عکس — قسط نمبر ۱۵

”میری کلاس فیلو رہی ہے وہ… کورٹ شپ رہی پھر شادی رہی… اتنے سال ساتھ گزارنے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میری باتوں میں اس کا ذکر ہی نہ آئے یا وہ مجھے یاد نہ آئے… تمہیں شیردل یاد نہیں آتا کیا؟” وہ اس کے سوال پر بہت دیر کچھ بول ہی نہیں سکی تھی۔ وہ عام سے انداز میں کیا جانے والا ایک سوال تھا۔ داؤد کے لہجے میں کوئی چبھن، کوئی طنز نہیں تھا پھر بھی اس کی بات شہربانو کو بری طرح چبھی تھی۔
”یاد آتا بھی ہو تب بھی میں بات، بات پر اس کا ذکرتو نہیں کرتی۔” اس نے بہت دیر کے بعد جیسے خود کو سنبھال کر لیکن پہلے سے زیادہ چڑ کر کہا۔
”تو تم کر لیا کرو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” داؤد نے بے ساختہ کہا۔
”مجھے اگر بات، بات پر اس کا ذکر کرنا ہوتا تو میں اسے چھوڑتی کیوں؟” اس نے جواباً کہا اور داؤد جیسے کچھ مزید حیران ہوا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا… دو لوگ اتنا عرصہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور پھر ایک دوسرے کو مکمل طور پر بھول جائیں کبھی ایک دوسرے کا ذکر بھی نہ کریں… یہ نارمل نہیں ہے۔”
”کیا سوچ رہی ہو؟” وہ داؤد کی بات پر یک دم چونکی تھی۔ وہ بہت talkative (باتونی) تھا بہت دیر باتیں کرتے رہنے کے بعد اس کو یک دم احساس ہوا تھا کہ شہربانو کی توجہ کہیں اور تھی۔
”کچھ نہیں۔” شہربانو نے اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی اور وہ ناکام رہی… اس کو یقین تھا۔ داؤد کو وہ بچپن سے جانتی تھی۔ وہ ایک ہی ہائی اسکول میں پڑھے تھے۔ یونیورسٹی تک ان کی بہت گہری دوستی رہی تھی… انڈر اسٹینڈنگ اور دوستی میں بعض دفعہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ داؤد کی گفتگو میں زارا اور شہربانو کی گفتگو میں شیردل آنے لگا تھا پھر ان دونوں کی زندگیوں میں زارا اور شیردل نے وہ جگہ لے لی تھی جو ان دونوں کے نہ آنے پر شاید وہ ایک دوسرے کی زندگی میں لیتے۔




اور اب جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک نیا رشتہ جوڑنے کی کوشش کررہے تھے تو عجیب دقت ہورہی تھی۔ وہ انڈر اسٹینڈنگ اور compatability جو دونوں کو گھنٹوں ایک دوسرے سے مصروف گفتگو رکھتی تھی یک دم پتا نہیں کہاں غائب ہو گئی تھی۔ شہربانو اس کا موازنہ شیردل سے نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سارا وقت یہی کرتی رہتی تھی۔ داؤد مرد تھا کھل کر اس عورت کا ذکر کرتا تھا جس کے بارے میں سوچتا تھا۔ شہربانو عورت تھی، وہ اپنے آپ کو دھوکا اور فریب دینے میں لگی رہتی کہ وہ شیردل کو بھول چکی تھی، زندگی سے نکال چکی تھی۔
زندگی میں سائن بورڈز اور روڈ سائنز کو بھولنا مشکل ہوتا ہے… پھر زندگی میں آنے والے انسانوں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے… جس راستے سے ایک بار گزر ہو جائے وہاں کی نشانیاں ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور سالوں بعد بھی دوبارہ اسی راستے پر گزرتے ہوئے انسان پہچان، شناخت، تلاش اور دریافت کے جذباتی مراحل سے گزرتا ہے تو زندگی میں ساتھ چلنے والے انسان کیسے ہمارے ذہن پر اپنے نقوش اور یادیں نہ چھوڑ جائیں۔ آواز، انداز، نقش، نظر، لفظ، لمس، عادت، آہٹ یہ کیسے ممکن ہے انسان کو بھولنے کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی بھول جائے… کبھی وہم نہ ہو، کبھی شائبہ سا نہ گزرے، کبھی یادوں کی پرچھائیاں فریب نہ دیں۔ داؤد ٹھیک کہتا تھا اگر ایسا نہیں ہوتا تھا تو یہ نارمل بات نہیں تھی لیکن نارمل تو شہربانو کبھی نہیں رہی تھی۔ وہ صرف تب تک نارمل رہی تھی جب تک شہباز اور شرمین کے ساتھ ایک خوش و خرم گھر اور خاندان کا حصہ رہی تھی۔
”کچھ نہیں۔” اس نے گہری سانس لے کر داؤد سے کہا۔
”ویسے تمہاری یہ عادت پسند ہے مجھے… تم بہت زیادہ باتیں نہیں کرتیں… آج کل یہ عادت بہت کم ہوتی ہے عورتوں میں… جب میں زارا کے ساتھ ہوتا تھا تو صرف زارا بولا کرتی تھی اور…” داؤد بات کررہا تھا… اسے سراہتے سراہتے پھر سے اسے زارا یاد آگئی تھی۔ شہربانو پھر کہیں چلی گئی تھی۔ شہربانو کو یاد آیا وہ شیردل کے ساتھ بہت باتیں کرتی تھی… اتنی باتیں… اتنی باتیں… جتنی اس نے شاید کبھی بچپن میں شہباز حسین سے کی ہوں گی… شیردل بھی بولتا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ صرف اسی کی سنتا تھا، اس کی گفتگو سے وہ جیسے محظوظ ہوتا تھا… آفس کا کام کرتے ہوئے وہ روز رات کو اس کے کندھے پر سر رکھے اسے کچھ نہ کچھ سناتی رہتی تھی اور وہ کام کرتے ہوئے سنتا جاتا تھا… شہباز حسین کے بعد صرف وہی ایک تھا جس سے اس نے کبھی باتیں کرنا چاہی تھیں اور باتیں کی تھیں… کسی اور کو کچھ بتانے یا کسی اور سے کچھ شیئر کرنے کے لیے اب اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں… وہ گھنٹوں داؤد کی باتیں ایک خاموش تماشائی کی طرح سن سکتی تھی اگر داؤد چاہتا تھا لیکن کم از کم اس میں ایک دوسری عورت کا ذکر نہ آتا خاصا طور پر اس عورت کا جسے وہ چھوڑ چکا تھا۔
”تم پھر کہیں اور پہنچی ہوئی ہو؟” داؤد نے پھر بہت دیر بعد اس کی عدم توجہی اس وقت محسوس کی جب ویٹر کھانا سرو کرنے آیا تھا۔
”ٹھیک ہے یار کم باتیں کیا کرو لیکن اب اتنی بھی کم نہیں کہ بوریت ہونے لگے۔” اس نے بالآخر کچھ اکتا کر کہا۔ شہربانو چاہتے ہوئے بھی اسے کہہ نہیں پائی کہ وہ اس بوریت کو ختم کرنے کی پچھلے دو گھنٹے سے کوشش کررہی تھی اور کامیاب نہیں ہوپائی تھی۔ وہ کنکشن اور وہ اسپارک جو ہمیشہ سے ان دونوں کے بیچ تھا اب یک دم ہی کہیں غائب ہو گیا تھا۔ داؤد کے لیے کسی بھی عورت کے ساتھ گپ شپ لگا لینا آسان تھا شہربانو کے لیے یہی سب سے مشکل کام تھا۔
”کیسا رہا ڈنر؟” گیارہ بجے کے قریب بالآخر گھر واپس آنے پر شرمین نے اس سے پوچھا تھا۔ حالانکہ شہربانو کا چہرہ اسے بتا رہا تھا کہ ڈنر کیسا تھا۔
”مثال سو گئی؟” اس نے جواب دینے کے بجائے اندر آتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
”بڑی مشکل سے سلایا ہے، کتنی دیر تو فاروق اسے لے کر باہر پھرتے رہے۔” شرمین نے جواباً کہا۔ شہربانو مزید کچھ بولے بغیر اپنے کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اندر چلی گئی۔ اس کا چہرہ اتنا ستا ہوا تھا کہ شرمین جیسے تشویش کے عالم میں اس کے پیچھے اس کے بیڈ روم میں چلی آئیں وہ گم صم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”کیا ہوا؟”شرمین نے شہر بانو کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”Mummy it won’t work ‘‘شہر بانو نے اسی تھکے ہوئے انداز میں کہا۔ شرمین کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ پہلا موقع نہیں تھا جب وہ داؤد کے حوالے سے اس طرح کی رائے دے رہی تھی۔ شرمین کا خیال تھا مسئلہ اس کے ساتھ تھا داؤد کے ساتھ نہیں۔
”اب کیا ہوا؟” شرمین نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ممی اس کے ذہن پر اب بھی زارا ہی سوارہے۔ وہ آج بھی آدھا وقت اسی کی باتیں کرتا رہا۔ وہ آئی ہوئی تھی یہاں کسی سمینار کے لیے… لیکن مجھے لگتا ہے وہ اس کی برتھ ڈے ہی کے لیے یہاں آئی ہوئی تھی۔ وہ اسے کافی پر لے گیا اس بات کی پروا کیے بغیر کہ میں ریسٹورنٹ میں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انہیں چوبیس گھنٹے ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا ہے توپھر طلاق کی کیا ضرورت تھی۔” شہر بانو بہت جھنجلائی ہوئی نظر آرہی تھی۔ فوری طور پر شرمین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے کیا کہیں۔
”میں داؤد سے بات کروں گی۔” انہوں نے بالآخر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔” لیکن بیٹامجھے نہیں لگتا یہ کوئی بہت معیوب بات ہے یہاں لوگ divorse کے بعد بھی سابقہ بیوی یا شوہرسے ملتے رہتے ہیں۔ اچھے تعلقات رکھتے ہیں آپس میں… بعض دفعہ بچوں کی وجہ سے … داؤد اور زارا بہت پرانے فیملی فرینڈزہیں ۔ساتھ پلے بڑھے ہیں، بڑی حد تک امریکن سوچ ہے ان کی… لیکن پتا نہیں میں تمہیں کیوں سمجھارہی ہوں یہ سب کچھ… تمہیں تو خود پتا ہونا چاہیے …تم نے زندگی گزاری ہے یہاں… کوئی اور چکر ہوتا تو داؤد چھپاتا تم سے… جیسے شیر دل چھپا رہا تھا… اس طرح ہر بات سامنے نہ کررہا ہوتا۔” شرمین نے بہت غلط موقع پر شیر دل کی مثال دی تھی۔ شہر بانو بری طرح ہرٹ ہوئی۔
”ممی! آپ اس کی مثال مت دیں مجھے۔” اس نے بے حد خفا ہو کر شرمین سے کہا تھا۔”ہم اس وقت داؤد کی بات کررہے ہیں۔”
”داؤد بہت اچھا لڑکا ہے… پروفیشنلی بہت برائٹ ہے… بہت اچھی نیچر کا ہے، یہاں امریکا میں رہ کر بھی کوئی خراب عادتیں نہیں اس میں… اتنا اچھا رشتہ کہاں ملے گا تمہارے لیے امریکا میں۔” شرمین نے ہمیشہ کی طرح اسے داؤد کی خوبیاں گنوانی شروع کردی تھیں۔
”وہ بہت اچھا ہے ممی لیکن مجھے ہر بار اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اسے میری ضرورت نہیں ہے…” شرمین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ضرورت نہ ہوتی تو شادی کیوں کرنا چاہتا وہ تم سے؟”
”شادی تو انسان کسی سے بھی کرلیتا ہے۔” شہربانو نے کہا اسے پتا نہیں کیا، کیا یاد آیا تھا۔
”کسی سے بھی نہیں کرلیتا انسان شادی…کسی کی قدر اور ویلیو ہوتی ہے جبھی انسان اس سے شادی کا سوچتا ہے… کسی کے لیے کچھ محسوس کرتا ہے تبھی اس کے ساتھ وہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے۔” شرمین ہمیشہ کی طرح اسے داؤد کے حوالے سے سمجھارہی تھیں۔ شہر بانو ان کی گفتگو کو کسی” اور” کے حوالے سے سن رہی تھی۔
”کوئی دوسرا کبھی مثال کو اس طرح پیار اور توجہ نہیں دے سکتا جس طرح داؤد دے گا۔ فاروق کی فیملی کا ہے وہ۔ تم کو یاد ہے فاروق نے ہمیشہ تمہیں کتنی توجہ دی ہے۔” وہ اس دلیل پر آکر ہمیشہ کمزور پڑجاتی تھی… مثال… بس مثال کو کوئی اس طرح سنبھال لیتا جیسے شیر دل سنبھالتا تھا اور داؤد یہ کرسکتا تھا کیونکہ وہ داؤد کو شروع سے جانتی تھی۔ اس کی زندگی میں آنے والا کوئی اور مرد مثال کے لیے بالکل اجنبی ہوتا اور مثال ہر ایک کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہوسکتی تھی۔
اتنے مہینے گزر جانے کے بعد بھی وہ اسی طرح شیر دل کے لیے روتی اور چلاتی تھی اور ہر دفعہ جب وہ باپ کے لیے رونا شروع کرتی پھر وہ کئی گھنٹے اسی طرح روتی رہتی، اسے اس وقت کسی بھی چیز کے ساتھ بہلانا مشکل ہوجاتا تھا۔ شہر بانو تب اسے صرف بے بسی کے عالم میں چپ چاپ دیکھتی رہتی تھی۔ مثال میں کبھی اس طرح کاaggression نہیں تھا جو وہ اب دیکھتی تھی۔ وہ چیزیں اور کھلونے توڑنے میں سیکنڈ نہیں لگاتی تھی۔ بعض دفعہ شہر بانو پر چلاتی، اس کی بات ماننے سے انکار کرتی۔
شہر بانو کے لیے سب سے تکلیف دہ بات تب ہوئی تھی جب عدت کے دوران مثال اسکول جانے لگی تھی تو ایک دن اسکول سے آنے کے بعد کسی بات پر ضد کرتے ہوئے اس نے شہر بانو سے کہا۔
Mummy you are a bad woman” شہر بانو اس کے الفاظ پر شاکڈ رہ گئی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” وہ اس سے یہ سوال نہیں کرنا چاہتی تھی جو کررہی تھی لیکن اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں یک دم مفلوج ہوگئی تھیں۔ اپنی اولاد کے منہ سے اپنے بارے میں ایسا جملہ سن کر کسی بھی ماں کا یہی حال ہوسکتا تھا۔
شہر بانو اس پوری رات سو نہیں سکی تھی۔ اس نے زندگی میں ایسی خودترسی اور احساس کمتری کا سامنا نہیں کیا تھا جتنا مثال کے اس ایک جملے نے اسے کروایا تھا۔
اگلے کئی دن وہ چاہنے کے باوجود مثال سے کھنچی کھنچی رہی۔ مثال نے ماں کی اس خفگی یا بے مہری کو محسوس کیا یا نہیں کیا لیکن وہ بھی جواباً شہر بانو سے اور کھنچ گئی تھی۔ شیر دل ان دونوں کے درمیان جیسے ایک عجیب سی دیوار بن گیا تھا اور صرف شرمین تھیں جو اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ مثال کی ذہنی کیفیت کو بھی سمجھ پارہی تھی۔
انہی دنوں میں داؤد نے فاروق کے ذریعے شہر بانو میں اپنی دلچسپی کا اظہار اور شادی کا پیغام بھجوایا تھا اور شرمین کے لیے جیسے صحرا میں نخلستان والا معاملہ ہوا تھا۔ شہر بانو کی فوری شادی انہیں ان تمام مسائل کا حل لگی تھی جن کا شہر بانو سامنا کررہی تھی، وہ ان کے سامنے بریک اپ کے بعد بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتی رہی تھی اس نے شیر دل کا نام تک لینا چھوڑ دیا تھالیکن شرمین کو اس کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کا اندازہ تھا۔ وہ آگ کے اس دریا سے گزرتے ہوئے اپنے وجود کو جلا چکی تھیں…شہر بانو کیسی تکلیف کا سامنا کررہی تھی انہیں اندازہ تھا۔
ان کی اپنی زندگی میں فاروق کے آجانے نے بہت حد تک ان کی تکلیف ختم کر کے ٹھہراؤ پیدا کردیا تھا اور انہیں یقین تھاشہر بانو کو داؤد کی صورت میں ویسا ہی ساتھی مل جاتا تو وہ بھی اس تکلیف سے بہت جلدی گزر جاتی۔
شہر بانو نے غیر متوقع طور پر داؤد کے پروپوزل پر کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ شرمین کو اس کی توقع تھی لیکن وہ فوری طور پر شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ چند سال اس گرداب سے نکلنے کے لیے چاہتی تھی جس میں وہ پھنس گئی تھی۔
”جلدی کسی سے شادی ہوگئی تو مثال بھی بہت جلد تمہارے اس نئے رشتے کو بھی accept کرلے گی اور اس آدمی کے ساتھ اٹیچ بھی ہوجائے گی۔ چند سالوں کے بعد تمہارے لیے دوسری شادی کرنا زیادہ آسان ہو گا لیکن مثال کے لیے اس نئے رشتے کو قبول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ وہ اب بھی تمہارے لیے کتنی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ تب تو بالکل ہی…” شرمین کے پاس شہر بانو کو اس وقت فیصلے پر تیار کرلینے کے لیے جیسے ترپ کا پتا مثال تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ شہر بانو ماں کی اس بات کو نہ مانتی اس کے سامنے اپنا بچپن تھا… اپنے بچپن کا mess تھا اور وہ مثال کو ایسی کسی بھی صورت حال سے بچانا چاہتی تھی۔
لیکن اب جب وہ ذہنی طور پر داؤد سے شادی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرچکی تھی …اسے بار بار شیر دل کا خیال آتا تھا اور الجھن اور اضطرب تھا کہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا… رابطہ نہیں تھا… یہ فاصلہ بہت زیادہ تھا… جدائی ہوچکی تھی۔ واپسی ناممکن تھی… پر خیال اور یاد تھی کہ دل کا دامن چھوڑنے پر تیار ہی نہیں تھے۔
……٭……




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!