عکس — قسط نمبر ۱۵

”آپ کیا سمجھتی ہیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟” شہربانو نے یک دم ماں سے پوچھا۔ شرمین اس کے سوال پر جیسے کچھ حیران ہوئی تھیں۔ شہربانو نے زندگی میں بہت کم اہم فیصلے کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔ شیردل سے شادی کے وقت بھی اس نے ماں سے مشورہ نہیں کیا تھا صرف اپنی خواہش اور فیصلہ انہیں بتایا تھا اور پھر ان کے مخالف دلائل کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر قائم رہی تھی۔
”تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تم کیا چاہتی ہو؟ مثال کے لیے کیا بہتر ہے؟” شرمین نے نپے تلے انداز میں اس سے کہا۔
”آپ میری جگہ ہوتیں تو آپ کیا کرتیں؟” اس نے ایک عجیب سوال کیا۔ شرمین اس کا چہرہ دیکھنے لگیں پھر انہوں نے کہا۔
”میرے لیے کسی بھی ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوتا جو مجھ سے وفادار نہیں جو ایک دوسری عورت کے ساتھ انوالوڈ ہو۔” کسی دوسرے کی زبان سے شیردل کی فرد جرم کا سن کر اسے نہ چاہنے کے باوجود عجیب سی تکلیف ہوئی تھی… اب بھی ہوئی تھی اور شاید ساری عمر ہونے والی تھی… یہ کانٹا دل میں گڑا تھا ایڑھی میں چبھا ہوتا تو نکل جاتا۔




”میں بھی نہیں رہ سکتی۔” اس نے کافی کا مگ کاؤنٹر پر گھماتے ہوئے شرمین سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ شیردل اور اس کی بے وفائی اور اس کا کردار ڈسکس کرنا ان دونوں کے لیے آسان تھا… جو چیز دونوں کے لیے مشکل تھی وہ شہباز حسین کو ڈسکس کرنا تھا۔ وہ چڑیا کے ساتھ ہونے والے اس واقعے کو ڈسکس کرنا تھا۔ شیردل کی بے وفائی نے جیسے شہباز حسین کو مزید ذلیل و خوار ہونے اور اپنی اولاد کی نظروں میں گرنے سے بچا لیا تھا۔ وہ دونوں دن رات شہباز حسین اور عکس اور ان تمام الزامات کے بارے میں سوچتے رہنے کے باوجود اس پر بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ شرمین، شہربانو سے نہ شہربانو شرمین سے… شہباز حسین برا تھا اور شیردل بھی برا ہی نکلا کیونکہ وہ بھی اسی خاندان کا مرد تھا… شرمین کا نتیجہ اس کے اندیشوں کے مطابق ہی نکلا تھا لیکن وہ کوشش کرنے اور خواہش ہونے کے باوجود شہربانو کو یہ بتانے کی ہمت نہیں کر سکی تھیں۔ شیردل اور عکس کے درمیان موجود غیر اخلاقی تعلقات کو ایک فون کال کی وجہ سے وہ بہت پہلے جان گئی تھیں۔ وہ شہربانو کی اذیت میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
دونوں میں سے کسی نے اس سلسلے میں مزید کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا… بس خاموشی سے وہ دونوں اسی طرح کچن کاؤنٹر کے اطراف اسٹول پر بیٹھی چپ چاپ کافی پیتی رہتیں۔ اس کی کڑواہٹ زندگی کی کڑواہٹ کے مقابلے میں شیرینی بن گئی تھی۔
……٭……
شیردل نے زندگی میں کبھی سونے کے لیے خواب آور ادویات کا استعمال نہیں کیا تھا لیکن شہربانو اور مثال کے اس طرح گھر سے چلے جانے کے بعد وہ دو راتیں نہیں سو سکا تھا۔ سگریٹ پھونکنے، کالز پرکالز ملانے کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ insomnia (بے خوابی) کا مریض بننے والا تھا۔ اس کی زندگی سے گھر اور سکون نام کی چیزیں جیسے منٹوں میں نکل گئی تھیں اور اس کی ذمے دار شہربانو تھی۔ اس کے اقدام سے ملنے والا ابتدائی شاک اب شدید غصے میں تبدیل ہو چکا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس غصے کو شہربانو پر نکالنے کے لیے اسے موقع نہیں مل رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ شہربانو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنے والی تھی۔
بختیار شیردل نے شہربانو کے ساتھ رابطہ کرنے میں ناکام ہو جانے اور شرمین کے ساتھ باربار ہونے والی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر بالآخر امریکا جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ اس معاملے کو طول دے کر اس کی سنگینی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے منزہ اور شیردل کے ساتھ اپنی سیٹ ایمرجنسی میں بک کروائی تھی لیکن اس واقعے کے چوتھے دن وہ جب شام کو نیویارک کی فلائٹ لینے کے لیے ائرپورٹ پہنچے تو امیگریشن کاؤنٹر پر شیردل کے پاسپورٹ کو ہاتھ میں لینے اور کمپیوٹر پر چند بٹن دباتے ہی امیگریشن اہلکار نے شیردل کو امریکن ایمبیسی کی طرف سے اس کے پانچ سالہ ملٹی پل ویزے کی منسوخی کی اطلاع اسے دے کر پاسپورٹ واپس اس کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ شیردل کا رنگ سیکنڈز میں فق ہوا تھا۔ وہ پاسپورٹ پکڑے بغیر بے یقینی سے اس اہلکار کا چہرہ دیکھتا رہا۔ مثال سے ملنے اور اسے دیکھ پانے کی ایک آخری امید بھی پل میں غائب ہو گئی تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں آیا تھا کہ اس واقعے کے بعد اس کا ویزا کینسل کیا جا سکتا تھا اور وہ بھی انفارم کیے بغیر… اس کا ذہن جیسے ایک عجیب سے بلیک آؤٹ کا شکار ہوا تھا۔ غصے، بے بسی اور ناامیدی کی ایک عجیب سی کیفیت… ایک عجیب جنون خیز کیفیت… اگر زندگی میں وہ کسی عورت کی دوبارہ شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا تووہ شہربانو تھی۔
خوش قسمتی سے بختیار اور منزہ کے ویزے کینسل نہیں ہوئے تھے اور شیردل کے ویزے کے کینسل ہونے پر بہت اپ سیٹ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے سفر کو ملتوی کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ منزہ اس ساری صورت حال میں بالکل چپ سادھے ہوئے تھیں۔ وہ اس ساری صورت حال کا ملبا کسی کے سر ڈالنا چاہتی تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہر بار ایسی کسی کوشش میں وہ کامیاب نہیں ہو پارہی تھیں۔ بختیار اور شیردل نہ بھی کہتے… کوئی بھی نہ کہتا تو بھی وہ جانتی تھیں یہ ساری تباہی ان کی وجہ سے آئی تھی۔ شیردل کا گھر ان کے علاوہ کسی اور کی وجہ سے نہیں ٹوٹ رہا تھا۔ شرمین اور شہبازکا گھر بھی انہی کی ضد، جھوٹ اور شہباز کی بے جا اور بے وقت کی طرف داری سے ٹوٹا تھا لیکن وہ بھائی تھا ان کا گھر ٹوٹنے کے بعد انہوں نے کبھی ایسی صورت حال میں اپنے کردار کو analyze نہیں کیا تھا نہ ہی کسی نے ان کے اوپر انگلیاں آٹھائی تھیں۔ وہ ساری عمر اسی ایک بات پر فخر کرتی رہی تھیں کہ ان سے جس حد تک ممکن تھا انہوں نے شہباز کی حمایت کی تھی اور اسے بچانے کی کوشش کی تھی۔
ایبک شیردل کا معاملہ دوسرا تھا۔ اس میں دنوں میں ان کے جھوٹ کھل کر سامنے آگئے تھے اور انہیں ایبک اور شوہر کے ساتھ ساتھ اپنی دوسری اولاد کے سامنے بھی خفت اٹھانی پڑ رہی تھی۔ ان کی تنقید اور خفگی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ شیردل کی حالت دیکھ رہی تھیں اور ایک ماں کے طور پر ان کا دل اس کی حالت پر کٹ رہا تھا لیکن جو ندامت اور غصہ انہیں اپنے آپ پر آنا چاہیے تھا، وہ شہربانو اور شرمین پرآرہا تھا۔ شہربانو سے بھی زیادہ شرمین پر کیونکہ کہیں نہ کہیں انہوں نے اپنے آپ کو یہ یقین دلا لیا تھا کہ یہ جو کچھ ہورہا تھا شرمین کی وجہ سے ہورہا تھا ان کی برین واشنگ کی وجہ سے… وہ ان کے خاندان سے بدلہ لینا چاہ رہی تھیں اور وہ اتنے سالوں بعد کامیاب ہو گئی تھیں۔ وہ امریکا بھی انہی شکوک و شبہات، غلط فہمیوں کے ساتھ پہنچی تھیں آور ان کی خفگی اور غصے میں اس وقت اضافہ ہو گیا تھا جب شرمین نے انہیں اپنے گھر بلانے یا شہربانو سے کہیں بھی ان کی ملاقات کروا دینے سے انکارکر دیا تھا۔ بختیار شیردل ان کے ساتھ نہ ہوتے تو منزہ ایک بار پھر غصے میں کوئی مزید ہنگامہ کرتیں لیکن بختیار نے اس معاملے پر شرمین کے میاں فاروق سے بات کر کے انہیں کسی نہ کسی طرح شہربانو کے ساتھ ایک ملاقات کروانے پر آمادہ کر لیا تھا۔ فاروق نے شرمین اور شہربانو کو اس ملاقات پر کیسے تیار کیا تھا وہ ایک الگ کہانی تھی لیکن شہربانو اور شرمین بالآخر ان لوگوں سے ملاقات پر آمادہ ہو گئی تھیں اور بختیار نے یہ خبر شیردل کو پاکستان میں بھی پہنچا دی تھی۔
……٭……
”سجاد قادر” عکس نے حلیمہ کے نام بتانے پر وہ نام دہرا کر جیسے اپنی یادداشت تازہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک دبلے پتلے سانولے رنگ کے لڑکے کا تصور ابھرا تھا لیکن اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
”میں نام سے واقف ہوں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی، مجھے شکل تک ٹھیک سے یاد نہیں اس کی۔” اس نے حلیمہ سے کہا۔
”اچھا؟ لیکن اس کو تو بڑی اچھی طرح سے یاد ہو تم۔” حلیمہ کو اس کی بات پر جیسے کچھ مایوسی ہوئی۔ ”لیکن خیر یہ تو ایسا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، میں ان لوگوں سے بات کر کے ملاقات کروا دیتی ہوں تم دونوں کی۔” حلیمہ نے اس سے کہا۔
”امی وہ دبئی میں کام کرتا ہے، میں یہاں پاکستان میں… اور میرا اپنی جاب چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔” عکس نے دوٹوک انداز میں حلیمہ کو اپنی ترجیحات بتا دی تھیں۔
”میں نے یہ بھی بات کی تھی ان لوگوں سے… سجاد نے ایک دو سال تک واپس پاکستان آجاناہے۔ یہاں بڑے اچھے ہاسپٹلز سے آفرز ہیں اسے… لیکن وہ شاید اپنا ہاسپٹل بنانا چاہتا ہے لاہور میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کے… وہ بھی ڈاکٹر ہے۔” حلیمہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”ٹھیک ہے، آپ ملاقات کروا دیں۔”وہ کہہ کر حلیمہ کے پاس سے اٹھ گئی۔ شادی یک دم اسے ایک بوجھ محسوس ہونے لگی تھی۔ خاص طور پر ان اوپر نیچے بار بار ہونے والے حادثات کی وجہ سے… ایک بار پھر سے کسی نئے آدمی سے ملنا کسی نئے آدمی کو جیون ساتھی کے طور پر دیکھنے کے لیے ملنا… اپنے ذہن اور دل میں اس کے لیے گنجائش یا کوئی نرم جگہ نہ ہونے کے باوجود پیدا کرنے کی جدوجہد… عکس مراد علی کہیں نہ کہیں اس ساری جدوجہد سے تنگ آگئی تھی۔ اگر خیردین اور حلیمہ کا دباؤ نہ ہوتا تو وہ کم از کم اس وقت پھر سے کسی نئے شخص سے ملنے کی کوشش نہ کررہی ہوتی۔
اگلی صبح آفس میں آتے ہی اسے شیردل کی چھٹی کی اطلاع ملی تھی۔ وہ ایک مہینے کے لیے چھٹی پر چلا گیا تھا۔ اسے یک دم اس کے حوالے سے مزید تشویش ہوئی تھی۔ بہت دیر تک وہ اس الجھن میں رہی تھی کہ اسے شیردل سے بات کرنی چاہیے یا نہیں اور پھر جیسے اس نے اس سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا۔ اس کے موبائل پر کی جانے والی کال بے مقصد ثابت ہوئی تھی۔ اس کے دونوں نمبرز آف تھے۔ وہ کچھ دیر بیٹھی رہی پھر اس نے اپنے پی اے کو شیردل کی رہائش گاہ پر اس کی موجودگی چیک کرنے اور اس کے موجود ہونے پر اس سے رابطہ کرانے کی ہدایات دی تھیں۔ پی اے کے جواب کے انتظار میں وہ اپنی میز پر پڑے ہوئے وہ تمام Invitation دیکھنے لگی جو شہر کی مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے مختلف تقریبات کی صدارت کے لیے اس کے پاس آتے رہے تھے۔ ٹرے میں پڑا وہ چوتھا کارڈ تھا جس کو ہاتھ میں لیتے ہی وہ رک گئی تھی۔ وہ اس کے اپنے کانونٹ اسکول کی طرف سے تھا… سالانہ اسپورٹس ڈے کے انعقاد اور اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر اس کی شرکت کی دعوت… اس نے سیکنڈز میں کارڈ پر لکھی تحریر پڑھی تھی اور پھر ایک نام پر رک گئی تھی۔ وہ اسکول کی پرنسپل سسٹر ایگنس فرانسس کا نام تھا۔ وہ خوشگوار حیرت کے ساتھ ان کا نام زیرلب دہرانے لگی۔ وہ ایک بار پھر اس کے اسکول کی پرنسپل کے طور پر وہاں موجود تھیں۔ اتنے سال گزر گئے تھے اور اتنے سالوں میں اس کانونٹ سے سسٹر ایگنس کے ٹرانسفر کے بعد اس کی دوبارہ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی حالانکہ اسے بہت بار ان کا خیال آتا رہتا تھا۔ کئی بار خیردین اور وہ بیٹھے ماضی کو یاد کرتے تو وہ دونوں سسٹر ایگنس کا ذکر بھی کرتے۔ بہت دفعہ اس نے خواہش بھی کی تھی کہ وہ کبھی کہیں ان سے ملاقات کرپاتی لیکن زندگی اتنی تیز رفتار رہی تھی کہ وہ خواہش کے باوجود ان کو ڈھونڈنے اور ان سے ملاقات کرنے کی کوشش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی تھی۔ انٹرکام اٹھا کر اس نے پی اے کا نمبر ملایا تھا۔ پی اے نے اس کی آواز سنتے ہی اسے شیردل کے اپنی رہائش گاہ پر نہ ہونے کی اطلاع دے دی تھی۔ وہ لاہور میں تھا۔ اس نے پی اے کو لاہور میں اسے ٹریس کرنے کی ہدایات دینے کے بعد ہاتھ میں پکڑے کارڈ کے متعلق پوچھنا شروع کیا۔
”جی ان کا فون بھی آیا تھا دو بار اسی فنکشن کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی تھیں لیکن آپ سیٹ پر نہیں تھیں۔” پی اے نے اسے سسٹر ایگنس کے حوالے سے بتایا۔ عکس نے اس فنکشن میں جانے کے حوالے سے پی اے کو اسکول انتظامیہ کو آگاہ کرنے کی ہدایات دیں۔ اور فون ایک بار پھر رکھ دیا۔ اس کا ذہن ایک بار پھر شیردل میں الجھ گیا تھا۔
……٭……
”شیردل کا مسئلہ حل ہوا؟” اس رات کھانے پر خیردین نے ایک بار پھر وہ موضوع چھیڑ دیا تھا جو سارا دن اس کے ذہن پر سوار رہا تھا۔
”وہ ایک مہینے کی چھٹی پر چلا گیا ہے۔” عکس نے کھانا کھاتے ہوئے خیردین کو اطلاع دی۔
”اللہ خیر کرے… تمہاری بات ہوئی اس سے؟” خیردین کو تشویش ہوئی۔
”دونوں موبائل نمبرزآف ہیں اس کے اور وہ لاہور میں ہے اپنے پیرنٹس کے گھر پر… اس کے آپریٹر نے نمبر دیا ہے وہاں کا۔ میں نے پیغام چھوڑا ہے اس کے لیے… اگر کل وہ کال
نہیں کرتا تو پھر میں کروں گی اسے کال۔” عکس نے خیردین کو تفصیل سے بتایا۔
”تم نے پہلے کبھی اس سے بات کرنے کے لیے اس کی کال کا انتظار نہیں کیا تھا۔” وہ خیردین کی طرف سے آنے والے اس غیر متوقع سوال پر کچھ گڑبڑا گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ خیردین اس کی اس تفصیلات میں سے کوئی ”حیران کن تجزیہ” نکال سکتا ہے۔
”نانا یہ اس کا اور اس کی بیوی کا معاملہ ہے، ایک پرسنل ایشو ہے، مجھے نہیں پتا کہ اسے اس مسئلے کو کسی دوسرے کے ساتھ ڈسکس کرنا اچھا لگے گا یا نہیں۔” اس نے بالآخر خیردین کے ساتھ اپنی الجھن شیئر کی۔
”تم اس کے ساتھ کچھ ڈسکس کرو یا نہ کرو کم از کم اس پریشانی میں اس کو حوصلہ تو دلا سکتی ہو نا… بیوی تو اچھی تھی اس کی تم ہی کہا کرتی تھیں پھر یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا۔” خیردین نے بات کرتے کرتے بات کا رخ بدل دیا اور جیسے عکس کو اس موضوع پر مزید کچھ کہنے سے بچا لیا۔
”ماں تو بہت اچھی عورت تھی شیردل کی بیوی کی۔” خیردین اب شرمین کے بارے میں سوچتا ہوا بول رہا تھا۔ ”پتا نہیں ایسا کیا ہو گیا کہ اس طرح گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے اس کی بیوی۔” عکس کو خیردین کی بات سنتے ہوئے مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ایک عجیب طرح کا احساس جرم ہونے لگا تھا۔ اگر خیردین کو یہ پتا چل جاتا کہ وہ بھی کسی نہ کسی حد تک اس بگاڑ میں انوالو تھی تو پتا نہیں اس کا ردعمل کیا ہوتا۔
”نانا سسٹر ایگنس دوبارہ اسی کانونٹ میں آگئی ہیں۔” عکس نے یک دم خیردین کو اس موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی۔
……٭……




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!