سسٹر ایگنس کو اپنے آفس میں آکر بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب reception پر بیٹھے آفس اسسٹنٹ نے انہیں ایک اولڈ اسٹوڈنٹ کے بارے میں بتایا جو ان سے ملنا چاہتی تھی۔ سسٹر ایگنس نے اپنے اسسٹنٹ کو پہلے ان وزیٹرز کو اندر بھیجنے کے لیے کہا جو ایڈمیشن اور اپنے بچوں کے حوالے سے مختلف ایشوز ڈسکس کرنے آئے تھے اور اس اولڈ اسٹوڈنٹ کو انتظار کرنے کے لیے کہا۔ اسکول کے اکثر اولڈ اسٹوڈنٹس کتنی بار ان سے ملنے وہاں آجایا کرتے تھے ۔ یہ ہر روز نہیں ہوتا تھا لیکن یہ اکثر اوقات ہوتا تھا اور سسٹر ایگنس ایسی ملاقاتوں کو اپنی اپائنٹمنٹس میں سب سے نیچے رکھتی تھیں کیونکہ ایسی ملاقاتوں میں زیادہ تر گپ شپ ہوتی تھی یا پھر بعض اولڈ اسٹوڈنٹس اسکول میں اپنے بچوں یا فیملی کے بچوں کے لیے کچھ favours لینے کی کوشش کرتے تھے… آج بھی ہمیشہ کی طرح سسٹر ایگنس نے اس وزیٹر کو سب سے آخر میں رکھا تھا۔ بالآخر جب وہ اپنی باقی تمام ملاقاتیوں سے فارغ ہو گئیں توانہوں نے اسسٹنٹ سے اس اولڈ اسٹوڈنٹ کے بارے میں پوچھا۔
”وہ مجھ سے پوچھ کر چلی گئی تھیں کہ سسٹر کب تک فری ہو کر ان سے ملیں گی؟ میں نے کہا ”لنچ بریک کے بعد” تو وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ تب دوبارہ آجائیں گی لیکن ابھی…” اسسٹنٹ نے سسٹر ایگنس سے بات کرتے کرتے عکس مراد علی کو دوبارہ آفس میں آتے دیکھ لیا۔ وہ بالکل اس وقت پر آئی تھی جس وقت کا اسسٹنٹ نے اسے بتایا تھا۔ اسسٹنٹ نے سسٹر ایگنس کو اس کی آمد کی اطلاع دی۔ ”ڈاکٹر عکس نام ہے۔” اسسٹنٹ نے سسٹر ایگنس کے استفسار پر بتایا پھر عکس کو اندر جانے کے لیے کہا۔
”Good afternoon sister۔” سسٹر ایگنس نے سر اٹھا کر اسے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا اور پھر جیسے سیکنڈز میں اسے پہچان لیا۔
”عکس مراد علی۔” انہوں نے اس کی greating کا جواب دیتے ہوئے بے حد بے یقینی سے اس کا پورا نام لیا۔ عکس بے اختیار ہنس پڑی اسے کوئی زیادہ حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ سسٹر ایگنس اس کے بچپن میں بھی اسکول میں پڑھنے والے سیکڑوں بچوں کو اسی طرح ان کا پورا نام لے کر یاد رکھا کرتی تھیں لیکن اب اس عمر میں بھی ان کی یادداشت کا اسی طرح شاندار ہونا ایک عام آدمی کے لیے حیران کن تھا۔
”ڈاکٹر عکس مراد علی؟”ٹیبل کے اوپر سے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اب انہوں نے دوسری بار ستائشی انداز میں اس کا نام لیا تھا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے سسٹر ایگنس کی اس ستائش آمیز حیرت پر مسکرا دی تھی۔ اس سے بڑی گرم جوشی سے باتیں کرتے ہوئے سسٹر ایگنس نے جیسے بغور اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ ایک سیاہ سوٹ کے اوپر ایک آف وائٹ ٹی کالرڈ جرسی پہنے اس دبلی پتلی سانولی لڑکی میں انہیں وہی تنک اور تمکنت نظر آئی تھی جو اس ننھی بچی کی بھی شناخت تھی جس کی ملائم ریشمی آواز پر وہ جان چھڑکتی تھیں۔ ان آنکھوں کی چمک آج بھی اس کی ذہانت کو عیاں کررہی تھی۔ اس حادثے کا کوئی رنگ انہیں اس مسکراتے ہوئے پراعتماد چہرے میں کہیں نہیں دکھا تھا جس نے تب کئی مہینوں تک اس ننھے وجود کو کملائے رکھا تھا۔ سسٹر ایگنس کو دلی خوشی ہوئی تھی۔ وہ اس ذہین لڑکی کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی تھیں۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا اس ذہین لڑکی نے اس سے زیادہ بڑے پہاڑ سر کر لیے تھے جن پر وہ اس کا نام دیکھنا چاہتی تھیں۔ ٹیبل پر پڑا اس کا فون وہاں رکھے جانے کے چند ہی منٹ بعد بجنے لگا تھا جسے عکس نے بہت معذرت کرتے ہوئے فوری طور پر silent کیا تھا لیکنsilent ہونے کے باوجود سسٹر ایگنس اس پوری گفتگو کے دوران باربار اس فون پر جلتی بجھتی روشنیوں کا سیلاب دیکھتی رہی وہ ہر چند منٹ بعد کسی میسج یا کال کا اعلان کر رہا تھا۔
”بہت busy ڈاکٹر ہو تم!” سسٹر ایگنس نے مسکراتے ہوئے اس کے فون کی طرف اشارہ کیا۔
”میں پریکٹس نہیں کرتی سسٹر۔” عکس نے ان کی بات پر ایک لمحے کے لیے اپنے فون کو دیکھا پھر ان سے کہا۔
سسٹر ایگنس کے تاثرات سیکنڈز میں بدلے تھے انہوں نے بہت خفگی سے اسے جھڑکنا شروع کر دیا تھا عکس مسکراتے ہوئے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سنتی رہی، اسے ان سے اسی بات کا خدشہ تھا۔ جب سسٹر ایگنس کی ناراضی زیادہ بڑھ گئی تو عکس نے انہیں اپنے موجودہ پروفیشن کے متعلق نرم آواز میں بتایا۔ سسٹر ایگنس چند لمحوں کے لیے بھونچکا رہ گئی تھیں۔ شہر میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون DC کے بارے میں وہ واقف تھیں، نام سے بھی واقف تھیں اور چند دن پہلے انہوں نے بھی اسے اسپورٹس ڈے کے پر دعوت دینے کے لیے کارڈ بھیجا تھا لیکن انہیں بالکل شائبہ نہیں ہوا تھا کہ وہ یہ عکس مراد علی ہو گی… وہ جو ان کے بالمقابل میز کے دوسری طرف پڑی دو کرسیوں میں سے ایک پر بڑی تمیز اور شائستگی سے کرسی کے ہتھوں پر بازو ٹکائے، گھٹنے جوڑے، پاؤں ملائے بالکل سیدھی پشت کے ساتھ بے حد مؤدب انداز میں بیٹھی تھی۔ وہ اس شہر کی DC تھی جو اپنے آفس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے ریوالونگ چیئر پر بے حد کروفر سے بیٹھتی تھی۔ کہیں پہنچنے پر لوگ اس کا باہر نکل کر استقبال کرتے تھے۔ وہ وزیٹرز روم میں بیٹھ کر انتظار کر کے اٹھ جانے کے بعد دوبارہ اسی طرح وہاں نہیں آجاتی تھی۔
”میں اسپورٹس ڈے پرآنا چاہتی تھی اس لیے میں نے سوچا میں آکر آپ کو بتا دوں اور آپ سے مل بھی لوں۔” وہ اسی انکسار سے سسٹر ایگنس کو بتا رہی تھی۔ سسٹر ایگنس کو چند لمحے واقعی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ ان کے ایکس اسٹوڈنٹس میں سے بڑے عہدوں پر پہنچنے والوں کی کمی نہیں تھی مگر زندگی میں کامیابی کے اوپر والے زینے پر کھڑے ہو کر بھی چلا کر بات کرنے کے بجائے جھک کر مدھم آواز میں بات کرنے والے انہوں نے بھی بہت کم دیکھے تھے اگرخاندان، ذات برادری کو کہتے تھے تو پھر وہ کوئی خاندان نہیں رکھتی تھی اور اگر خاندان اخلاقی اقدار اور تمیز و تہذیب کو کہتے تھے تو پھر سسٹر ایگنس نے ڈاکٹر عکس مراد علی سے بڑھ کر خاندانی کوئی نہیں دیکھا تھا۔
”بہت غلط فیصلہ تھا یہ!” ابتدائی شاک سے نکل آنے کے بعد سسٹر ایگنس نے ایک بار پھر اسے ڈانٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ایک جھینپی ہوئی زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سنتی رہی اسے اندازہ تھا کہ وہ میڈیسن پریکٹس نہ کرنے پر اسے یہی کہیں گی۔ خیردین کے بعد وہ دوسری شخص تھیں جن کے لیے میڈیسن مسیحائی تھی اور دنیا کا اورکوئی پروفیشن اس کے قریب بھی نہیں آسکتا تھا۔
”اور جب تک میں یہاں ہوں اگر میں آپ کے لیے، اسکول کے لیے کچھ بھی کر سکی تو پلیز مجھے ضرور بتایئے گا۔” چائے پیتے ہوئے اٹھنے سے چند لمحے پہلے اس نے سسٹر ایگنس سے کہا تھا۔ سسٹر ایگنس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد اسکول کے عقب میں واقع ایک سرکاری پلاٹ کا ذکر کرنا شروع کیا جسے اسکول بہت عرصے سے اسکول کے گراؤنڈ میں توسیع کے لیےخریدنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ سسٹر ایگنس کو اب امید تھی کہ عکس مراد علی کے اس سیٹ پر ہونے کی وجہ سے اسکول بالآخر وہ پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس پلاٹ کی شمولیت سے اسکول میں بچوں کے لیے گیمز کی بہتر سہولیات میسر آسکیں گی۔ عکس نے خاموشی سے بغور سسٹر ایگنس کی بات سنی۔ وہ مطالبہ اور درخواست کوئی نیا مطالبہ نہیں تھا۔ اسکولز اور کالجز اپنی تقریبات میں مدعو کرنے کے بہانے عام طور پر ضلعی انتظامیہ کے سامنے اس طرح کے مطالبے پیش کرتے تھے یا پھر مختلف گرانٹس کے لیے درخواستیں…
”میں دیکھوں گی میں اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس پلاٹ کے سلسلے میں، میں آپ کی کوئی مدد کر پاؤں گی۔” عکس نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے متانت سے سسٹر ایگنس کو بتایا۔ انہیں اس کے جواب نے حیران کر دیا تھا۔ وہ اپنی درخواست کے جواب میں ”انکار” کی توقع عکس مراد علی کے وہاں اس طرح آنے اور بیٹھنے کے بعد خواب میں بھی نہیں کر سکتی تھیں۔
”لیکن تم کرسکتی ہو تمہیں authority ہے اس کی۔” سسٹر ایگنس نے اصرار کیا۔
”authority ہے لیکن rules کو violate کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ اسکول پرائیویٹ ہے۔ privilaged class کے لیے کام کررہا ہے اور مالی طور پر بہت مستحکم ہے۔ کیتھولک بورڈ آف ایجوکیشن سے بہت زیادہ فنڈنگ بھی مل رہی ہے اسے… اور قواعد و ضوابط کے مطابق میں ایسے کسی ادارے کو سرکاری زمین الاٹ نہیں کرسکتی۔ یہ میں تبھی کر سکتی ہوں جب میں تمام rules کو بائی پاس کر دوں اور وہ میں نہیں کر سکتی۔ وہ زمین ویسے بھی اس علاقے کے ایک چلڈرن پارک کے لیے مختص ہے اور ضلعی انتظامیہ نے اس سال بجٹ میں اس کے لیے فنڈز رکھے ہیں چند مہینوں تک اس پر کام شروع ہو جائے گا۔” سسٹر ایگنس نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کی بات سننے کے بعد کہا۔
”You know Dr. Aks Murad Ali… اس اسکول کے بھی بہت سارے rules تھے لیکن میں نے تمہیں دوبارہ ایڈمیشن دلانے کے لیے اور پھر تمہاری تعلیم کو ہر طریقے سے جاری رکھوانے کے لیے بہت سے rules کو violate بھی کیا تھا اور بائی پاس بھی۔” انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے جتایا۔ انہیں اس کا انکار کھلا تھا۔
”اگر آپ سسٹر ایگنس کی اسٹوڈنٹ رہی ہوتیں تو آپ کے لیے بھی rules کو violate کرنا میری طرح مشکل ہوتا۔” جواب اسی متانت اور ذہانت سے آیا تھا۔ سسٹر ایگنس بے اختیار لاجواب ہوتے ہوئے ہنس پڑیں۔ اس نے انہیں tribute نہیں کیا تھا لیکن ان کے لیے اپنے کیس کو argue کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا۔
”تمہاری گاڑی کہاں ہے؟” اسے باہر چھوڑنے کے لیے آتے ہوئے سسٹر ایگنس نے اس سے پوچھا۔
”وہ گیٹ سے باہر ہے سسٹر۔” عکس نے کہا۔
”میں گیٹ کھلوا رہی ہوں تم گاڑی اندر منگوالو۔” سسٹر ایگنس نے اس سے کہا۔
”Thank you sister… لیکن میں کبھی کسی اسکول یا کالج کے اندر گاڑی لے کر نہیں جاتی۔” عکس نے جواباً ان سے کہا تھا۔
سسٹر ایگنس اس کے منع کرنے کے باوجود اسے پارکنگ تک چھوڑنے آئی تھیں اور پارکنگ میں اسے رخصت کرتے ہوئے انہوں نے عکس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ”I am very proud of you۔” عکس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ وہ مؤدب انداز میں ان کی بات سننے لگی۔
”میری خواہش ہے کہ تم اپنے اصولوں اور ویلیوز کو ہمیشہ اسی طرح رکھنا That is your real strength۔”
”I will۔” وہ کہہ کر مسکرائی اور اس نے سسٹر ایگنس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ سسٹر ایگنس نے اسے اپنی سیاہ اسٹاف کار کی طرف بڑھتے دیکھا۔ جس کا ڈرائیور اب اس کے لیے دروازہ کھولے مستعد انداز میں کھڑا تھا۔ اس کے اندر بیٹھتے ہی اس کے سیکورٹی گارڈ نے ڈرائیور کی طرح اس کے برابر والی سیٹ سنبھال لی تھی۔اس کی اسٹاف کار کے عقب میں موجود پولیس موبائل بھی حرکت میں آگئی تھی۔ سسٹر ایگنس وہیں کھڑی اس کی گاڑی کو پارکنگ سے سڑک اور پھر سڑک سے موڑ مڑ کر غائب ہوتے دیکھتی رہیں۔ یہ وہ تعظیم تھی جو وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی کار کو نہیں دے رہی تھیں۔ نہ DC عکس مراد علی کو… یہ وہ تعظیم تھی جو وہ انسانی ہمت ، حوصلے، ثابت قدمی کی اس چھوٹی سی کہانی کو دے رہی تھیں جس کی ایک چشم دید گواہ وہ بھی تھیں۔ ایک چھوٹا سا کردار اس کہانی میں ان کا بھی تھا اور انہیں فخرہوا تھا، واقعی فخر ہوا تھا۔
انہوں نے جس سبک قدم، باوقار لڑکی کو سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑی پر پولیس escort اور پروٹوکول کے ساتھ کچھ دیر پہلے وہاں سے جاتے دیکھا تھا اسے ایک ننھی بچی کے روپ میں اپنے نانا کی ایک پرانی سائیکل پر بیٹھے سردی، گرمی، برسات، خزاں، بہار کے ہر موسم میں وہاں اس سڑک پر آتے دیکھا تھا… کئی بار… اور باربار… چلچلاتی دھوپ میں پسینے میں شرابور سرخ چہرے کے ساتھ… کہرآلود سردی میں خنکی سے یخ بستہ سرخ ناک اور سرخ گالوں کے ساتھ ٹھٹھرتے کانپتے…اس پرانی سائیکل سے اس سرکاری گاڑی کا سفر اس انتخاب کا نتیجہ تھا جو انسان مصائب کے پہاڑ کے سامنے کانپتے پیروں پر کھڑے رہنے یا گھٹنوں پر گر جانے کی شکل میں کرتا ہے۔ سسٹر ایگنس کے پاس آج اپنے لیکچرز میں quote کرنے والی ایک اور مثال آگئی تھی۔
……٭……
بختیار اور منیزہ، شرمین اور شہربانو کو کسی طرح واپس لے آنے پر تو کامیاب نہیں ہو سکے لیکن شہربانو divorce کے لیے کیس فائل کرنے سے پہلے شیردل سے فون پر بات کرنے پر تیار ہو گئی تھی۔ شیردل کو تب تک شہربانو کے حوالے سے کوئی خوش فہمی باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اب اس سے بدترین سے بدترین حماقت کی بھی توقع کر رہا تھا اور بختیار سے یہ سن کر اسے اس توقع کے باوجود شاک لگا تھا کہ وہ divorce کے لیے کیس فائل کرنے کا طے کر چکی تھی۔ کسی بھی پرسکون شادی شدہ زندگی گزارنے والے مرد کو ان حالات میں اسی طرح کی کیفیات سے گزرنا پڑتا۔ شہربانو سے وہ گفتگو اس کی شادی شدہ زندگی کو بچانے کا جیسے ایک آخری موقع تھا شیردل کے لیے اور اس نے اپنے دل و دماغ کو ایک عجیب حالت میں پایا تھا۔ اسے شہربانو کو اپنی زندگی میں دوبارہ واپس لانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ محبت اور اعتماد نام کا وہ رشتہ جس میں وہ اتنے سالوں سے جڑے ہوئے تھے وہ اتنی بری طرح سے اور اتنی جگہوں سے ٹوٹا تھا کہ اب کم از کم شیردل کو اس کو پھر سے جوڑ لینے کی کوئی خواہش نہیں تھی یا کم از کم فی الحال نہیں تھی لیکن اس کی مجبوری اور کمزوری وہ اولاد تھی جو شہربانو کے پاس تھی۔ مثال اس کے پاس نہ ہوتی تو شیردل، شہربانو سے لاکھ محبت رکھنے کے باوجود بھی اس طرح کے حالات میں اس سے علیحدگی اختیار کرنے میں چند دن بھی نہ لگاتا۔
”اس سے بہت تحمل سے بات کرنا، وہ اس وقت عقل سے پیدل ہورہی ہے لیکن تم سمجھ دار ہو، اس کا اتنا نقصان نہیں ہونا جتنا تمہارا ہو گا۔” بختیار نے اسے شہربانو سے بات کرنے سے پہلے بہت سمجھایا تھا۔ وہ شیردل کی ذہنی و جذباتی کیفیت کو ایک باپ کے طور پر سمجھتے تھے۔ شیردل نے انہیں کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ اس سے یہ سب نہ بھی کہہ رہے ہوتے تب بھی اسے پتا تھا نقصان کس کا ہورہا تھا اور کس کا ہونے والا تھا۔
دوسرے دن بالآخر اس کی اور شہربانو کی بات ہوگئی تھی۔ فون پر اس کی آواز سنتے ہی شیردل کا خون کھولنے لگا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ کرنے والا مرد نہیں تھا، نہ ہی انا اور خودپرستی کا مارا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود شہربانو کے سامنے اسے ایک عجیب سی تضحیک اور ذلت کا احساس ہورہا تھا اور تضحیک کے اس احساس کے ساتھ اس کے ساتھ نارمل، خوشگوار انداز میں بات کرنا بے حد مشکل تھا… ہیلو کے تبادلے کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی تھی۔ دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے سے حال احوال نہیں پوچھا تھا۔ بات کہاں سے شروع کی جائے یہ شیردل کا مسئلہ تھا شہربانو کا نہیں کیونکہ اسے شیردل سے کچھ نہیں کہنا تھا نہ ہی مصالحت کی کوشش کرنی تھی۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی۔ اس فیصلے کو بدلنے کی کوشش کرنا شیردل کی ذمے داری تھی۔ مرد کے لیے عورت کے سامنے جھکنا ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے اور خاص طور پر تب جب غلطی عورت کی ہو اور جھکنا پھر بھی مرد کو پڑ رہا ہو۔ یہ جیسے اس کے لیے کٹ مرنے کا مقام ہوتا ہے اور شیردل کے سامنے آزمائش کا یہ پہاڑ لاکر کھڑا کر دیا گیا تھا۔