عکس — قسط نمبر ۱۵

وہ اپنی اداسی کی وجہ خود بھی سمجھ نہیں پارہی تھی۔ کس چیز نے بے چین کررکھا تھا اسے… اس پروپوزل کے آنے یا اس پروپوزل کے ریجیکٹ ہوجانے نے…
”بس ممی نہیں مانتیں… وہ مان جائیں ناں تو تم سے شادی کا پہاڑ بھی سر ہوجائے۔” کئی سال پہلے ایک بار ایبک شیر دل نے اس کے سامنے منزہ کو منانے میں بار بار ناکام ہونے کے بعد اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا۔
”تم ممی کو منانے کی کوشش کر ہی کیوں رہے ہو… وہ مان بھی جائیں تو نکاح نامے پر ان کے نہیں، میرے دستخط چاہیے ہوں گے تمہیں شادی کے لیے۔” عکس نے اس کی بات سے ہونے والی تکلیف کو مسکراہٹ کے بہت سارے پردوں میں لپیٹتے ہوئے کہا۔
”تم تو مان جاؤگی…” شیر دل نے عجیب بے پروائی سے کہا تھا۔
”خوش فہمی ہے تمہاری… مجھے تم سے شادی میں دلچسپی نہیں ہے… تمہاری ممی ،پاپا مان بھی جائیں تو بھی… اس لیے بہتر ہے کہ تم ان کی نظروں میں اپنا امیج خراب مت کرو… تمہاری کزن شہر بانو زیادہ سوٹ ایبل ہے تمہارے لیے… تم اس کے بارے میں سوچو۔” اس نے شیر دل سے دوٹوک انداز میں کہا تھا۔
”اب اگر میں نے تمہیں یہ بتادیا ہے کہ صدیوں بعد ایک کزن دریافت کرلی ہے میں نے امریکا میں تو اس کا یہ مطلب نہیں تم اس سے میرا رشتہ جوڑنے بیٹھ جاؤ۔” شیر دل فون پر اس سے بات کرتے ہوئے برا مان گیا تھا۔
”تم چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ پھرتے ہو اور…” شیر دل نے عکس کی بات کاٹی۔




”چوبیس گھنٹے…؟ ہم ایک اپارٹمنٹ شیئر کررہے ہیں یار… اور تم کیا جیلس ہورہی ہو؟”
”کس بات سے جیلس ہونا ہے میں نے۔” وہ ہنس پڑی۔”شہر بانو سے…I really like her Sherdil۔”
”کیوں…؟” ایک لمحے کے لیے اس اچانک آجانے والے سوال کا جواب اسے نہیں آیا۔
”وجہ ضروری تونہیں ہوتی کسی کو پسند کرنے کے لیے۔” اس نے بالآخر سنبھل کر کہا۔
”تم شہر بانو میں بہت Interest لیتی ہو۔” شیر دل نے اگلے تبصرے سے ایک بار پھر اسے لاجواب کیا۔
”تم interest نہیں لے رہے اس میں کیا؟” عکس نے جواباً کہا۔
”میں ہر لڑکی میں لیتا ہوں۔” شیر دل نے ڈھٹائی سے کہا۔
”صرف اسی وجہ سے میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔” عکس نے اسی انداز میں کہا۔
”تم سے شادی کے بعد کسی میں نہیں لوں گا۔” شیر دل نے بے ساختہ کہا۔
”میں نہیں چاہتی تم اتنی بورنگ لائف گزارو۔ شہر بانو…” شیر دل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یار میں اس کا اتنا ذکر نہیں کرتا جتنا تم کرنے لگی ہو… آخر تم کیوں چاہتی ہو کہ میں اس سے شادی کرلوں اگر تمہارے علاوہ ہی کسی سے شادی کرنی ہے تو پھر میرے پاس بھی کچھ اور options ہیں۔”
”ان options میں کوئی آپشن شہر بانو جیسا اچھا نہیں ہے۔”
پتا نہیں اسے آج وہ سب کچھ کیوں یاد آنے لگا تھا۔باربی ڈول اب بھی اس کے دل کے کسی کونے میں سمائی ہوئی تھی جیسے ایبک شیر دل … چڑیا کے لیے ان دونوں کی محبت سے دامن چھڑانا بہت مشکل تھا۔
وہ اور شیر دل امریکا میں اس کے قیام کے دوران آپس میں رابطے میں تھے۔ شہر بانو سے تعارف ہونے سے لے کر شہر بانو کے ساتھ گزارے جانے والا کوئی ایسا وقت اور سرگرمی نہیں تھی جس کا ذکر اس نے عکس سے نہ کیا ہو۔ یہ راز بھی اس نے اپنی فیملی سے بھی پہلے عکس ہی کے ساتھ شیئر کیا تھا کہ شہر بانو اس کے اکلوتے ماموں شہباز حسین کی بیٹھی تھی
جس سے وہ ایک طویل مدت کے بعد متعارف ہوا تھا… اور وہ پہلا موقع تھا جب عکس نے شیر دل سے شہر بانو کی تصویر ای میل کرنے کے لیے کہا تھا…وہ باربی ڈول کو دیکھنا چاہتی تھی… اتنے سالوں کے بعد ہی بھی اسے یاد تھا وہ کس طرح بے قراری سے صرف اس سے بات کرنے کے لیے اس کی کلاس کے چکر لگاتی رہی تھی… بچپن کی اچھی اور بری کوئی یاد عکس کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی تھی۔
شیر دل نے اسے شہر بانو کی صرف ایک تصویرای میل نہیں کی تھی بہت ساری کردی تھیں۔ چڑیا اتنے سالوں بعد بھی باربی ڈول کو دیکھ کر اس سے نظر نہیں ہٹا سکی تھی… وہ آج بھی سحر زدہ کرنے والے حسن کی مالک تھی اور چڑیا آج بھی اس پر اسی طرح دل وجان سے فدا ہوئی تھی جس طرح بچپن میں۔ وہ بہت سی تصویروں میں شیر دل کے بہت قریب تھی… کسی میں اس کا بازو تھامے، کسی میں ہاتھ…کسی میں شیر دل کے برابر بالکل ساتھ بیٹھی ہوئی… کوئی بھی ان تصویروں پر نظر ڈالتے ہی یہ جان جاتا کہ تصویروں میں نظر آنے والے جوڑے کے درمیان صرف دوستی نہیں تھی۔ شیر دل نے جان بوجھ کر اسے اپنی اور شہر بانو کی ایسی تصاویر بھیجی تھیں جنہیں دیکھ کر عکس کو تھوڑا بہت حسد تو ضرور ہوجاتا مگر اس پر الٹا اثر ہوا تھا۔ شیر دل اب جیسے اس کے لیے وہ candy بن گیا تھا جو باربی ڈول کو پسند تھی اور چڑیا وہ candy بار بی ڈول کو ہر قیمت پر دلانا چاہتی تھی اور اس نے باربی ڈول کو دلادی تھی۔

٭٭٭
منزہ اس وقت گھر سے کہیں جانے کے لیے نکل رہی تھیں جب آپریٹر نے انہیں عکس کی کال کے بارے میں بتایا ۔ایک دن پہلے خیر دین کے صاف اور دوٹوک انکار کے بعد بھی وہ عکس کی کال پر ایک دم ایکسائٹڈ ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اسی ایکسائٹمنٹ میں آپریٹر کو کال بند کرنے کا کہا اوراپنے بیڈ روم میں جا کر اپنے سیل فون سے عکس کو کال کی۔
”بیٹا تم اگر کال نہ کرتیں تو میں ہی تمہیں کال کرنے والی تھی۔” عکس کی آواز سنتے ہی انہوں نے چھوٹتے ہی اس سے کہا تھا۔
”تمہارے نانا نے تمہیں بتایابیٹا کہ میں نے ان سے تمہارے اور شیر دل کے رشتے کی بات کی ہے۔”
”میں شیر دل سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ ”اس نے منزہ کا پہلا جملہ سنتے ہی سنجیدہ آواز میں انہیں ٹوک دیا۔”اور میں چاہتی ہوں آپ میرے نانا سے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہ کریں۔” انہیں چند لمحے سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس کی بات کے جواب میں کیا کہیں۔ انہوں نے خیر دین سے انکار سنا تھا لیکن انہیں عکس سے انکار کی توقع نہیں تھی۔
”میں بہت خلوص سے تمہیں اپنی فیملی کا حصہ بنا کر شیر دل کی زندگی میں لانا چاہتی ہوں۔”منزہ نے بالآخر کہا۔”شیر دل اس وقت بہت مشکل وقت سے گزررہا ہے تمہارا ساتھ اسے مل جائے گا تو…”عکس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی۔
”آنٹی میں ایک دوست کے طور پر شیر دل کی مدد کرسکتی ہوں۔ اس کے لیے مجھے اور اسے آپس میں کوئی نیا رشتہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے اور اس کے درمیان محبت والا رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور میں اس رشتے کو بس یہیں تک رکھنا چاہتی ہوں۔ آپ نانا سے دوبارہ اس سلسلے میں بات مت کریں کیونکہ وہ میرے لیے بہت upsetting ہے۔” اس کے لہجے میں اتنی قطعیت تھی کہ منزہ جواباً کچھ نہیں کہہ سکیں… زندگی واقعی بڑی عجیب اور بے رحم چیز ہوتی ہے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی ایسے کسی خاندان کی لڑکی کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے گڑ گڑائیں گی اور وہ انکار کردے گی… انکار تو ہمیشہ ان کا اور ان کے خاندان کا استحقاق رہا تھا… کسی کمتر خاندان والے کو کیسے مل جاتا۔
”تم شیر دل سے اس کا ذکر مت کرنا۔” منزہ نے ایک دم بے قراری سے کہا۔ انہیں اچانک ہی یاد آگیا تھا کہ کچھ ایسی ہی گفتگو چند دن پہلے شیر دل نے بھی ان سے کہی تھی لیکن انہوں نے اس کی گفتگو کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خیر دین سے بات کی تھی۔ ہاں آلبتہ انہیں اگر اس دفعہ ٹینشن کم تھی تو صرف اس وجہ سے کم تھی کیونکہ انہوں نے خیر دین سے بات کرنے سے پہلے بختیار سے بات کرلی تھی اور بختیار کی اجازت ملنے کے بعد ہی انہوں نے خیر دین سے رابطہ کیا تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں، میں شیر دل سے اس معاملے میں کوئی بات نہیں کروں گی۔” ان کے جملے نے عکس کے اس اندازے کی تصدیق کی تھی جو اس نے پہلی رات لگایا تھا۔ شیر دل اس سارے معاملے سے بالکل بے خبر تھا۔ منزہ نے اس سے مزید بات نہیں کی تھی۔ اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے وہ اتنی بد دل ہوئی تھیں کہ انہوں نے چند اختتامی کلمات کے ساتھ فون بند کردیا تھا۔
……٭……
”مجھے بڑا فسوس ہوا تم لوگوں کی seperation کا سن کر… آئیڈیل کپل تھا تم لوگوں کا… آخر ایسا کیا ہوا کہ اس طرح ہفتوں میں divorce ہوگئی۔” آئلہ کو واقعی بہت افسوس ہوا تھا لیکن شہر بانو کے لیے وہ سب کچھ سننا ایک عجیب تکلیف کا باعث بن گیا تھا۔
آئلہ، شیر دل کے ایک بیچ میٹ یوسف کی بیوی تھی ۔وہ ان چند عورتوں میں سے تھی جن کے ساتھ شہر بانو کی بہت اچھی علیک سلیک ہی نہیں تھی بلکہ کسی حد تک بے تکلفی بھی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آئلہ خود بھی امریکا میں ہی پلی بڑی تھی۔ شہر بانو اور اس کے درمیان اسی ایک common connection (باہمی تعلق)نے بے تکلفی پیدا کردی تھی۔
وہ اب اپنے ایک بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے امریکا آئی تھی تو شہر بانو سے فون پر بات کرنے کے بعد وہ اس سے ملنے بھی چلی آئی۔
”میں نے تم سے اس سارے جھگڑے کا پتا چلنے پر بہت دفعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تم فون ہی نہیں لیتی تھیں۔”آئلہ کہہ رہی تھی۔
”ہاں،میں بہت اپ سیٹ تھی ان دنوں اس لیے۔” شہر بانو نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”یوسف سنگاپور میں شیر دل کے ساتھ کورس کررہا تھا، اسی نے وہاں سے واپس آنے کے بعد مجھے بتایا کہ شیر دل اور تمہارا کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ شیر دل وہاں بھی بڑا اپ سیٹ تھا اس نے یوسف سے کسی بات پر ذکر کیا تھا تم نے شاید تب اس سے بات کرنا بند کردی تھی۔” آئلہ کی بات پر شہر بانو کو غصہ آیا۔
”اوہ تو وہ مجھے ہر جگہ بد نام کرتا پھررہا ہے اور میں سمجھتی تھی کہ وہ ایک ذاتی ایشو کو لوگوں کے ساتھ ڈسکس نہیں کرے گا۔” آئلہ اس کے رد عمل پر حیران ہوئی۔ وہ پہلی بار شہر بانو کو اس طرح ری ایکٹ کرتے دیکھ رہی تھی اور وہ جیسے کچھ محتاط ہوگئی تھی۔
”نہیں، شیر دل کچھ اپ سیٹ تھا اسی لیے یوسف نے پوچھا ہوگا تو اس نے ذکر کیا لیکن اس نے details نہیں بتائی تھیں۔ یوسف کورس کرنے کے بعد واپس آیا۔ تب اس نے مجھ سے ذکر کیا کہ شیر دل بہت اپ سیٹ رہا ہے پورے کورس کے دوران… اس کے اور شہر بانو کے درمیان کوئی جھگڑا چل رہا ہے شاید… میں نے تب بھی سوچا تھا کہ تم سے بات کروں لیکن یوسف نے منع کر دیا کہ یہ مناسب بات نہیں ہے۔” آئلہ نے اس بار جیسے اسے تفصیلات دینے کی کوشش کی… وہ لاشعوری طور پر شیر دل کی پوزیشن بھی کلیئر کرنے کی کوشش کررہی تھی اور شہر بانو کویہ نوٹس کررہی تھی۔
”شیر دل میری وجہ سے اپ سیٹ نہیں ہوگا وہ اگر اپ سیٹ ہوگا تو عکس کی وجہ سے ہوگا۔” وہ عکس کا نام نہیں لینا چاہتی تھی اور اب تو بالکل بھی نہیں… جو ہونا تھا…ہوگیا تھا… گزر چکا تھا… اب ایسے ذکر اور الزام تراشی کا کیا فائدہ ہونا تھا… وہ کسی پر کیچڑ اچھالنا نہیں چاہتی تھی جس کے چھینٹے اس کے اپنے دامن تک آتے لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں وہ عکس کا نام لیے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”عکس …؟عکس مراد علی؟” آئلہ نے جیسے کچھ حیران ہو کر اس سے پوچھا۔”اس کی فیملی میں ہونے والی ایمر جنسی کی وجہ سے وہ کورس چھوڑ کر چلی گئی تھی؟” آئلہ کو اب بھی شہر بانو کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ اس نے اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے ایک اندازہ لگایا جو شہر بانو نے اس کو پوچھنے کے لیے دی تھی۔
شہر بانو نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا۔”عکس کو رس چھوڑ کر چلی گئی تھی؟ آئلہ نے سر ہلا تے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!