عکس — قسط نمبر ۱۵

شیردل نے بے یقینی سے منزہ کو دیکھا اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ اس سے اس طرح کی بات کر سکتی تھیں۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی رات کا کھانا کھانے کے لیے آیا تھا۔ بختیار شہر سے باہر تھے اور ڈنر ٹیبل پر وہ اور منزہ ہی تھے۔
”آپ کس کی شادی کی بات کررہی ہیں؟” اس نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا واپس پلیٹ میں رکھ رہا تھا۔
”تمہاری شادی کی بات کررہی ہوں شیردل۔” منزہ نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”ممی آپ ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟” شیردل اب بھی جیسے اس شاک سے سنبھل نہیں پایا تھا۔ عکس مراد علی کل اس سے ملنے آئی تھی اور آج منزہ اس سے اس کی شادی کے حوالے سے بات کررہی تھیں۔
”تم اسے ہمیشہ سے پسند کرتے تھے… محبت کرتے تھے… شادی کرنا چاہتے تھے اس سے… تمہیں یاد ہے؟” وہ بہت معمول کے انداز میں اس سے اس طرح بات کررہی تھیں جیسے اس کی یادداشت بحال کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
”میں بے وقوف تھی کہ میں نے اتنی اچھی لڑکی کے ساتھ تمہیں شادی کرنے نہیں دی، میری غلطی تھی وہ۔” شیردل نے ان کی بات کو بے حد خفگی کے ساتھ کاٹا۔
”ممی وہ چیپٹر بند ہو چکا ہے۔ وہ انگیجڈ ہے اور مجھے شادی نام کی کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” اس نے دوٹوک انداز میں ماں سے کہا۔
”اس کی انگیجمنٹ ختم ہو چکی ہے۔” منزہ نے بے اختیار کہا اور جیسے کہہ کر پچھتائیں۔
”آپ سے کس نے کہا؟” وہ حیران ہوا۔ پچھلی رات وہ دونوں بہت دیر بات کرتے رہے تھے لیکن عکس نے اپنے حوالے سے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اور اب وہ یک دم منزہ کے منہ سے اس کی منگنی کے ختم ہونے کی بات سن رہا تھا۔
”تم جانتے ہو اس کے منگیتر کی فیملی کو میں اچھی طرح جانتی ہوں… میں نے کسی فنکشن میں ان کی فیملی کے کسی ممبر سے یہ بات سنی تھی۔” انہوں نے حتی الامکان اپنے لہجے اور چہرے کو بے تاثر رکھا تھا۔ وہ شیردل کو کوئی اور اندازہ لگانے کا موقع دینا افورڈ نہیں کر سکتی تھیں۔




وہ چند لمحے خاموش رہا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ منزہ کی بات پر کس طرح ری ایکٹ کرے۔
”اگر اس کی انگیجمنٹ ختم ہو گئی ہے تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ میرے ساتھ اس کی شادی کا سوچنے لگیں۔” اس نے چند لمحوں بعد منزہ سے کہا۔ ”اس کے پاس مجھ سے بہتر آپشنز ہیں اور میں چاہتا ہوں وہ ان میں سے کسی کا استعمال کرے۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں ماں سے کہا۔
”وہ تم میں انٹرسٹڈ ہے، نہ ہوتی تو یہاں کبھی نہ آتی۔” منزہ نے بے اختیار کہا۔
”ممی مجھے شادی میں انٹرسٹ نہیں ہے اور میں جس فیز سے گزر رہا ہوں اس میں، میں کسی بھی صورت سے شادی کر کے اس کی زندگی عذاب میں نہیں ڈالوں گا… خاص طور پر عکس
کی۔” اس نے منزہ کو بات مکمل کرنے سے پہلے ٹوک دیا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم بالکل ٹھیک ہو۔ نروس بریک ڈاؤن ہو جانے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ…” شیردل نے ایک بار پھر بڑی درشتگی سے ماں کی بات کاٹی۔
”ممی میری چھ سال پرانی شادی ختم ہوئے ابھی چھ مہینے بھی نہیں ہوئے، میرے پاس میری بیٹی کی کسٹڈی نہیں ہے اور نہ مجھے کوئی امید نظر آرہی ہے اس سے ملنے کی… میں اس بریک اپ سے سنبھلنے کی کوشش کررہا ہوں اور آپ مجھے دوسری شادی کا مشورہ دے رہی ہیں۔ آپ کو لگتا ہے یہ اتنا آسان ہے۔ میرے لیے ایک گھر ٹوٹنے کے بعد دوسرا گھر بنا لینا اتنا آسان ہے۔” وہ بری طرح خفا ہورہا تھا۔ منزہ نے عکس سے ملاقات کے بعد اس میں آنے والی تمام خوشگوار تبدیلیوں کو منٹوں میں غائب ہوتے دیکھا تھا۔
”تم اسی سے تو شادی کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے… عکس سے ہی تو…” منزہ نے جیسے بڑی بے چارگی سے کہا۔
”ہاں کرنا چاہتا تھا دس سال پہلے… اب نہیں۔” شیردل نے اسی خفگی کے ساتھ ماں کی بات کاٹی۔
”میری غلطی تھی کہ میں نے اس وقت عکس کے ساتھ تمہاری شادی نہیں ہونے دی۔ کاش میں اس وقت مان جاتی۔” منزہ نے اداسی، رنجیدگی اور پچھتاوے کا بڑے کھلے الفاظ میں ذکر کیا۔
”ممی میں فی الحال یہاں بیٹھ کر آپ کے پچھتاوے اور غلطیاں نہیں سننا چاہتا۔ I have had enough of it آپ نے میری زندگی میں جتنا mess کرنا تھا آپ کر چکی ہیں، بس اورکچھ نہ کریں… اور عکس اور میں صرف دوست ہیں۔ میں اس کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا۔ نہ ہی سوچوں گا۔” وہ ناشتا کرتے کرتے ٹیبل سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ منزہ نے بے حد بے چارگی سے اسے جاتا دیکھا۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد نہیں تھا لیکن وہ اس کے سامنے شرمساری کی وجہ سے بے حد تکلیف میں تھیں۔ اس کا گھر ان کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ یہ سب جانتے تھے اور کوئی نہ بھی جانتا وہ خود اچھی طرح جانتی تھیں۔ شیردل کے بریک اپ کی ساری ذمے داری شہربانوکے سر ڈالنے کی کوششوں کے باوجود انہیں یہ احساس جرم تھا کہ یہ تباہی ان کی وجہ سے آئی تھی، اس سارے مسئلے میں وہ اگر شیردل اور اپنے شوہر کو سپورٹ کرتیں تو یہ مسئلہ اتنا خراب نہ ہوتا۔
عکس مراد علی کو انہوں نے خود اپنے لیے ایک ”بھوت” بنایا تھا وہ بھوت نہیں تھی۔ جھوٹی انا، ضد، خاندانی تفاخر، دو بار ان کے خاندان میں تباہی لایا تھا اور انہیں اس کا احساس پہلی بار ہورہا تھا۔ خودغرضی تھی جواب بھی ویسے ہی ان کے وجود پر پر پھیلائے بیٹھی تھی… انہیں اپنے بڑے بیٹے کی زندگی میں ایک بار پھر سے سکون اور استحکام چاہیے تھا اور انہیں یہ سکون اور استحکام عکس مراد علی کی شکل میں نظر آرہاتھا تو وہ یک دم سب کچھ بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے رشتہ جوڑنے پر تیار ہو گئی تھیں۔
شیردل کے اس طرح کے رویے کے بعد بھی انہوں نے عکس اور خیردین سے اس سلسلے میں بات کرنے کا ارادہ نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اور بختیار، شیردل کے حوالے سے بہت متفکر تھے اور چاہتے تھے کہ فوری طور پر اسے بھی اپنی زندگی دوبارہ کسی کے ساتھ گزارنے پر آمادہ کریں لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ شہربانو سے طلاق کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شیردل سے اس حوالے سے کچھ بات کرنے پر وہ ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔ وہ پہلے ہی sedates (مسکن ادویہ) پر تھا اور اس ایشو کے زیربحث آنے کے بعد اس کے panic attacks (ذہنی دورے) بڑھ گئے تھے۔ بختیار نے منزہ کو دوبارہ اس سے ایسے کسی معاملے پر بات کرنے سے روک دیا تھا لیکن وہ خود شیردل کے حوالے سے منزہ ہی کی طرح فکرمند تھے۔ منزہ کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کرنے کے باوجود وہ شیردل کے لیے خائف تھے۔ انہوں نے شہباز کو بھی ایسی ہی حالت سے گزرتے دیکھا تھا اور اس نے ایسے ہی ڈپریشن میں خودکشی کر لی تھی اور بہت بہادر اور دلیر ہونے کے باوجود بختیار کو اس بات کا خدشہ تھا کہ شیردل anxiety (ہیجان )میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھالے۔ اسے مستقل طور پر گھر میں اپنی نگرانی میں رکھے رہنا کوئی حل نہیں تھا۔ بختیار کی اپنی بہت ساری مصروفیات تھیں اور وہ ان پروفیشنل مصروفیات کو چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ منزہ کی بھی ڈھیروں ڈھیر سوشل سرگرمیاں تھیں لیکن وہ اتنے مہینوں سے شیردل کے لیے سب کچھ چھوڑ کر بیٹھی تھیں اور اب کئی بار ایسا ہونے لگا تھا کہ منزہ کو بھی اسٹریس کی وجہ سے سونے میں دقت ہونے لگی تھی۔ وہ بھی سونے کے لیے اکثر اوقات خواب آور ادویات کا سہارا لینے لگی تھیں اور ان کی یہ حالت بختیار کی تشویش میں اضافہ کررہی تھی۔ شیردل کے بریک اپ نے پوری فیملی کو ہر طرح سے ہلا کر رکھ دیا تھا اور ان حالات میں عکس کی صورت میں منزہ کو جیسے روشنی کی ایک کرن دکھی تھی اور ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اس کی طرف نہ جاتیں… اپنے گھر کو گھپ اندھیرے میں ڈوبا رہنے دیتیں۔
……٭……
”سوری یار میں کچھ لیٹ ہو گیا۔” داؤد نے ٹیبل کی دوسری طرف اس کے بالمقابل اپنی کرسی سنبھالتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ شہربانو نے مسکرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ جانتی تھی اس کی مسکراہٹ بہت پھیکی ہو گی۔ اس ریسٹورنٹ میں اس ریزروڈ ٹیبل پر بیٹھے وہ قد آدم کھڑکی کے شیشے سے باہر سڑک اور سڑک پر چلتے پھرتے لوگوں کو پچھلے ایک گھنٹے سے دیکھ رہی تھی۔ وہ داؤد کی برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کے لیے وہاں آئے تھے۔ داؤد نے ایک دن پہلے اسے یہاں ڈنر پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اسے چھ بجے شہربانو کو گھر سے پک کرنا تھا لیکن پانچ بجے کے قریب اس نے شہربانو کو کال کر کے وہاں پہنچنے کے لیے کہا تھا کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ وہ ٹائم پر اس کے پاس پہنچ نہیں پائے گا اور وہ اگر اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کر اسے پک کرنے کے بعد ریسٹورنٹ لایا تو وہ دونوں بہت لیٹ ہو جائیں گے کیونکہ شرمین کا گھر داؤد کے گھر کے بالکل مخالف سمت میں تھا اور وہ ریسٹورنٹ ان دونوں کے گھروں کے درمیان کسی جگہ پر تھا۔
”بس زارا آئی ہوئی تھی یہاں کوئی سیمینار اٹینڈ کرنے… اس نے کال کر لیا۔ کافی پر چلے گئے تو تھوڑا ٹائم لگ گیا… تم کیا لو گی؟” داؤد نے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔ زارا کا نام سن کر شہربانو کے چہرے پر ایک عجیب سا رنگ آیا تھا۔ داؤد ہمیشہ اس طرح اس کی بات کرتا تھا جیسے وہ اس کی زندگی سے کہیں گئی ہی نہ ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ان دونوں کے بیچ… کوئی بریک اپ نہیں… کوئی divorce نہیں… کوئی تلخی نہیں… ایک عجیب سے احساس نے اس کے حلق کو کڑوا کیا تھا۔ بھوک پہلے بھی نہیں تھی، اب بالکل ختم ہو گئی تھی۔ وہ ایک گھنٹے سے وہاں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی… مثال کو گھر پر چھوڑے… اور وہ اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ بیٹھا کافی پیتے ہوئے گپ شپ کررہا تھا۔ وہ اس سے یہ کہنا چاہتی تھی …خفا ہونا چاہتی تھی لیکن پتا نہیں کیوں اسے لگا یہ موقع مناسب نہیں تھا، وہ اس کا اسپیشل دن تھا وہ کوئی جھگڑا نہیں کر سکتی تھی کم از کم اس شام کو…
اس کے کانوں میں شرمین کی آواز گونجنے لگی تھی۔ ”اپنے اندر کچھ تبدیلی لاؤ شہربانو… تم بہت زیادہ temperamental(غصیلی) ہو گئی ہو…اتنی rudeness(بے اعتنائی ،بے رخی) ٹھیک نہیں… داؤد نے بھی ایک دو بار شکایت کی ہے تمہاری… کہہ رہا تھا۔ ”آنٹی شہربانو کو سمجھائیں… زارا کے ساتھ بھی یہی پرابلم تھا وہ بھی اپنے پروفیشن کی وجہ سے اتنی مصروف اور stressed out (ذہنی تناؤ میں )رہتی تھی کہ بات بات پر میرا اور اس کا جھگڑا ہوتا تھا… میں نہیں چاہتا شہربانو اور میرا ریلیشن شپ بھی ویسا ہی ہو جائے… میں جانتا ہوں وہ اپنے بریک اپ کی وجہ سے اپ سیٹ ہے لیکن… she should move on… اتنا bitter ہونے کی کیا ضرورت ہے۔” میں اسی لیے تم سے کہہ رہی ہوں کہ تم خود کو بدلو… تم دونوں کی دوسری شادی ہے۔ زیادہ برداشت اور انڈر اسٹینڈنگ دکھانے کی ضرورت ہے تمہیں۔”
وہ چاہتے ہوئے بھی ذہن سے نہیں جھٹک پارہی تھی کیونکہ وہ مسلسل داؤد کے حوالے سے ان کی ہدایات سننے کی عادی ہو گئی تھی۔
اپنے بیگ سے ایک چھوٹا سا گفٹ باکس نکال کر اس نے داؤد کے سامنے رکھ دیا لیکن وہ ایکسائٹمنٹ جو اس گفٹ کو خریدتے وقت تھی وہ اسے اب نہیں تھی۔
”اوہ، thank you… کیا ہے اس میں؟” داؤد نے مسکراتے ہوئے وہ گفٹ باکس لے لیا۔
”تم خود دیکھ لینا۔” شہربانو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ داؤد نے باکس کو کھولے بغیر بس اسے ہلا کر جیسے کچھ اندازہ کرنے کی کوشش کی۔
”پرفیوم؟” داؤد نے بالکل ٹھیک guess کیا۔ شہربانو کچھ حیرانی کے عالم میں ہنسی۔
”تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟”
”یار! ساری عمر پرفیومز ہی ملتے رہے ہیں مجھے زارا سے… اب تو پرفیوم نہ بھی ہو کسی گفٹ میں تو مجھے لگتا ہے پرفیوم ہی ہو گا۔ زارا نے مجھے دنیا کا ہر پرفیوم گفٹ کر ڈالا ہے۔ کریزی ہے وہ پرفیومز کے معاملے میں۔” وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ باکس اس نے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ وہ مسکراہٹ جو شہربانو نے بڑی مشکل سے چہرے پر سجائی تھی وہ ایک بار پھر غائب ہو گئی تھی اور اس بار شہربانو نے اسے واپس لانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ ڈنر یک دم ہی ایک بے حد بے مقصد سی چیز بن گیا تھا… بیکار… غیر ضروری… اضافی… وہ دونوں وہاں نہ بھی آتے تو بھی کیا تھا… شہربانو نے سوچا۔
وہ زارا کا ذکر اسی طرح کیا کرتا تھا… روانی میں… لاشعوری طور پر… اور بے تحاشا… جیسے اس کا معمول تھا… شکایتاً یا تذکرتاً لیکن داؤد کی گفتگو زارا کے ذکر سے اب بھی خالی نہیں تھی اور اگر گفتگو خالی نہیں تھی تو اس کا دل اور زندگی کیسے خالی ہو سکتی تھی اور اس نے یہ بات داؤد سے ایک بار پوچھ ہی لی تھی جب فون پر اس کی دوسری یا تیسری بار بات ہوئی تھی اور شہربانو، زارا کے بار بار کے ذکر سے بری طرح چڑی تھی اور داؤد جواباً اس کے اس طرح چڑنے پر حیران ہوا تھا۔




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!