ تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن وہ جواباً سوال کربیٹھی تھی۔
are you sure” کہ اس شادی کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں ہے؟” غنی اگر ایسا سوچ رہا تھا تو اتنا غلط نہیں سوچ رہا تھا۔ جو خاندان اپنی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا ہو وہ یک دم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر تیار ہوجائے تو یہ بات کسی کو بھی شک و شبہہ اور اچنبھے میں ڈال سکتی ہے۔
”قسمت میں ہے اس لیے ہورہا ہے یہ سب کچھ… ان کی نیت اور ارادے پر تو مجھے کوئی شک نہیں۔” عکس نے اپنے ہونے والی سسرال کی حمایت کی۔
”شیر دل کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا انہیں قائل کرنے میں۔” غنی نے یک دم کہا۔
”ہاں یقینا شیر دل نے ہی قائل کیا ہوگا انہیں۔” وہ چاہتے ہوئے بھی یہ نہیں کہہ سکی کہ یہ محبت سے زیادہ ضرورت تھی جو اس رشتے اور تعلق کے پیچھے محرکات میں سے ایک تھی۔ اسے شیر دل کی اپنے لیے فیلنگز پر کبھی کوئی شبہ نہیں رہا تھا لیکن اسے شیر دل کے ماں ،باپ کے حوالے سے کوئی خوش فہمی بھی نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی شیر دل اگر اس طرح بیمار نہ پڑتا تو اس کے والدین کبھی اس رشتے پر رضامند نہیں ہوتے۔ غنی سے اس کی بہت دوستی تھی لیکن وہ غنی سے یہ سب شیئر نہیں کرسکتی تھی۔ کچھ باتیں انسان اپنے آپ سے بھی نہیں کہہ پاتا خود بھی جھٹلاتا رہتا ہے وہ بھی ایسی ہی بے قدری کی ایک بات تھی جو وہ کسی دوسرے سے نہیں کہنا چاہتی تھی خاص طور پر اس خاندان کے ایک شخص سے جو شیر دل اور اس کے خاندان کا rival تھا۔
” شیر دل سے شادی کے ساتھ ہی یقینا تمہاری اور میری دوستی کا خاتمہ بھی ہوجائیگا۔” غنی نے بالآخر اس خدشے کا اظہار کیا جسے ڈسکس کرنے کے لیے اس نے اسے فون کیا تھا۔
”کیوں… یہ بیٹھے بٹھائے یہ دوستی کا کیا مسئلہ ہوگیا تمہیں؟” عکس ہنس دی تھی اسے اچانک احساس ہوا غنی کے خدشات کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔
” مجھے بیٹھے بٹھائے کوئی مسئلہ نہیں ہوا… تمہیں ہونے والا ہے بلکہ تمہیں نہیں، تمہارے ہونے والے شوہر کو ہونے والا ہے۔” غنی نے بہت جتانے والے انداز میں کہا۔
”شیر دل میچور ہے۔” عکس نے بہت گھما کر بات کی تھی۔ غنی جواباً قہقہہ مار کر ہنسا۔
”تم ایک انتہائی خبیث آدمی ہو۔” وہ بھی کچھ شرمندہ انداز میں ہنس دی۔
” شیر دل سے بہت کم” غنی نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”تم جسے خبیث کہہ رہے ہو وہ میرا ہونے والا شوہر ہے۔” وہ خفا ہوئی تھی۔
”اور میں تمہارے ہونے والے شوہر کو تب سے جانتا ہوں جب اسے جوتے کے laces تک ٹھیک سے باندھنے نہیں آتے تھے خیر وہ تو شاید اب بھی ٹھیک سے نہ باندھ سکے اگر laces والے شوز پہننے پڑجائیں تو…” غنی نے بے حد اطمینان سے کہا تھا۔
”تم اگر اس طرح کی باتیں کیا کروگے اب میرے ساتھ تو تمہاری اور میری دوستی واقعی نہیں رہے گی۔” اس بار عکس اس کے مذاق سے محظوظ نہیں ہوئی تھی۔
” مجھے اسی بات کا خدشہ ہے کہ اب تم شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بننے کی کوشش نہ کرنے لگو۔” غنی نے اسی انداز میں کہا تھا۔ د
” غنی تم میرے اچھے دوست ہو اور میں کبھی تم جیسے دوست کو کھونا نہیں چاہوں گی، تمہیں خائف ہونے یا خدشات کا شکار ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شیر دل سے شادی ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مجھے ہر اس شخص سے بات کرنے سے منع کردے گا جسے وہ پسند نہیں کرتا۔” اس نے بہت نرمی اور متانت سے غنی کی بات کے جواب میں اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ”لیکن جہاں تک وفاداری کا سوال ہے تو ظاہر ہے شوہر کے طور پر اس کے ساتھ میری وفاداری کی نوعیت کسی دوست کے ساتھ وفاداری کی نوعیت سے مختلف ہوجائے گی اور میں چاہتی ہوں تم بھی اس معاملے پر اتنی ہی سمجھداری کا مظاہرہ کرو جتنا تم شیر دل سے چاہتے ہو۔” وہ کہتی گئی تھی۔”تم دونوں کے خاندان کے درمیان ماضی میں کیسے اختلافات رہے ہیں اور تم اور شیر دل ایک دوسرے کو کیوں پسند نہیں کرتے مجھے اس سب کی تاریخ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں۔” اس نے بات ختم کی۔
”تم سیریس ہوگئیں میں مذاق کررہا تھا۔” غنی نے یک دم اس سے کہا۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!