”ہاں اس نے کورس نہیں کیا۔ شاید دوسرے یا تیسرے دن ہی وہ واپس چلی گئی تھی۔ شیر دل کا اس کی فیملی میں ہونے والی ایمرجنسی سے کیا تعلق ہے؟ وہ اس کی وجہ سے کیوں اپ سیٹ ہوگا؟” آئلہ اب اس سے پوچھ رہی تھی لیکن وہ اسی طرح بھونچکا اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ عکس کے پاس شیر دل کا فون تھا لیکن وہ سنگا پور میں نہیں تھی… شیر دل کا فون …شیر دل کا فون…اس نے جیسے یاد کرنے کی کوشش کی کہ شیر دل نے اسے سنگا پور سے کس نمبر سے کال کی تھی… اس نے سنگا پور جا کر اسے اپنے ہی فون سے کال کی تھی… دو دن شیر دل اسے اپنے ہی فون سے کال کرتا رہا تھا پھر اس نے دوسرے نمبرزاور کالنگ کارڈاستعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ اسے یہ با ت اس لیے یاد تھی کیونکہ وہ بعض دفعہ شیر دل سے بات نہ کرنے کے فیصلے پر جمے رہنے کے باوجود اس کا فون اس وقت غلطی سے اٹھالیتی تھی جب وہ فون پر کوئی اور نمبر دیکھتی تھی پھر شیر دل کی آواز سن کر وہ فوری طور پر فون بند کردیتی اور اس وقت وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ شیر دل شاید صرف اس سے بات کرنے کے لیے یہ نمبر استعمال کررہا تھا اور جان بوجھ کر کالنگ کا رڈ استعمال کرنا شروع ہوگیا تھا ۔پھر اسے شیر دل کی ای میل یاد آئی جس میں اس نے شہر بانو کو کہا تھا کہ اس کا فون کام نہیں کررہا سو فی الحال وہ فون پر اس سے رابطہ نہ کرے۔
تو فون کام کررہا تھا لیکن عکس پاکستان میں تھی اور اگر وہ پاکستان میں تھی تو… وہ آگے کچھ نہیں سوچ سکی اس کے دماغ میں ایک دم جیسے کوئی جھکڑ چلنے لگا تھا۔ شرمین اور عکس کی بات کب ہوئی تھی؟ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب اسے اب ہر قیمت پر چاہیے تھا۔
آئلہ سے ٹال مٹول کرنے کے بعد اس کے جاتے ہی اس نے شرمین سے جا کر یہی سوال کیا تھا۔ کچھ دیر کے لیے شرمین بھی اسی طرح بھونچکا رہ گئی تھی ۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے…؟اگر وہ پاکستان میں تھی تو شیر دل کا فون اس کے پاس کیسے ہوسکتا تھا…” اس نے بھی ویسی ہی بے یقینی کے عالم میں اس سے کہا۔
”ہوسکتا ہے شیر دل نے اسے دے دیا ہو… وہ ایمرجنسی میں پاکستان جارہی تھی شاید اس کی ضرورت تھی یا کوئی بھی اور وجہ ہوسکتی ہے۔”وہ بہت الجھی ہوئی شرمین کے پاس بیٹھی یہ معماحل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
”لیکن پھر شیر دل نے تم سے جھوٹ کیوں بولا تھا کہ فون خراب ہوگیا۔” شرمین کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
”ممی وہ کبھی مجھے ان حالات میں یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس نے اپنا فون استعمال کے لیے عکس کو دیا تھا… وہ۔”شیر بانوبات کرتے کرتے رک گئی اس کی آواز کانپنے لگی تھی…she had committed the blunder of her life …(اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی)اور اسے اب احساس ہوا تھا… غلطی کسی کو بھی ہوسکتی تھی اور غلط فہمی بھی… شرمین کو بھی… اس نے شیر دل کو اپنی زندگی سے فوری طور پر نکال دینے کا فیصلہ اس ایک فون کال کی وجہ سے کیا تھا… شیر دل کے کسی دوسری عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات… یہ وہ غلطی تھی جس کے لیے وہ شیر دل کو کبھی معاف نہیں کرسکتی تھی… اور اب یوں لگ رہا تھا جیسے اس سے جلد بازی ہوگئی تھی۔
شرمین سے مزید کچھ کہے بغیر شہر بانو نے فون اٹھا کر آئلہ کا نمبر ملایا اور اسے یوسف سے عکس کے سنگا پور سے روانہ ہونے کی تاریخ اور وقت پوچھنے کو کہا۔ آئلہ اس تفتیش پر بے حد حیران ہوئی تھی اور حیرانی سے زیادہ یہ الجھن تھی جس کا وہ شکار تھی لیکن اس نے شہر بانو سے سوال جواب نہیں کیے تھے اور تھوڑی دیربعد دوبارہ کال کرنے کو کہا۔
”میں نے اسے 15 کو کال کی تھی سنگا پور میں رات تھی اس وقت ۔”شرمین نے شہر بانو کو فون رکھتے دیکھ کر اس کے کسی بھی سوال سے پہلے کہا۔ وہ چاہتی بھی تو اس تاریخ کو بھلا نہیں سکتی تھی۔ شہر بانو کو وہاں آئے ابھی چند دن ہی تو ہوئے تھے ۔شہر بانو نے جواب میں کچھ نہیں کہا اس کی چھٹی حس بار بار جیسے کسی خطرے کا اعلان کررہی تھی۔
سٹنگ ایریا میں چپ چاپ مجسموں کی طرح بیٹھی وہ دونوں اس وقت صرف ایک دعا کررہی تھیں کہ ان کی غلط فہمی غلط ہو۔
پندرہ منٹ بعد آئلہ نے فون کیا تھا شہر بانو چند لمحے سفید چہرے کے ساتھ فون سنتی رہی پھر فون رکھتے ہوئے اس نے ستے چہرے کے ساتھ شرمین کو دیکھا۔ اس کی نظروں اور چہرے کے تاثرات سے شرمین کا دل جیسے ڈوبا تھا۔
”وہ 14کو پاکستان چلی گئی تھی۔”زندگی میں آیسی چپ شرمین کو دوسری بار لگی تھی شہربانونے فون رکھ دیا تھا۔ بہت دیر تک وہ دونوں گم صم بیٹھی رہیں پھر شرمین نے جیسے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”تم شیر دل کو صرف ایک کال کی وجہ سے تو چھوڑ کر نہیں آئی تھیں شہر بانو ۔”شرمین نے جیسے اسے یاد دلایا تھا… اس نے نظر اٹھا کر ماں کو دیکھا۔
لیکن میں نے اس سے طلاق صرف اسی ایک کال کی وجہ سے لی تھی۔” اس کے حلق سے ایک سرسراتی ہوئی آواز نکلی تھی۔
……٭……
”چڑیا؟”وہ خیر دین کی آواز پر ہڑ بڑا کر چونکی تھی۔”تم ابھی تک سوئی نہیں؟” خیر دین تہجد کے لیے جاگا تھا جب گھر میں ہونے والی آہٹوں پر اپنے کمرے سے اٹھ کر باہر آگیا۔ وہ عکس تھی جو رات کے پچھلے پہر راہداری کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتے ہوئے وہاں ٹہل رہی تھی او رکسی گہری سوچ میں گم تھی اس نے نہ خیر دین کے کمرے کے دروازے کے کھلنے کی آواز سنی تھی نہ ان کے باہر نکلنے کی۔ وہ راہداری کے چکر لگاتے ہوئے میکانکی انداز میں وقفے وقفے سے قد آدم کھڑکیوں سے باہر لان میں جلتی لائٹ میں نظر آنے والے پودوں کودیکھ رہی تھی۔
”میں بس سونے جارہی تھی۔” اس نے خیر دین کے سوال کے جواب میں بے حد عجلت سے کہا اور رکے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ خیر دین وہیں کھڑا رہا وہ پہلی رات نہیں تھی جب اس نے عکس کو راتوں کو اٹھ اٹھ کر گھر میں پھرتے اور اس راہداری میںٹہلتے دیکھا تھا۔ وہ پچھلے چند دنوں میں کئی بار عکس کو اسی طرح رات کے پچھلے پہر گھر میں پھرتے دیکھ چکا تھا ۔وہ بے چین، مضطرب اور اداس تھی… اور اسے خیر دین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی… خیر دین کے دل پر عجیب سا بوجھ دھرا تھا اسے بعض دفعہ اسے لگتا تھا کہ وہ اس سے کچھ کہنے رات گئے وہاں آتی تھی اور پھر اس کے کمرے میں جانے کی ہمت کیے بغیر وہیں ٹہلتی رہتی تھی۔ وہ ایسی ہی تھی ۔بچپن سے ہی ایسی تھی … اکیلی پھرتی… اکیلی کھیلتی… اکیلی جاگتی… خود سے باتیں کرتی… پر وہ بچپن تھا اور بچپن کی تنہائی بڑوں کو تنگ نہیں کرتی۔
”تمہیں مجھ سے کچھ کہنا ہے کیا چڑیا؟” صبح آفس جاتے ہوئے ناشتے کی میز پر خیر دین نے عکس سے کہا ،وہ چونک گئی۔
”مجھے؟ نہیں تو…؟”
”پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگتاہے جیسے تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو اور اگر تم کچھ کہنا چاہتی ہو تو مجھ سے کہہ دو چڑیا، میں تمہاری بات سنوں گا … میں تمہاری کوئی بات نہیں ٹالوں گا۔” پتا نہیں وہ کون سا لمحہ تھا جس میں خیر دین نے چڑیا کی خوشی کے سامنے ہار مان لی تھی لیکن وہ اپنی زبان سے یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کررہا تھا کہ وہ شیر دل سے چڑیا کی شادی کرنے پر تیار ہے۔
”مجھے کچھ بھی نہیں کہنا نانا… اور جو کہنا ہوتا ہے میں کہہ دیتی ہوں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں میں کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھتی۔” توس پر مکھن لگاتے ہوئے اپنے ہی آخری جملے پر اس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔ وہ جھوٹ تھا اور یہ بات وہ دونوں جانتے تھے… عکس مراد علی سے زیادہ بہتر راز رکھنا کسی کو نہیں آتا تھا۔
”آپ مجھ سے کیاجاننا چاہتے ہیں؟” خیر دین کے پاس اس سوال کا جواب تھا لیکن بتادینے کی ہمت نہیں۔
……٭……
ساتواں آسمان ان کے سر پر آگرتا تو انہیں اتنا شاک نہ لگتا جتنا شیر دل کی بات پر لگا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں۔ وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا… منزہ اور بختیار ابھی کچھ دیر پہلے ہی کسی ڈنر سے واپس آئے تھے اور وہ ابھی لاؤنج میں بیٹھی اس کے ابھی تک گھر نہ آنے پر کچھ مضطرب سی ہو کر اسے کال کررہی تھیں جب وہ اندر آگیا تھا۔
”تم صبح سے کہاں غائب ہو شیر دل؟”منزہ کو یک دم جہاں اطمینان ہوا تھا وہاں ایک عجیب سی بے چینی بھی۔
”آپ کو بتا کر گیا تھا ممی کہ مجھے کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔” وہ کہتے ہوئے وہیں صوفے پر ان کے پاس بیٹھ گیا اور پھر بغیر کسی تمہید کے اس نے جو بات منزہ سے کہی اب وہ اسی بات کو سن کر شاید اس کی شکل دیکھ رہی تھیں۔
”تم نے کیا کہا؟” انہیں یک دم احساس ہوا کہ انہیں غلطی بھی ہوسکتی تھی ضروری تھا کہ وہ اس سے ایک بار پھر سوال کرلیتیں۔
”میں نے آپ سے کہا کہ آپ اور پاپا عکس کے نانا کے پاس جا کر اس سے میرے رشتے کی بات کریں۔’ ‘ شیر دل نے اپنی بات دہرادی۔ منزہ نے اب بھی وہی سنا تھا جو پہلے سنا تھا۔ ان کا دل یک دم جیسے ایک عجیب سی خوشی سے بھر اتھا۔ وہ بیٹھے بٹھائے اس بات پر کیسے مان گیا تھا ۔وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھیں لیکن انہوں نے سارے سوالات کو فوری طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”تم کب چاہتے ہو کہ ہم عکس کے گھر جائیں؟”
”کل ہی چلے جائیں۔” شیر دل نے اسی انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے… لیکن تم نے عکس سے بات کی ہے؟اس سے پوچھ لیا ہے؟ ”منزہ کو جیسے کسی خدشے نے ستایا۔
”ضرورت پڑی تو پوچھ لوں گا… فی الحال تو ضرورت نہیں ہے… عکس کو کسی بات پر اعتراض ہوا بھی تو اس کے نانا اسے منالیں گے… میں بس چاہتا ہوں آپ کل جا کر ان سے رشتے کی بات کریں۔” شیر دل اسی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”میں کرتو لوں گی لیکن شاید تمہیںیہ نہیں پتا کہ عکس کی جواد سے منگنی ٹوٹنے کے بعد ایک اور منگنی ہوچکی ہے اور اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہیں، ایسے میں وہ تمہارے رشتے پر کیسے رضامند ہوگی؟” منزہ نے اپنی تشویش جیسے اس کے ساتھ بانٹی…
”آپ وہاں جا کر رشتے کی بات کریں، یہ سب کچھ بعد میں دیکھا جائے گا۔”وہ اٹھ کر چلا گیا تھا۔ پتا نہیں منزہ کو کیوں ایسا لگا کہ وہ عکس سے مل کر آیا تھا اور یقینا اسے رشتے پر آمادہ کر آیا تھا… لیکن چند دنوں میں اس کی یہ کایاکلپ کیسے ہوگئی تھی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔ لیکن وہ بے انتہا خوش تھیں اور خوش ہونے سے بھی زیادہ وہ مطمئن تھیں۔ آج انہوں نے ایک بار پھر شیر دل کو ایک نارمل انسان کی طرح ایک نارمل زندگی کی بات کرتے دیکھا تھا اور کسی نے ان کے کندھوں سے جیسے منوں بوجھ اتار دیا تھا۔
……٭……
”کیا چاہیے تمہیں؟”
”کچھ نہیں…” شہر بانو نے ساتھ چلتی مثال کو دیکھا۔ مثال کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت میں ضرور تھا لیکن وہ مکمل طور پر اس سے بے نیاز سائڈ واک پر دکانوں کی کھڑکیوں میں سجی چیزیں دیکھتی اور کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کیے بغیر چل رہی تھی۔ شہر بانو کو یاد تھا کہ وہ پہلے ایسی نہیں تھی، صرف کچھ مہینے پہلے جب وہ اور شیر دل اسے لیے کسی شاپنگ والی جگہ پر جاتے تو مثال کو جیسے کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ شاپنگ اسٹورز میں پڑا ہر کھلونا اور ہر کھانے پینے کی چیز اٹھا کر گھر لے جائے۔ وہ ہر کھلونا اور ہر کھانے پینے کی چیز اٹھا کر، شہر بانو اور شیر دل کو باقاعدہ بحث سے قائل کرنے کی کوشش کرتی تھی کہ اسے اس کھلونے اور چیز کی کتنی اشد ضرورت تھی۔ شہر بانو کوتب اس کے ساتھ دماغ کھپانانہیں پڑتا تھا،اس کام کے لیے شیر دل تھا۔ مثال کو سنبھالنا اور اس کی بحث کو سننا اس کی ذمے داری ہوتی تھی۔ وہ پچھلے چند مہینوں میں امریکا آنے کے بعد بالکل بدل گئی تھی۔ شہر بانو کو اب اسے زبردستی کھلونے یا کھانے پینے کی چیزوں کی طرف متوجہ کرنا پڑتا … زبردستی کھلونے خرید خرید کر تھمانے پڑتے جنہیں مثال عدم دلچسپی اور عجیب بے حسی کے عالم میں پکڑتی اور چل پڑتی تھی،ایک بچے والی خوشی اور ایکسائٹمنٹ اس کے چہرے یا انداز میں کبھی نہیں جھلکتی تھی ۔ اس کی ضدوں کی نوعیت اور محور اب بدل گئے تھے۔
آج شہر بانو نے کئی دنوں کے بعد اسے ساتھ لے کر آؤٹنگ کے لیے آنے کا ارادہ کیا تھا، وہ جیسے بار بار مثال کے ساتھ اپنے شکست وریخت کے شکار رشتے کو بحال کرنے کی کوشش کررہی تھی اور یہ عجب صبرآزماکام تھا۔
”مثال تمہیں کیا چاہیے؟” شہر بانو نے جیسے ڈھیٹ بنتے ہوئے کوئی دسویں بار وہ سوال کیا تھا۔
”Nothing ” جواب اسی بیزاری اور روکھے پن کے ساتھ دیا گیا تھا جس کے ساتھ پہلے جواب آتے رہے تھے۔
”آئس کریم کھاتے ہیں ابھی! ” شہر بانو نے اس کی رکھائی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ مثال نے انکار یا اقرار دونوں نہیں کیے تھے… جیسے کہہ رہی ہو… آپ کی مرضی۔