عکس — قسط نمبر ۱۵

”شہربانو میں patch up چاہتا ہوں جو بھی کچھ ہوا۔ Let’s get over with it… تم اگر چاہتی ہو کہ میں معذرت کروں… تو میں، وہ کرنے پر بھی تیار ہوں لیکن واپس آجاؤ، ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔” شیردل نے زندگی میں کبھی تھوک کر نہیں چاٹا تھا اور اب اسے چاٹنا پڑ رہا تھا۔ یہ چند جملے زبان سے ادا کرنے کے لیے اس نے جیسے اپنی انا اور عزت نفس نام کی چیزوں کا گلا گھونٹ دیا تھا۔
”کون سا مسئلہ؟” ریسیور پر اس نے شہربانو کو بے حد سردمہری سے کہتے سنا۔ اس کی آواز میں کوئی شناسائی تھی نہ کوئی پچھتاوا۔ وہ اس سے یوں بات کررہی تھی جیسے زندگی میں پہلی بار ایبک شیردل نام کے آدمی سے بات کررہی ہو۔ ”تمہارے اور میرے بیچ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں اور اگر کبھی تھا بھی تو ختم ہو چکا ہے۔ تم ایک اچھے لائف پارٹنر بننے کے قابل ہی نہیں تھے۔ میں نے تمہارا انتخاب کر کے غلطی کی اور اب وہ غلطی ٹھیک کرنا چاہتی ہوں۔” اس نے شیردل کے کہنے کے لیے جیسے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا۔ ایک کے بعد ایک جوتا اس کے منہ پرمارا تھا۔ اس نے پھر بھی ڈھیٹ بن کر اس سے کہا۔




”میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو اور…” شہربانو نے بے حد تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”خفا؟… میں تم سے خفا نہیں ہوں میں صرف اپنے آپ سے خفا ہوں، تمہارے ہاتھوں بے وقوف بننے کی وجہ سے… اتنے سال تمہیں ایک وفادار شوہر سمجھنے کی وجہ سے۔” شیردل نے اس کی بات یک دم کاٹ دی۔
”میں تم سے ہمیشہ وفادار رہا ہوں شہربانو… اور مجھے اس حوالے سے کوئی احساس جرم نہیں ہے۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”ہاں، تمہیں کیوں کوئی احساس جرم ہو گا۔ عکس مراد علی جیسی عورتوں کے ساتھ افیئر چلاتے ہوئے احساس جرم تھوڑی رکھتے ہیں۔ وہ تو فخر اور اعزاز کی بات ہوتی ہے۔”
”شہربانو، عکس میری زندگی کا حصہ نہیں ہے، بہتر ہے تم اس پر بات نہ کرو… تم اور مثال میری زندگی کا حصہ ہو۔” شیردل نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
”ہم تھے، اب نہیں ہیں۔” اس نے شیردل کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”میں نے تمہارے لیے وہ انتخاب آسان کر دیا ہے جو تم خود نہیں کر پارہے تھے۔ تم مجھ سے نہیں، عکس سے محبت کرتے ہو وہ matter کرتی ہے تمہارے لیے… اس لیے تمہیں اس کے ساتھ رہنا چاہیے۔” شہربانو کے مؤقف میں اب بھی ذرا برابر تبدیلی نہیں آئی۔ شیردل کو لگا وہ جیسے کسی پتھر سے سر پھوڑ رہا تھا کچھ دیر وہ ہونٹ بھینچے بیٹھا رہا پھر اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم اگر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا لیکن تم مثال کو اس طرح باہر نہیں لے جا سکتیں۔” اس کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ غصہ جھلکنے لگا تھا جو وہ اپنے اندر دبائے پھر رہا تھا۔
”میں مثال کو اپنے ساتھ لاچکی ہوں اور میرا اسے واپس لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔” شہربانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”تم بچے کی کسٹڈی شادی کے وقت مجھے لکھ کر دے چکے ہو۔”
”میں نے کسٹڈی تمہیں دی ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ تم اسے اس طرح لے جاؤ اور پھر اس سے ملنے کے لیے مجھے تنگ کرو۔” شیردل نے درشتگی سے کہا وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ شادی کے وقت ان دو شرائط کو ماننے پر اب بری طرح پچھتا رہا تھا۔
”میں چاہتی ہوں تم ہم دونوں کے بوجھ سے آزاد ہو جاؤ اور عکس کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزارو۔”
”شہربانو میں شہباز حسین نہیں ہوں، میں مثال کو اس طرح کہیں رہنے نہیں دوں گا۔” شیردل نے ایک بار پھر اس کی گفتگو میں عکس کے حوالے سے کیے جانے والے طنز کو نظرانداز کیا تھا۔
”مثال تم سے نہیں ملنا چاہتی اور وہ تمہارے بغیر میرے ساتھ بہت خوش رہے گی۔” شہربانو نے بھی اسی سردمہری سے کہا۔ وہ ایک موہوم آس جو اسے اس حوالے سے تھی کہ وہ محبت کی بات کرے گا اسے اپنے تعلق کے حوالے سے واپس بلائے گا۔ اس سے کہے گا کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا وہ پوری نہیں ہوئی تھی۔ شیردل کے لہجے میں کہیں وہ حلاوت، وہ محبت، وہ طلب نہیں تھی جس پر وہ قربان ہو جاتی تھی۔
بالکل اس لمحے جب شیردل اس سے کچھ کہنے لگا تھا اس نے شہربانو کے ریسیور پر دور سے مثال کی آواز سنی وہ شہربانو سے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ شیردل سے بات کررہی تھی۔ اس کی آواز پر شیردل بے اختیار بے تابی سے اپنا غصہ بھول کر بولا۔
”میری بات کرواؤ اس سے۔”
”نہیں، میں تمہارے پاپا سے بات نہیں کررہی، تم باہر جا کر کھیلو۔” شہربانو نے شیردل کی بات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”میں تم سے کہہ رہا ہوں اس سے میری بات کرواؤ۔” شیردل اس بار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔
”میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ میں نہیں کرواؤں گی۔” شہربانو نے اسی اکھڑ انداز میں کہا تھا۔ شیردل اس کے انکار پر ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس نے بلند آواز میں چلاتے ہوئے شہربانو کو زندگی میں پہلی بار گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا تھا… شہربانو ریسیورہاتھ میں لیے فق چہرے کے ساتھ بے یقینی کے عالم میں شیردل کی گالیاں سنتی رہی۔ وہ اس مرد کو نہیں پہچانتی تھی جس کی آواز وہ فون پر اس وقت سن رہی تھی، گالی تو دور کی بات اس نے کبھی شیردل کی بلند آواز تک نہیں سنی تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ، خفگی نام کی ہر چیز سے ایبک شیردل نے اسے کبھی آشنا کیا ہی نہیں تھا اور اب وہ اس کے لیے وہ سارے الفاظ استعمال کر رہا تھا صرف اس لیے کیونکہ وہ ایک عورت ہے…بلکہ اسے اس وقت بھی عکس ہی کا خیال آیا تھا، وہ اب بھی یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ وہ بہت جذباتی ہو کر سوچ رہی تھی اور شیردل کا ردعمل اس کی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ اس نے فون بند کر دیا تھا۔ پھر شیردل کی بار بار آنے والی کالز کو بھی اس نے ریسیو نہیں کیا تھا۔ اس کے اور شیردل کے بیچ اس دن کچھ باقی نہیں بچا تھا یا کم از کم شہربانو کو یہی لگا تھا۔
……٭……
عکس بے یقینی سے خیردین کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ یوں جیسے اس کو یقین ہی نہ آرہا ہو کہ یہ سب کچھ اس نے خیردین کے منہ سے سنا تھا۔
”نانا یہ سب آپ سے شہربانو کی ممی نے کہا؟” اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شرمین امریکا سے کال کر کے خیردین سے اس کے اور شیردل کے حوالے سے بات کریں گی لیکن ایسا ہو چکا تھا۔ انہوں نے نمبر کہاں سے لیا تھا؟ اور یہ مشورہ کس کا تھا… اس سے بھی بڑا سوال عکس کے لیے یہ تھا کہ انہوں نے اس کی ضرورت کیسے محسوس کی تھی۔ خیردین بھی اسی کی طرح رنجیدگی اور صدمے کا شکار تھا اور اس کے ساتھ ساتھ حواس باختگی کا بھی… چڑیا پہلی بار ان کے لیے کسی کے سامنے رسوائی اور ندامت کا باعث بنی تھی۔ وہ بھی کس کے سامنے شہباز حسین کی سابقہ بیوی کے سامنے… اور کس چیز کے لیے… بھرے بازار میں جیسے ایک بار پھر کسی نے اس کی ریڑھی الٹا دی تھی۔ اور کچھ ویسی ہی حالت عکس کی ہورہی تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے نانا کے سامنے کبھی کوئی اس کی ایسی شکایت کرے گا اور اسے صفائی دینی پڑے گی۔
”نانا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں شہربانو کی ممی سے خود بات کر لوں گی۔ انہیں اور شہربانو کو غلط فہمی ہورہی ہے اور اس کی وجہ اس کیس پر شیردل کی حمایت ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔” اس نے بالآخر خیردین کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت وہ مکمل طور پر حواس باختہ تھی۔
”جواد کے گھر والوں نے شیردل کی وجہ سے رشتہ ختم کیا تھا؟” خیردین نے اس کے سر پر جیسے ایک اور بم پھوڑا۔ پتا نہیں خیردین آج کتنے انکشافات کرنے پر تلا ہوا تھا۔ وہ ایک بار
پھر لفظ ڈھونڈنے کی جدوجہد کرنے لگی۔
”آپ سے کس نے کہا؟” اس نے بہ مشکل خیردین سے پوچھا۔
”شہربانو کی ممی نے ہی بتایا۔” عکس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ندامت سی ندامت تھی وہ امریکا میں بیٹھے ہوئے بھی سب کچھ جانتی تھیں۔
”نانا میں شیردل سے محبت کرتی ہوں، میں زندگی میں ایبک شیردل سے زیادہ کسی کو نہیں چاہ سکتی لیکن مجھے اس کی زندگی کا ساتھی بننے کی تمنا نہیں ہے۔ یہ ایک خواب میں نے کبھی نہیں دیکھا۔” اس کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی بھرا گئی تھی۔ ”میں نے اس سے تب بھی شادی نہیں کی جب وہ غیر شادی شدہ تھا تو اب اس کا گھر توڑ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کیوں کروں گی میں… ؟میں نے آپ سے یہ نہیں سیکھا… میں شہباز کا کوئی بدلہ شہربانو سے نہیں لوں گی، نہ ہی آپ ایسا سوچیں، اس نے اپنے اعتراف سے خیردین کو ششدر کر دیا تھا۔ اسے عکس سے اس اعتراف کی توقع تھی نہ اس کے اس طرح کمزور پڑنے کی۔
”میں شیردل کو بلوا کر اس سے بات کروں گا۔” خیردین کو خود سمجھ نہیں آئی کہ اس کے منہ سے یہ جملہ کیوں نکلا تھا۔ وہ آخر شیردل کو بلوا کر اس سے کیا بات کرسکتا تھا۔
”نانا آپ اس سے کچھ بات نہیں کریں گے، نہ ہی اس سے کوئی شکایت کریں گے۔ وہ پہلے ہی بہت پریشان ہے۔ میں نہیں چاہتی اس کے لیے مزید شرمندگی کا کوئی ذریعہ بنے آپ کی کوئی شکایت یا بات…” عکس نے فوری طور پر خیردین سے اختلاف کیا تھا۔
خیردین بہت دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔ ”تم پر بداعتمادی یا بے یقینی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے میرے لیے چڑیا… میں تم پر اندھا اعتماد کرتا ہوں لیکن اندھا نہیں ہو سکتا۔ شہربانو کی ماں ایک اچھی عورت ہے۔ بہت احسانات ہیں اس کے ہم پر۔” عکس چپ چاپ خیردین کی بات سننے لگی۔ اس نے ساری زندگی خیردین کولوگوں کے احسانات گنواتے دیکھا تھا اور احسان فراموشی کو چھپاتے۔ وہ اب بھی سننا چاہتی تھی کہ اس کے پاس شہربانو کی ماں کے حوالے سے گنوانے کے لیے کون سے احسانات تھے۔
……٭……
شرمین کو بالکل توقع نہیں تھی کہ عکس اسے خود کال کر سکتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے عکس کو اس کی خیردین کو کال کی توقع نہیں تھی۔ کہیں نہ کہیں انہیں بھی یہی توقع تھی کہ وہ کبھی اتنی ہمت نہیں کر پائے گی کہ اس ایشو پر بات کرنے کے لیے انہیں بھی کال کرتی لیکن اس نے کر دی تھی۔
چند سیکنڈز کے لیے فون پر اس کا نام سننے پر انہیں سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ فون بند کریں اس کی بات سننے سے انکار کریں یا اپنی بیٹی کی ازدواجی زندگی تباہ کرنے پر اس پر چلائیں۔
”ہیلو۔” عکس نے انہیں اس طرح خاموش پانے پر بے ساختہ ان کی لائن پر موجودگی چیک کی تھی۔
”میں سن رہی ہوں۔” شرمین نے بے حد سردمہری کے ساتھ کہا۔ زندگی میں انہوں نے اپنے آپ کو اس سے زیادہ آکورڈ سچویشن میں کبھی نہیں پایا تھا۔
”مسز فاروق آپ کو میرے اور شیردل کے حوالے سے جو غلط فہمی ہے، میں اسے کلیئر کرنا چاہتی ہوں۔” عکس نے کسی تمہید کے بغیر کہا تھا۔ ”شیردل ایک دوست ہے اور بیچ میٹ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔” شرمین نے بے حد خفگی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
”کولیگ اور بیچ میٹ۔ آدھی رات کو ایک دوسرے کے بیڈ روم میں نہیں پائے جاتے۔” عکس سے بات نہیں ہو سکی۔ وہ اس پر بڑا سنگین الزام لگا رہی تھیں لیکن کس طرح۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔” اس نے جیسے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے کہا۔
”میں کیا کہہ رہی ہوں تم بہت اچھی طرح جانتی ہو۔ پچھلی بار جب تم سے میری بات ہوئی تھی تو کہاں تھی تم؟ کس کے فون پر تم نے مجھ سے بات کی تھی اور رات کے کس وقت کی تھی۔ تم سنگاپور میں شیردل کے بیڈ روم میں اس کے فون سے بات کررہی تھیں اور تم مجھے کہہ رہی ہو کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے، تمہاری یادداشت کمزور ہو گی میری نہیں۔” ایک زلزلہ وہ تھا جو ریسیور کے دوسری طرف موجود عکس نے اپنے گرد آتا محسوس کیا تھا اور دوسرا زلزلہ وہ تھا جو دروازے میں کھڑی شرمین کی باتیں سنتی ہوئی شہربانو کے اندر آیا تھا۔ شرمین نے ایکبار بھی عکس کا نام نہیں لیا تھا لیکن وہ سیکنڈز میں ان کی مخاطب کو بوجھ گئی تھی اور گفتگو کی نوعیت سننے کے بعد اسے لگا تھاکہ وہ وہیں گر جائے گی۔ اس کے پاؤں یک دم جیسے من من بھر کے ہو گئے تھے۔ وہ شیردل پر مسلسل عکس کے ساتھ افیئر کا الزام لگا رہی تھی۔ اس سے محبت کرنے پر اسے معتوب ٹھہرا رہی تھی لیکن وہ یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ شیردل اور عکس کا رشتہ کبھی ان حدوں کو چھو سکتا تھا۔ شیردل اتنا گر سکتا تھا۔




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!