شرمین کو آخری جملہ بولتے بولتے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا تھا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ گردن موڑنے پر انہیں کھلے دروازے میں کھڑی شہربانو نظر آئی تھی جس کا چہرہ اس طرح فق تھا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے شرمین بھی فریز ہو گئیں پھر انہوں نے عکس سے کچھ بھی کہے بغیر لائن ڈسکنکٹ کر کے فون آف کر دیا تھا۔ انہوں نے شہربانو کو سہارا لے کر کمرے کے دروازے کے ساتھ والی دیوار کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھتے دیکھا۔ وہ جیسے خود کو گرنے سے بچا رہی تھی۔ شرمین سب کچھ چھوڑ کر بے اختیار لپک کر اس کے پاس آئی تھیں۔ اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا، وہ بے حد سرد ہورہا تھا۔
”تم ٹھیک ہو؟” شرمین نے بے ساختہ اس کے سرد پڑتے ہوئے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
”آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا یہ؟” اس نے جواباً جیسے بہ مشکل شرمین سے کہا تھا اس کی آواز جیسے کسی کھائی سے آرہی تھی۔ وہ ماں کی طرف دیکھ بھی نہیں پارہی تھی۔
”میں تمہیں اس تکلیف سے بچانا چاہتی تھی۔” شرمین نے رنج کے عالم میں اس سے کہا۔ ”میں تمہارا وہ گھر بچانا چاہتی تھی جو تم نے بنایا تھا جس پر تمہیں اتنا ناز تھا۔” وہ اس کا مذاق نہیں اڑا رہی تھیں لیکن شہربانو کو یونہی لگا تھا جیسے شرمین نے ہنستے ہوئے اس کا مذاق اڑایا تھا، جیسے ساری دنیا ہنستے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔ ”میں تمہارا وہ گھر بچانا چاہتی تھی جو تم نے بنایا تھا۔ جس پر تمہیں اتنا مان تھا۔” گھر… کون سا گھر؟… مان… کون سا مان؟… رشتہ کون سا رشتہ…؟ اعتبار… کون سا اعتبار۔
کھلے دروازے سے مثال اندرآئی تھی۔ ایک ٹیڈی بیئر ہاتھ میں پکڑے… ماں اور شرمین کی کیفیت سے بے خبر… اور اس نے اندر آتے ہی ہمیشہ کی طرح وہی ایک بات کہی تھی جو وہ صبح شام سیکڑوں بار دہراتی تھی۔
”ممی مجھے پاپا کے پاس جانا ہے، میں ان کو مس کررہی ہوں۔” شہربانو نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر اس نے کہا۔
”تمہارے پاپا مرچکے ہیں۔” مثال نے عجیب خوف اور بے یقینی سے ماں کو دیکھا تھا۔ پھر شرمین کو…
……٭……
ایک زلزلے کی لپیٹ میں آئے ہوئے شخص کی طرح عکس نے شرمین کے فون بند کردینے کے بعد بھی کئی بار اسے کال ملانے کی کوشش کی تھی۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اسے پہلی بار اب ہوا تھا اور ساتھ شیر دل کی پریشانی کا بھی… وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ کسی بھی طرح سے کسی کی ازدواجی زندگی میں آنے والے بھونچال کا ذمے دار قرار دی جاسکتی تھی اور وہ بھی شیر دل کی زندگی میں…
اسے اندازہ نہیں تھا کہ شرمین نے خیر دین سے کیا کہا تھا… کیا یہ سنگین اور گھٹیا الزام انہوں نے نانا کے سامنے بھی دہرایا تھا؟ اسے جیسے شرم آئی تھی لیکن اگر خیر دین سے شرمین نے ایسی کوئی بات کی ہوتی تو وہ اس کے بارے میں بھی پوچھتا۔ وہ جیسے مکڑی کے جالے کے تار میں الجھی لٹک رہی تھی، زندگی میں پہلی بار اس نے کسی سے اس طرح کی مدد لی تھی اور وہ مدد اب اس کے حلق میں ہڈی بن کر اٹک گئی تھی۔ وہ اب بری طرح پچھتارہی تھی کہ اس نے شیر دل کا فون استعمال کیوں کیا… کرلیا تھا تو شرمین کی کال کیوں لی… لیکن بعض دفعہ بد قسمتی انسان سے وہ
کام کروارہی ہوتی ہے جو وہ عام حالات میں کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس دن اس نے ایک بار پھر شیر دل سے رابطہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی تھی اور ایک بار پھر ناکام رہی تھی۔ اس کا سیل فون ہمیشہ کی طرح بند تھا اور اس کے والدین کی لاہور کی رہائش گاہ سے اس کے ”غیر موجود” ہونے کی خبر کے علاوہ کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ عکس کو اب اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اسے نظر اندازکررہا تھا اور اسے ہی نہیں شاید ساری دنیا کو نظر انداز کررہا تھاکیونکہ اس کی ازدواجی زندگی میں ہونے والے سارے مسئلے اس کی وجہ سے ہوئے تھے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس سے رابطہ مستقل طور پر منقطع رکھ کر وہ اس مسئلے کا حل نکال سکتا تھا۔
وہ ایک کے بعد ایک توجیہہ پیش کرتی اور اسے رد کرتی رہی پھر اس نے جیسے خود بھی یہی طے کیا تھا کہ وہ شیر دل سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ اگر اس کو لگتا تھا کہ وہ اس کی مدد کے بغیر اس مسئلے کا حل نکال سکتا تھا تو پھر اسے شیر دل کو یہ کام کرنے دینا چاہیے تھا۔
”نانا آپ سجاد سے میری شادی طے کردیں۔” شرمین سے ہونے والی گفتگو کے تیسرے دن رات کے کھانے کے بعد اس نے خیر دین سے کہا تھا۔ حلیمہ اگلے ویک اینڈ پر پاکستان سے واپس جارہی تھی اور اس نے اپنی سسرال سے فون کر کے اس صبح عکس سے سجاد کے سلسلے میں دوبارہ بات کی تھی۔ خیر دین اس کی بات پر حیران ہوگیا تھا۔
”لیکن تم تو پہلے ملنا چاہتی تھیں اس سے۔”
”ہاں لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ امی مل چکی ہیں اس سے… آپ بھی مل لیں۔ اس کی فیملی ایک فنکشن میں مجھ سے مل چکی ہے۔ ہم دونوں کی ایک ملاقات کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو وہ ٹھیک لگتا ہے تو بس کافی ہے۔” وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی اور اس کی یہ سنجیدگی خیر دین کو جیسے ہضم نہیں ہورہی تھی۔ شادی کے لیے اس طرح فوری طور پر مان جانا… اور وہ بھی لڑکے سے ملے بغیر جبکہ اس سے پہلے وہ ہمیشہ ملے بغیر کسی بھی لڑکے سے شادی کے خلاف تھی اور خیر دین کو بھی ہمیشہ یہی مناسب لگا تھا کہ وہ لڑکے سے خود مل لے اگر اسے مناسب لگتا پھر ہی وہ لوگ بات آگے بڑھاتے۔
خیر دین نے اس سے وجہ پوچھنے پر اصرار نہیں کیا تھا۔ انہیں لگا تھا وہ شیر دل کے معاملے کی وجہ سے شادی میں جلدی کرنا چاہتی تھی۔ شرمین کے حوالے سے بھی ان دونوں کے درمیان اس ایک گفتگو کے علاوہ کوئی اور گفتگو نہیں ہوئی تھی ۔عکس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خیر دین سے شرمین کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی تفصیلات جاننے پر اصرار کرتی، نہ ہی شرمین کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو وہ خیر دین کے سامنے دہراسکتی تھی لیکن اسے یہ احساس ہوتا تھا کہ شرمین نے شاید خیردین سے اس واقعے کا ذکر کیے بغیر اس پر الزامات لگائے تھے اور ااگر اس نے ایسا کیا تھا تو وہ اس کے لیے شرمین کی بہت احسان مند تھی اور احسان مندی کی بعض شکلیں مذاق سے کم نہیں لگتیں۔
اگلے چند دنوں میں خیردین نے سجاد کی فیملی کو بلوا کر عکس کے نہ چاہنے کے باوجود اس کی اور سجاد کی ملاقات کروا دی تھی۔ وہ ایک مناسب شکل صورت کا ایک اچھا قابل ڈاکٹر تھا اوراچھا بیک گراؤنڈ تھا اس کا… عکس اور اسے دونوں کو اپنے پانچ سالہ دور تعلیم کے دوران کسی آمنے سامنے کی کوئی یادیں نہیں تھی لیکن سجاد پھر بھی کلاس کی بہترین اسٹوڈنٹ کے طور پر اسے بہت اچھی طرح یاد رکھے ہوئے تھا اور اس حوالے سے اس کے لیے اچھی فیلنگز رکھتا تھا… ایک اور مشکل مرحلہ آیا تھا اور ایک اور مشکل مرحلہ طے کر لیا تھا اس نے۔ اس بار منگنی کی کوئی باقاعدہ رسم نہیں کی گئی تھی صرف بات طے کر کے چند مہینوں بعد سجاد کے پاکستان کے اگلے وزٹ پر شادی کی تاریخ طے کر دی گئی تھی۔
وہ جواد سے رشتہ طے ہوتے ہوئے خوش تھی لیکن سجاد سے نسبت طے ہوتے ہوئے اس نے ایک عجیب سی بے حسی محسوس کی تھی یوں جیسے یہ کوئی آفیشل ورک تھا… اس کی زندگی کا اہم ترین فیصلہ نہیں تھا۔ وہ ناخوش نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہورہا تھا لیکن وہ خوش بھی نہیں تھی یا کم از کم خوشی نام کی اس شے کو محسوس نہیں کر پارہی تھی جسے وہ محسوس کرنا چاہتی تھی۔ اور وہ اس کی ”وجہ” جانتی تھی لیکن وہ اس وجہ کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی…
اگلے چند ہفتوں میں اسے شیردل کی چھٹی بڑھ جانے کا پتا چل گیا تھا۔ وہ اب چھ ماہ کے لیے چھٹی پر چلا گیا تھا اور اس کی سیٹ پر کسی اور کوتعینات کر دیا گیا تھا۔وہ اس سے بے نیاز رہنے کی کوشش کرنے کے باوجود بے نیاز نہیں رہ سکی تھی…بے چینی اور اضطراب میں اس نے ایک بار پھر اس سے رابطے کی کوششیں شروع کر دی تھیں اور ایک بار پھر ناکام رہی تھی۔ اس کے سیل فونز آف تھے اور یہ ایک تشویشناک بات تھی… کوئی بھی مہینوں اپنے سیل فون آف نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ اپنے کسی بیچ میٹ سے رابطے میں نہیں تھا۔ اس نے چند بار اس کے والدین کے گھر پر خود فون کیا تھا لیکن ہر بار اسے یہی پتا چلا کہ وہ گھر پر نہیں ہے لیکن وہ کہاں ہے کب آئے گا اس کا اسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ وہ دونوں اس سے پہلے بھی مہینوں ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں رہتے تھے لیکن اس نے ایسا اضطراب اور وحشت کبھی محسوس نہیں کی تھی کیونکہ اسے شیردل کی خیرخبر ملتی رہتی تھی، وہ کہاں تھا کیا کررہا تھا پتا چل جاتا تھا لیکن اب جیسے وہ صفحۂ ہستی سے ہی غائب ہوگیا تھا۔
تقریباً دو ماہ کے بعد بالآخر جیسے اس کی پریشانی دور ہوگئی تھی۔ وہ اس دن بھی شیردل کے گھر کال کررہی تھی لیکن ہمیشہ کی طرح فون آپریٹرنے ہی اٹھایا تھا۔ وہ نیا آپریٹر تھا اور اس نے اس کا تعارف لینے کے بعد شیردل سے اس کی بات کروانے کے بجائے منزہ کے ساتھ لائن ملادی تھی۔ وہ منزہ کی آواز سننے پر چند سیکنڈز عجیب گومگو کے عالم میں رہی جیسے طے نہ کرپارہی ہو کہ اسے اس سے بات کرنی چاہیے یا نہیں اور پھر اس نے فون بند کردیا تھا۔ وہ ایک نیا پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتی تھی۔
چند ہی منٹوں بعد اس کا فون بجنے لگا تھا۔ اس نے فون اٹھاکر دیکھا اور اس کا دل یک دم جیسے خوشی سے اچھلا تھا۔ وہ شیردل کے گھر کا نمبر تھا وہاں سے کال بیک ہورہی تھی یقینا آپریٹر نے شیردل کو اس کی کال کے بارے میں اطلاع دی تھی۔
اس نے بہت ایکسائٹمنٹ کے عالم میں فون اٹھایا، آپریٹر نے اسے اطلاع دی تھی کہ منزہ اس سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ شش وپنج میں پڑی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ منزہ سے بات کرنے یا کرنے کا فیصلہ کرتی اس نے دوسری طرف سے ان کی آواز سن لی وہ اس بار اس کا نام لے کر اسے مخاطب کررہی تھی۔ یعنی وہ جانتی تھیں کہ وہ کس کو کال بیک کروارہی تھی۔ اس نے بڑے محتاط سے انداز میں منزہ سے علیک سلیک کی۔
”میں شیردل کی خیریت دریافت کرنا چاہتی تھی۔بہت دنوں سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی کچھ آفیشل کام بھی تھا۔” اس نے چھوٹتے ہی منزہ کو بتایا اور ساتھ ہی جھوٹ بولنا بھی ضروری سمجھا۔
”شیردل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” دوسری طرف سے اسے منزہ کی آواز بے حد بجھی ہوئی لگی تھی۔
”کیا ہوا؟” اسے یک دم تشویش ہوئی۔
”نروس بریک ڈاؤن… بہت زیادہ ڈپریسڈ ہے وہ… ڈاکٹر نے ریسٹ کے لیے کہا تھا… بار بار بیمار ہورہا ہے وہ۔”
عکس تشویش سے سنتی رہی۔
”آپ اس سے میری بات کروادیں۔” اس نے منزہ کی بات سننے کے بعد کہا۔ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے منیزہ نے کہا۔
”میں نے شیردل سے کتنی بار کہا ہے کہ تم سے بات کرے یا مل لے لیکن اس نے انکار کردیا۔ کسی سے بھی بات نہیں کرتا… کسی دوست سے نہیں ملتا۔ گھر سے نکلتا ہی نہیں۔میں پورا ایک مہینہ اس کو ساتھ لے کے مری گزارکر آئی ہوں کہ کچھ بہتر ہوجائے گا لیکن چند دن ٹھیک رہتا ہے پھر دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں تم اس سے ملنے کے لیے آؤ … آکر سمجھاؤ اسے۔ تم سے تو بہت کلوز تھا۔”
عکس نے ان کی آواز میں اتری بے بسی محسوس کی۔ وہ عام حالات میں کبھی اس سے مدد نہیں مانگ سکتی تھیں، کبھی اس سے یہ ساری گفتگو نہیں کرسکتی تھیں لیکن شیردل کی حالت نے منزہ کو جیسے عجیب خوف اور وسوسوں کا شکار کردیا تھا۔
”میں آؤں گی اسے دیکھنے۔” عکس نے ایک لمحے کے تذبذب کے بغیر کہا، کوئی دوسرا جواب اس کے پاس ہوہی نہیں سکتا تھا۔
اور اس نے وہاں جانے میں دیر نہیں کی تھی، وہ دوسرے دن آفس سے جلدی فارغ ہونے کے بعد لاہور چلی آئی تھی۔ منزہ نے خلاف توقع بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا ان سے گفتگو کے دوران عکس کی تشویش میں اضافہ ہوگیا تھا۔ منزہ خود بھی شیردل کی وجہ سے بہت زیادہ ڈپریسڈ تھیں۔ شیردل کی وجہ سے ان کی سوشل سرگرمیاں تقریباً ختم ہوکر رہ گئی تھیں۔ وہ سائے کی طرح ہر وقت شیردل کے ساتھ رہتی تھیں۔ انہوں نے شہباز حسین کو اسی Phase سے اسی تکلیف دہ انداز میں گزرتے دیکھا تھا اور وہ اپنی اولاد کو ویسے انجام سے بچانے کے لیے ہلکان ہورہی تھیں۔ وہ رعونت اور غروریک دم جیسے کہیں اڑ گیا تھا جو منزہ بختیار کی پہچان تھا۔ اس سے گفتگو کے دوران وہ کئی بار بات کرتے کرتے روپڑی تھیں ۔ شیردل کی بیماری منزہ کے اپنے اعصاب کو مفلوج کررہی تھی اور اس پر ان کی اپنی فیملی کا اس سارے مسئلے کے لئے انہیں مورد الزام ٹھہرانا اور وہ احساس جرم سے فرار کے لیے ڈوبتے کی طرح تنکے ڈھونڈتی پھررہی تھیں۔ عکس مراد علی بھی ایسا ہی ایک تنکا تھا جس سے وہ اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کی کوشش کررہی تھیں۔
ان سے بات چیت کے دوران ہی عکس کو یہ پتا چلا کہ شیربانو اور شیردل کی طلاق ہوگئی تھی، دونوں فیملیز کے کچھ مشترکہ دوستوں اور رشتے داروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود شہربانو نے طلاق کے لیے کیس فائل کردیا تھا۔ نکاح نامے میں طلاق کا حق اور بچے کی کسٹڈی کا حق پہلے ہی اسے تفویض کیے جاچکے تھے اس لیے کیس کواس کے حق میں ختم ہونے میں چند ہفتے لگے تھے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ منزہ سے یہ سب سنتی رہی۔
وہ تبھی ڈرائنگ روم میں آگیا تھا اور اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی عکس کا دل مزید بوجھل ہوگیا تھا۔ منزہ نے اس کی بیماری اور تکلیف کے بارے میں کوئی مبالغہ نہیں کیا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں اور کم وبیش پندرہ کلو وزن کی کمی کے بعد کوئی بھی اسے دیکھ کر صحت مند نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس کے گھنے سیاہ بالوں میں اب جگہ جگہ سفید بال دکھ رہے تھے۔
”تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ تم آرہی ہو۔” اس نے اندر آتے ہی بڑے معمول کے انداز میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود جواباً مسکرانہیں سکی۔
”کیسے اطلاع دیتی، تم نے تو فون ہی بند کیے ہوئے ہیں سارے۔” اس نے عکس کی اس بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ ہاتھ میں پکڑا سگریٹ کا پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے وہ خود اس کے ساتھ والے صوفے کے کونے میں بیٹھ گیا تھا۔