عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

شیر دل اس وقت نہا کر نکلا تھا اور ابھی اپنے بیڈ روم میں آیا ہی تھا جب اس کا سیل فون بجنے لگا تھا۔caller ID نظر نہیں آرہی تھی یعنی کالر کسی سرکاری نمبر سے کال کررہا تھا اس نے تولیا کرسی پر رکھتے ہوئے کال ریسیو کی۔دوسری طرف عکس کے آفس کا آپریٹر تھا جس نے اسے ایمر جنسی کی اطلاع دیتے ہوئے فوری طور پر عکس سے connect کیا تھا۔ وہ بھی کچھ تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔ بیٹھے بیٹھائے اتنی صبح ،صبح کیا ایمر جنسی آگئی تھی۔
”تم نے کسی سینٹری ورکر کو معطل کیا تھا؟” عکس نے اس کی آواز سنتے ہی علیک سلیک اور تمہید کے بغیر پوچھا۔
”کہاں… تمہاری جگہ پر؟” شیر دل نے حیرانی سے اس کا سوال سنا۔
”ہاں…”
”شاید… کیوں ،کیا ہوا؟” شیر دل کو فوری طو ر پر کوئی معطلی یاد نہیں آئی لیکن اس نے انکار بھی نہیں کیا تھا۔
”وہ میرے آفس کی چھت پر چڑھا ہوا ہے اور خود کشی کی دھمکی دے رہا ہے۔” عکس نے جواباً کہا۔”شیر دل نے بے اختیار ایک گہری سانس لی۔
”الو کا پٹھا… جیکب مسیح…” اسے نہ صرف وہ سینٹری ورکر یاد آگیا تھا بلکہ ا س کا نام بھی…
”جیکب مسیح نام ہے… اوکے… کیا کیس تھا اس کا؟” عکس کے لہجے میں عجلت تھی۔
”کیا کیس ہونا ہے؟ دو دفعہ کوڑے کے ڈرم اکھاڑ کر لے جاتے ہوئے پکڑا گیا، میں نے وارننگ دے کر چھوڑ دیا، تیسری بار میرے آفس کے باتھ روم میںفٹنگ کے لیے آیا ہوا کچھ سامان غائب کردیا اس نے… انکوائری میں اس پر الزام ثابت ہوگیا تو بھی میں نے معطل نہیں کیا اسے… pay ضبط کی اس کی ۔” شیر دل اسے کچھ خفگی کے عالم میں بتارہا تھا۔
”لیکن سب تو کہہ رہے ہیں وہ suspend (معطل) ہونے کی وجہ سے یہ سب کررہا ہے۔” عکس نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”suspend (معطل) میں نے اسے ڈی سی آفس کی چھت پر چڑھ کر خود کشی کی دھمکی دینے پر کیاتھا۔ pay کاٹے جانے پر چھت پر چڑھ گیا تھا اور پتا نہیں کہاں سے تقریر لکھوا کر لایا تھا۔ کوئی دس صفحوں کی،وہ پڑھنا شروع کردی تھی۔” شیر دل نے بتایا۔”تو میں نے اس جرم میں suspend (معطل) کیا تھا اسے۔”
”اب بھی یہی کررہا ہے وہ… لیکن زبانی کررہا ہے تقریر۔” وہ صورت حال مضحکہ خیز تھی نہیں لیکن اب لگنے لگی تھی۔
”تم کیا کررہی ہو؟” شیر دل نے جواباً پوچھا۔
”میں نے فائر بریگیڈ والوں کو بلایا ہے، سیڑھی اور نیٹ لانے کے لیے… ایمبولینس کو بھی بلوایا ہے۔ میرا اسسٹنٹ کمشنر میگا فون پر اس سے دروازہ کھولنے اور نیچے آجانے کے لیے کہہ رہا ہے اور اب میں سوچ رہی ہوں کہ اس کی suspension (معطلی) ختم کر دوں تاکہ وہ نیچے تو آئے… ابھی کوئی میڈیا ٹیم یہاں آگئی تو اور مسئلہ ہوجائے گا…تم نے کیا، کیا تھا جب وہ اس طرح چھت پر چڑھ گیا تھا۔” عکس نے تشویش کے عالم میں تفصیلات بتاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”میں نے اسے کہا تھا کہ کود جاؤ اور اگر پھر بھی بچ گئے تو میں تمہیں suspend (معطل) کروں گا کم از کم ایک سال کے لیے اور پھر میں اندر چلا گیا تھا۔” عکس کو لگا وہ مذاق کررہا ہے۔




”تم بکواس کررہے ہو۔” اس نے بے ساختہ کہا۔ ”یہاں مجھے مصیبت پڑی ہوئی ہے تمہاری وجہ سے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔”وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خفا ہوئی تھی۔
”میں نے وہی کہا تھا جو میں نے تمہیں بتایا ہے۔ جو تم کررہی ہو اس کے بعد تو وہ سارا دن چھت پر بیٹھا رہے گا اور نیچے کراؤڈ بڑھتا چلا جائے گا اور میڈیا والوں کو دیر نہیں لگے گی وہاں پہنچنے میں۔” شیر دل نے سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”تم نے اسے کہا کہ کود جاؤ اور وہ نیچے آگیا؟” عکس کو اب بھی یقین نہیں آیا۔
”ہاں… پندرہ منٹ میں نیچے آگیا تھا، اس کے بعد میں نے اسے دو دن تھانے میں رکھوایا پھر suspend کر کے گھر بھجوادیا ۔تمہاری طرح اسے چھت پر چڑھا دیکھ کر تماشائی اکھٹے نہیں کرنے دیے… تم عورتوں نے شہر سنبھالنا ہے…؟ ایک جیکب مسیح تو کنٹرول ہوتا نہیں تم سے۔”شیر دل کے آخری جملے میں موجود طنز کو اس نے نظر انداز کردیا تھا۔ وہ پہلا موقع نہیں تھا جب وہ اس طرح کے شاؤ نزم دکھارہا تھا۔
” یعنی میں اسے کہہ دوں کہ وہ کود جائے تو وہ نیچے اتر آئے گا؟” عکس نے جیسے اس سے یقین دہانی چاہی تھی۔
”ہاں… لیکن اس سے پہلے نیچے موجود اس سارے کراؤڈ کو ہٹا دو وہاں سے۔” شیر دل نے کہا اور چند اور جملے کہہ کر عکس نے فون بند کردیا۔ فون بند ہونے کے بعد بھی شیر دل مسلسل اسی صورت حال کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ تقریباً بیس منٹ بعد اس نے کچھ اضطراب اور تجسس کے عالم میں updates لینے کے لیے عکس کو دوبارہ فون کیا تھا۔ چند لمحے فون بجتا رہا لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی اس سے پہلے کہ وہ ایک بار پھر نمبر ٹرائی کرتا اسے عکس کا ٹیکس آرہا تھا اور ٹیکس پر ایک نظر ڈالتے ہی اس کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا تھا۔
”مدد کا شکریہ… جیکب کود گیا۔”
……٭……
منزہ کو شہر بانو کی آواز سن کر جتنا شاک لگا تھا اتنا ہی شاک انہیں اس کا وہ جملہ سن کر لگا تھا جو اس نے ابتدائی رسمی جملوں کے بعد یکدم منزہ سے کہا تھا۔
”میں شیر دل سے reconciliation مصالحت چاہتی ہوں، واپس آنا چاہتی ہوں۔ ”منزہ کچھ دیر کے لیے جیسے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھیں۔ وہ اتنے مہینوں سے ان سے بات کرنے پر تیار نہیں تھی۔ مثال کی آواز تک انہیں سنانے کو تیار نہیں تھی… اور اب طلاق کا اپنا حق استعمال کرلینے کے بعد وہ شیر دل سے مصالحت چاہتی تھی۔ آخر بیٹھے بٹھائے ایسا کیا ہوگیا تھا کہ داؤد کے ساتھ شادی کرنے کے بجائے وہ واپس شیر دل کی طرف آنا چاہتی تھی۔ وہ طلاق کا تفویض شدہ حق استعمال کرنے کے بعد اگر واپس شیر دل کے ساتھ مصالحت کرنا چاہتی تو کرسکتی تھی کیونکہ ان کے درمیان علیحدگی تفویض شدہ طلاق کے ساتھ ہوئی تھی اور وہ بھی ایک طلاق کے ساتھ… مرد کی طرف سے تین بار دے دی جانے والی تین طلاقوں کے ساتھ نہیں۔ شہر بانو چاہتی تو اس طلاق کو واپس لے کر حلالہ کے بغیر شیر دل کے ساتھ دوبارہ صرف نکاح کر کے رہ سکتی تھی اور ان دونوں کی طلاق ہوجانے کے بعد بھی منزہ کچھ عرصہ یہ کوشش کرتی رہی تھیں کہ شہر بانو اس طلاق کو واپس لے لے اور شیر دل کے ساتھ مصالحت کرلے۔ یہ صرف شرمین کا اعلان تھا کہ وہ داؤد کے ساتھ شہر بانو کی شادی کرنے والی تھیں جس کے بعد منزہ نے مصالحت کی کوششوں کو بالآخر بے حد مایوسی کے عالم میں ترک کردیا تھا۔
اوراب اتنے مہینوں کے بعد جب وہ عکس اور شیر دل کی شادی طے کر آئی تھیں تو شہر بانو ایک بار پھر ان کے خاندان میں لوٹنے پر تیار ہوگئی تھی اور اس کی آفر نے منزہ کو یک دم بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔
”شرمین نے بتایا تھا کہ تم داؤد کے ساتھ شادی کرنے والی تھیں؟” منزہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
”اب نہیں کررہی ۔” اس نے جواباً کہا۔ منزہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس سے مزید کیا کہیں۔ شہباز حسین کی اکلوتی اولاد اور نشانی ہونے کی وجہ سے شہر بانو انہیں ہمیشہ عزیز تھی۔ شیر دل کے ساتھ اس کی شادی پر اس سے زیادہ وہ خوش تھیں اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ سے بہت قربت closeness رہی تھی۔ شہر بانو ایک بار پاکستان آجانے کے بعد شرمین کے بجائے منزہ پر زیادہ rely (انحصار) کرنے لگی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصالحت کا فیصلہ کرنے کے بعد شیر دل کو فون کرنے کے بجائے اس نے منزہ کو فون کیا تھا۔
”تمہیں میں نے کتنا سمجھانے کی کوشش کی تھی، کتنا منع کیا تھا کہ چلو ناراضی ٹھیک ہے ،میاں بیوی میں ہوجاتی ہے تم کچھ وقت گزرنے دو لیکن اتنا بڑا قدم نہ اٹھاؤ… تم نے میری کسی بات کی پرواہ نہیں کی ۔شرمین کی طرح سوچے سمجھے بغیر جو دل میں آیا کرتی چلی گئیں۔ اس نے بھی شہباز سے اختلافات کے بعد اپنا ابارشن کروالیا تھا۔ divorce تو چلو جو ہونی تھی ہوئی لیکن اس بچے کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ تم نے بھی یہی کیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ شیر دل مثال کے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اس سے بری طرح اٹیجڈ ہے تم بیٹی کو لے گئیں اور وہ بھی اس طرح کہ تم نے نہ ہمیں،نہ شیردل کو اس سے ملنے دیا ،شکل تک دیکھنے کے لیے ترسا دیا تم نے۔” شہر بانو خاموشی سے منزہ کے گلے شکوے سنتی رہی اسے اندازہ تھا کہ یہ ساری گفتگو اور باتیں اسے سننی پڑیں گی۔ بعض دفعہ ہم کسی کی ایک بات سننے پر تیار نہیں ہوتے اور پھر ہمیں زندگی کبھی اتنا مجبور کردیتی ہے کہ ہم اسی شخص کی ہزار باتیں سننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
”تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمہاری اس جذباتیت سے شیر دل کی زندگی کس طرح متاثر ہوگی امریکن ایمبیسی کو اس طرح انوالو کر کے تم نے شیر دل اور ہماری فیملی کو سوشل اور پروفیشنل سرکلز میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ شیر دل نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سے مرتے مرتے بچا ہے… کوئی چھوٹا mess توcreate نہیں کیا تم نے ہمارے لیے۔” شہر بانو کو عجیب سا اضطراب ہوا۔
”نروس بریک ڈاؤن…” شیر دل اتنا کمزور تو نہیں تھا یا شاید اس نے اسے ضرورت سے زیادہ مضبوط سمجھ لیا تھا۔
”اب وہ ٹھیک ہے؟” اس نے یک دم منزہ کو ٹوک کر پوچھا۔
”ہاں ٹھیک ہے لیکن جو مہینے میں نے اسے سنبھالتے گزارے ہیں ،وہ میں ہی جانتی ہوں اور خدا نہ کرے کسی ماں کو اپنی اولاد کو اس طرح تکلیف میں دیکھنا پڑے۔”
”میں نے جو بھی کیا میں اس کے لیے بہت شرمندہ ہوں اور مجھے افسوس ہے ۔آپ ٹھیک کہتی ہیں مجھے اتنی جلد بازی میں اتنے بڑے بڑے فیصلے نہیں کرنے چاہیے تھے لیکن بس غصے میں بعض دفعہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔” شہر بانو نے جیسے کچھ بے بس انداز میں اعتراف ندامت کیا تھا۔ اسے کم از کم اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں تھی کہ اس نے شیر دل کو ہر طرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے اس بات کی پروا نہیں کی تھی کہ وہ جس طرح اس کا گھر چھوڑ کر جارہی ہے اس سے شیر دل کو لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوجائے گا اور اب جب وہ اپنے لائے ہوئے طوفان کے گزرجانے کے بعد ہونے والی تباہی دیکھ رہی تھی تو وہ پہلی بار ندامت کا شکار ہورہی تھی ۔وہ وجہ تنازعہ جس پر اس نے اتنا بڑا طوفان اٹھایا تھا اب اتنی infuriating (طیش میں لانے والی بات) نہیں لگ رہی تھی بلکہ بچکانہ لگ رہی تھی۔
”اچھی بات ہے تم شرمندہ ہو لیکن اب کچھ ہو نہیں سکتا۔ شیر دل کی شادی طے کردی ہے میں نے… اگلے مہینے ایک سادہ سی تقریب میں نکاح ہے اس کا۔’ ‘ شہر بانو کو توقع ہونی چاہیے تھی کہ اگر وہ move on کررہی تھی تو یہ کام شیر دل بھی کرسکتا تھا… وہ اس کی زندگی سے نکل رہی تھی تو وہ اس جگہ کو کسی دوسری عورت سے پر کردیتا… وہ پھر بھی چند سیکنڈز کے لیے جیسے سانس لینا ہی بھول گئی تھی۔ شیر دل اپنی زندگی میں کسی اور عورت کو لارہا تھا۔ اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔ عجیب بچکانہ جذباتیت کا شکار ہوئی تھی وہ… شیر دل وہ کھلونا تھا جسے اس نے پھینک دیا تھا لیکن اب(محض خیال ہی میں) کسی دوسرے کو اس کھلونے سے کھیلتے ہوئے دیکھ کر اسے یک دم وہی کھلونا اچھا لگنے لگا تھا… وہی کھلونا چاہیے تھا۔ منزہ نے دانستاً اس کے سامنے یہ انکشاف کرتے ہوئے عکس کا نام نہیں لیا تھا اور شاید زندگی میں پہلی بار عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔
”میں پھر بھی یہ کہوں گی کہ تم شیر دل کو فون کرو… اس سے بات کرو… اگر کوئی ایسا حل نکل آتا ہے کہ تم اور وہ دونوں اکٹھے رہ سکو تو یہ مثال کے لیے بہت اچھا ہے لیکن ایسا کوئی حل شیر دل ہی نکال سکتا ہے، میں کچھ نہیں کرسکتی… تم پاکستان آجاؤ تو شاید یہ مسئلہ جلد اور زیادہ بہتر طریقے سے حل ہوجائے … شیر دل، مثال کو دیکھے گا تو اس کا دل بھی نرم پڑے گا۔” منزہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی امیدیں دلارہی تھیں اور لاشعوری طور پر جیسے وہ ،وہ کہنا شروع ہوگئی تھیں جو وہ چاہتی تھیں۔ ایک سانس میں شیر دل کی شادی کی اطلاع اور دوسری سانس میں یہ دبی ہوئی خواہش کہ ایسا نہ ہو …اور شیر دل، شہر بانو کی طرف لوٹ جائے اور اس لاشعوری سوچ کے پس منظر میں عکس کے حوالے سے ان کی ازلی ناپسندیدگی کا رفرما تھی۔ اگر ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنالینے کا کوئی عملی مظاہرہ کرنا ہوتا تو منزہ وہ بلا مقابلہ جیت جاتیں۔ شہر بانو پر انہیں غصہ تھا، خفگی تھی… شرمین سے انہیں نفرت تھی لیکن اس کے باوجود شہر بانو ان کے خاندان کا حصہ تھی… ان جیسا حسب نسب رکھنے والی…ان کا اپناخون… عکس ساری زندگی ان کے لیے احساس شکست کے سوا کچھ نہیں رہتی… انہوں نے شیر دل کی زندگی کی خاطر اس کے سامنے جھکنا قبول کیا تھا اور اب اگر انہیں دوبارہ اس کے سامنے کھڑا ہونے کا موقع مل رہا تھا تو وہ ہر قیمت پر اس موقع کو استعمال کرنا چاہتی تھیں۔
”شیر دل کس سے شادی کررہا ہے؟” وہ جواب جو انہوں نے خود شہر بانو کو دینے سے گریز کیا تھا وہ اس نے خود پوچھ لیا تھا۔
……٭……
”تم شیر دل سے شادی کررہی ہو؟” عکس کو غنی کے غیر متوقع سوال پر کرنٹ لگا۔ اس نے کچھ دیر پہلے ہی فون کیا تھا اور دوچار ادھر ادھر کی باتوں کے فوراً بعد اس نے عکس سے یک دم یہ سوال کردیا تھا۔
”تم سے کس نے کہا؟” وہ جواب دینے سے ہچکچائی تھی۔ پی اے اس کی ٹیبل پر اس کے دستخط لینے کے لیے کچھ کاغذ رکھ رہا تھا۔ اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ اس وقت جیکب مسیح کے ساتھ معاملے کو نپٹانے میں سارا دن کھپانے کے بعد غنی کے اس سوال نے اس کے جیسے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ وہ خبر اگر اسلام آباد میں بیٹھے غنی تک پہنچ گئی تھی تو وہ خبر اس سے کہیں زیادہ برق رفتار ی سے سفر کررہی تھی جتنا اس نے سوچا تھا۔
”یعنی تم کررہی ہو؟” غنی نے اس کے سوال کے جواب میں کہا۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!