عکس — قسط نمبر ۱۵

اس رات وہ بہت دیر سے واپس گھر پہنچی تھی۔ خیردین ہمیشہ کی طرح اس کے انتظار میں جاگ رہا تھا۔
”بہت دیر ہو گئی۔”
”جی نانا۔”
”کیا کام تھا لاہور میں؟” وہ اس غیر متوقع سوال پر خیردین کی شکل دیکھنے لگی۔ لاہور جانا اس کا معمول تھا اور خیردین کبھی وہاں کام کی نوعیت اور اس کی مصروفیات کے بارے میں نہیں پوچھتا تھا۔
”شیردل کی عیادت کے لیے گئی تھی، وہ بیمار ہے۔” اس نے بھی یک دم جیسے خیردین سے جھوٹ بولنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اسے صاف صاف بتایا۔
”کیا ہوا اسے؟” خیردین چونک گیا تھا۔
”ڈپریسڈ ہے بہت زیادہ… بہت کمزور ہو گیا ہے۔” وہ مدھم آواز میں کہہ کر اندر چلی گئی۔ خیردین وہیں کھڑا رہا۔
اپنے بیڈ روم میں آکر اس نے ابھی اپنا بیگ رکھا ہی تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا۔ اس نے بیگ میں سے سیل فون نکال کر اسے دیکھا، اس پر شیردل کا نام چمک رہا تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔
”تم گھر پہنچ گئی ہو؟” علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا تھا۔




”ہاں، ابھی ابھی پہنچی ہوں۔” وہ فون پر بات کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارنے لگی۔
”آج بہت دیر ہو گئی تمہیں لاہور سے نکلتے ہوئے، مجھے تمہارے جانے کے بعدوقت کا اندازہ ہوا اس لیے فون کر کے پوچھ لیا۔” وہ کہہ رہا تھا۔ وہ واقعی کافی دیر سے لاہور سے نکلی تھی۔ وہ دونوں اسی طرح بے مقصد باتیں کرتے رہے۔وہیں پارک میں بیٹھے پھر شیردل ایک قریبی ریسٹورنٹ میں اس کے منع کرنے کے باوجود اسے کھانا کھلانے لے گیا۔ عکس کو اندازہ تھا کہ کھانا کھاتے ہوئے مزید دیر ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔
”اینڈ آئی ایم سوری۔” وہ اس کے اگلے جملے پر حیران ہو گئی تھی۔
”یہ کس لیے؟”
”ابھی بیٹھ کے سوچ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا تم سے بہت ساری الٹی سیدھی باتیں کہہ دیں میں نے… جو نہیں کہنی چاہیے تھیں جو کچھ ہوا اس میں تمہارا تو کوئی قصورنہیں تھا۔” وہ اب کچھ نادم سا کہہ رہا تھا۔
”لیکن آج کل بس اسی طرح کی باتیں کرتا پھر رہا ہوں کچھ سمجھ نہیں آتا کون سی بات کس سے کہنی چاہیے اور کس سے نہیں۔ صرف اس لیے میں کسی سے بھی بات نہیں کررہا۔” وہ جیسے بڑی بے بسی کے عالم میں اس سے اپنی شرمندگی کا اظہار کررہا تھا۔
”تم مجھ سے تو بات کر سکتے ہو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کوئی الٹی سیدھی بات نہ کر دو… ساری عمر تم نے اس بات کی پروا نہیں کی تو اب تمہیں یک دم گفتگو کے آداب کیسے یاد آگئے؟” شیردل اس کی بات پر ہولے سے ہنس پڑا۔ وہ اس کا طنز سمجھ گیا تھا۔
”نہیں، اتنی الٹی سیدھی باتیں بھی نہیں کی ہیں تم سے… صرف تمہیں الٹی سیدھی لگتی رہی ہیں۔”
”اسی لیے کہہ رہی ہوں مجھ سے بات کر سکتے ہو تم… تمہاری الٹی سیدھی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے میں مہارت ہے مجھے۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”اچھا چلو بس میں نے یہی پوچھنا تھا پھر بات کریں گے۔” شیردل نے یکدم بڑے abrupt انداز میں فون بند کر دیا تھا۔
وہ فون ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔ وہ clinicaly depressed تھا اور اسے شیردل کو اس طرح دیکھ کر بہت تکلیف ہورہی تھی۔ وہ تقریباً پانچ گھنٹے اکٹھے بیٹھے رہے تھے اور وہ تقریباً چار گھنٹے مثال کی باتیں کرتا رہا تھا۔ اس کا ہر دوسرا جملہ اس بات پر ختم ہورہا تھا۔ ”شہربانو میرے ساتھ اس طرح کیسے کر سکتی ہے… “What have I done to deserve all this”(میں نے ایسا کیا برا کیا ہے جس کی سزا مجھے ملے)
اور اس ایک سوال کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا لیکن ہر بار اس کا یہ جملہ عکس کو عجیب سے احساس جرم کا شکار کر دیتا تھا شیردل کی زندگی کے اس میس کا آغاز اس کی کوششوں سے ہوا تھا جو اس نے اپنی زندگی کے میس کو صاف کرنے کے لیے کی تھیں کہیں نہ کہیں وہی اس سارے مسئلے اور خرابی کی ذمے دار تھی اور وہ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا پارہی تھی۔ شیردل کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ کندھے جھٹک کر آگے بڑھ جاتی پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نہ کرتی کہ اس کے کسی اقدام سے کسی دوسرے کی زندگی پر کیا اثر پڑا تھا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب خودوہ کبھی اس طرح ایسی کسی فیملی کے ہاتھوں مسائل کا شکارہو چکی ہوتی… لیکن یہاں سارا فرق اس کے لیے شیردل ڈال رہا تھا۔ ضمیر کی یہ ساری چبھن اسے اس ایک شخص کی وجہ سے ہورہی تھی۔ جسے وہ بری طرح چاہتی تھی اور جسے وہ کبھی تکلیف میں نہ دیکھنے کی خواہش کے باوجود تکلیف میں دیکھ رہی تھی۔
شیردل نے اس سے شہربانو کے اس کے ساتھ افیئر کے حوالے سے کوئی الزام نہیں دہرایا تھا وہ بھی اس کو یہ بتانے کی ہمت نہیں کر سکی تھی کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی ان کے بریک اپ کی وجہ کون سے الزامات بنے تھے۔
اس رات عکس مراد علی سو نہیں سکی تھی۔ زندگی میں بہت سے درست سمجھے جانے والے فیصلے بہت غلط نتائج لے کر آتے ہیں اس کیس کو فائل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عکس نے اسے بہت درست اور ضروری سمجھا تھا لیکن اس رات بیٹھ کر اس نے پہلی بار بہت غیر جانب داری اورحقیقت پسندی سے اس کیس کو فائل کرنے کے فیصلے پر دوبارہ غور کیا تھا بہت ساری زندگیاں متاثر ہوئی تھیں اور کس حد تک متاثر ہوئی تھیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ فائدہ کیا ہوا تھا؟… صرف ایک… خیردین پر سے وہ الزام ہٹ گیا تھا جس کی اب اسے پروا تک نہیں تھی جس کو کوئی یاد تک نہیں رکھے ہوئے تھا سوائے چڑیا کے… کیونکہ وہ اس کے بچپن کا ناقابلِ فراموش زخم تھا۔
”ان جنگوں کو لڑنا بے وقوفی ہوتی ہے چڑیا جن میں ہونے والی جیت بھی ہماری زندگی کے لیے ضروری نہ ہو۔” اسے خیردین کی بات یاد آئی تھی۔ اپنے ماضی کی تباہی کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں اس نے کسی دوسرے کا مستقبل تباہ کر دیا تھا… جو بھی کچھ ہوا تھا جان بوجھ کر نہیں ہوا تھا لیکن ہو گیا تھا۔
وہ ساری رات اپنے کمرے میں ٹہلتی رہی تھی، صبح ناشتے کی میز پر خیردین نے اس کی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھی تھیں۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے چڑیا؟” انہیں تشویش ہوئی۔
”جی ٹھیک ہے۔” اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔ وہ چاہتی تھی خیردین اس سے شیردل کے بارے میں پوچھے… کوئی بات کرے… خیردین نے جو کہا تھا اس نے عکس مراد علی کا دماغ بھک سے اڑا دیا تھا۔
”تم سے ایک بات میں نے بھی چھپائی تھی چڑیا… بہت باربتانا چاہا لیکن بتانے کی ہمت نہیں کر سکا۔” وہ خیردین کے جملے پر حیران رہ گئی تھی۔ اسے یک دم کون سا راز شیئر کرنا یاد آیا تھا۔ اس وقت تو وہ کچھ اور بات کررہے تھے۔
”کون سا راز ہے نانا! جو آپ نے کبھی مجھے نہیں بتایا؟” خیردین چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
”شہربانو کی ماں کئی سال پہلے ایک بار مجھ سے ملنے آئی تھی۔”
”میں جانتی ہوں نانا، آپ نے مجھے بتایا تھا۔” عکس نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں لیکن میں نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ…” وہ بات کرتے کرتے رکا اور اس کے اگلے جملے نے ڈاکٹر عکس مراد علی کو مٹی کر کے رکھ دیا تھا۔
”شہربانو کی ماں نے ایک لاکھ روپے کا چیک دیا تھا مجھے اس وقت… میں نہیں لینا چاہتا تھا لیکن اس نے مجھے زبردستی مجبور کیا۔ وہ ان نقصانات کی تلافی کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی جو اس کے شوہر کی وجہ سے مجھے اور تمہیں ہوئے۔”
عکس مراد علی گنگ خیردین کو بولتے سنتی رہی وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔
”میں نے اسی رقم سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ اس وقت ایک لاکھ کی وہ رقم میرے بہت کام آئی تھی۔ وہ نہ ملتی تو شاید میں اور تم آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔ شہربانو کی ماں نے بہت بڑا احسان کیا تھا ہم پر… میرے کندھے آج بھی اس کے اس احسان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں… شہباز نے جو کیا وہ شہباز کا فعل تھا مگر اس کی بیوی نے ہمارے ساتھ کبھی کوئی برائی نہیں کی اور اس کی بچی بھی ویسی ہی نیک ہو گی۔ میں دعا کرتا رہتا ہوں اس بچی کے لیے… گھر بڑی مشکل سے بنتے ہیں… اللہ اس کے گھر کو سلامت رکھے۔ تمہیں شیردل کو سمجھانا چاہیے تھا۔”
بعض دفعہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے نظر ملانا اس سے مشکل اور سر اٹھانا اس سے دوبھر… وہ بھی خیردین کے سامنے بیٹھی اس وقت انہی کیفیات کا شکار ہورہی تھی… شاک، بے یقینی، رنج اور شرمندگی… وہ خیردین کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ ان انکشافات نے اس کی عزت نفس کو مٹی کر دیا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کا نانا جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
”مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے نانا۔” کئی منٹ ایک بت کی طرح بیٹھے حیرانی و پریشانی کے عالم میں خیردین کو دیکھتے رہنے کے بعد وہ بے ساختہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اسے اس ایک جملے میں بھی اپنی ہی آواز میں عجیب سی شکستگی اور لرزش محسوس ہوئی تھی اور اسے یقین تھا وہ دونوں چیزیں خیردین سے بھی نہیں چھپی ہوں گی۔ وہ خیردین کو اب شیردل اور شہربانو کی طلاق کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھی، نہ ہی یہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ جس گھر کی سلامتی کے لیے وہ دعائیں کررہا تھا وہ چند مہینے پہلے ٹوٹ چکا تھا۔
وہ اس صبح ایک عجیب سی ذہنی کیفیت کے ساتھ اس گھر سے نکلی تھی۔ خیردین، شرمین سے کوئی مالی مدد لینے پر کیسے آمادہ ہو گیا تھا، اس سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ اسے اب کیوں بتا رہا تھا۔ وہ اسے کیا جتانا چاہتا تھا… کیا باور کروا رہا تھا… یہ کہ و ہ شیردل اور شہربانو کے درمیان نہ آئے… یہ کہ وہ ان کا گھر توڑنے کی کوشش نہ کرے… کیونکہ ان کی زندگی پر شرمین کا بہت بڑا احسان تھا… وہ بچی نہیں آور بچی ہوتی تب بھی خیردین کی پہیلیاں بوجھنا چڑیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا… کہیں نہ کہیں خیردین اس کے حوالے سے بداعتمادی کا شکار ہورہا تھا۔ شیردل کے حوالے سے اس کا اعتراف سننے کے بعد شاید زیادہ ہو گیا تھا… وہ بند باندھنے کی کوشش کررہا تھا جس سے اسے وہ روک لیتا اور جیسے شہربانو اور شیردل کا گھر بھی بچا لیتا… اور عکس کو اسی بات پر رنج ہورہا تھا… وہ اس کا نانا تھا پھر بھی اسے اس پر شک ہوا تھا… اپنی دی گئی تربیت اور عکس کے اس صاف اعلان کے باوجود کہ وہ شیردل سے شادی نہیں کرنا چاہتی، وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ شیردل کے ساتھ انوالوڈ تھی اور وہ اس سے ان دونوں کا گھر بچانے کی کوشش کررہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار چڑیا کو اپنے نانا سے گلہ ہوا تھا اسے دلی رنج ہوا تھا۔ اس دن وہ آفس میں بہت اپ سیٹ رہی پچھلے دن شیردل سے ہونے والی ملاقات اور اس کی حالت دیکھ کر ہونے والا اضطراب وہ بھول گئی تھی۔ اگر کچھ اسے اب اضطراب میں ڈالے ہوئے تھا تو وہ خیردین کا یہ انکشاف اور یہ رویہ تھا… چاہنے کے باوجود وہ پورا دن شیردل کو کال یا میسج نہیں کر سکی۔
شام کو وہ گھر واپس آئی تو یقینا اس کا چہرہ اتنا ستا ہوا تھا کہ خیردین صبح کی طرح اس بار بھی اس کی طبیعت کے بارے میں فکرمند ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
”میں ٹھیک ہوں نانا۔” اس نے خیردین سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”مجھے کیوں ٹھیک نہیں لگ رہیں؟” خیردین نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا اور اس کی اس بات پر عکس نے خیردین کو بے حد شاکی نظروں سے دیکھا۔
”آپ کو اب میری بات پر یقین نہیں آتا اس لیے۔” اس جواب میں جو سوال تھا اس کا جواب خیردین کے پاس نہیں تھا۔ ان دونوں نے ایک عمر ساتھ گزاری تھی، ایک دوسرے کی رمزوں اور ان کہی باتوں کو سمجھنے کے لیے انہیں کسی لغت اور ستارہ شناسی کی ضرورت نہیں تھی۔ خیردین نے اسے صبح جو سمجھانا چاہا تھا وہ جانتا تھا وہ بات چڑیا سمجھ گئی تھی اور اب چڑیا کا ردعمل… وہ رنجیدہ تھی اور خیردین بے قرار ہورہا تھا۔
”کھانا کھالو… تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوں۔” خیردین نے بات بدل دی تھی۔ وہ روز ہی اس کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا اور وہ اور عکس دونوں ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے اور خیردین یہ بھی جانتا تھا کہ چڑیا کبھی کھانا چھوڑ کر نہیں بیٹھتی تھی… بھوک نہ ہونا، کھانا نہ کھانے کی وجہ بن سکتی تھی لیکن رزق سے ناراض ہو کر بیٹھنا خیردین نے اسے کبھی نہیں سکھایا تھا۔ ایک لمحے کے لیے عکس کا دل چاہا وہ ان سے شکایت کرے، وہ کام جو اس نے ساری زندگی نہیں کیا… صرف ایک لمحے کے لیے اور پھر وہ خاموش ہی رہی تھی… وہ گلہ کرتی تو خیردین کو تکلیف ہوتی۔ ویسی تکلیف جیسی آج صبح ان کے ایک انکشاف سے اسے ہوئی تھی۔ وہ ایسا نادانستگی میں کر گئے تھے وہ اگر کرتی تو دانستہ کرتی… وہ خیردین کو جیسے غلطی کی گنجائش دے رہی تھی۔
”بعض دفعہ انسان حالات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔” خیردین نے اس کی خاموشی کو شاید زندگی میں پہلی بار غلط پڑھا تھا اس کا خیال تھا وہ شرمین سے لی جانے والی مدد پر اپ سیٹ تھی۔
”نانا آپ نے جو کیا، ٹھیک کیا آپ کو مجھے کوئی بھی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اس ایک لاکھ روپے کی وجہ سے میری نظر میں آپ کی قدر و قیمت میں کوئی کمی ہوئی ہے۔” عکس نے خیردین کو بیچ میں ہی ٹوک دیا تھا۔ صبح سے اس کے سینے پر دھرا بوجھ پل بھر میں سرک گیا تھا۔ خیردین نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔
”کھانا کھاتے ہیں۔” وہ مزید کچھ کہنے کے بجائے ایک بار پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔
……٭……




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!