عکس — قسط نمبر ۱۵

زندگی میں ایک گولی ایسی بھی ہونی چاہیے جسے کھانے کے بعد انسان اس شخص ،چیز اور یاد کو فوری طور پر بھول جائے جسے وہ بھولنا چاہتا ہے… آپ اسے کھاکر سوئیں اور جاگیں تو آپ کے پورے وجود اور ذہن کے سسٹم میں سے صرف وہ شخص ،وہ چیز وہ یاد نکل چکی ہو جس سے آپ جان چھڑانا چاہتے ہوں۔ جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔
ہر روز صبح بستر میں آنکھیں کھولنے کے بعد جو پہلا خیال اور پہلا تصور شیر دل کے ذہن اور آنکھوں میں آتا تھا وہ مثال اور شہر بانو کا ہوتا تھا۔ اتنے مہینوں کے بعد بھی کوئی ایک دن ایسا نہیں تھا جب اس کے دن کا آغاز کسی اور خیال سے ہوا ہو…ہزیمت ذلت، تکلیف اور صدمے کی ایک عجیب سی کیفیت تھی جس سے وہ صبح سویرے گزرتا تھا۔




وہ کمزور اعصاب کا مالک نہیں تھا ۔وہ کبھی کمزور اعصاب کا مالک نہیں رہا تھا لیکن جو کچھ ہوا تھا اس نے اسے عجیب انداز میں traumatized کیا تھا ۔وہ پچھلے کتنے سالوں سے اپنی زندگی شہر بانو اور مثال کے ساتھ گزار رہا تھا وہ دونوں اس کے شعور اور لاشعور دونوں کا حصہ تھیں اور ان کا اس طرح غائب ہوجانا…
وہ ہر روز بیٹھ کر اپنے آپ کو ان تمام واقعات کی توجیہات دیا کرتا تھا… کیا چیز کیوں ہوئی اور پھر یہ سوچتا تھا کہ وہ کون سی چیز کرتا یا نہ کرتا تو یہ سب نہ ہوتا… شہر بانو سے اسے محبت تھی… اب کیا تھا؟ وہ نہیں جانتا تھا… نفرت وہ اس سے نہیں کرسکتا تھا… محبت کرنے کے قابل وہ اب اسے سمجھتا نہیں تھا… غصہ اسے اس پر بے تحاشا آتا تھا اور اس کے ساتھ وہ خود بھی
یاد آتی تھی…رات اور دن کے بہت سے پہروں میں… اپنی بہت ساری باتوں اور عادتوں کی وجہ سے… ان اوقات میں جب مثال اسے وقتی طور پر بھولتی۔
شک شہر بانو کے مزاج کا حصہ نہیں تھا ۔کم از کم شیرد ل کو اس سے یہ شکایت کبھی نہیں رہی تھی… بد اعتمادی اور بدگمانی کی عادت بھی اسے نہیں تھی… وہ بد مزاج اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے اور لڑنے جھگڑنے کی بھی عادی نہیں تھی… شادی سے پہلے اگر اس کی چند چھوٹی موٹی عادتوں پر شیر دل کو خفگی محسوس ہوتی تھی تو شادی کے ان پانچ چھ سالوں میں شہر بانو میں وہ عادتیں بھی نہیں رہی تھیں۔ وہ کاغذ پنسل لے کر بیٹھتا تو اسے شہر بانو کی خامیاں اور عیب ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا… بالکل اسی طرح جس طرح شہر بانو کے لیے شیر دل میں عیب ڈھونڈنا مشکل تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو اس سے پہلے کبھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ کبھی ہرٹ نہیں کیا تھا اور شاید اسی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔
شہر بانو حساس تھی ضرورت سے زیادہ حساس تھی صرف یہ ایک چیز تھی جسے شیر دل کبھی اس کی personality میں سے دور نہیں کرسکا تھا …لیکن اس نے شہر بانو کو اس کی اس خامی اور عادت کے ساتھ قبول کیا تھا… وہ اس کے ماضی کی تلخ یادوں سے واقف تھا اور اسے یقین تھا وہ اپنی محبت اور ساتھ سے اس کے اندر موجود عدم تحفظ کا ہر احساس نکال دے گا… لیکن جو کچھ ہوا تھا … ایک مرد کے طور پر وہ یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ اس کے اور شہر بانو کے بیچ میں عکس کے لیے اس کے جذبات اور محبت مسئلہ بنی تھی۔
عکس وہ پہلی اور واحد عورت نہیں تھی جس کے بارے میں وہ شہر بانو سے بات کرتا تھا۔ اس کا حلقہ احباب عورتوں سے بھرا ہوا تھا…” اس کی اندرون ملک اور بیرون ملک کزنز، کالج یونیورسٹی فرینڈز ،کولیگز… اس کے حلقہ احباب میں بہت پرانی فرینڈز بھی تھیں۔ شہر بانو کو کبھی کسی کے ساتھ مسئلہ نہیں ہوا تھا… صرف عکس کے لیے پسندیدگی رکھنا… اور وہ اس پسندیدگی اور محبت کا کچھ نہیں کرسکتا تھا… کرسکتا تو کرلیتا… وہ عکس کے لیے اپنے جذبات کے سامنے بے بس تھا بالکل اسی طرح جس طرح وہ یہ سب ہوجانے کے باوجو د بھی شہر بانو سے نفرت کرنے اور اسے یاد نہ کرنے میں بے بس تھا۔
شہر بانو کا خیال تھا کہ عکس اس کی ازدواجی زندگی تباہ کرنے کا باعث بنی تھی اور شیر دل کا خیال تھا یہ کام شہباز حسین اور اس کی اپنی ماں نے اس کے لیے کیا تھا اور اب منزہ اس کے سامنے وہ option لے کر آگئی تھی جس کے بارے میں وہ سوچنا تک نہیں چاہتا تھا۔ بعض دفعہ ا س کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ منزہ پر غصہ کرے، ترس کھائے یا افسوس کرے۔وہ اپنی خود غرضی میں اسے بار بار کچوکے دے رہی تھیں اور خود بھی درد سے بے حال ہورہی تھیں۔ خود غرضی کا اس سے زیادہ گھناؤنا چہرہ ایبک شیر دل نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
منزہ کی اس گفتگو کا اس پر ان کی توقعات کے بر عکس اثرہوا تھا۔ اس نے عکس کو اگلے تین چار دن کوئی میسج اور کال نہیں کی وہ جیسے یہ طے کر بیٹھا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس mess کو عکس مراد علی تک نہیں پہنچنے دے گا۔
……٭……
عکس نے بھی اسے کوئی کال نہیں کی تھی… خیر دین کے الفاظ اور ان میں چھپی تنبیہہ سے زیادہ ان کی بد اعتمادی نے اسے اس قدر ڈسٹرب کیا تھا کہ اس نے شیر دل سے دوبارہ رابطہ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن یہ کام بہت مشکل تھاخاص طور پر اب جب وہ شیر دل کی حالت دیکھ آئی تھی۔ وہ چند دن تک خود پر پہرے بٹھاتی رہی تھی لیکن اس کے بعد اسے text کیے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس میسیج کا جواب نہیں آیا تھا۔ ایک لمبے انتظار کے بعد اس نے ایک اور میسج کیا پھر ایک اور… دوسری طرف مکمل خاموشی تھی اور اس خاموشی نے عکس کو عجیب انداز میں مضطرب کیا۔ اس نے اس بار شیر دل کو کال کی تھی۔ سیل فون ایک بار پھر آف تھا۔ اس نے اگلی کال اس کے گھر کے لینڈ لائن پر کی تھی۔ آپریٹر نے اسے پہلی بار والا جواب دیا۔ اس نے شیر دل کے علاوہ گھر میں موجود کسی دوسرے شخص سے بات کروانے کے لیے کہا اور ایک بار پھر لائن پر منزہ ہی آئی تھیں اور ایک بار پھر عکس ہلکا سا پچھتائی، اس کے باوجود کہ وہ پچھلی بار ان کے غیرمعمولی اور غیر متوقع اچھے سلوک سے حیران رہ گئی تھی۔
”ویسا ہی ہے کچھ بہتری نہیں آئی۔ تمہارے جانے کے بعد ایک دن کچھ بہتر رہا لیکن کل پھرpanic attack کے بعد سارا دن کمرا بند کیے بیٹھا رہا ہے۔” منزہ نے سلام دعا کے بعد شیر دل کا حال پوچھنے پر اسے بتایا ۔بات کرتے کرتے ان کی آواز بھرا گئی تھی۔
”بیٹا! میں نے تم سے کہا تھا کہ تم اس سے بات کیا کرو… اسے سمجھاؤ… تمہاری بات کو تو بڑی ویلیو کرتا ہے… اس کی زندگی میں تمہاری بڑی importance ہے۔” عکس نے ان کے ان تمام جملوں کو نظر انداز کردیا تھا۔ وہ بہت بے معنی اور کھوکھلا خراج تحسین تھا جو وہ اس کے اور شیر دل کے تعلق کو بالآخر پیش کررہی تھیں۔ عکس کو اب ایسے کسی اعتراف کی ضرورت نہیں تھی۔
”بات میں تب کرسکتی ہوں آنٹی جب وہ فون آن رکھے اور فون اٹھائے۔” اس نے مدھم آواز میں منزہ کو اپنا مسئلہ بتایا۔
”پتا نہیں اسے کیا ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہا ہے پہلے سے بہتر ہے وہ، اس نے میڈیسن بھی کم کردی ہے اس کی …لیکن وہ اب بھی فون پر کسی سے بات نہیں کرتا… موڈ ہوگا بات کرلے گا پھر کسی نہ کسی بات پر خفا ہو کر بات کرنا بند کردیتا ہے۔ میری تو بالکل کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” وہ واقعی بہت بے بسی کی حالت میں تھیں۔
”آپ کوشش کریں وہ دوبارہ آفس جوائن کرے… اس کا ذہن کام کی وجہ سے بٹے گا۔” عکس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ وہ اس صورت حال کو سمجھ پارہی تھی جس میں منزہ پھنس گئی تھیں۔
لیکن منزہ کی طرح خود اسے بھی اس مسئلے کا حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔منزہ ماں تھیں اور شیر دل کے قریب تھیں پھر بھی اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکتی تھیں اس کے لیے یہ دونوں ہی آسانیاں نہیں تھیں۔
اس شام وہ پھر الجھی ہوئی واپس گھر آئی تھی اور خیر دین سے اس کا اضطراب چھپا نہیں رہا تھا۔ اس کے سوال وجواب کو وہ ٹال گئی۔وہ اس رات بھی دیر تک جاگتی شیر دل کے لیے فکر مند ہوتی رہی اس کی تکلیف اور پریشانی اب آہستہ آہستہ جیسے اس کے اپنے اعصاب کو مضمحل کرنے لگی تھی… اور حل… حل کہیں نہیں تھا کسی کے پاس نہیں تھا… کم از کم حل وہ نہیں تھا جو منزہ نے چند دن بعد خیر دین کو فون کر کے نکالا تھا… اور جس نے خیر دین کو بری طرح سے بر انگیختہ کیا تھا۔
”شیر دل کی ماں نے فون کیا تھا آج مجھے۔” منزہ سے ہونے والی اس گفتگو کے تین یا چار دن بعد کی بات تھی جب وہ ویک اینڈ پر صبح بہت دیر سے اٹھ کر آئی تھی۔ پچھلی ساری رات وہ چیف منسٹر کے کسی وزٹ کی وجہ سے مصروف رہی تھی اور اس کی گھر واپسی بھی فجر سے کچھ پہلے ہوئی تھی۔
چائے کا کپ اٹھاتے اٹھاتے وہ رک گئی۔ خیر دین سے اس کی ملاقات پچھلی رات نہیں ہوئی تھی۔ ابھی ابھی ہوئی تھی۔ اسے فوری طور پر سمجھ نہیں آیا ۔منزہ نے خیر دین کو پچھلی رات کال کی تھی یا آج صبح ۔وہ سوالیہ نظروں سے خیر دین کو دیکھنے لگی۔
”تم نے مجھے بتایا نہیں کہ شیر دل اور شہر بانو کی طلاق ہوگئی ہے۔” خیر دین نے اس سے بے حد سنجیدگی سے پوچھا۔
”شاید مجھے خیال نہیں رہا ۔” مدہم آواز میں کہتے ہوئے اس نے چائے کا کپ اٹھا لیا۔ خیر دین نے الجھی نظروں سے اسے دیکھا وہ اتنی عام سی بات نہیں تھی کہ اسے خیال نہ رہتا۔
”شیر دل سے تمہارے رشتے کی بات کی ہے انہوں نے مجھ سے۔ ”چائے کا پہلا سپ لیتے ہوئے خیر دین کے نکلے جملے پر اس کا ہاتھ بری طرح لرزا تھا لیکن اس نے اپنی لرزش پر قابو پالیا، وہ چند لمحوں کے لیے اندر باہر سے مکمل طور پر ہل کر رہ گئی تھی ۔وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ منزہ ایسی کوئی بات خیر دین سے کرسکتی تھیں… ان کے بدلے ہوئے رویے کے باوجود وہ منزہ سے اس چیز کی توقع نہیں کرسکتی تھی۔
”میں نے صاف انکار کردیا ۔” خیر دین نے رکے بغیر اگلا جملہ ادا کیا۔ وہ جملہ متوقع ہونے کے باوجود اس نے بھی اسے ہلایا تھا پر اس بارزلزلے کی شدت کم تھی۔”میں نے انہیں بتادیا کہ تمہاری شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے اور تیاریاں ہورہی ہیں۔” خیر دین بتارہا تھا لیکن وہ چائے پیتے ہوئے چپ چاپ خیر دین کی بات سنتی رہی… اس کے لہجےمیں ایک خفگی جھلکنے لگی تھی۔”اتنا سب کچھ کرنے کے بعد انہیں مجھ سے اس طرح کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی ۔انہیں خود احساس ہونا چاہیے تھا کہ وہ تم پر کیسے کیسے الزامات لگا چکی ہیں۔ تمہارا رشتہ تڑوا چکی ہیں اور پھر آج دوبارہ اپنے بیٹے سے رشتے کی بات کرنے بیٹھ گئیں ۔وہ بھی فون پر… جیسے ہم ایسے ہی گرے پڑے اورگئے گزرے ہیں کہ وہ ایک فون کریں گی اور میں تمہاری شادی ان کے بیٹے سے کردوں گا۔” خیر دین کی آواز کی خفگی اب جیسے کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ عکس نے ایک لفظ نہیں کہا تھا لیکن اس نے چائے کا ادھ بھر اکپ ٹیبل پر رکھ دیاتھا، وہ گھر کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ خیر دین کی کرسی کے عقب میں نظر آنے والے لان میں بھاگتی دوڑتی بلیوں کو دیکھنے لگی…توجہ بھٹکانابے حد ضروری تھا۔
”سجاد بہت اچھا لڑکا ہے اور میں زبان دے چکا ہوں…اتنے اچھے رشتے کے ہوتے ہوئے مجھے ان کے بیٹے کے بارے میں سوچنے کی بھی کیا ضرورت ہے… ” خیر دین دو ٹوک انداز میں کہہ رہا تھا۔ وہ چپ سنتی رہی، پتا نہیں اسے یہ کیوں لگ رہا تھا کہ منزہ کی اس گفتگو کے بارے میں شیر دل بالکل لاعلم ہوگا۔
”ہمارے اور ان کے درمیان بہت فرق ہے… اور یہ فرق ساری عمر رہے گا۔ تم سجاد کے ساتھ خوش رہوگی چڑیا… میں جانتا ہوں تم کسی کے ساتھ بھی خوش رہ سکتی ہو… شیر دل تمہاری ضرورت نہیں ہے…” وہ خاموشی سے خیر دین کو دیکھتی رہی اس کی خاموشی کو انہوں نے ایک بار پھر اپنی مرضی کا مفہوم دے کر جیسے اپنے فیصلے کی توجیہہ اسے دینے کی کوشش کی تھی۔
”شیر دل بہت اچھا ہے لیکن سجاد…”عکس نے مدھم آواز میں ان کی بات کاٹ دی۔
”نانا آپ نے جو کیا ٹھیک کیا، آپ نے جو فیصلہ کیا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔” اس نے کہتے ہوئے خیر دین کا ہاتھ پکڑ لیا پھر چند لمحے اس ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لیے بیٹھی رہی یوں جیسے اپنے لفظوں کے بجائے ہاتھ کے اس لمس سے خیر دین کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کررہی ہو… پھر وہ کچھ کہے بغیر خیر دین کا ہاتھ چھوڑ کر وہاں سے اندر چلی گئی۔ خیر دین بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا تھا۔ خوشی اور اطمینان ہونا چاہیے تھا… نہیں ہوا تھا… سکون ملنا چاہیے تھا ،وہ بھی نہیں ملا تھا… فخر کی بات تھی اس کے لیے… لیکن پتا نہیں اسے کیوں نہیں لگی۔
اسے کئی سال پہلے چڑیا کا بچپن یا د آگیا تھا جب وہ اس کے پاس شکایت لے کر آئی تھی۔آنسوؤں سے بھری آنکھیں لیے ایبک اس کے ساتھ ٹینس نہیں کھیل رہا تھا۔ نہ ہی اسے اپنا ریکٹ دے رہا تھا… اور خیر دین نے بڑی سنجیدگی سے دو ٹوک انداز میں اسے دوبارہ ایبک کے ساتھ کھیلنے سے منع کیا تھا… پھر ایبک اسے منانے آگیا تھا اور وہ خیر دین کے حکم اور ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھیلنے تو نہیں گئی تھی لیکن گم صم ہوگئی تھی… اسے آج بھی وہ ویسی ہی گم صم لگی تھی لیکن وہ کیا کرتا… وہ ایبک شیر دل کو اس کا جیون ساتھی چاہتے ہوئے بھی نہیں بنانا چاہتا تھا، وہ اپنی چڑیا کو اس خاندان کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔جس نے…اور پھر وہ سجاد کے خاندان کو زبان دے چکا تھا۔ زبان دے کر اور شادی کی تاریخ طے کر کے کیسے مکر جاتا… خیر دین نے اپنی زبان کا پاس تو ساری عمر کیا تھا پھر اب کیسے نہ کرتا۔
عکس مراد علی نے زندگی میں بہت ساری بے خواب راتیں گزاری تھیں۔ وہ رات بھی انہی راتوں میں سے ایک تھی۔ بہت سی چیزیں کبھی اس وقت آپ کو ملنے کا امکان پیدا ہوتا ہے جب آپ کو ان کی خواہش اور ضرورت دونوں نہیں رہتیں لیکن ان کے ساتھ منسلک محبت اور تعلق ویسے ہی رہتے ہیں۔
عکس مراد علی نے زندگی میں کبھی ایبک شیردل کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنانے کا نہیں سوچا تھا… خواب میں بھی نہیں… اور جو چیز اس نے خوابوں خیالوں میں بھی کبھی نہیں آئی وہ option بن کر کیسے آگئی تھی۔




Loading

Read Previous

دادی جان نے دال پکائی

Read Next

رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!