کچھ دلبرداشتہ سی ہوکر شہر بانو نے اپنی توجہ ونڈوشاپنگ پر مرکوز کرلی۔ ایک شواسٹور کی ونڈو میں لگے ہوئے ایک جوتے نے اس کی نظر اپنی طرف بھٹکائی تھی۔ وہ چلتے چلتے ر ک گئی وہ اس جوتے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ونڈو میں لگے دوسرے جوتوں اوران کی قیمتوں پر بھی نظر دوڑانے لگی۔ مثال بھی اس کے برابر میں کھڑی بے مقصد ان جوتوں پر نظر دوڑارہی تھی۔ اس کا ہاتھ شہر بانو کے ہاتھ میں تھا، شہر بانو کو وہاں رک کر ان جوتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے جب مثال نے ایک دم عجیب جوش وخروش کے عالم میں بلند آواز میں کہا۔
”ممی، پاپا…” اس نے کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے شہر بانو سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔ شہربانو ہڑبڑاکر اس کی طرف متوجہ ہوئی پھر اس طرف دیکھنے لگی جدھر مثال دیکھتے ہوئے جارہی تھی۔ وہ پاپا، پاپا کہتے ہوئے سائڈ واک پر چلتے درجنوں لوگوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی یوں جیسے کسی کے تعاقب میں ہو ،شہر بانو برق رفتاری سے اس کے پیچھے گئی۔
”مثال ،مثال…” اس نے مثال کو آوازیں دے دے کر روکنے کی کوشش کی، وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ وہ اس کے پکارنے پر عقب میں دیکھے بغیر کچھ اور تیز رفتاری سے آگے بھاگنے لگی تھی یوں جیسے اسے خدشہ ہوکہ شہربانواسے زبردستی روک لے گی۔ شہربانو کو اسے نظروں سے اوجھل ہونے سے روکنے کے لیے اس کے پیچھے تقریباً بھاگنا پڑا تھا۔ اور پھر اس نے اس دراز قد آدمی کو دیکھ لیا جس کے پیچھے مثال بھاگتے ہوئے جارہی تھی ۔ وہ شیردل نہیں تھا، شہربانو نے ایک نظر میں ہی پہچان لیا تھا لیکن وہ عقب سے بالکل شیردل ہی لگ رہا تھا۔ اس کی طرح دراز قد اور پراعتماد انداز میں کسی لڑکی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے ہوئے۔ اس سے پہلے کہ شہربانو، مثال کو پکڑلیتی وہ بھاگ اکر اس آدمی کی ایک ٹانگ سے پاپا، پاپا کہتے لپٹ گئی تھی۔ وہ آدمی یک دم چونک کر رک گیا اور اس نے پلٹ کر اپنی داہنی ٹانگ سے لپٹی ہوئی بچی کو دیکھا تبھی اس نے بھی سراٹھاکر اوپر دیکھا اور پھر اس نے جتنی تیزرفتاری سے اس کی ٹانگ کو پکڑا تھا اتنی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس نے ٹانگ چھوڑدی۔ شہربانو نے اس آدمی اور اس کے ساتھ چلتی ہوئی لڑکی کو مسکراکر ایک دوسرے سے کچھ کہتے سنا پھر وہ دونوں آگے چل پڑے تھے۔ مثال اس طرح کھڑی تھی، شہربانو تھکے ہوئے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور گھٹنوں کے بل اس کے عقب میں زمین پر بیٹھ کر اس نے مثال کو اپنی طرف موڑا۔مثال کا چہرہ دھواں دھواں تھا اور اس کی آنکھوں میں شہربانو نے مایوسی کا ایک جہاں دیکھا۔ وہ اسے دونوں بازوؤں سے پکڑتے ہوئے کچھ دیر کے لیے چلنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ وہ اس کا اپنا چہرہ تھا۔ وہ بھی اسی طرح کئی بار شرمین کے ساتھ چلتے ،چلتے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاکر بھاگ پڑتی تھی کسی بھی ایسے شخص کے پیچھے جو اسے شہباز حسین جیسا لگتا تھا۔ چہروں میں اپنے باپ کے چہرے کو کھوجنا… اور لوگوں میں سے صرف ایک شخص کو ڈھونڈنا… شہربانو ان چند منٹوں میں ہل کر رہ گئی تھی… اس نے کبھی نہیں سوچا تھا… پزلز اوراسٹوری بکس کی بھول بھلیوں میں سے راستہ تلاش کرنے والی اپنی بیٹی کو وہ یہ تلاش سونپ دے گی۔
کچھ بھی کہے بغیر اس نے مثال کو گلے لگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس کے گلے لگنے کے بجائے ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
“I want to go to Papa
I want to go to Papa ”
بعض دفعہ جس انا اور ضد کو کوئی دلیل اور کوئی ثبوت نہیں توڑپاتے انہیں ایک بچے کے آنسو توڑدیتے ہیں۔ شہربانو بھی اس لمحے وہاں اس فٹ پاتھ پر بیٹھے بری طرح ٹوٹی تھی۔ وہ فیصلہ جو عام حالات میں وہ کبھی مرکر بھی نہ کرتی، وہ اس نے مثال کو چپ کروانے کی کوشش میں اپنے سینے کے ساتھ لگاکر کرلیا تھا۔ وہ شیردل کے پاس واپس جانا چاہتی تھی۔
……٭……
گھر میں داخل ہوتے ہی حلیمہ کا سامنا کرتے ہوئے پہلی نظر میں ہی عکس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ یا تو اپ سیٹ تھی یا غصے میں تھی۔
”آپ کو کیا ہوا؟” عکس نے ملازم کو اپنی کچھ فائلز کے حوالے سے ہدایات دینے کے بعد حلیمہ سے کہا۔ اس کا اندازہ تھا شادی کی تیاریوں کے سلسلے میں وہ کسی بات پر ناخوش تھی آج کل وہ اسی کام کے لیے آئی ہوئی تھی۔ فیملی کے باقی لوگوں نے ایک ہفتے تک پاکستان آجانا تھا۔حلیمہ اسے بار بار آفس سے اب چھٹی کرلینے کا کہہ رہی تھی اور وہ مسلسل ٹال رہی تھی وہ شادی سے ہفتوں پہلے چھٹی لے کر نہیں بیٹھ سکتی تھی وہ بھی صرف اس لیے کہ اس پر”روپ” آئے مگر حلیمہ ایک روایتی ماں کی طرح اصرار کررہی تھی۔
”اباکا دماغ خراب ہوگیا ہے۔” حلیمہ نے جواباً بڑی خفگی سے اس سے کہا ۔ عکس نے ہکا بکا ماں کی شکل دیکھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار حلیمہ کے منہ سے ایسی بات سن رہی تھی اور وہ بھی خیردین کے بارے میں۔
”امی کیسی باتیں کررہی ہیں آپ” عکس نے جیسے برامناکر ماں کو ٹوکا تھا۔”کیا کیا ہے نانا نے کہ آپ ایسی بات کررہی ہیں؟” حلیمہ نے اسی خفگی سے اس سے کہا۔
”تم ابا سے بات کرو اور سمجھاؤ۔”
”کیا سمجھاؤں؟” اس نے حیرانی سے پوچھاتھا۔ اس کا خیال تھا شادی کی تیاریوں اور انتظامات کے حوالے سے ہی حلیمہ اور خیردین کے درمیان کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہوا تھا۔ مگر ایسا کون سا اختلاف تھا جس کے بعد حلیمہ خیردین کا دماغ خراب قرار دے رہی تھی۔
”ابا سجاد کے ہاں جاکر انکار کرآئے ہیں۔”حلیمہ نے خفگی سے اسے بتانا شروع کیا۔ عکس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
”کیا انکار کر آئے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”شادی سے انکار کر آئے ہیں۔” حلیمہ اسی انداز میں بولتی رہی۔ اس بار عکس بھونچکا ہوکر رہ گئی تھی۔
”نانا نے سجاد سے رشتہ ختم کردیا میرا؟ ” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں… اور ایبک شیردل کے ماں باپ آئے تھے آج۔ ابا نے ایبک کے ساتھ رشتہ طے کردیا … ذرا سوچو وہ طلاق یافتہ ایک بچی کا باپ ہی ابا کو نظر آیا تمہارے لیے… اور وہ بھی سجاد جیسا اچھا رشتہ چھوڑ کر… اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ ابا کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔” حلیمہ بولتی جارہی تھی اس بات کااندازہ کیے بغیر کہ عکس پر کیا گزررہی تھی۔
”نانا نے شیردل کے ساتھ میرا رشتہ طے کردیا۔” اس نے بے یقینی میں حلیمہ کی بات دہرائی پھر کہا۔”آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے امی۔نانا ایسا کبھی نہیں کرسکتے۔ شیردل کے ماں باپ آئے ہوں گے لیکن نانا نے انہیں انکار کردیا ہوگا۔” اس نے ماں کو سمجھانے سے زیادہ خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔”یہ کیسے ہوسکتا تھا…یہ واقعی کیسے ہوسکتا تھا؟
”مجھے غلط فہمی…میرے سامنے ساری بات چیت ہوئی ہے اور میرے احتجاج کے باوجود ابا نے رشتہ توڑدیا اور ان لوگوں کو شادی کی وہی تاریخ دے دی۔” حلیمہ بہت پریشانی کے عالم میں بول رہی تھی۔
عکس کچھ دیر ماں کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
” اس شادی میں کچھ بھی Honourableنہیں ہے۔ میں تو کبھی شیردل سے شادی نہیں کروں گی۔ ” اس کا انداز دوٹوک تھا۔
”یہی تو… اس لیے تو میں بھی ابا سے کہتی رہی کہ ساری عمر جس خاندان کا لایا ہوا عذاب ہم اٹھااٹھاکر پھرتے رہے کم ازکم اب وہ ہمیں جانے دیں۔ رہنے دو ۔ میری بیٹی کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ موجود ہے تو ہم کیوں کسی طلاق یافتہ سے رشتہ کرتے پھریں۔ ” حلیمہ کا پارہ شاید اب بھی نیچے نہیں آیا تھا۔
”اسی لیے کہہ رہی ہوں تم ابا سے بات کرو… صاف انکار کردو انہیں ۔ تمہاری بات ابا نہیں ٹالیں گے تم ضد پر اڑجاؤ۔ سجاد کے ماں باپ سے میں بات کرلوں گی۔” حلیمہ نے جیسے اسے پوری پلاننگ بتائی۔
”امی میں نانا سے بات کرلوں گی کسی ضد اور پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے، نانا میرے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔ ” وہ کہتے ہوئے وہاں سے اندر چلی گئی تھی ۔یک دم اس کا دماغ جیسے آندھیوں کی لپیٹ میں آیا تھا۔
……٭……
شیردل کچھ دیر کے لیے سانس بھی نہیں لے سکا تھا۔ اس کے سیل فون پر شہربانو کا نام چمک رہا تھا۔ اسے لگا اسے دھوکا ہوا تھا۔
……٭……