عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

شیردل کو لگا عکس کا دماغ خراب تھا۔
”اب تم یہ مت کہنا کہ میرا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔”اس نے شیردل کو جیسے کسی کتاب کی طرح پڑھا تھا۔ مثال کو پاکستان میں دو ہفتے ہوچکے تھے۔ شیردل اتنے سالوں بعد اپنی بیٹی کے اپنے پاس آجانے پر بے حد خوش اور پرسکون تھا۔ اسے لگا تھا زندگی ایک بار پھر سے مکمل ہوگئی تھی اور اب اچانک اس رات عکس نے اس سے یہ بات کہہ دی تھی۔
”اگر یہ مذاق ہے تو بیہودہ مذاق ہے۔” شیردل نے کچھ خفا ہوکر اس سے کہا تھا۔
”میرا سینس آف ہیومر برا ہے لیکن اتنا برا بھی نہیں کہ میں اس طرح کی باتیں مذاق میں کرنے لگوں۔” عکس نے جواباً بہت سنجیدگی سے کہا۔
” میں شہربانو سے شادی کرلوں؟” شیردل نے بے یقینی سے اس کے جملے کو دہرایا۔
”ہاں۔” اس کے انداز میں اطمینان تھا جس نے شیر دل کو ہلادیا۔
”میں ساری زندگی بس یہی کرتا رہوں کہ ہر چار پانچ سال بعد شادی … تم سمجھتی ہو شادی کے علاوہ میرے پاس کرنے کے لیے اور کوئی کام نہیں ہے ۔ مجھے نہیں پتا تمہیں بیٹھے بٹھائے شہربانو سے ہمدردی کا دورہ پڑا ہے یا کوئی اور وجہ ہے لیکن مجھے اس طرح کی مصیبت اپنے گلے میں ڈالنے کا کوئی شوق نہیں ہے ۔ تمہیں شہربانو نے ایسا کچھ کہا ہے ؟” شیردل اس کی بات پر بری طرح ہتھے سے اکھڑا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ پاکستان سے جانے کے بعد کبھی شہربانو اور عکس آپس میں رابطے میں نہیں تھیں اوریہ روز روز کا رابطہ اس کے لیے غیر متوقع یا حیران کن تھا۔لیکن اس کا خیال تھا اس کی وجہ صرف مثال تھی اور کچھ نہیں۔
”مجھے شہربانو نے کچھ نہیں کہا۔” عکس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”پھر؟”
”میں صرف تمہاری بیٹی کی زندگی بچانا چاہتی ہوں۔” وہ اس کی بات پر بری طرح ٹھٹکا۔




”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مثال کو کیا ہوا ہے؟ وہ میرے پاس ہے… بہت خوش اور مطمئن ہے۔” وہ عکس کی بات سمجھ نہیں سکا تھا۔
عکس کچھ کہنے کے بجائے کمرے میں پڑا ہوا اپنا لیپ ٹاپ اٹھالائی تھی۔ اس نے فیس بک کھولی ،وہ مثال کی آئی ڈی تھی وہ عکس کا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کے بعد سائن آؤٹ کرنا بھول گئی تھی۔ عکس نے اس کی سینٹ ای میل کھولی۔ وہ بہت ساری میل سے بھرا ہواتھا۔ جن میں سے زیادہ بڑی تعداد ایرک ٹمو تھی کے نام تھیں اور کچھ دوسرے مردوں کے نام جو سب بڑی عمر کے مرد تھے،انہیں پڑھتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ شیردل کی گود میں رکھ دیا ،وہ الجھے ہوئے انداز میں ان ای میلز کو دیکھنے لگا۔
وہ ایک گیارہ سالہ لڑکی کی زندگی کے demons تھے۔ سوشل نیٹ ورک اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں اپنے لیے ایک باپ جیسے شخص کی تلاش کی کوشش… اس بے لوث پدری محبت کی تلاش کی کوشش جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے پر تیار تھی ۔ کسی بھی حد تک جانے پر تیار تھی۔ وہ محبت باپ کی محبت اور exploitation میں فرق نہیں کرپارہی تھی۔ ان مردوں کو لکھی ہوئی ہر ای میلکے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں صرف ایک ہی پکار تھی ۔”مے ڈے …مجھے بچالیں۔” وہ ان تمام بڑی عمر کے مردوں کو بتارہی تھی کہ وہ اپنے باپ سے بہت پیار کرتی تھی اور وہ ان کی سوئٹ ہارٹ، ہنی ، ڈارلنگ کے القابات میں چھپی ہوئی ہوس کو بھی شیر دل کی اپنے لیے محبت کے برابر لاکر کھڑا کررہی تھی۔ وہ انہیں بتارہی تھی کہ اس سے کوئی محبت نہیں کرتا … وہ اپنی ممی کے پاس رہتی ہے جس کے پاس اس کے لیے وقت نہیں اور وہ اس سے نفرت کرتی تھی … اور اس طرح اس کی پاپا کی زندگی میں آنے والی ایک witch (چڑیل )نے ان کا خوب صورت گھر توڑدیا تھا۔ وہ اب شیردل سے بھی نفرت کرتی تھی کیونکہ وہ طغرل اور باذل سے اس سے زیادہ محبت کرتا تھا اور اس نے اس کی ممی کو چھوڑدیا تھا۔ ان ای میل میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ کئی بار شہربانو کو راتوں کو روتے دیکھتی تھی اور وہ اس گھر سے بھاگ جانا چاہتی تھی کیونکہ وہ ممی کے لیے کچھ نہیں کرسکی لیکن وہ ممی کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی اور وہ سوچتی تھی probably اگرممی کو ایک اچھا آدمی مل جائے جو ممی اور اس سے دونوں سے پیار کرے تو وہ بھی ایک اچھا گھر بناسکتے ہیں… جیسے شیردل اور عکس اور طغرل اور باذل کا تھا۔
عکس نے اس دن مثال کے laptop استعمال کرنے کے بعد اتفاقاً ای میل کرنے کے لیے laptopاٹھایا تھا اور وہ facebook id سامنے آجانے پر غیرارادی طور پر اس کی ای میلز پڑھنے لگی تھیں۔ وہ ای میلز نہیں تھیں، مثال کی زندگی کا جہنم تھا جسے اسے دیکھنے کا موقع مل گیا تھا۔ ایک گیارہ سالہ بچی جو اپنے ماں باپ کی طلاق کے بعد ان دونوں سے love-hate ریلیشن شپ میں تھی اور جو ان لوگوں سے اپنی تکلیف شیئر کر رہی تھی جو اسے fatherly, loving and kind لگ رہے تھے اور وہ ان کی توجہ اور محبت پانے کے لیے ان کے ساتھ رہنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھی جو وہ چاہتے تھے۔ عکس کسی بت کی طرح ماؤف ذہن کے ساتھ ان مردوں کی ای میلز پڑھ رہی تھی… گویا گدھوں کی ای میلز جو ایک گیارہ سالہ بچی کے ذہن، شخصیت اور زندگی کو اپنی شہوت اور ہوس بھرے الفاظ اور ذہنی گندگی کے نوکیلے پنجوں سے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے جو اس بچی کو بتا رہے تھے کہ وہ اسے باپ جیسی محبت دیں گے اور اس کی ممی کے ساتھ مل کر رہ بھی سکتے ہیں لیکن اس کے بدلے وہ اس سے یہ چاہتے تھے کہ وہ… عکس بہت ساری ای میلز مکمل پڑھ بھی نہیں سکی تھی، اسے لگا وہ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر پر بیٹھی تھی۔ باہر کی کوئی غلاظت اور تعفن انسان کے ذہن کے اندر موجود غلاظت اور تعفن کا مقابلہ نہیں کرسکتا، عکس کو بھی یہی لگا تھا وہ بھی غلاظت کے ایسے ہی تعفن زدہ ڈھیروں کو دیکھ رہی تھی جو معاشرے کے اچھے اور فعال شہریوں کے طور پر بہ ظاہر اپنی اپنی زندگیاں دوسروں کی زندگیوں کے پرخچے اڑا کر گزار رہے تھے۔ digital کیمرے سے بنائی ہوئی وہ تصویریں اس نے پتے کی طرح لرزتے وجود کے ساتھ ان ای میلز سے delete کر دی تھیں جو ان میں سے چند لوگوں کے مطالبے پر بارہ سال کی اس بچی نے ان کو بھیجی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی شیردل ان تصویروں کو دیکھے، ایک باپ کے طور پر وہ ان تصویروں کو دیکھ کر شاید دوبارہ کبھی سر بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ انہی ای میلز میں سے ایک ای میل میں ایرک کے ساتھ ہونے والے اس واقعے کی تفصیلات بھی تھیں جو مثال نے انہی میں سے کسی دوسرے مرد سے شیئر کی تھیں۔ وہ ایڈگر نامی اس دوسرے شخص کی جوابی ای میل پوری نہیں پڑھ سکی تھی۔ وہ بچی اور اس کی تکلیف ان سب مردوں کے لیے فٹ بال کا کام کر رہی تھی… یا شاید ایک رولنگ اسٹون…
مثال کی زندگی میں چڑیا کی طرح سات دوست بونے نہیں تھے جن کے لیے وہ ا سنووائٹ تھی۔ اس کی زندگی میں چند گدھ تھے جن کے سامنے وہ ایک مردار سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
عکس نے ای میلز پڑھنی بند کردیں۔ وہ اس جہنم سے گزری تھی ،اس درد سے واقف تھی جس جہنم کی لپیٹ میں اس نے مثال کو دیکھا تھا… اور اسے لگا اس کا وجود ایک بار پھر جلنے لگا تھا۔ وہ بھی تو شہباز حسین کی طرف اسی لیے جاتی تھی کیونکہ وہ اس کی، شرمین اور شہربانو کی زندگی کا حصہ بننا چاہتی تھی۔ اس پرفیکٹ لائف کا حصہ جسے وہ ہر روز لان میں اور اس گھر میں دیکھتی تھی… وہ بھی کہیں نہ کہیں شہباز حسین میں وہ باپ دیکھتی تھی جو اگر اس کے اور حلیمہ کے ساتھ ہوتا تو وہ اسے بھی بہت پیار کرتا۔ ویسے ہی ہوا میں اچھالتا جیسے شہباز باربی ڈول کو اچھالتا تھا ویسے ہی اٹھائے پھرتا جیسے وہ اس کو اٹھائے پھرتا تھا اس کی امی کے لیے ویسی ہی چیزیں لاتا جیسی وہ شرمین کے لیے لاتا تھا۔خیردین نے بہت ساری کمیاں پوری کی تھیں لیکن وہ بہت ساری خواہشوں کو حسرت میں بدلنے سے نہیں روک سکا تھا۔
ہر بار جب شہباز حسین اسے ذرا سی بھی توجہ دیتا تو چڑیا خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھی اور خیردین کو اس کا احساس تھا لیکن وہ یہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ شہباز حسین، چڑیا کے لیے کیا ہوتا جارہا تھا۔
اس رات بھی یہی ہوا تھا شہباز کے لہجے کی نرمی اور اس کی توجہ کو وہ ویسی ہی محبت سمجھی تھی جیسی وہ شہربانو سے کرتا تھا۔ وہ وہاں سے وقت پر بھاگ سکتی تھی اگر وہ اس کو باپ جیسا نہ سمجھ رہی ہوتی۔ اگر اسے یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا… عکس بلک بلک کر روئی تھی۔ یہ کام اس نے پہلی بار کیا تھا۔ وہ دام جس میں وہ آئی تھی، اس میں کسی اور کو آتے دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر پارہی تھی۔ اس کی زندگی میں خیردین آگیا تھا، وہ بچ گئی تھی… لیکن مثال کی زندگی میں کوئی خیردین نہیں تھا، وہ اس کے لیے شہباز کی نواسی نہیں تھی، شیردل کی بیٹی تھی۔ چیس کی بساط پر موجود بادشاہ جس کی طاقت محدود تھی اور وہ کمزور تھا لیکن کوئین کمزور نہیں تھی اور وہ بہت طاقتور تھی… وہ بادشاہ کو چیک میٹ ہونے سے بچانے کے لیے ہرچال چل سکتی تھی۔
”شہربانو سے کچھ مت کہنا اس سب کے بارے میں… میں اور تم پہلے بھی الگ الگ جگہوں پر پوسٹڈ ہیں اب بھی الگ رہ سکتے ہیں تم شہربانو کو اپنے پاس رکھ لو تب تک جب تک مثال بڑی نہیں ہوجاتی اس عمر سے گزر جائے پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔”
وہ اب بت بنے شیردل کے بازو پر ہاتھ رکھے اس سے کہہ رہی تھی۔ وہ شیردل کی تکلیف کو سمجھ پارہی تھی۔ اس کے چہرے پر آج اسے خیردین کا چہرہ نظر آیا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ خیردین کے چہرے پر اسے کبھی شکست نظر نہیں آئی تھی جو شیردل کے چہرے پر نظر آئی تھی۔
”ابھی سب کچھ بچ گیا ہے شیری… ابھی کچھ بھی نہیں گیا۔” اس نے شیردل کا بازو دبایا تھا، شیردل نے اس ملکہ کو دیکھا جو بادشاہ کو بچانے کے لیے اپنی جگہ چھوڑ رہی تھی۔
”کوئین ہر جگہ جاسکتی ہے،ہرچال چل سکتی ہے، اس لیے کوئین میرا فیورٹ چیس پیس ہے۔”
اسے یاد آیا تھا اس نے گرمیوں کی ان چھٹیوں میں پہلی بار چڑیا کے ساتھ چیس کھیلنے کے لیے چیس بورڈ سیٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”کوئین کی طرح کوئی نہیں، کوئین ،کوئین ہوتی ہے اور اس کو knight کی طرح کا کوئی کام نہیں کرنا پڑتاbut she is still powerful کیونکہ وہ کنگ کی وائف ہوتی ہے اور بادشاہ اس سے محبت کرتا ہے۔”
” لیکن میں ایک ایسی گیم بناؤں گی بڑی ہوکر جس میں کوئین ہی کنگ ہوگی جب وہ زیادہ powerful ہے تو بورڈ بھی کوئین کا ہونا چاہیے کنگ کا نہیں۔” چڑیا نے جواباً اس سے کہاتھا اور اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔ وہ زندگی کے اس کھیل میں کوئین ہوتے ہوئے بھی بادشاہ بن گئی تھی… بورڈ بھی اس کا تھا، مہرے بھی، پاورز بھی… نام بھی…
وہ خیردین کی نسل میں سے تھی اور اس کے جینز میں خیر کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔
ایبک شیردل نے زندگی میں کبھی اس عورت کی برتری کو تسلیم نہیں کیا تھا…وہ آج کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
……٭……
طغرل نے ہاتھ میں پکڑی ڈور کو جھٹکا دیا۔ مثال نے دونوں ہاتھوں میں پکڑی اس پتنگ کو اچھل کر ہوا میں چھوڑا۔ باذل نے بے حد خوشی سے ایک چیخ مارتے ہوئے جیسے اپنے بڑے بہن، بھائی کی مہارت کو داد تحسین دیتے ہوئے فضا میں بلند ہوتی ہوئی پتنگ کو فخریہ انداز میں دیکھا، اس کے ہاتھ میں ڈور والی چرخی تھی جو وہ ان دونوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
برآمدے کی قدآدم کھڑکی کے سامنے کھڑے شیردل نے لان میں ایک پتنگ کو بلند سے بلند کرنے کی سرتوڑ جدوجہد میں مصروف اپنے تینوں بچوں کو مدھم مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں شیردل کی پوسٹنگ کے دوران وہاں آئے تھے۔ عکس اسلام آباد میں کسی کانفرنس میں مصروف تھی اور اسے ایک ہفتے کے بعد وہاں سے فارغ ہونا تھا ابھی کچھ دیر پہلے وہ فون پر اس سے بات کررہا تھا اور وہ چند منٹ پہلے ہی فون رکھ کر باہر آیا تھا جب شام کو ٹینس کھیلنے کے لیے جاتے جاتے وہ ان لوگوں کو دیکھ کر رک گیا تھا۔
”تم نے جانا نہیں؟” شہربانو کی آواز نے اسے چونکایا تھا ،وہ شاید لان میں بچوں کے پاس جانے کے لیے نکلی تھی۔
”جارہا تھا بچوں کو دیکھ کر رک گیا۔” اس نے پلٹ کر شہربانو کو مسکرا کر دیکھا ۔ وہ بھی اس کے قریب آگئی اور باہر دیکھنے لگی۔
”طغرل کائٹ فلائنگ میں ایکسپرٹ ہوتا جارہا ہے۔” اس نے فضا میں بلند اس پتنگ کو مہارت سے اڑاتے ہوئے طغرل کو دیکھ کر ستائشی انداز میں شیردل سے کہا۔
”ہاں بیٹا کس کا ہے۔” شہربانو اس کی بات پر مسکرا دی۔
”عکس کا۔” وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑا تھا۔
”میں ذرا باہر جارہی ہوں، باذل کو کیوں نہیں پکڑا رہے یہ دونوں پتنگ… وہ بے چارہ کس طرح بار بار کہہ رہا ہے… یہ ہمیشہ اس کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں۔” وہ کھڑکی سے باہر پتنگ پکڑنے کے لیے ان دونوں کے پیچھے بھاگتے باذل کو دیکھ کر پھر بے چین ہوئی تھی۔ شیردل کے کچھ کہنے سے پہلے وہ تیز قدموں سے باہر نکل گئی تھی۔ وہ تب بھی وہیں کھڑا رہا۔
کئی سالوں کے بعد بالآخر ان سب کی زندگی میں وہ مدوجزر اور تلاطم ختم ہو گیا تھا جو انہیں گرداب کی گردش بنائے ہوئے تھا۔ باذل، شہربانو کو باہر آتے دیکھ کر اس کی طرف شکایت کرنے کے لیے بھاگ پڑا تھا۔ وہ اب ان کے درمیان صلح صفائی کروانے میں مصروف تھی۔ پتا نہیں کس بے دھیانی میں پتنگ طغرل کے ہاتھ سے چھوٹی تھی یا ڈور کہیں سے ٹوٹ گئی تھی شیردل نے ان سب کو پتنگ کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش میں بھاگتے دیکھا صرف شہربانو تھی جو باذل کو اس باڑ سے کودنے سے بچا رہی تھی جس پر سے اگر وہ کودتا تو بری طرح گرتا۔
پتنگ کو بالآخر انہوں نے لان میں سے باہر جانے سے پہلے ہی دوبارہ پکڑ لیا تھا۔ کیونکہ وہ ابھی بہت بلند نہیں تھی۔
زندگی اور پتنگ بعض دفعہ انسان کو ایک ہی طرح خوار کرتے ہیں۔ ایک ہی طرح fantacise کرتے ہیں… ایک ہی طرح اپنے پیچھے دوڑاتے ہیں… ایک ہی طرح خوشی سے پاگل کرتے ہیں اور ایک ہی طرح مایوس کرتے ہیں… لیکن نہ پتنگ کو کوئی آسمان میں آڑنے سے روک سکتا ہے نہ زندگی کو چلنے سے ۔
شیردل نے اپنے سیل فون پر لان میں ہونے والی اس اچھل کود کو capture کیا اور اسے عکس مراد علی کو MMS کر دیا…
ایک smiley کے ساتھ جو اب فوراً آیا تھا۔ “My clan”۔
شیردل ٹیکسٹ پڑھتے ہوئے مسکرایا اور باہر نکل گیا۔

……٭……
ختم شد




Loading

Read Previous

اٹینڈنس — صباحت رفیق

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!