”تم لوگ باتیں کرو میں چائے بھجواتی ہوں۔” منزہ واضح طورپر انہیں اکیلے باتیں کرنے کا موقع دینا چاہتی تھیں۔
”میرا خیال ہے ہم لوگ باہر کا چکر لگاکر آتے ہیں، مجھے ایک دوکام بھی ہیں وہ بھی کرلوں گی۔” عکس نے یک دم اٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں، ہاں ضرور بلکہ اچھا ہے شیردل بھی بہت دنوں سے باہر نہیں نکلا، اسی بہانے اس کی بھی تھوڑی آؤٹنگ ہوجائے گی۔” منزہ نے ایک لمحے کا تامل بھی نہیں کیا تھا۔ شیر دل نے حیران اور الجھی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا پھر جیسے بادل ناخواستہ وہ اٹھ گیا تھا۔
”کیا کام ہیں تمہیں؟” اس نے گاڑی سڑ ک پر لاتے ہی عکس سے پوچھا تھا وہ گاڑی خود ڈرائیو کررہا تھا۔
”تمہیں میری کالز اور میسجز مل رہے تھے نا؟”عکس نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”ہاں۔” شیردل نے کوئی بہانہ بنائے بغیر کہا۔
”اور تم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔”
”فائدہ کیا تھا؟” وہ سڑک کو دیکھتے ہوئے عجیب بے بسی سے بولا۔
”تم نے حالت دیکھی ہے اپنی؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے عکس کی بات کاٹی اور گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔
”کیا ہوا؟” عکس نے کچھ حیران ہوکر اس سے پوچھا۔
”تم ڈرائیو کرو، میں مین روڈ پر ڈرائیو نہیں کرسکتا۔”
”کیوں؟”
”میرا سر چکرانے لگتا ہے بہت ساری گاڑیاں اور ان کی اسپیڈ دیکھ کر دو دفعہ گاڑی مار چکا ہوں اور تم guest ہو میں نہیں چاہتا تمہیں ایمبولینس کی ضرورت پڑے۔” وہ بات کو خوش دلی سے کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس نے ساتھ ہی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ عکس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔
”مین روڈ پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کسی چھوٹے موٹے پارک میں چلو۔”
”شام ہو رہی ہے۔”
”کوئی بات نہیں۔” وہ چند لمحوں کے لیے ٹھٹکا تھا۔ پھر دروازہ بند کرکے دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
اگلا موڑ مڑتے ہی بچوں کے ایک پلے ایریا کے سامنے اس نے گاڑی روک دی تھی۔
”آنٹی نے مجھے بتایا کہ تمہاری divorse…” پارک کی ایک بینچ پر آکر بیٹھنے اور چند ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے شیردل سے کہنے کی کوشش کی۔ شیردل نے اسے ٹوک دیا۔
”بس اب اس ایشو کے بارے میں بات مت کرنا… کوئی اور بات کرو۔” وہ جیسے تکلیف میں کراہا تھا یوں جیسے اس کے ہاتھ سے اس کا کوئی کھرنڈ کھرچا گیا تھا۔ عکس کا دل بری طرح دکھا۔
”جاب پہ واپس کیوں نہیں آرہے؟” اس نے بات بدل دی۔
”آجاؤں گا۔” اس نے اسی بیزاری سے کہا۔ وہ اب سگریٹ سلگا رہا تھا۔
”ٹینس کیسا چل رہا ہے تمہارا؟” اسے پہلی بار شیردل کے لیے سوال ڈھونڈتے ہوئے دقت ہورہی تھی۔
”چھوڑ دی۔” وہ ایک کش لیتے ہوئے ایک جھولے پر جھولتی بچی کو دیکھنے لگا، عکس نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔
”تم اتنے کمزور تو نہیں تھے شیردل۔” عکس نے اس کی توجہ بٹائی۔
”میں سوچ رہا تھا اب تک تمہاری شادی ہو چکی ہوگی… کافی مہینے گزر چکے ہیں۔” شیردل نے اس کے سوال کے جواب میں اس سے بات بدل کر کہا۔ ”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے، کیسا ہے جواد؟”
”اگر تم میرے سوالوں کا جواب نہیں دو گے تو میں بھی نہیں دوں گی۔”
”یہ تو بہت اچھا ہے سوال جواب کرکے کیا کرنا ہے ہم نے… ایسے ہی خاموش بیٹھتے ہیں۔” وہ دوسرا سگریٹ نکالنے کے لیے پیک اٹھانے لگا جب عکس نے ہاتھ بڑھا کر اس سے پہلے پیک اٹھا لیا۔
”مشکل وقت ہے لیکن گزر جائے گا شیردل۔” وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا پھر اس نے بینچ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”ہاں گزر جائے گا لیکن فی الحال نہیں گزررہا۔”
”اس طرح گزارنے سے نہیں گزرے گا، تم جاب پر واپس آؤ۔”
”آجاؤں گا، ساری زندگی گھر میں بیٹھ کے تو نہیں گزارسکتا میں۔” اس نے بیزاری سے کہتے ہوئے عکس کے ہاتھ سے سگریٹ کا پیک لینے کی کوشش کی۔
”مجھے استھما ہے تم اگر پھر بھی میرے پاس بیٹھ کر اسموکنگ کرنا چاہتے ہو تو لو کرو۔” عکس نے نرمی سے وہ پیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ جیسے کچھ دیر پیک ہاتھ میں لیے الجھتا رہا پھر اس نے پیک رکھتے ہوئے کہا۔
”تم جانتی تھیں میرے ساتھ کیا ہوا لیکن تم نے ایک بار مجھے کال کرکے میرا حال پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔” وہ بالآخر اپنے دل کا غبار نکالنے لگا تھا۔
”مجھے بہت دیر سے پتا چلا کئی دن بعد۔”
”جھوٹ مت بولو۔” شیردل نے اسے ٹوکا۔
”تمہارا ذاتی معاملہ تھا یہ اور میں کیسے…”
”shut up” شیردل نے اس بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”تم اس وجہ سے خفا تھے مجھ سے؟” عکس نے بالآخر ایک گہری سانس لے کر کہا۔
”تم نے بھی مجھے چھوڑ دیا تھا… تمہیں کم ازکم مجھ سے پوچھنا تو چاہیے تھا۔”
”میں نے تمہیں کالز اور میسیج کیے تھے۔”
”کئی دن بعد آئے تھے وہ میسیج۔” اس نے پھر بات کاٹ کر کہا۔
”اور پھر کئی مہینے میں جوکالز اور میسیج میں کرتی رہی وہ…” وہ اب ایک دوسرے سے اسی طرح بات کرنے لگے تھے جیسے ہمیشہ کرتے تھے۔ وہ دقت، دشواری آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی تھی۔
”وہ اگلے ماہ شادی کر رہی ہے۔” مدھم آواز میں کہے ہوئے جملے پرعکس نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اسے اس ”وہ” کے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس کی بات کر رہا تھا۔ وہ اسے یہ بتانے کی ہمت نہیں کرسکی کہ وہ بھی اگلے مہینے شادی کر رہی تھی۔
”کس سے؟”
”کزن ہے ایک اس کا… داؤد۔”
”میں جانتی ہوں تمہارے لیے بہت تکلیف دہ ہے یہ۔” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”نہیں، میرے لیے یہ سب تکلیف دہ نہیں ہے، مجھے اس عورت میں دلچسپی نہیں ہے اب… لیکن میرے لیے تکلیف دہ بات صرف یہ ہے کہ میں مثال سے الگ ہوں میں اسے دیکھ نہیں پارہا، اس سے بات نہیں کر سکتا، مجھے اس کا خیال آتا ہے تو میں سو نہیں پاتا۔” وہ بے بسی اور تکلیف سے کہہ رہا تھا۔
”وہ کب تک ایسا کرسکتی ہے… ابھی غصے میں ہے… تھوڑا ٹائم دو اسے… چند مہینے… پھر سب کچھ نارمل ہونا شروع ہوجائے گا، پھر وہ اپنی زندگی میں بزی ہو جائے گی پھر اسے احساس ہو گا کہ وہ مثال کو ساری زندگی کے لیے تم سے دور نہیں رکھ سکتی۔” عکس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”تب تک مثال مجھے بھول جائے گی۔” شیردل نے ہونٹ کانٹتے ہوئے بے بسی سے کہا۔
”تم امریکا جاکر اس سے مل آؤ۔”
”میرا ویزا کینسل کر دیا ہے امریکن ایمبیسی نے… شہربانو نے میرے خلاف رپورٹ کی ہے کہ میرے امریکا آنے سے اسے اور مثال کی جان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔” وہ تلخی سے ہنسا۔ عکس کچھ دیر بول نہیں سکی۔ وہ اب سمجھ پارہی تھی کہ اس کا اگر نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا تو بلاوجہ نہیں ہو گیا تھا، شہربانو کی جذباتیت نے اسے دیوار سے لگا دیا تھا۔
”شہربانو ایسی نہیں تھی۔ میں حیران ہوں اس نے…” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”شہربانو ایسی ہی تھی اور تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہو۔ میں نے تمہیں بہت شروع میں بتا دیا تھا کہ وہ بہت جذباتی ہے۔ وہ بہت ناپختہ کار ہے، میری اور اس کی شخصیات میں بہت فرق ہے لیکن تم مجھے مجبور کرتی رہی تھیں۔ وہ کم عمر ہے اس لیے ایسی ہے، وہ ٹھیک ہو جائے گی صرف سپورٹ ملنے کی دیر ہے… وہ تم سے پاگلوں جیسی محبت کرتی ہے تمہارے ساتھ رہے گی تو یہ چھوٹی موٹی خامیاں چلی جائیں گی۔ اس شادی میں تم نے مجھے پھنسا دیا تھا۔” وہ اس پر برسنے لگا تھا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ شہربانو نے اس کے سارے اندازے اور توقعات غلط ثابت کر دی تھیں۔
……٭……