عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

سال ختم ہونے پرایک بار پھر چھٹیوں میں مثال پاکستان گئی تھی ،وہ اس بار بھی اکیلی تھی شہر بانو کو ا س سال بقا کی ایسی جنگ لڑنی پڑی تھی کہ اس کے دل سے مثال اور عکس کے حوالے سے سارے خدشات اور وسوسے نکل گئے تھے اور وہموں اور وسوسوں کو پالنے کے لیے وقت کا ہونا ضروری تھا اور اس کے پاس واپس آفس، گھر اور باہر کے کاموں کے بعد صرف اتنا وقت بچتا تھا کہ وہ چند گھنٹے سو کر اگلے دن دوبارہ اسی جنگ کے لیے تیار ہوتی اور ایسے حالات میں جب اس کے پاس مثال سے بات تک کرنے کے لیے وقت نہیں تھا وہ اس کے بارے میں واہمے پالنے کیسے بیٹھ جاتی۔
مثال اس بار شیر دل اور عکس دونوں کو پچھلے دو سالوں کی نسبت گم صم اور بدلی ہوئی لگی تھی۔ وہ اب بھی طغرل کے آگے پیچھے پھرتی رہی تھی مگر انہوں نے ویسے اسے بہت خاموش اور فکر مند پایا۔ شیر دل اور عکس کے بہت زیادہ کریدنے کے باوجود بھی وہ کچھ جاننے اور سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔




عکس کو مثال بہت اچھی لگتی تھی، وہ ہمیشہ اسے باربی ڈول کی یاد دلاتی تھی وہ شکل صورت میں اسی کا بچپن تھی۔ اسے لڑکیاں ہمیشہ اچھی لگتی تھیں اور اس کی وجہ اسے کبھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ وہ طغرل کو accept کرتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں ایک بیٹی کی خواہش اپنے دل میں پالے ہوئے تھی اوروہ پوری نہیں ہوئی تھی لیکن مثال کے اپنے پاس قیام کے دوران مزید بڑھ ضرور گئی تھی ۔مثال ڈسٹربڈ تھی اس کا اندازہ اسے پہلی دفعہ بھی ہوچکا تھا لیکن اس کو ہینڈل کرنا اتنا مشکل ثابت نہیں ہوا تھا، وہ اس کی بات سنتی بھی تھی اور مانتی بھی تھی کسی اور کی بات سنتی نہ سنتی اور وہ اس کی توجہ کی بھی خواہش مند رہتی تھی۔ عکس کی ستائش جیسے اس کے لیے ایک certification تھی وہ پاکستان سے جانے کے بعد بھی عکس سے رابطے میں رہی تھی۔ ہر دفعہ شیر دل کے اس کے گھر پر ہوتے ہوئے وہ عکس کی بھی بات اس سے ضرور کرواتا تھا۔
”آنٹی کیا آپ ممی کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتیں؟” اس نے ایک دن لان میں طغرل کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اچانک عکس سے کہا تھا، وہ حیران ہوئی تھی اس غیر متوقع اور عجیب وغریب فرمائش کو سن کر سوال کا جواب کمال مشکل تھا۔
”تمہاری ممی آکر رہنا چاہیں توmost wellcom لیکن مجھے نہیں لگتا وہ یہاں آکر رہنا چاہیں گی وہ امریکا میں جاب کرتی ہیں، وہاں ان کا اپنا گھر ہے ، ان کے husband ہیں… وہ کیوں یہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں آنا چاہیں گی؟” اس نے بڑی نرمی سے مثال کو آسان لفظوں میں جواب دینے کی کوشش کی تھی۔
”وہ آبھی سکتی ہیں۔” مثال نے جیسے کسی گہری سوچ میں الجھتے ہوئے اس سے کہا، عکس کو اب بھی اس کی بات کی سمجھ میں نہیں آئی۔
”ان کے لیے یہاں آنا مشکل ہے ،میں نے تمہیں بتایا نا کہ وہ اپنے گھر اور شوہر کو چھوڑ کر کہیں اور تو نہیں جاسکتیں۔ وہ وہاں بہت خوش ہیں۔”
”No she is not ” اس نے مثال کو کہتے سنا عکس نے بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھا، یہ مناسب نہیں تھا لیکن وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”وہ خوش نہیں ہیں؟”
” no ” مثال نے یک لفظی جواب دیا ،وہ اب ایک بچے کی اس الجھن کا شکار ہورہی تھی جو اسے راز رکھنے نہ رکھنے کے درمیان فیصلہ نہ کر پانے والی صورت حال میں رکھے ہوئے تھی۔اس ایک لفظی جواب نے عکس کو مزید سوالوں پر مجبور کردیا تھا۔
”کیوں خوش نہیں ہیں؟” مثال اس کے سوال کے جواب میں کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے جیسے کچھ پریشان سے انداز میں مدھم آواز میں کہا۔
”because he hits her ” (کیونکہ وہ انہیں مارتے ہیں)مدھم آواز میں کہے ہوئے اس جملے نے عکس کو کچھ دیر کے لیے فریز کر دیا تھا۔” I mean not always …only sometimes ” مثال نے یک دم خود ہی جیسے کچھ تصحیح کی یوں جیسے اپنی ندامت میں وہ معاملے کی سنگینی کو کم کرنا چاہتی ہو۔
بعض انکشاف انسان کی سمجھ میں نہیں آتے عکس کو بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس راز کو جاننے کے بعد کیا کرے… مثال کو مزید کرید ے یا اس کی طرح خاموش ہوجائے یا داؤد کو ملامت کرے یا شہر بانو سے ہمدردی … مثال سر جھکائے اسکریبل کے پیسز جوڑنے میں مصروف تھی یوں جیسے وہ اس راز کو اس کے ساتھ شیئر کرلینے کے بعد اب نادم تھی۔ عکس شاک کے عالم میں اس کے پاس بیٹھی رہی… اتنے عرصے میں اسے یہ اندازہ تھا کہ مثال اور شہر بانو کے درمیان بہت مسئلے ہیں مگر شہر بانو اور داؤد کے درمیان بھی سب کچھ ٹھیک نہیں تھا یہ اسے اندازہ نہیں ہوا تھا ۔ ہو بھی کیسے سکتا تھا ۔اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا وہ یہ بات شیر دل سے شیئر کرے یا نہ کرے… اور وہ مثال کے پورے قیام کے دوران اس ایک الجھن کا شکار رہی تھی۔
” شرمین آنٹی کو یہ سب پتا ہے؟” اس نے اس دن مثال کے انکشافات کے بعد مثال سے پوچھا تھا۔
”I dont know ” جواب پھر مختصر تھا۔ عکس نے جیسے کوئی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہوئی تھی۔
مثال کے واپس جانے کے بعد بھی عکس اس انکشاف کو اپنے ذہن سے نہیں نکال تھی اور اس نے بالآخر شیر دل سے جب ویک اینڈ پر یہ بات شیئر کی تو وہ بھی کچھ دیر کے لیے اسی کی طرح ہکا بکا رہ گیا تھا۔
”تمہیں مجھے اسی وقت بتانا چاہیے تھا اس نے کہا تھااور وہ اب بے حد متفکر نظر آنے لگا تھا۔
”میں بتانا چاہتی تھی لیکن ڈبل مائنڈڈ ہوگئی تھی۔”
”داؤد ایسا آدمی تو نہیں ہے کہ مارپیٹ کرے۔” شیر دل بہت الجھ گیا تھا، وہ داؤد کو بہت اچھی طرح جانتا تھا اور اس سے بہت بار مل بھی چکا تھا۔
”لیکن کچھ نہ کچھ تو ہورہا ہے ان کے گھر میں جو مثال کو ڈسٹرب کررہا ہے۔” عکس نے کہا تھا۔
”اگر وہاں یہ سب ہورہا ہے تو پھر مثال کو وہاں نہیں ہونا چاہیے، میں اپنی بیٹی کو وہاں سے لے آؤں گا۔”شیر دل کو بات کرنے کے بعد احساس ہوا ،وہ اسے بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ”کیا ہوا؟”
”تم صرف مثال کے بارے میں فکر مندہو ،شہر بانو کے بارے میں نہیں…؟” وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کچھ دیر کے لیے بے حد خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر شیر دل نے اس سے نظریں ہٹالیں۔
”نہیں۔” اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری تھی۔
” مجھے یقین نہیں آرہا شیر دل۔”عکس نے جیسے اسے ملامت کرنے والے انداز میں کہا۔
”مجھے کیوں پروا ہونی چاہیے؟ میرا اور اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔” شیر دل نے کچھ اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔
”وہ تمہاری بیوی رہ چکی ہے۔ تمہاری بیٹی کی ماں ہے، کبھی تم اس سے بہت محبت کرتے تھے۔” عکس نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”تو…؟” اس نے بات کاٹتے ہوئے اسی انداز میں اس سے پوچھا۔
”تو تمہیں اس کی پرواہ ہونی چاہیے۔ بہت زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت… کم از کم اتنی جتنی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کے لیے ہوتی ہے۔” شیر دل کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
”میرے پروا کرنے سے کیا ہوگا، میں کچھ نہیں کرسکتا اس کے لیے… داؤد اس کا اپنا انتخاب تھا، اب اگر وہ انتخاب اس کے لیے ٹھیک نہیں نکلا تو میں کیا کرسکتا ہوں… افسوس کرنے کے علاوہ…” وہ کہتا ہوا اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا… عکس وہیں بیٹھی رہی ۔شیر دل نے جو بھی کہا تھا بالکل ٹھیک کہا تھا کوئی بھی سمجھدار آدمی یہی کہتا ۔ اس کے باوجود اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ شہر بانو سے اس حد تک لاتعلق ہوسکتا تھا اور کیسے ہوسکتا تھا اس نے اس کا اور شہر بانو کا تعلق ان کی شادی دیکھی تھی … وہ شہر بانو کے بارے میں شیر دل کی فیلنگز سے بھی واقف تھی۔ وہ کبھی اس کی گفتگو کے ہر دوسرے جملے میں آتی تھی اور وہ اب اس بات سے بھی بے حس تھا کہ وہ تکلیف میں تھی۔ انسان کسی کو اتنی آسانی سے بھلا سکتا ہے؟ اتنی آسانی سے اس سے بے نیاز ہوسکتا ہے… وہ کتابوں میں محبت کے بارے میں لکھی باتوں پر یقین نہیں کرتی تھی لیکن محبت پر کرتی تھی اور اس کا یہ یقین اس شام بری طرح ڈگمگا یا تھا۔
……٭……
رات کے پچھلے پہر کا کوئی وقت تھا جب اس کی آنکھ کھلی تھی چند لمحوں کے لیے اسے لگا جیسے طغرل جاگا ہو ا تھا اور اس کی آنکھ طغرل کے ہلنے سے کھلی ہوگی۔ کروٹ لینے پر اسے طغرل تو اسی طرح گہری نیند میں نظر آیا لیکن شیر دل اپنے بستر پر نظر نہیں آیا تھا۔ باتھ روم کی لائٹ بھی آف تھی۔ عکس کچھ تشویش اور حیرانی سے اٹھ کر بیڈ روم سے باہر آئی تھی وہ باہر کاریڈور کی نیم تاریکی میں قد آدم کھڑکیوں کے پاس پڑی ایک کرسی پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا… دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے نیم تاریکی میں عکس کو دیکھنے کی کوشش کی… عکس نے کاریڈور کی ایک فینسی لائٹ آن کردی۔ وہ اسی طرح سگریٹ پیتا رہا ،وہ آکر اس کے برابر میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
”نیند نہیں آرہی تھی مجھے۔” شیر دل نے سگریٹ کو منہ سے نکالتے ہوئے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”میں جانتی تھی آئے گی بھی نہیں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ شیر دل نے اس کا چہرہ دیکھا پھر نظر چرالی۔
”اس سے بات کرو… آخر وہ مصیبت میں ہے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے، تم اس کے کزن بھی ہو… خون کا رشتہ ہے تمہارا اس سے… محبت کا رشتہ نہیں بھی نبھاتے تو…”عکس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
……٭……
”سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔” شہر بانو نے کچھ دیر کے لیے ماں کو دیکھتے رہنے کے بعد نظریں ہٹالی تھیں۔ شرمین کا وہ سوال اس کے لیے غیر متوقع نہیں تھا لیکن شرمین کا اس طرح ایک دوسرے شہر سے اچانک اس کے پاس آنا غیر متوقع تھا۔ داؤد اور اس کے درمیان شروع سے ہی اختلافات ابھرنا شروع ہوگئے تھے اور شرمین ان اختلافات سے واقف تھی اس لیے شہر بانو نے اس کے اس سوال کو ہمیشہ کی طرح ایک روٹین کا سوال سمجھا تھا وہ دونوں ابھی رات کے کھانے کے بعد کافی کے مگ لے کر بیٹھی تھیں جب شرمین نے یہ سوال کیا تھا۔
” داؤد تم پر ہاتھ اٹھاتا ہے کیا؟” شرمین کے اگلے سوال نے کافی کا سپ لیتی شہر بانو کو منجمد کردیا تھا۔اس کا رنگ اڑا تھا اور شرمین نے بے حد تکلیف سے اپنی اولاد کے تاثرات نوٹس کیے تھے۔ ان کادل اس کے تاثرات دیکھ کر جیسے ڈوبا تھا۔
”آپ سے کس نے کہا؟” شہر بانو نے ہاں یا نہ کہنے کے بجائے کافی کا کپ نیچے رکھ کر کچھ اضطراب کے عالم میں شرمین سے پوچھا۔
”شیر دل نے ”شہر بانو کا دماغ جیسے بھک سے اڑگیا۔” اس نے پرسوں فون کیا تھا مجھے… مثال نے اسے تمہارے اور داؤد کے حوالے سے کچھ بتایا ہے وہ بہت اپ سیٹ تھا۔ میں بھی بہت اپ سیٹ ہوئی جھگڑوں کا تو میں جانتی تھی لیکن تم نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں۔” شرمین بے حد اضطراب کے عالم میں کہتی رہیں اور شہر بانو اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ عجیب صدمے کی کیفیت میں بیٹھی رہی۔ وہ بھی شیر دل کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ بھی داؤد کے ساتھ اچھی زندگی گزارہی تھی ویسی ہی اچھی زندگی جیسی وہ عکس کے ساتھ گزارہا تھا لیکن اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پر چھوٹا تھااور مثال وہ کیسے جانتی تھی … وہ پل بھر میں بہت سے لوگوں کے سامنے نظریں اٹھانے اور نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”اس نے مثال کو واپس لینے کے حوالے سے کچھ کہا ہے کیا؟” شہر بانونے بے حد اضطراب کے عالم میں کہا۔
”نہیں اس نے مثال کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ صرف تمہارے حوالے سے بات کی۔” شرمین نے کہا۔
”لیکن پھر کس لیے اسے آپ سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔”شہر بانو بے چین تھی وہ یہ ماننے پر تیار ہی نہیں تھی کہ شیر دل اس کے اور صرف اس کے حوالے سے متفکر ہوا تھا۔ وہ یہ سوچ کربوکھلائی ہوئی تھی کہ وہ مثال کی کسٹڈی کے حوالے سے اب ضرور اس سے بات کرے گا۔
”اس نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ مجھے تمہارے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔” شرمین نے کہا۔”اگر داؤد اور تمہارے درمیان کوئی اختلافات ہیں تو مجھے ان کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، شرمین اسے بتارہی تھی۔” لیکن میں اسے کیا کہتی… ”
” آپ نے اسے میرے اور داؤد کے جھگڑوں کے بارے میں بتایا۔” شہر بانو کچھ اور اپ سیٹ ہوئی تھی۔




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!