طغرل نے اس آئینے میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا پھر اپنے عقب میں آئے شیردل اور عکس کو دیکھا۔ اسے وہاں رکے دیکھ کر شیردل بھی وہاں چند لمحوں کے لیے رک گیا تھا۔ عکس نے پلٹ کر ایک بار پھر باذل کا ہاتھ پکڑ لیا جس نے بڑی مہارت سے گاڑی سے نکل کر یہاں برآمدے میں آنے تک چند قدموں کے فاصلے میں دو بار اس سے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا۔ اس پر قابو پانا صرف اسی کا کمال تھا۔
”تمہیں پتا ہے میں نے تمہاری ممی کو پہلی بار کہاں دیکھا تھا؟” عکس نے آئینے کے سامنے کھڑے شیردل کو طغرل سے کہتے سنا۔
”کہاں پاپا؟” طغرل نے بڑی دلچسپی سے گردن موڑ کرباپ کو دیکھا۔
”اسی مرر میں۔” عکس کی نظریں آئینے میں شیردل سے ملی تھیں۔ ان آنکھوں میں شیردل کو حیرانی نظر آئی۔ وہ مسکرایا تھا اور وہ حیرانی پل بھر میں ایک کھلکھلاہٹ میں بدل گئی تھی۔ عکس ہنس پڑی تھی۔ اسے یاد آگیا تھا شیردل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس نے پہلی بار اسے اسی آئینے میں دیکھا تھا جب وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ٹینس شاٹس کی پریکٹس کرتا تھا اور وہ برآمدے کے ایک ستون کے پیچھے چھپی اسے دیکھتی رہتی تھی… کسی میکانیکی انداز میں اس نے بے اختیار گردن موڑ کر اس ستون کو دیکھا تھا۔ ستون اب بھی وہیں تھا لیکن اس کے گرد وہ بیل نہیں تھی شاید نمی کے اثرات کو روکنے کے لیے ان تمام بیلوں کو ستونوں اور دیواروں سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا تھا جو کئی سال پہلے اس گھر کی شناخت تھیں۔ عکس نے بے اختیار ایک گہری سانس لی۔ گھر بہت بدل گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس کی ایک، ایک چیز کو آج بھی آنکھیں بند کیے چھو کر بھی پہچان سکتی تھی۔ وقت زندگی کو کس طرح بہا کر لے جاتا ہے کہ انسان خود بھی اسے روکنے بیٹھے تو روک نہ سکے… گزر جانے والے لمحوں کو گننے بیٹھے تو گنتی بھول جائے۔
”آپ مذاق کررہے ہیں۔” نو سالہ طغرل نے پہلے الجھ کر پھر ہنس کر اسی آئینے میں دیکھتے ہوئے شیردل سے کہا۔ اس کے تبصرے نے عکس کی توجہ ایک بار پھر اپنی طرف کھینچ لی۔
”کیوں؟” شیردل نے طغرل سے پوچھا۔
”ممی اس مرر میں کیسے ہو سکتی ہیں؟” طغرل نے جیسے اپنی بے یقینی کی وضاحت کی۔
”دیکھو ابھی ہیں یا نہیں؟” شیردل نے اس کی وضاحت کے جواب میں آئینے میں نظر آتی عکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطمینان سے پوچھا۔ طغرل نے آئینے میں عکس کو دیکھا۔ باپ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ واقعی آئینے میں تھی۔ طغرل الجھا پھر ہنس پڑا۔
”پاپا یہ تو ان کا reflection ہے۔” اس نے جیسے شیردل کی کم علمی بتائی۔
”یعنی عکس ہے۔” شیردل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عکس تب تک ان کے قریب آچکی تھی۔ اس نے شیردل کے کندھے کو ہولے سے چھوتے ہوئے کہا۔ ”تم بس کر دو اب… کب تک اس بے چارے کو تنگ کرتے رہو گے۔ ذرا اسے سنبھالو تو پھر پتا چلے۔” اس نے باذل کا ہاتھ شیردل کے ہاتھ میں دے دیا۔
شیردل نے ایک نظر سات سالہ باذل کو دیکھا پھر جیسے کچھ احتجاجی انداز میں عکس سے کہا۔ ”تم ہمیشہ مجھے مشکل چیلنج دیتی ہو۔”
”تم ہر آسان چیلنج کو بھی مشکل بنا لیتے ہو اپنے لیے۔” وہ اطمینان سے کہتے ہوئے آگے بڑھ آئی تھی۔ آج اس آئینے کے سامنے کھڑے اس نے اس آئینے میں اپنے شوہر اور بچوں کے علاوہ کسی اور چیز کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تلاش کئی سال پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔
”پاپا! آپ کیا مجھے اٹھا سکتے ہیں؟” شیردل کے ساتھ اندرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے باذل کے قدم تھمے اور اس نے بڑی معصومیت سے شیردل سے پوچھا۔
”میں اٹھا سکتا ہوں لیکن اٹھاؤں گا نہیں۔” شیردل نے جواباً ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”ممی اٹھا سکتی ہیں مجھے۔” باذل نے جیسے باپ کی مردانگی کو چیلنج دیا جسے شیردل نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ نظرانداز کیا۔ عکس بڑی خاموشی کے ساتھ باپ بیٹے کی گفتگو سنتے ہوئے اندر کی جانب بڑھتی رہی۔
”تمہاری ممی اس گھر میں dwarfs (بونے) دیکھا کرتی تھیں جب وہ چھوٹی تھیں۔” شیردل نے چلتے چلتے یک دم جیسے کچھ یاد آنے پر طغرل کو بتایا۔
”Really mummy?۔” طغرل چلتے چلتے بے یقینی کے عالم میں رک کر عکس کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی ٹھٹک گئی تھی اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزر گیا تھا۔
”dwarfs… بونے… آئینہ…” شیردل نے اسے کیا یاد دلا دیا تھا۔ اسے وہ سات ساتھی بونے بھی یاد آگئے تھے۔ اس کے تصوراتی دوست… لیکن جس برق رفتاری سے وہ یاد آئے تھے اسی برق رفتاری سے ان کے حلیے، حرکتیں اور نام یاد نہیں آئے تھے… اس میں وقت لگا تھا… اس میں اگلے دو دن لگ گئے تھے۔
”پاپا مذاق کر رہے تھے۔” عکس نے مدھم انداز میں طغرل کی حیران آنکھوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ شیردل نے گردن پلٹ کر جیسے پرحیرت نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں مذاق کررہا ہوں؟ تم نے خود ہی تو مجھے بتایا تھا ایک بار کہ تم نے یہاں…” عکس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بچپن کی بات تھی وہ اور بچپن میں انسان کو پتا نہیں کیا کیا وہم ہوتے رہتے ہیں۔” وہ بڑی سہولت سے کہہ کر آگے بڑھ گئی تھی۔ شیردل نے کچھ حیرانی سے اسے جاتے دیکھا۔
”پاپا، ممی نے really dwarfs دیکھے تھے یہاں؟” طغرل کا تجسس کم نہیں ہوا تھا۔
”اپنی ممی سے پوچھنا، وہ آپ کو بتائیں گی۔” شیردل بھی اسے ٹالتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا۔
……٭……
اس گھر میں عکس مراد علی کی وہ دوسری پوسٹنگ تھی۔ پورے دس سال کے بعد… لیکن اس بار وہ وہاں کمشنر کی حیثیت سے آئی تھی۔ اس شہر کو ڈویژن کا درجہ حاصل ہو جانے کے بعد وہاں تعینات ہونے والی پہلی کمشنر… کمشنر کی رہائش گاہ زیرتعمیر تھی اور اس کے زیرتعمیر ہونے کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ کو وقتی طورپر کمشنر ہاؤس کا سرکاری درجہ دے دیا گیا تھا۔ گھر میں سامان کی شفٹنگ کا کام پہلے ہی مکمل ہو چکا تھا لیکن یہ کام شیردل کی نگرانی میں ہوا تھا۔ وہ آج پوسٹ ہونے کے بعد پہلی بار اس گھر میں آئی تھی اور عجیب بات یہ تھی کہ دس سال پہلے ہونے والی یہاں اپنی پہلی پوسٹنگ کی طرح وہ آج اس طرح جذباتی نہیں ہوئی تھی نہ ہی اتنی ایکسائیٹڈ تھی… شاید اس لیے کیونکہ اس کے نانا اس کے ساتھ نہیں تھے۔ اس بار وہ ایک قلعہ فتح کرنے وہاں نہیں آئی تھی۔
اس گھر کے ہال کمرے میں داخل ہوتے ہوئے عکس مراد علی نے عجیب سی اداسی محسوس کی۔ نانا اسے ایک بار پھر بری طرح یاد آنے لگے تھے۔ وہ آج ایک بار پھر اسے اس گھر میں کمشنر کے طور پر آتے دیکھتے تو بے حد خوش ہوتے۔ بہت سارے خواب صرف ان کے تھے اس کے حوالے سے… جو صرف وہ دیکھتے تھے اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد عکس مراد علی کے نزدیک کامیابی کا مفہوم وہ نہیں رہا تھا جو نانا کی زندگی میں تھا۔
ہال کمرے میں کھڑی ان در و دیوار کو اداسی سے دیکھتے ہوئے وہ یک دم چونکی تھی۔ شیردل نے اس کے کندھوں کے گرد اپنا بازو پھیلایا تھا۔ وہ اب اس کے بالکل قریب کھڑا تھا۔ اس لمس میں عجیب دلگیری تھی، کچھ کہے اور سنے بغیر بھی جیسے دنیا جہان کی گفتگوتھی… ہر مرہم بننے والا پھایا محسوس ہونے والا لفظ…
ساری عمر وہ دونوں ایک دوسرے کی خاموشی کو اسی طرح پڑھتے رہے… لفظوں کے بغیر… اداسی کو بیرومیٹر کی طرح بھانپ لیتے تھے اور خفگی کو راڈار کی طرح… اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
عکس مراد علی نے ایبک شیردل کے چہرے کو گردن موڑ کر دیکھا۔ اس نے اس کی نظریں محسوس کرتے ہی جیسے بڑی حیرانی سے اس سے کہا۔
”کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں۔” وہ مسکرا دی۔ اس نے اس کے گال پر نظر آنے والے پلک کے ایک بال کو انگلیوں کی پوروں کی غیر محسوس حرکت سے ہٹایا تھا۔ زندگی میں ایسا جیون ساتھی بہت خوش قسمت عورتوں کے حصے میں آتا تھا۔ عکس مراد علی نے وہاں کھڑے چند لمحوں کے لیے جیسے عجیب تعجب سے سوچا۔ اس گھر میں اپنا بچپن گزارتے ہوئے اس نے جتنی بھی خواہشیں کبھی کی تھیں وہ تمام پوری ہوئی تھیں اور اس بات کا ادراک اسے عجیب وقت پر ہوا تھا۔ یہ گھر خوش قسمتی اور بدقسمتی کا عجیب امتزاج لیے ہوئے تھا اس کے لیے۔
……٭……
شرمین اور فاروق نے شہربانو کو ائرپورٹ پر ریسیو کیا تھا لیکن دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ شہربانو نے بے حد تھکے ہوئے انداز میں مثال کو ماں کو پکڑا دیا تھا۔ وہ مثال کو بہلانے پھسلانے یا ڈرانے کسی بھی چیز میں پورا راستہ کامیاب نہیں ہوئی تھی اور اب شرمین کی صورت میں اسے جیسے کچھ دیر کے لیے اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے ایک اور کندھا مل گیا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ مثال شرمین سے بھی بہلنے والی نہیں تھی۔ ایک بچے کے طور پر بھی وہ صورت حال کی سنگینی کو بھانپ گئی تھی۔ وہ چند ہفتے پہلے والی مثال نہیں تھی جو خوشی خوشی امریکا اپنی نانی اور نانا کے پاس چھٹیاں گزارنے آئی تھی اور ائرپورٹ سے لے کر گھر تک شرمین کو پتا نہیں کیا کیا قصے سناتی رہی تھی۔ اس بار مثال، شرمین کی بے تحاشا کوششوں کے باوجود صرف اس ایک جملے کے سوا کچھ بولنے پر تیار نہیں تھی کہ اسے پاپا کے پاس جانا ہے۔ وہ پاپ کو مس کررہی تھی۔ فاروق خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتے رہے تھے۔ شہربانو ان کے برابر والی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے اس خوفناک خواب کے بارے میں سوچتی رہی تھی جو اس نے حقیقت میں دیکھا تھا۔ عقبی نشست میں شرمین، مثال کو لیے بیٹھی کسی طرح اس کو بہلانے کی کوششوں میں مصروف تھیں اور ہر بار اس کے منہ سے نکلنے والے جملے شہربانو کے اعصاب پر جیسے ہتھوڑوں کی طرح برس رہے تھے۔ وہ مثال کو اپنی ”ساری فیملی” سمجھ کر سمیٹ لائی تھی اور مثال کی ساری فیملی سمٹ کر جیسے شیردل کی ذات پر آکر ٹھہر گئی تھی… تو وہ… خود وہ شہربانو کہاں کھڑی تھی۔
اگلے دو دن شہربانو اور شرمین کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن شرمین اسے یہ ضرور بتاتی رہی تھیں کہ پاکستان سے کس کس کا کتنی کتنی بار فون آیا تھا اور امریکا میں ان کے کس کس رشتے دار نے شیردل کی فیملی کے دباؤ پر ان سے رابطہ کیا تھا۔ شہربانو نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کا تھا۔ وہ جیسے عجیب گم صم سی حالت میں تھی۔ عجیب سوتی جاگتی کیفیت جس میں وہ اپنی زندگی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار رکھ کر جوڑنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی جارہی تھی کہ شاید کسی طرح وہ اس سارے معمے کا کوئی حل، کوئی شکل نکال پاتی… ہر بار وہ ناکام رہی۔ مثال کی حالت اب بھی ویسی ہی تھی صرف اب اگر کوئی فرق پڑا تھا تو یہ کہ وہ ہر وقت روتی نہیں رہتی تھی لیکن وہ بھی شہربانو کی طرح کوئی کھلونا پکڑے کسی کونے میں بیٹھی رہتی پھر یک دم کسی بات پر ضد شروع کر دیتی اور پھر کتنی کتنی دیر بیٹھ کر روتی رہتی۔ شہربانو عجیب میکانیکی انداز میں اسے روتا دیکھتی رہتی۔ اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ مثال کے اس طرح رونے کو اتنی سردمہری کے ساتھ نظرانداز کر سکتی تھی، اس کی چیخ و پکار کے سامنے اس طرح بے حس ہو سکتی تھی لیکن وہ ہو گئی تھی۔ انسان بعض دفعہ اپنی ذات کے بہت سے پہلوؤں سے اس وقت آگاہ ہوتا ہے جب دوسرے اسے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کا اس سے واسطہ پڑ جاتا ہے وہ اس پر بات کرنے لگتے ہیں اور تب انسان جیسے شاک کے عالم میں اپنی ذات کے اس پہلو کو دیکھتا ہے۔ حیران ہوتا ہے… میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ میں ایسا کس طرح ہو سکتا ہوں؟ لیکن سارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سوال بہت سارے ہوتے ہیں جواب نہیں… جواب بس ایک ہوتا ہے… اور وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا… شہربانو کو بھی نہیں مل پارہا تھا۔
”اب تم کیا کرنا چاہتی ہو؟” دو دن کے بعد بالآخر شرمین نے ایک رات اس سے اس موضوع پر بات کی۔ وہ کچن صاف کررہی تھیں اور وہ کچن کاؤنٹر کے سامنے پڑے اسٹول پر کافی کا مگ لیے بیٹھی تھی۔
”پتانہیں۔” شرمین کو پتا تھا وہ کیا کہے گی۔ وہ بھی اس کے قریب کاؤنٹر کے دوسری طرف اسٹول پر آکر بیٹھ گئیں۔
”تم شیردل کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟” انہوں نے بالآخر ایک لمبی خاموشی کے بعد کہا۔
”نہیں۔” جواب کسی توقف کے بغیر آیا تھا۔
”divorce چاہتی ہو؟” شرمین نے اگلا سوال کیا۔
”شاید۔” جواب اس بار بھی جلدی آیا تھا لیکن الجھن لیے ہوئے تھا اور الجھن کیوں تھی، شہربانو کے پاس اس بات کا بھی جواب نہیں تھا۔